منگل، 16 فروری، 2010

انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کی عدم دستیابی ،ذمہ دار کون؟

2 تبصرے

موجودہ دورمیں انٹرنیٹ کی بڑھتی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ نوبل پرائز کے لئے انٹرنیٹ کو نامزد کیا گیا ہے۔انٹرنیٹ ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے پوری دنیا سمٹ کر ایک چھوٹی اسکرین پر ہماری نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔کہیں بھی اور کسی بھی وقت ہم اس کا استعمال کرسکتے ہیں مگرانٹرنیٹ اپنی تمام وسعتوں کے باوجود اردو دنیا کے لئے آج بھی ایک تنگ وتاریک کوٹھری سے زیادہ نہیں۔انٹرنیٹ پر جہاں دنیا کے تمام علوم سے متعلق مواد ایک بھاری مقدار میں موجود ہیں وہاں اردو زبان و ادب کے حوالے سے سوائے چند ایک ویب سائٹوں کے کچھ نہیں ملتا۔ جو سائٹیں اردو زبان وادب کے حوالے سے ہیں ان کی حالت وہی ہے جو ہندوستان میں ارد وکی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ خراب پوزیشن میں ہے۔اردو ادب کے حوالے سے چند شاعروں اور ادیبو ں کا مختصر تعارف نامکمل حد تک ہے۔

اردو ادب کے علاوہ اگر اسلامی موضوعات پر اردو ویب سائٹوں کی بات کریں تو کسی حد تک اسے قابل اطمینان قرار دیا جاسکتاہے۔کتاب و سنت ڈاٹ کام (kitabosunnah.com)وغیرہ ویب سائٹوں پر نہ صرف کتابوں کو پڑھا جاسکتاہے بلکہ ضرورت کے مطابق انہیں اپنے کمپیوٹر پرمفت میں ڈاؤن لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔اردو اخبارات کی موجودگی بھی کسی حد تک قابل اطمینان ہے،’ہمارا سماج‘سمیت اردو کے کئی اخبارات انٹرنیٹ کے توسط سے عالمی سطح پر اپنی آواز پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

لیکن جب معاملہ اردو ادب اور دوسرے علوم پر مشتمل اردو کتابوں کا آتا ہے اردو قاری کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں آتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میدان میں اردو پوائنٹ،وکی پیڈیا ،اقبال سائبر لائبریری ڈاٹ نیٹ اور اردو دوست ڈاٹ کام کے علاوہ کتاب گھر ڈاٹ کام وغیرہ اپنی خدمات فراہم کررہی ہیں۔ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بے انصافی ہوگی۔ خاص طور پر اقبال سائبر لائبریری شکریہ کیمستحق ہے جس پر علامہ اقبال پر لکھی گئی منتخب کتابوں کے علاوہ چند کلاسیکی ادب کی کتابوں کوبھی آن لائن پڑھا جاسکتا ہے۔ کم از کم ان سائٹوں نے اردو ادب کے حوالے سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو کچھ نہ کچھ مواد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان ویب سائٹوں پر منتخب موضوعات پر موجود کتابوں کو نہ صرف یہ کہ قارئین پڑھ سکتے ہیں بلکہ بوقت ضرورت ان کو ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔کمی صرف اس بات کی ہے کہ کتابوں کی تعداد بہت کم ہے ۔دوسری بات یہ کہ معروف قلم کاروں کی کتابیں ان پر موجود نہیں ہیں۔اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے معروف قلمکاروں کا تعاون ان ویب سائٹوں کو نہیں مل رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غیر معروف قلمکار اپنی کتابوں کی اشاعت کے لئے اس کو ایک بہترین ذریعہ کے طو رپر دیکھتے ہیں اور اپنی کتاب کو اس پر آسانی سے بغیر کسی خرچ کے شائع کردیتے ہیں۔غیر معروف قلمکاروں کی کتاب ہونے کی وجہ سے ان میں سے اکثر کتابیں غیر مستند ہوتی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا ذریعہ جس سے پوری دنیا تک یکساں طو رپر رسائی حاصل کی جاتی ہے۔اس سے اردو دنیا کی محرومیکیا افسوسناک نہیں ہے؟ آخر سوال یہ ہے کہ اس المیہ اور بحران کا ذمہ دار کون ہے؟حکومت یااردو کے نام پر قائم ادارے اوریا اردو تنظیمیں یا اردو عوام۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ یہ کہہ کر اپنا دامن بچا سکتی ہے کہ اس نے اردو کے فروغ کے لئے اردو اکادمی اور اردو کونسل کے نام سے ادارے قائم کردئیے ہیں۔ یہ کام ان اداروں کا ہے۔اگر بات تنظیموں کی ہو تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام ان ادارو ں کا ہے جو اردو کے نام پر قائم ہیں۔اردو کے فروغ کے لئے حکومت انہیں کروڑوں روپے کا بجٹ دیتی ہے مگر یہ پیسے جاتے کہاں ہیں؟کس مقصد کے لئے اس رقم کا استعمال ہوتا ہے، یہ کسی بھی اردو داں طبقہ سے پوشیدہ نہیں۔اردو کے نام پر جلسے اور سیمینار ،مشاعرے منعقد کر کے چند لوگو ں کی جیبیں گرم کردی جاتی ہیں مگر اس سے خود اردو زبان کا فائدہ کہاں تک ہوا ہے اس کی طرف کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔

