بدھ، 24 جون، 2009

نئی حکومت اور مسلم قیادت

0 تبصرے
پندرہویں لوک سبھا کے نتیجوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ووٹروں نے مذہب اور ذات پات کی سیاست کو نظر انداز کرکے صرف اور صرف ترقی اور امن کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ مذہب کے نام پر قائم سیاسی پارٹیوں کو اس بار منہ کی کھانا پڑی۔ بی جے پی نے اس بار ایڈوانی کو مضبوط نیتا کا نعرہ بلند کرکے پرائم منسٹر کے عہدہ کا امیدوار بنایا تھا۔ وزارتِ عظمیٰ-کا انتظار کرنے والوں کو اب مزید پانچ سال تک اپنی باری آزمانے کے موقع کا انتظار کرنا پڑے گا۔ جس طرح پچھلے الیکشن میں انڈیا شائننگ کا نعرہ فیل ہوا تھا اسی طرح اس دفعہ گڑیا، بڑھیا، کمزور اور نکما کی زبان کو عوام نے مسترد کردیا۔
ہار کے بعد بی جے پی کے لئے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ ہندو احیا پرستی کے ایجنڈے سے دست بردار ہوتی ہے تو اس کو اپنے روایتی ووٹروں سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور جہاں تک نوجوان طبقہ اور ملک کی اکثریت کی بات ہے تو اس کے لئے اب ہندوتو کے ایجنڈے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف ترقی اور امن چاہتے ہیں۔ ہندتوا کے ایجنڈے سے دستبردار ہونے میں ایک پریشانی اور ہے اور وہ یہ کہ بی جے پی سب کچھ ہے مگر آر ایس ایس کے بعد۔ آر ایس ایس کی مرضی کے بغیر بی جے پی کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ اور وہ اس کو ایسا کرنے نہیں دے گی۔
اس الیکشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس مرتبہ کچھ نوخیز مسلم پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ کا سودا کرنے کے لئے میدان میں آئی تھیں۔ ڈاکٹر ایوب صاحب کی ’پیس پارٹی ‘ اور جماعت اسلامی اور جوائنٹ کمیٹی فار ایمپاورمنٹ آف مسلم کی مشترکہ کوشسوں سے وجود میں آئی ”علماءکونسل“ اس بار بڑے زور و شور سے میدان میں اتریں۔ ڈاکٹر ایوب صاحب پیشہ کے ڈاکٹر اور ایک سماجی کارکن ہیں انہوں نے حالات کا جائزہ لئے بغیر ان علاقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کردیئے جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے اکثر جگہوں پر بی جے پی بڑی آسانی سے جیت گئی۔ پیس پارٹی کے تعلق سے بعض مسلم علاقوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ دوسری پارٹی کے امیدواروں کو سننا تو دور انہیں اپنے علاقوں میں داخل بھی نہیں ہونے دیا گیا۔ جب ایک طرف مذہب کے نام پر مسلمان اس شدت سے جمع ہوں تو بی جے پی کو اپنی سیاست کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے لہٰذا اس نے ہندو ووٹ کو اپنی طرف آسانی سے منتقل کرلیا۔ کافی شور و شرابہ کے بعد جب رزلٹ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ پیس پارٹی بھی ڈاکٹر مسعود کی نیشنل لوک ہند پارٹی کی طرح ایک سیٹ بھی اپنے کھاتے میں نہ ڈال سکی، ہاں اس نے کئی بی جے پی امیدواروں کو ضرور کامیابی دلائی، جس کے لئے یقینا بی جے پی ڈاکٹر ایوب کی شکر گزار ہوگی۔
علماءکونسل کا معاملہ بھی تقریبا وہی ہے۔ بٹلہ ہا

س انکا

نٹر کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں یہ تنظیم دہلی، لکھنو

¿ اور اعظم گڑھ میں سرخیوں میں آگئی۔ علماءاکسپریس کے ذریعہ اس تنظیم نے دہلی کا سفر کرکے جنتر منتر پر زبردست مظاہرہ کیا اور اعظم گڑھ کو آتنک گڑھ قرار دینے اور مسلمانوں کو بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کرنے کے خلاف ایک منظم آواز اٹھائی۔ اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا۔ قومی میڈیا نے اس کو خاص طور پر اہمیت دی۔ حکومت کو بھی اس طرف توجہ دینی پڑی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بلاوجہ گرفتاریوں پر قدغن لگی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت کے رویہ میں تبدیلی لانے میں دوسرے عوامل بھی کارفرما تھے مگر علماءکونسل کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں تک تو معاملہ صحیح تھا۔ معلوم نہیں اس تنظیم کے قائدین کو کیا سوجھی کہ وہ انتخابی سیاست میں کود پڑے اور لکھنو

¿، جونپور اور اعظم گڑھ سے اپنے نمائندوں کو کھڑا کردیا۔ اکبر ڈمپی بی ایس پی امیدوار کی حیثیت سے اعظم گڑھ سے امیدوار تھے۔ بٹلہ ہا

س انکا

نٹر اور اس کے بعد کے واقعات کے خلاف وہ پارلیامنٹ کے اندر اور باہر زبردست آواز اٹھانے کی وجہ سے پارٹی کی ناراضگی بھی اٹھا چکے تھے۔ اکبر ڈمپی کے وہاں سے امیدوار ہونے کے باوجود علماءکونسل نے اعظم گڑھ سے اپنا امیدوار کھڑا کیا۔ حالانکہ علماءکونسل اور اکبر ڈمپی کے خیالات باہم ملتے جلتے تھے۔ علماءکونسل کی مسلم نوجوانوں میں زبردست پذیرائی کے باوجود الیکشن سے پہلے یہ بات واضح تھی کہ بی جے پی اس علاقہ سے جیت جائے گی اس کے باوجود علماءکونسل نے اس کے لئے کوئی مناسب قدم نہ اٹھایا۔ پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔مسلمانوں کی حالت وہی ہوئی کہ بارش سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے کھڑے ہوگئے۔ اعظم گڑھ کو آتنک گڑھ قرار دینے والوں ہی کی فتح ہوئی۔

