اتوار، 5 نومبر، 2017

پسماندہ طبقات کے اشرافیہ کو ریزرویشن کیوں؟

0 تبصرے

آئین ہند کے معماروں نے معاشرہ کے تمام طبقات کے ساتھ برابری کا برتاؤ کیا ہے ۔ معاشرہ کے وہ طبقات جو صدیوں سے دبے کچلے چلے آرہے ہیں ان کے لیے ریزرویشن کی رعایت دی ہے ۔ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں ان کے لیے نششتیں محفوظ کی گئیں، فیس اور عمر کی حد میں رعایت دی گئی۔ ان مراعات کی وجہ سے پسماندہ اور دلت سماج کی ایک بڑٰی تعداد نے اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ پاکر اعلی تعلیم حاصل کرلیا اور اس کی بنیاد پراعلی سرکاری عہدوں پر بھی فائزہوگیے ۔ تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں ہی میں پسماندہ طبقات کو رعایت ہی نہیں دی گئی اس کا دائرہ بڑھا دیا گیا اور ترقی میں بھی انہیں ترجیح دی جانے لگی۔ ایک عرصہ تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ غریب اور دبے لوگ آگے آتے گیے لیکن دھیرے دھیرے پسماندہ طبقات میں بھی ایک اشرافیہ طبقہ پیدا ہوگیا۔ یہ وہ طبقہ ہے تھا جس کو سب سے پہلے ریزرویشن کا فائدہ ملا۔ ان لوگوں نے سرکاری رعایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلائی اور اعلی نوکریوں پر انہیں فائز کرادیا۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سرکاری نوکری ایک عام آدمی کے لیے ایک خواب ہے وہاں ان کے گھر اور خاندان کا ہر فرد کسی نہ کسی اعلی عہدہ پر فائزہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ گھر اور خاندان مالی لحاظ سے متمول ہوگیا لیکن پسماندہ طبقہ کا لیبل ہونے کی وجہ سے انہیں اب تک رعایت مل رہی ہے ۔ اس رویہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ جن مقاصد کے لیے ریزرویشن کا نفاذ ہوا تھا دھیرے دھیرے وہی فوت ہوتا جارہا ہے ۔ پسماندہ طبقات کے لیے دی گئی ساری رعایتوں کا سیدھے فائدہ پسماندہ طبقات کے اشرافیہ کو مل رہا ہے ۔ عام پسماندہ طبقہ کے افراد جو دبی کچلی حالت سے نکلنے کے اپنے پر تولتے ہوئے باہر نکلتے ہیں تو ان کا سامنا خود ان کے اپنے طبقہ کے اشرافیہ سے ہوتا ہے ۔ مستحق ہونے کے باوجود انہیں ان کا حق نہیں مل رہا ہے ۔
آئین ہند کے معماروں نے انگریزوں کے ذریعہ نافذ کیے گیے ریزرویشن کو اس لیے باقی رکھا تھا تاکہ سماج کے وہ طبقات جو صدیوں سے دبے کچلے چلے آرہے ہیں وہ بھی سماج کا حصہ بن سکیں۔ سماج میں انہیں بھی اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا موقع ملے ۔ انہوں نے مذہبی بنیاد پر نہ تو ریزرویشن دیا اور نہ مذہب کی بیناد پر کسی کو ریزرویشن سے منع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو بھی شیڈول کاسٹ کا ریزرویشن دیا جاتا رہا۔ بعد میں پنڈٹ نہرو کے دور حکومت میں صرف ہندؤوں کو ہی اس کا فائدہ دینے کا صدارتی ریفرنس آیا جس میں بعد میں بدھسٹوں اور سکھوں کوبھی شامل کرلیا گیا۔ لیکن مسلمانوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔ یہ آئین ہند کے ساتھ سراسر کھلواڑ تھا لیکن مسلمان ایک عرصہ سے اس گھونٹ کو برداشت کرتا رہا ہے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسی پیشہ سے وابستہ افراد کو ساری رعایتیں ملتی ہیں لیکن مسلمانوں کو نہیں؟
ایک عرصہ سے آواز اٹھتی رہی ہے کہ ریزرویشن کی بنیاد کیا ہونی چاہیے ؟ پسماندگی یا ذات برادری؟ اور اگر مذہبی بنیاد پر ریزرویشن دیا جائے تو مسلمانوں کو کیوں نہیں جن کے بارے میں سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ دلتوں سے بھی پچھڑے ہیں۔ اور اگر مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینا غیر آئینی ہے تو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن سے روکنا بھی غیر آئینی ہے ۔ آخر اس کے خلاف آواز کیوں نہیں بلند کی جاتی۔
ہم ایک مرتبہ پھر اپنے موضوع پر آتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے والے پسماندہ طبقات کے اشرافیہ نے ریزرویشن کے فوائد کا دورازہ دوسروں کے لیے بند کردیا ہے ۔ اس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ حقیقی مستحقیق کو ان کا حق نہیں مل رہا ہے ۔ اس وجہ سے اس قانون میں تبدیلی کرکے پسماندہ طبقات میں سے کریمی لیئر کو الگ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں بہار میں نتیش کمار نے ایک اچھی پہل کی ہے انہوں نے پسماندہ طبقات کو دو زمروں میں تقسیم کردیا ہے ۔ ایک پسماندہ دوسرا انتہائی پسماندہ طبقہ۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے بھی ذات برادری کو ہی معیار مانا ہے ۔ کیا ضروری ہے کہ کسی ذات سے تعلق رکھنے والے سبھی لوگ انتہائی پسماندہ ہوں؟ ایسا بھی ہوسکتا ہے اسی ذات کے کچھ لوگ بڑے سرکاری عہدوں پر ہوں، بڑے تاجر ہوں۔ مرکزی یا ریاستی وزیر ہو۔ ایک انتہائی پسماندہ زمرہ سے تعلق رکھنے والے وزیر کے لڑکے کو بھی ریزرویشن کا فائدہ مل جاتا ہے لیکن دوسرا لڑکا جو صرف پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتا ہے اور غریب بھی لیکن اس کو فائدہ نہیں ملتا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پسماندہ طبقات میں کریمی لیئر کا معیار ذات پات کے بجائے مالی حالت کو بنایا جائے ۔ ماں یا باپ کے کسی اعلی عہدے پر فائز ہونے پر اس کے بیٹوں کو وہ رعایت نہ دی جائے جو صرف غریب اور واقعی پسماندہ لوگوں کا حق ہے ۔ اس طرح پسماندہ طبقات کے لیے دی جانے والی رعایتوں کا فائدہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے گا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ریزرویشن کی ایک میعاد ہونی چاہئے ۔ ہر پانچ سال کے وقفہ میں اس کی جانچ ہونی چاہیے کہ اس کا فائدہ واقعی پہنچ رہا ہے یا نہیں۔ اور متعلقہ طبقات کی سماجی اور مالی حالت درست ہوئی یا نہیں جن طبقات کی حالت میں سدھار آجائے اسے ریزرویشن کے زمرہ سے خارج کیا جائے جو واقعی مستحق لوگوں کا حق ہے۔ ورنہ کہاوت ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑی اور گھوم گھوم کر اپنوں کو دے ۔

عزیر اسرائیل
شعبۂ اردو دہلی یونی ورسٹی
9210919540

پس