جب بات اردو زبان وادب کے حوالے سے ہوتی ہے تو ہر ایک کی نظر اردو اکادمی اور اردو کونسل کی طرف اٹھتی ہے اور اٹھنی بھی چاہئے اس لئے کہ حکومت انہیں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے رقم مہیا کراتی ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ان دونوں ادارو ں نے انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے کیا کام کیا ہے۔ جہاں تک اردو اکادمی کی بات ہے تو ہندوستان کے اکثر صوبوں میں اردو اکادمیاں قائم ہیں مگر میری ناقص معلومات کے مطابق دہلی اردو اکادمی کے علاوہ کسی بھی اکادمی کی ویب سائٹس نہیں۔ابھی اسی ہفتہ اردو اکادمی کی ویٹ سائٹ کا افتتاح عمل میں آیا ہے مگر سب سے اہم حصہ اردو لائبریری کو اس میں نہ رکھ کر اردو عوام کو وعدوں پرٹال دیا گیا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اردو اکادمی اپنے رسالوں کو بھی اپنی کتابوں سمیت پراس سائٹ ڈال دیتی۔

اردو کونسل کا اردو کتابوں کی اشاعت میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے ماتحت قائم اس ادارے کو اردو کے نام پر میری ناقص معلومات کے مطابق سب سے زیادہ بجٹ ملتا ہے مگر افسوس کہ اردو کونسل نے انٹر نیٹ پر اردو ادب کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا ۔حالانکہ وہ بڑی آسانی کے ساتھ اردو کلاسیکی ادب اور جدید ادب کو انٹرنیٹ پر پیش کرسکتی تھی اس کے پاس نہ تو افراد کی قلت ہے او رنہ بجٹ کی ۔اردو کونسل نے بہت ساری قدیم وجدید اردو کتابیں شائع کی ہیں اگر اردو کونسل کچھ نہ کرے تو کم ازکم انہیں کتابوں کی PDFفائل انٹرنیٹ پر مہیا کرد ے تاکہ اردو زبان و ادب پر تحقیق کرنے والوں کو آسانی ہو۔اردو کونسل کم از کم یہ کام تو کرسکتی ہے کہ اپنے یہاں سے شائع اردو انسائیکلوپیڈیا کو ایک سافٹ وےئر کی شکل دے دیتی جس کو اردو قاری اپنے کمپیوٹر پر لوڈکرسکے۔