بی جے پی کو مدد پہنچانے والوں میں آسام کے بدر الدین اجمل صاحب بھی ہیں۔ ان کی یوڈی ایف کی وجہ سے سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا خدشہ تھا اور یہ بات یقینی تھی کہ اگر اس کے لئے مناسب قدم نہ اٹھائے گئے تو بی جے پی کی کامیابی یقینی ہے مگر ان کے اڑیل رویے کی وجہ سے آسام جیسے صوبہ سے بی جے پی کی تین سیٹیں نکل آئیں۔ بدر الدین اجمل صاحب اپنی پیٹھ ٹھونک سکتے ہیں کہ دو جگہوں میں سے ایک جگہ سے کامیاب ہوگئے لیکن انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ان کی پارٹی نہ ہوتی تو یقینا بی جے پی کے کھاتہ میں تین سیٹیں کم ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی ڈوبتی نیّا کو سہارا دینے میں ملت کے ان ”بہی خواہوں“ کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے ڈاکٹر مسعود احمد نے ”اپنی قیادت اپنی حکومت“ کا نعرہ بلند کرکے یوپی میں الیکشن لڑا تھا مگر کبھی وہ اپنی سیٹ بھی نہ نکال سکے۔ یہ اور بات ہے کہ آج بھی وہ یوپی اور دہلی میں مسلمانوں کے نام پرووٹ مانگتے نظر آتے ہیں۔ اس تحربہ سے پہلے فریدی صاحب نے تجربہ کیا تھا وہ ایک حد تک کامیاب ضرور رہا مگر وہ اس کامیابی کو برقرار نہ رکھ سکے۔ ان کوششوں کی ناکامی کے بعد مناسب تو یہی تھا کہ ہندوستانی مسلمان مولانا آزاد رحمہ اﷲ کے مشورہ کو مان لیتے اور الگ سے کسی مسلم سیاسی جماعت کے قیام کے بجائے ملک کی سیکولر جماعتوں سے وابستہ ہوجاتے مگر برا ہو نام نہاد مسلم قائدین کا جنہیں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی عادت ہے۔خواہ ان کی ہوس اقتدار سے مسلم قوم کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔
اس الیکشن کی ایک خاص بات مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی کی کشن گنج سے کانگریس امیدوار کی حیثیت سے جیت ہے۔ یہ کامیابی اس معنی میں اہم ہے انہوں نے راجیہ سبھا کے چور دروازے سے پارلیامنٹ میں انٹری کرنے کے بجائے عوام کی عدالت میں سرخروئی حاصل کی۔ ملی کونسل کے پلیٹ فارم سے کام کرتے ہوئے انہیں مسلم مسائل کے بارے میں کافی تجربہ ہے۔ اس سے امید بندھی تھی کہ کانگریس کم از کم اقلیتی امور کی وزارت انہیں سونپے گی۔ مگر اس دفعہ کانگریس نے مسلمانوں کو وزارتوں کے معاملہ میں مایوس کیا، منموہن سنگھ خود اقلیتی فرقہ سکھ قو م سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سے امید کی جاتی تھی کہ وہ اقلیتوں کا درد سمجھتے ہوئے کم از کم انہیں گذشتہ دور حکومت میں جتنی تعداد تھی وہ برقرار رکھیںگے۔ مگر اس مرتبہ ایک وزیر کم کرکے صرف پانچ ہی مسلم وزیروں کو جگہ دی گئی۔ حالانکہ کانگریس سے جیتنے والے امیدواروں کا اوسط دیکھا جائے تو رزلٹ کوئی خراب نہیں ہے۔ کانگریس نے صرف ۸۱ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا ان میں گیارہ میدوار کامیاب ہو

©ئے۔ ان گیارہ میں سے صرف غلام نبی آزاد اور سلمان خورشید کو وزارت دی گئی۔ باقی تین وزیر دوسری حلیف پارٹیوں سے لئے گئے۔

سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق وزارت میں کم از کم گیارہ مسلمانوں کو جگہ ملنی چاہئے اگر اس رپورٹ پر اس کی خالق کانگریس عمل نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟ یوپی اے حکومت نے دلتوں کو اس دفعہ سات کے بجائے دس وزارتیں دی ہےں تو آخر مسلمانوں کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں؟ ایسی بات نہیں کہ اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی ہو۔کابینہ کی پہلی حلف برداری میں جب بیس لوگوں کی کابینہ میں صرف ایک نام غلام نبی آزاد کا آیا تبھی سے مسلم لیڈران اور میڈیا نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ قومی میڈیا نے بھی اس کو محسوس کیا۔ مگر بٹلہ ہا

س فرضی انکا

نٹر کا درد بھلا کر کانگریس کو ووٹ دینے والی مسلم قوم کو اس معاملہ میں کانگریس نے مایوس کیا۔

