منگل، 20 ستمبر، 2011

فرقہ وارانہ فسادات مخالف قانون کی مخالفت کیوں؟

3 تبصرے

فرقہ وارانہ فسادات مخالف قانون کی مخالفت کیوں؟
فرقہ وارانہ فسادات کے روک تھام سے متعلق قانون کے سامنے آتے ہی اس کے خلاف ایک خاص ذہنیت رکھنے والوں کی طرف سے مخالفت کی آواز بلند ہونی شروع ہوگئی ہے۔ جلسے جلوس اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور حکومت کو متاثرکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس قانون میں موجود کچھ ’’غلط شقوں ‘‘ کی وجہ سے یہ مخالفت کی جارہی ہے، حالانکہ اس بل کے خلاف آواز بلند کرنے والے اسی وقت سے شور مچارہے ہیں جب حکومت نے اسے بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ان کو معلوم بھی نہیں تھا کہ اس بل میں کیا باتیں رکھی جائیں گی، اس کے باوجود مخالفت کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ فسادی ذہنیت رکھنے والوں کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اس قانون کے آنے کے بعد جب اور جہاں اقلیتوں کو نشانہ بناکر ان کے جان ومال کو نقصان پہنچانا آسان نہیں ہوگا۔ 
فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو آزادی کے بعد پورے ملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے لے کر ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات تک جتنی انسانی جانیں گئی ہیں اور جتنی املاک کا نقصان ہوا ہے اتنا قدرتی آفات کو چھوڑ کر کسی اور وجہ سے نہیں ہوا۔ اکیلے گجرات فسادات میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دو ہزار لوگ مارے گئے ۔ ہمارے سامنے جہیز مخالف قانون کی مثال موجود ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک جہیز کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ہزار تک بھی نہیں پہنچتی اس کے باوجود اس کے روک تھام کے لئے خصوصی قانون بنایا گیا جس میں جہیز کا مطالبہ کرنے والوں اور اس کے لئے لڑکی کو اذیت دینے والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ نچلی ذات کے لوگوں کے تئیں بڑی ذات کے کچھ لوگوں میں اگرچہ نفرت کا جذبہ ہے اور وہ ان کے ساتھ اچھوتوں جیسا برتاؤ کرتا ہے اس کے باوجود ایسا سننے میں نہیں آیا کہ بڑی ذات والوں نے چھوٹی ذات والوں کی بستی پر حملہ کرکے ان کا کام تمام کردیا ہو۔ اس کے باوجود ہریجن ایکٹ بنا اور اس کا نتیجہ ہے کہ کوئی بڑی ذات کا آدمی اب ہمت نہیں کرتا کہ چھوٹی ذات والے کے لئے غلط لفظ کا استعمال کردے چہ جائے کہ اسے تنگ کرے یا اس کو جانی و مالی نقصان پہنچائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات میں دہشت گردانہ سرگرمیوں سے بھی زیادہ جان ومال کے ضائع ہونے کے باوجود اس کے روک تھام سے متعلق قانون کیوں نہ بنایا جائے؟ فرقہ وارانہ فسادات کے وقت حکومت اور لال فیتاشاہوں کو کیوں نہ جواب دہ بنایا جائے اور کچھ ایسے مؤثر قدم اٹھائے جائیں کہ فرقہ وانہ فسادات کرانے سے پہلے فرقہ پرستوں کو سو بار سوچنا پڑے۔
آج ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ فرقہ وارانہ فساد ہے۔ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی خاص بستیوں کو چھوڑکر عام ملی جلی آبادی کی طرف کم ہی قدم بڑھاتا ہے۔ اور اگر روزی روٹی کی وجہ اگر اکثریت کی بستیوں کی طرف جانا بھی پڑے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کم ازکم رہائش کے مسلم بستیوں کا انتخاب کرے۔ ایسا وہ عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے کرتا ہے۔ حالانکہ کچھ لوگ اصل مسئلہ سے رخ پھیرنے کی خاطر اسے دوسرا رخ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمان قومی دھارے میں شامل ہونے سے کتراتے ہیں۔ ایسی بات بھی نہیں کہ وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں محفوظ ہیں، اب تک کے فرقہ وارانہ فسادات بتاتے ہیں کہ فرقہ پرست طاقتیں ایسے علاقوں کو اپنے خاص نظر میں رکھتی ہیں جہاں مسلمان ترقی کر رہے ہوتے ہیں، اس کے بعد فسادات کے لئے حالات سازگار کئے جاتے ہیں اور منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ فسادات کے بعد بچے کچے مسلمانوں کو فسادات بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فسادات انہوں نے کرائے تھے۔ مسلمانوں کے علاوہ دوسری لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو بھی فسادات جھیلنا پڑا ہے ۔ لندن جیسے اپنے آپ کو مہذب کہلانے والے معاشرے میں حالیہ فسادات نے یہ ثابت کردیا ہے کوئی بھی معاشرہ اس میں کبھی بھی فسادات رونما ہوسکتے ہیں۔ہندوستان کے تناظرمیں دیکھا جائے تو فرقہ وارانہ فسادات کی مار سب سے زیادہ مسلمانوں پر ہی پڑی ہے۔اس قانون میں اقلیت کی جگہ ’’گروپ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ہر قسم کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو شامل ہے۔ چنانچہ اس میں کسی بھی مذہب کے لوگ شامل ہوسکتے ہیں جو کسی خاص علاقے میں اقلیت میں ہیں ۔ اس کے باوجود اسے ہندو مخالف بل قرار دینے والے دراصل اپنے ’فسادات کرانے کی آزادی ‘ کے حق سے دست بردار ہونا نہیں چاہتے۔ تعجب ہوتا ہے کہ آج ہزاروں بے گناہوں کا قاتل مودی جس نے حکومتی اداروں کو مسلمانوں کے قتل عام کے لئے استعمال کیا کرپشن کے خلاف انا ہزارے کی آواز میں آواز ملاکر مرکزی حکومت کو گھیرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے رام دیو ہوں یا اناہزارے دونوں کے یہاں انسانی جانوں سے زیادہ پیسوں کی اہمیت ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی تو ہزاروں انسانوں کے قاتلوں سے حمایت لینے کے بجائے انہیں ان کے گناہوں کی یاد دلاتے۔
مسلمانوں کو اور دوسری اقلیتوں کو چاہیے کہ وہ اس بل کے پاس کرانے کے لئے آگے آئیں اور حکومت اور دوسری پارٹیوں پر دباو بنائیں جلسے جلوس سمینار اور مظاہروں کے ذریعہ اس بل کی حمایت کریں ۔ اگر ہم اس بل کو پاس نہیں کراسکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اقلیتوں کے خلاف سازش رچ کر کوئی بھی بلا خوف کہیں بھی فساد کر سکتا ہے۔ 
ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ گجرات فسادات کو چھوڑ کر تقریبا سبھی بڑے فسادات کانگریس حکومت کے دور میں ہوئے اور ان میں سب سے زیادہ نقصان مسلم اقلیت کا ہوا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کانگریس نے اس کو محسوس کیا اور متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت کے دوسرے دور میں اس قانون کو پاس کرنے کی طرف قدم بڑھایا۔ لیکن حکومت کی ذمہ داری اسی پر ختم نہیں ہوجاتی ہے، اسے ہمت کرکے اس بل کو پاس کرانا ہوگا تاکہ ملک کی اقلیتیں بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکیں۔ایسا نہ ہو کہ خواتین ریزرویشن بل کی طرح یہ بل بھی ٹھنڈے بستے میں چلاجائے۔


3 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