یہاں پر میں اس خیال کی تردید کردینا مناسب سمجھتا ہو ں کہ انٹرنیٹ پر کتابوں کی اشاعت سے کتابوں کی فروخت پر اثرپڑتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو کتابوں کے ناشرین لائبریریوں میں اپنی کتابوں کو رکھنے کی اجازت نہیں دیتے،اس لئے کہ وہا ں بھی ایک ہی کتاب سے ہزارو ں لوگ استفادہ کرتے ہیں۔دراصل کتابوں کا ڈیجیٹل ایڈیشن کبھی بھی روایتی کتابوں کی جگہ نہیں لے سکتا۔ڈیجیٹل کتابوں کو ضرورت کے وقت صرف خاص مقامات کو دیکھنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا۔ مکمل کتاب کا مطالعہ کمپیوٹر پر پڑھنا ممکن نہیں ہے۔یہی وجہ یہ کہ انگریزی کتابوں کے ڈیجیٹل ایڈیشن ہونے کے باوجود ان کی اشاعت کروڑوں میں ہوتی ہے۔

اس تعلق سے ایک اہم کام مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کرسکتی ہے۔ اس یونیورسٹی کا قیام ہی اردو زبان کے فروغ کے لئے ہوا ہے۔اس نے اپنے طلبہ کی ضرورت کے لئے مختلف علوم پر مشتمل درسی کتابوں کا اردومیں ترجمہ کرایا یہ کتابیں انتہائی اور اہم ہیں جو شاید ہی اردو یونیورسٹی کے علاوہ کسی اور جگہ مل سکیں ۔لہذا اردو زبان کی خدمت کے لئے یہ یونیورسٹی اپنی ان درسی کتابوں کو آن لائن مطالعہ کے لئے پیش کرسکتی ہے۔ اس سے مختلف علوم میں انٹرنیٹ پر اردو کتابوں کی کمی ایک حد تک پوری ہو جائے گی۔بہت سارے ایسے علوم ہیں جن پر اردو یونیورسٹی کے علاوہ کہیں دوسری جگہ اردو میں مواد ملنا کافی مشکل ہے۔لہذا یونیورسٹی کو اردو کے فروغ کے لئے یہ کام ضرور کرنا چاہئے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بعض دفعہ طلبہ کو کتابیں ڈاک سے نہیں موصول ہوپاتی ہیں۔ ایسی صورت میں ان کتابوں کو آن لائن پڑھ کر امتحان کی تیاری کرسکتے ہیں۔

اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں انسائیکلوپیڈیا اور زبان و ادب سے متعلق کمپیوٹرپروگرام اور سافٹ وےئر موجود ہیں۔خاص طور پر انگریزی میں انسائیکلوپیڈیا آ ف برٹانیکا اور عربی میں المکتبۃ الشاملۃ خاص طور پرقابل ذکر ہیں۔ افسوس کہ اردو میں کوئی ایسی کوشش سامنے نہیں آئی۔ یہ کام اردو اکادمیوں ، قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کا ہے اوراردو کے نام پر قائم دیگر ادارو ں کا ہے ۔اردو عوام اس تعلق سے ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔وہ گوگل،یاہو اور ایم ایس این وغیرہ جیسی ویب سائٹوں کو خطوط لکھ کر انہیں مجبور کرسکتے ہیں کہ ہندوستان،پاکستان اور پوری دنیا میں موجود اردو برادری کا خیال رکھتے ہوئے اردو سروس بھی شروع کریں۔اس طرح حکومتی،تنظیمی اور عوامی سطح پر جب کوشش ہوگی تو امید ہے کہ جلد ہی اردو زبان و ادب انٹرنیٹ پر اپنی موجودگی درج کرالے گا اور اردو والوں کو انٹرنیٹ پر بیٹھ کر اس مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے گا جو آج کرنا پڑرہا ہے۔