مسلم سیاست سے ہی لالو، پاسوان، ملائم اور مایاوتی کی خراب کارکردگی کو بھی دیکھا جانا چاہئے۔ یہ لوگ مسلم ووٹ کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ ملائم مسلمانوں کے مسیحا کے طور پر اپنے آپ کو تعارف کراتے نہیں تھکتے مگر ان کی پارٹی کو مسلمانوں کی کتنی فکر ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے قاتل اور بابری مسجد شہید کرنے والے کلیان سنگھ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی ناراضگی کا بھی انہوں نے کوئی خیال نہیں کیا۔ پارٹی کے چوٹی کے لیڈر اعظم خان نے جب اس پر اعتراض کیا تو انہیں حاشیہ پر ڈال دیا۔ پارٹی کو ایک عدد مسلم برانڈ چاہئے تھا جو اسے ابو عاصم اعظمی کی شکل میں مل گیا۔ لہٰذا اعظم خان کی خدمات کو یکسر فراموش کرکے انہیں پارٹی مخالف کارروائیوں کی پاداش میں پارٹی سے باہر کر دیا گیا۔ اگر کلیان سنگھ کی بی جے پی سے اصولوں کی بنیاد پر رنجش ہوتی تو کوئی بڑی بات نہیں تھی انہیں گلے لگایا جاسکتا تھا مگر یہاں تومعاملہ صرف ذاتی دشمنی کاتھا۔ انہیں بی جے پی سے شکایت ہے کہ وہ انہیں نظر انداز کر رہی ہے۔ لہٰذا انہیں سیاسی پناہ ڈھونڈنا تھا جو ملائم سنگھ کی شکل میں مل گیا۔ انہوں نے کرانتی پارٹی کی تشکیل کرکے دیکھ لیا تھا جس کا شو فلاپ رہا تھا۔ اگرچہ کلیان آزاد امیدوار تھے مگر سماج وادی نے ان کی مکمل حمایت کی ۔یہی نہیں سماج وادی نے اس دفعہ راج ناتھ سنگھ کے خلاف کوئی امیدوار نہ اتار کر ان کی جیت کے لئے راہ ہموار کی۔
اعظم خان کی مخالفت اور کلیان دوستی کی وجہ سے الیکشن سے پہلے ہی یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اس دفعہ یوپی کا مسلمان سماجوادی پارٹی سے دور ہوگیا ہے۔ رہی سہی کسر ملائم کے اڑیل رویے سے نکل گئی جو انہوں نے کانگریس سے سیٹوں کے بٹوارے کے وقت دکھائی۔ ملائم کانگریس کو پورے یوپی میں صرف ۵سیٹ دینے پر راضی تھے مجبور ہوکر کانگریس نے یوپی میں اکیلے الیکشن لڑا اور ۱۲سیٹوں پر زبردست کامیابی حاصل کرکے یوپی کی سیاست میں دوبارہ واپسی کی۔ اس کا سہرا جہاں راہل گاندھی کوجاتا ہے کہ انہوں دن رات ایک کرکے پارٹی میں نئی جان ڈال دی وہیں یوپی کے مسلمانوں کو بھی جاتا ہے کہ انہوں نے ملائم اور مایا کے مقابلہ میں کانگریس کو زیادہ پسند کیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس بار سماجوادی سے ایک بھی مسلم ایم پی الیکشن نہیں جیت سکا۔
مایاوتی کی مصیبت یہ ہے کہ وہ جس زبان میں بات کرتی ہیں وہ مہذب سماج کی زبان نہیں۔ یہ سچ ہے کہ برسوں کے استحصال کی وجہ سے ان کے لہجہ میں ترشی آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں مگر ان کی باتوں اور عمل سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس استحصال کا بدلہ بڑی ذات کے لوگوں سے ان کی تذلیل کرکے لینا چاہتی ہیں۔
مسلمانوں نے مایاوتی کو گذشتہ اسمبلی الیکشن میں ایک بہتر متبادل سمجھ کر ووٹ دیا تھا مگر مایا نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ صرف دلت بہبود ہی ان کے پیش نظر ہے اقلیتوں کی انہیں بالکل پرواہ نہیں ہے۔ اس سے مسلمان ووٹر ان سے مایوس ہوگیا۔ خود مایاوتی نے اعتراف کیا ہے کہ مسلمانوں میں اس بھرم کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی ہے کہ وہ این ڈی اے کے ساتھ جاسکتی ہیں۔ اگرگذشتہ تجربات کو دیکھا جائے تو مسلمانوں کا یہ خدشہ کوئی غلط نہیں۔ مایاوتی کو یقینی طور پر این ڈی اے کے ساتھ الیکشن کے بعد نہیں جانا تھا تو انہیں اس افواہ کی تردید کرنی چاہئے تھی مگر انہوں نے اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔
ملائم نے تو کم از کم ۳۲سیٹیں نکال کر اپنی لاج رکھ لی ہے مگر لالو بہار میں صرف چار سیٹوں تک سمٹ گئے وہ خود ایک جگہ سے ہار گئے در اصل بہار میں نتیش کمار نے جو ترقیاتی کام کرائے ہیں اس کو وہاں کے عوام نے ستائش کی نظر سے دیکھا۔ وہ بہار جو لالو راج میں پورے ملک میں سب سے پچھڑا علاقہ بن گیا تھا وہاں اب سڑکیں بن رہی ہیں، تعلیمی ادارے قائم ہورہے ہیں، بے روزگاروں کو نوکریاں مل رہی ہیں، امن عامہ جس کی دہائی دے کر لالو ووٹ مانگا کرتے تھے نتیش کی حکومت میں لالو سے بہتر رہا۔ یہی وجہ ہے کہ لالو کی ٹرین بہار میں نہیں چل سکی۔
سب سے بری حالت پاسوان کی ہے وہ خود الیکشن ہار گئے ان کی پارٹی کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔ یاد رہے کہ لالو، ملائم اور پاسوان الیکشن سے پہلے یوپی اے حکومت کا حصہ تھے مگر ان لوگوں نے ایک ساتھ الیکشن نہ لڑ کر الگ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ لالو- پاسوان بہار میں کانگریس کو صرف ۳ سیٹ دینے پر راضی تھے۔ کانگریس کا پھنڈا یہاں نتیش کی وجہ سے نہیں چل سکا اس وجہ سے اس کو تین سیٹوں پر قناعت کرنا پڑا۔
اب حالت یہ ہے کہ یہ لوگ کانگریس سے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح انہیں بھی حکومت میں شامل کرلیا جائے۔ الیکشن کے بعد ان لوگوں نے اعتراف کیا کہ کانگریس سے الگ ہوکر الیکشن لڑنا ان کی بھول تھی۔ در اصل سیاست میں معمولی غلطیاں بھی سدھارنے کے لئے پانچ سال کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
لالو کی جہاں تک بات ہے تو انہوں نے ہمیشہ یوپی اے کی بھلائی کاکام ہی کیا ہے۔ ریلوے کو انہوں نے منافع بخش وزارت بناکر پوری دنیا میں شہرت دلوائی ہے اسی وجہ سے ان کی بھول کو معاف کیا جاسکتا ہے بلکہ معاف کردیا جانا چاہئے مگر سماجوادی کی موقع پرست سیاست اس قابل ہے کہ ا س سے دوری ہی بنی رہے تو بہتر ہے۔ ملائم اور امر سنگھ کی پریشانی یہ ہے کہ اگر یہ لوگ مرکز اور ریاست سے ایک لمبے عرصہ تک غائب رہے تو دھیرے دھیرے عوام کے ذہنوں سے بھی دور ہوجائیں گے اور پھر ان کی واپسی مشکل ہوجائے گی۔
حالیہ الیکشن میں اگر مسلمانوں کی نمائندگی کی بات کی جائے تو مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے ۴۰۰۲ءکے الیکشن میں ان کی تعداد ۹۳تھی جو گھٹ کر ۰۳رہ گئی مسلم نمائندگی میں ۰۲فیصد کمی ہوئی۔ اس کی خاص وجہ نام نہاد مسلم پارٹیاں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے جذبات کا استحصال کرکے مسلمانوں کے ووٹ کومختلف خانوں میں تقسیم کردیا۔ نہ خود کامیاب ہوسکے اور نہ سیکولر پارٹیوں کے مسلم امیدواروں کو کامیاب ہونے دیا۔ دوسری وجہ خود سیکولر پارٹیوں کی سیاست ہے وہ جان بوجھ کر ایک ہی علاقہ سے کئی امیدوار کھڑا کردیتی ہیں جس کے نتیجہ میں مسلم ووٹ بٹ جاتا ہے اور بی جے پی کا امیدوار نکل جاتا ہے۔
اس الیکشن کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں بڑے بڑے نیتا جو گذشتہ حکومتوں میں وزیر رہ چکے تھے الیکشن ہار گئے۔ ہارنے والوں میں عبدالرحمان انتولے، شکیل احمد، علی اشرف فاطمی، رام ولا س پاسوان، منی شنکر ایر جیسے قدر آوار لیڈران شامل ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس مرتبہ عوام نے بڑے ناموں سے متاثر ہوئے بغیر صرف کام کے بدلہ ووٹ دیا ہے جو نیتا الیکشن کے بعد منہ نہ دکھاتے ہوں انہیں عوام نے پارلیامنٹ سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔
منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے حکومت پر عوام نے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے فتح کے آنکڑے کے قریب پہنچادیا ہے اسے گیارہ ممبران کی ضرورت تھی جو اسے آسانی سے حاصل ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ وزارتوں کے لئے حلیف پارٹیاں دبا

نہیں ڈال سکیں۔ کروناندھی نے ذرا سی اکڑ دکھائی تھی مگر وہ بھی لائن پر آگئے۔

اب منموہن حکومت کے امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اترے۔ یوپی اے اب یہ نہیں کہہ سکتی کہ اسے ترقیاتی کام کرنے کا موقع نہیں ملا اس لئے کہ دس سال کا عرصہ اپنے آپ میں ایک معنی رکھتا ہے۔ مندی کے اس دور میں ملکی معیشت کو سہارا دینا، عالمی سطح پر ملک کی امیج کو زیادہ پراثر بنانا، غریبی اور بے روزگاری کا خاتمہ، تعلیم، صحت او رامن عامہ جیسے مسائل پر اسے توجہ دینی ہوگی۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو کانگریس کی زیر قیادت یوپی اے سرکار سے چند توقعات ہیں۔ سرکار کے لئے یہ بہتر موقع ہے کہ وہ انھیں پورا کرکے مسلمانوں کی توقعات پر پوری اترے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کا نفاذ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اقلیتی کردار کی بحالی ان میں سرفہرست ہے۔ اگر سرکار نے مسلمانوں کی ان خواہشات کا احترام نہیں کیا تو مسلمان ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور ہوںگے کہ کانگریس کو مسلمانوں کی فکر نہیں وہ صرف اسے ووٹ بینک کے طور پر دیکھتی ہے۔


حاجی مشتاق احمد انصاری کا انتقال

0 تبصرے
Haji mustaque Ahmad Ansari
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ حاجی مشتاق احمد انصاری کا ۰۲ مئی کو بترا ہاسپٹل دہلی میں انتقال ہوگیا۔ موصوف بھدوہی میں قالین کی تجارت کرتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے آپ کے اندر خیر کا جذبہ کافی مقدار میں رکھا تھا۔
مہمان نوازی اور غریب پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔ کڈنی میں پریشانی کی وجہ سے اکثر دہلی ڈائلیسس کے لئے آنا ہوتا تھا۔ ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر کے صدرِمحترم مولانا عبد الحمید رحمانی حفظہ اﷲ وتولاہ سے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے مرکز کو اپنی زیارت سے شرفیاب کیا کرتے تھے۔
عمر کے تقاضہ کی وجہ سے شکر اور ہارنیا کی شکایت بھی ہوگئی تھی۔ آخری مرتبہ ہارنیا کے آپریشن کے لئے دہلی آئے ہوئے تھے مگر آپریشن کامیاب نہ ہوسکا۔ موصوف کی میت کو ان کے آبائی شہر بھدوہی لے جایا گیاجہاں دوسرے دن ۱۲ مئی کو صلاة مغرب کے بعد ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ صلاةجنازہ جامعہ سلفیہ، بنارس کے استاد مولانا مستقیم احمد سلفی نے پڑھائی۔ پسماندگان میں دو بیٹے محمد واصف اور محمد شارق نیز تین بیٹیاں ہیں۔ سبھی شادی شدہ ہیں۔ ادارہ التبیان ان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ دعا ہے اﷲ تعالیٰ موصوف کی خطا¶ں سے در گزر کرے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔

جامعہ سلفیہ کے استاد مولانا رئیس احمد ندوی رحمہ اﷲ

0 تبصرے

جامعہ سلفیہ بنارس کے سینئر استاداور مفتی، تقریبا دو درجن کتابوں کے مصنف و مولف، مولانا رئیسالاحرار ندوی بن سخاوت علی کا ۹مئی2009، بروز سنیچر رات ساڑھے دس بجے بنارس کے ایک اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
موصوف طلبہ میں اپنے بلند اخلاق، بہترین عادات اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے بہت مقبول تھے۔ آپ ایک بے باک قلم کار اور مصنف تھے۔ مسلک سلف کے دفاع میں آپ کا قلم بہت تیز تھا۔ آپ نے ایک درجن سے زائد کتابیں لکھیں مگر آپ کو جس کتاب سے شہرت ملی وہ ”اللمحات

Êلی مافی انوار الباری من الظلمات“ ہے۔ یہ کتاب مولانا انور شاہ کشمیری کے داماد اور شاگرد سید احمد رضا بجنوری کی بخاری کی شرح انوار الباری کے جواب میں ہے۔
موصوف اپنے آبائی گاؤں بھٹیا میں ۲جولائی ۷۳۹۱ءکو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں ہوئی۔ جونیئر ہائی اسکول مروٹھیا سے پاس کیا اور ہائی اسکول مدرسہ بدریہ پکابازار بستی میں پڑھائی کے دوران پاس کیا۔ ۷۵۹۱ءمیں ندوة العلماءلکھنو¿ میں داخلہ لیا،جہاں ان کے اساتذہ میں علی میاں ندوی، عبد اﷲ عباس ، مولانا عبد الغفور رحمہم اﷲ جیسے لوگ تھے۔
مولانا رئیس الاحرار صاحب نے اگرچہ ندوہ میں تعلیم پائی مگر مسلک اہل سنت والجماعت سے لگاو¶ میں کمی نہ آئی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں وہ سلفی فکر کے خلاف اٹھنے والی ہر تلوارکے خلاف ایک ڈھال بن گئے۔
ندوہ سے فراغت کے بعد مدرسہ بدریہ، جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر، دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ بہار اور ندوة العلماءمیں ۱۶۹۱ءسے ۵۶۹۱ءکے درمیانی سالوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۶۶۹۱ءمیں جامعہ سلفیہ بنارس کے استاد مقرر ہوئے تو زندگی کے آخری لمحات تک اس سے الگ نہ ہوئے۔ آپ مرکزی دار العلوم کے شیخ الحدیث اور مفتی تھے۔
مولانا رئیس صاحب کے تلامذہ کی ایک طویل فہرست ہے ان میں سے چند نام یہ ہیں:
شیخ صلاح الدین مقبول مدنی، شیخ وصی اﷲ عباس، عبد الباری فتح اﷲ، ڈاکٹر عبد الجبار پریوائی، ڈاکٹر رضاءاﷲ مبارکپوری وغیرہم۔
مولانا رئیس الاحرار صاحب کی مشہور کتابوں میں چند یہ ہیں:
۱-اللمحات الی ما فی انوار الباری من الظلمات ۵ جلدوں میں۔
۲-سیرت حضرت خدیجہ، دو جلدوں میں
۳- رسول اکرم کا صحیح طریقہ

¿ نماز
۴-سیرت ابن حزم
۵-تنویر الآفاق فی مسئلة الطلاق
۶- دیوبندی تحفظ سنت کانفرنس کا سلفی تحقیقی جائزہ
مولانا کافی دنوں سے بیما رچل رہے تھے۔ دل کے مرض کے علاوہ ذیابیطس (شوگر)، بلڈ پریشر، خون کا پیلا ہونا جیسی بیماریاں آپ کو لاحق تھیں۔ چونکہ آپ چل نہیں پاتے تھے اس وجہ سے طلبہ آپ کے کمرے میں جاکر آپ سے پڑھا کرتے تھے۔
آپ کے لکھنے کا انداز نرالا تھا۔ کہنیوں کے بل لیٹ کر یاچت لیٹ کرکاغذ کو پیٹ پر رکھ کر لیٹ کر لکھا کرتے تھے۔ ایک صفحہ ختم ہونے کے بعد دوسرے صفحہ کے لئے گوند سے اس صفحہ کو جوڑ لیا کرتے تھے، اس طرح مضمون ایک لمبی ریل کی مانند ہوجاتا تھا۔ آپ ایک زودنویس مصنف تھے۔ مضمون لکھنے کے بعد اس پر دوبارہ نظر نہیں ڈالتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں تکرار ہے۔ خط اس قسم کا تھا کہ اس کو پڑھنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ آپ جب بھی کسی کا جواب لکھتے تو جواب بہت مسکت ہوتا۔ دلائل اتنے مضبوط ہوتے کہ مخالف کو خاموشی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
آپ نے دو شادیاں کی تھیں پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ دوسری بیوی بہار کی ہیں جو آخری عمر تک آپ کے ساتھ رہیں۔
اﷲ نے آپ کو دو لڑکے اور چھ لڑکیوں سے نوازا تھا۔ ان میں سے ایک لڑکے کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا جبکہ دوسرے لڑکے عبدالحق سلفی زندہ ہیں۔ لڑکیوں میں ایک غیر شادی شدہ اور دو مطلقہ ہیں ایک لڑکی کے علاوہ سبھی دوسری بیوی سے ہیں۔
مولانا رئیس الاحرار ندوی رحمہ اﷲ کی میت کو ان کے آبائی گا

¶ں بھٹیا لایا گیا جہاں مولانا مستقیم احمد سلفی استاد جامعہ سلفیہ، بنارس نے صلاة جنازہ پڑھائی۔ صلاة جنازہ میں مدارس کے طلبہ کے علاوہ قرب و جوار کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اﷲ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے اور انہیں اعلی مقام دے۔ ادارہ غم کے اس موقع پر ان کے پسماندگان کے ساتھ ہے۔
حاجی مشتاق احمد انصاری کا انتقال:
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ حاجی مشتاق احمد انصاری کا ۰۲ مئی کو بترا ہاسپٹل دہلی میں انتقال ہوگیا۔ موصوف بھدوہی میں قالین کی تجارت کرتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے آپ کے اندر خیر کا جذبہ کافی مقدار میں رکھا تھا۔
مہمان نوازی اور غریب پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔ کڈنی میں پریشانی کی وجہ سے اکثر دہلی ڈائلیسس کے لئے آنا ہوتا تھا۔ ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر کے صدرِمحترم مولانا عبد الحمید رحمانی حفظہ اﷲ وتولاہ سے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے مرکز کو اپنی زیارت سے شرفیاب کیا کرتے تھے۔
عمر کے تقاضہ کی وجہ سے شکر اور ہارنیا کی شکایت بھی ہوگئی تھی۔ آخری مرتبہ ہارنیا کے آپریشن کے لئے دہلی آئے ہوئے تھے مگر آپریشن کامیاب نہ ہوسکا۔ موصوف کی میت کو ان کے آبائی شہر بھدوہی لے جایا گیاجہاں دوسرے دن ۱۲ مئی کو صلاة مغرب کے بعد ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ صلاةجنازہ جامعہ سلفیہ، بنارس کے استاد مولانا مستقیم احمد سلفی نے پڑھائی۔ پسماندگان میں دو بیٹے محمد واصف اور محمد شارق نیز تین بیٹیاں ہیں۔ سبھی شادی شدہ ہیں۔ ادارہ التبیان ان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ دعا ہے اﷲ تعالیٰ موصوف کی خطا¶ں سے در گزر کرے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔

بدھ، 10 جون، 2009

مولانا فرید احمد رحمانی رحمه الله

0 تبصرے
ضلع بستی و گونڈہ کے لئے اور خصوصاََ اہلحدیثوں کے یہاں مولانا فرید احمد بن برکت اللہ رحمانی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ،آپ 1922ءیا 1923 ءمیں ضلع بستی کے ایک مشہور گاوںپیکولیا مسلم میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گاو ں میں ہوئی۔ 1933ءمیں اردو سے اور 1934ءمیں ہند ی سے مڈل پاس کیا ۔ پھر آپ کا رجحان دینی تعلیم کی طرف ہوا لہذا آپ 1934ءمیں شکراوہ کے ایک مدرسہ دارالعلوم میںداخل ہوئے۔ مدرسہ ابھی نیا نیا قائم ہوا تھا بڑی مشکل سے آپ وہاں ایک سال رہ سکے پہلی جماعت کی تعلیم کے بعد1938ءمیں فیض عام مئو میںداخلہ لیا اور دوسال تک یہاں رہے۔ 1939میں جامعہ رحمانیہ کا ارادہ کیا اور وہاں پر جماعت ثانیہ میں داخلہ ہوا ،1943ءمیں جامعہ رحمانیہ چھوڑ کر غزنویہ امر تسر چلے گئے وہاں کے جن علماءسے استفادہ کیا ان میں ایک خاص نام محمد حسین صاحب کاہے۔ اس کے بعد آپ مزید تعلیم کے لئے مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے قائم کردہ مدرسہ میں داخل ہوئے یہاں آپ نے ترمذی ابوداو د اور مسلم محمد گونڈوی رحمہ اللہ سے پڑهی سند فراغت سے ایک سال پہلے گھر آگئے اس وجہ سے سند نہ حاصل کرسکے۔
آپ بچپن ہی سے ذہین تھے ،شکراوہ میں آپ کو پہلی پوزیشن لانے پر بلوغ المرام انعام میں دیا گیا۔ فیض عام میں آپ صرف دوسال رہے ،پہلے سال قافیہ میں پورے نمبر لانے پر تحفة الاحوذی اور دوسرے سال بلوغ المرام مکمل حفظ کرنے پر صحیح بخاری انعام میں ملا۔
گھر آکر آپ نے ضلع بستی کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا ۔ گاو ں پر ایک مدرسہ کھولا جس میں آپ منتظم بھی تھے مدرس بھی بعد میں آپ نے تدریس چھوڑدی اور تجارت میں لگ گئے مگرعمر کے آخری ایام سے کچھ پہلے تک مدرسہ کی نظامت کرتے رہے۔ مدرسہ سے آپ کو کتنی محبت تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ اپ کا اکثر وقت مدرسہ میں ہی گزرتا تھا۔ شروع میں مدرسہ گاو

ں میں مسجد سے ملحق تھا مگر آپ نے کوشش کرکے اس کے لئے گاو ں سے باہر22 بیگھ زمین خرید کر اسے وہاں منتقل کردیا۔ آپ اسے ایک بڑا اقامتی ادارہ بنانا چاہتے تھے اس کے لئے آپ نے ماہر اساتذہ کی ایک تیم اکٹھا کرلی تھی۔ طلبہ کی بھلائی کی خاطر آپ نے مدرسہ کا الحاق جامعہ اسلامیہ سنابل سے کرانا چاہا اس پر گاو ں کے کچھ لوگوں سے اختلاف ہوا آپ اس وقت تک کمزور بھی ہوچکے تھے روزانہ مدرسہ پر جانے میں پریشانی بھی ہوتی تھی اس لئے آپ نے نظامت سے استعفیٰ دے دیا۔
مولانا کی زندگی ایک فعال زندگی تھی ،مدرسہ کی نظامت کی ذمہ داری سے استعفی دینے کے بعد گھر میں بیٹھنا آپ کو قطعی گوارہ تھا ،گور بازار میں مسجد سے ملحق ایک زمین تھی جو نانی جان کی ملکیت تھی ،آپ نے اس زمین پر صدر مرکز سے مشوری کرکے ابوالکلام آزاد محمدیہ بوائز پبلک اسکول کی بنیاد رکھ دی ۔آج کل یہ مرکز کے اداروں میں ایک ممتاز حیثیت کا ادارہ مانا جاتا ہے۔بغیر کسی تاخیر کے آپ نے اسی سال تعلیم کا سلسلہ شروع کرادیا اس سے پہلے اس مسجد میں مرکز کی ایک شاخ مدرسہ محمدیہ قائم تھی ،آپ نے اس مدرسہ کے نام "محمدیہ "کو پبلک اسکول کا ایک جزءبنادیا ،اسکول قائم ہونے کے بعد یہ اسکول آپ کی توجہات کا مرکز بن گیا ،صبح کو بچوں کے ساتھ اسکول بس میں بیٹھ کر آنا اور شام کو انہی بچوں کے ساتھ گھر واپس جانا آپ کا معمول بن گیا ۔اسکول میں کاموں کی نگرانی جس محنت ولگن سے کرتے تھے وہ آپ کا ہی حصہ تھا ۔آپ کی محنتوں کا ثمرہ ہی تھا کہ ایک معمولی سی مدت میں گور علاقہ کا سب سے بڑا اور معتبر ادارہ بن گیا ،آپ کے زمانہ میں حالت یہ ہوگئی تھی کہ غیر مسلم بھی اپنے بچوں کو ابوالکالام آزاد محدیہ پبلک اسکول میں پڑھاناباعث فخرسمجھتے تھے ۔اسی وقت آپ نے پرنسپل کو تاکید کردی تھی کہ 40فیصد زیادہ ہندو بچوں کو نہ داخل کیا جائے تاکہ ادارے کا اقلیتی کردار متاثر نہ ہو ۔
عادات و اطوار:
اللہ رب العزت نے آپ کو حق گوئی ، امانت و دیانت ، خلوص ، توکل اور استغناءجیسی صفات سے نوازا تھا۔ ہمیشہ حق بات کہتے تھے خواہ کوئی ناراض کیوں نہ ہو جائے۔ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کبھی مصلحتا ََ بھی جھوٹ بولا ہو ۔ زندگی بھر تجارت کرتے رہے لاکھوں روپیہ لوگوں نے آپ کا ہڑپ کر لیا مگر صبر کا دامن آپ نے نہیں چھوڑا ۔ کوئی محتاج آپ کے دروازے پر آجائے اور اپنی پریشانی بیان کردے تو چاہے ادھارلیکر اس کی ضرورت پوری کرتے مگر اس کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے ، کتنے لوگوں کو میں نے خود دیکھا کہ اپنی ضرورت بتاکر ادھار رقم لی کرگئے اور پھر منہ نہ دکھایا۔ مہمان نوازی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ہمیشہ ایک دو مہمان آپ کے یہاں رہا کرتے تھے ۔ مولانا فرید صاحب کی شخصیت دوسروں کے لیے جو بھی ہو وہ ہمارے نانا ہی نہیں بلکہ والد محترم جناب مولانا اسرائیل صاحب کی ناگہانی موت کے بعد استاد ،مربی اور والد سب کچھ تھے ،اس وقت ہم سبھی بھائی چھوٹے چھوٹے تھے ،میںمدرسہ جانا ابھی شروع ہی کیا تھا یہ حادثہ پیش آیا،نانا محترم کو اس سے کافی صدمہ ہوا،مجھے اور میرے بڑے بھائی قاری زبیر صاحب کو اپنے ساتھ لے گئے اور درج پنجم تک کی تعلیم اپنی نگرانی میں رکھ کر دلوائی ،اس موقع پر اللہ تعالی نے اگر نانا کے دل میں یہ بات نہ ڈالی ہوتی تو شاید ہم بھائی بھی ان بچوں کی طرح گلیوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے۔ نانی جان سے آپ کی لڑائی صرف دوباتوں کی وجہ سے ہوتی تھی پہلی شکایت نانی کو یہ تھی کہ آپ پورادن مدرسہ میں لگاتے ہیں اور گھر پر بھی ہمیشہ مدرسہ کا کام کرتے ہیں دوسرا یہ کہ ہمیشہ مہمانوںکی وجہ سے ہماری نجی زندگی متاثر ہوتی ہے ،نانا جان ان کو بہت سمجھاتے مگر بعض دفعہ نانی پھٹ پڑتی تھیں اور کھری کھوٹی سنا دیا کرتی تھیں۔
وقت کے بڑے پابندتھے، جس کام کے لئے جو وقت ہوتا وہ اس سے آگے پیچھے نہیں ہوتا ۔ روز صبح اٹھتے صلاة فجرکے بعد تلاوت اور پھر ناشتہ کرتے اور مدرسہ کے ضروری کاموں میں لگ جاتے ۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں گھر کے گراو نڈ فلور پر بر آمدہ سے متصل کمرے میں رہتے ہوئے پایا۔ آخری عمر میں جب کمزوری بڑھ گئی تو آپ دوسری منزل پر جہاں گھر کے دوسرے افراد رہتے تھے وہاں منتقل ہوگئے تھے۔ تھے تو پتلے دبلے مگر رعب ایسا تھا کہ گاو ں میں کسی اور شخص کو میں نے ایسا نہیں بارعب نہیں پایا۔ بوڑھے جوان بچے سبھی آپ کااحترام کرتے تھے۔ اگر کبھی کسی ضرورت سے چائے خانے کے سامنے سے آپ کا گزر ہوتا تو لوگ چھپ جاتے یاشرم سے چہر ہ دوسری طرف کر لیتے ۔ کیا مجال تھی کہ صلاة کے وقت گاو ں کا کوئی شخص مسجد کے علاوہ دوسری سمت ان کے سامنے سے گزر جائے ، صلاة کے معاملہ میں وہ کسی کو نہیں بخشتے تھے ایک مرتبہ تو انہوںنے فجر کی صلاة کے لئے اپنی کسی قریبی مہمان کی پٹائی بھی کردی۔ صلاة کے معاملہ میں گھر کا ماحول بالکل کسی مدرسہ کی طرح تھا ،اذان ہوتے ہی گھر سے نکلنا ضروری ہوجاتا تھا۔ سنت کے بڑے پابند تھے سادہ کھاتے سادہ پہنتے ،تہجد کی صلاة کبھی نہیں چھوڑتے تھے ،آخری عمر میں جب کے اعضاءکمزور ہوگئے اور دہلی میں ایک حادثہ میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور مصنوعی ہڈی لگانی پڑی تب بھی آپ مسجد جایا کرتے تھے اور باجماعت صلاة پڑھتے تھے۔
مطالعہ کا شوق آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا جو کتاب بھی آپ کو پسند آتی خرید لیا کرتے تھے اس طرح آپ کے پاس کتابوں کاایک ذخیرہ تیار ہوگیا تھا آپ نے اپنی لائبریری 1978ءمیں جامعہ اصلاح المسلمین کے نام وقف کر دیا تھا۔ جامعہ اصلاح المسلمین کے ایک جلسہ میںصدر مرکز حفظہ اللہ نے اس لائبریری کا معائنہ کیا تھا اور مزید کتابوں کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا ،بعد میں نانا محترم کی علیحدگی کے بعد یہ لائبریری بڑھنے کے بجائے سمٹتی گئی اور اب یہ حالت ہے کہ لائبریری میں کتابوں کے نام پر چند پھٹی پرانی کتابیں بچی ہیں۔
آپ نے جامعہ اصلاح المسلمین میں شعبہ نشر و اشاعت بھی قائم کیا تھا۔ جس کے تحت مولانا ثناءاللہ امرتسری کی کتاب" اہلحدیث اور مسلمان "اور مولانا عبد الرحمان دیوبندی کی کتاب "میںاہلحدیث کیوں ہوا؟ "چھپوا کر پورے ہندستان میں مفت تقسیم کرایا۔
مسلک اہلحدیث سے آپ کو جو لگاو تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ہم لوگوں کو جمعہ کے دن گور کی مسجد میں صلاة ادا کرنے لئے بھیجتے تھے اور ساتھ میں یہ تاکید ضرورکرتے تھے کہ آمین زور سے کہنا۔ در اصل گورمیںنانا محترم نے مسجد بنوائی تھی پہلی بات تو یہ کہ گور میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے دوسرے جو لوگ ہیں ان میں بھی اپنے خاندان کے علاوہ کوئی اہلحدیث نہیں۔ مولانا اس کے باوجود احسن طریقے پر مسلک اہلحدیث کی تبلیغ کرتے رہے اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ جولوگ لفظ اہلحدیث کو گالی سمجھتے تھے وہ اب اہلحدیث امام کے پیچھے صلاة ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے ،پیکولیا کو مسلم پیکولیا بنانے کا سہرا آپ ہی کے سر جاتا ہے ۔آپ کی کوششوں سے پیکولیا مسلم کے اطراف میں املیا اور مجھوا کے لوگ بھی اہلحدیث ہوگئے، ایک مرتبہ میں نے نانا محترم کو بتایا کہ گورکے تھوڑے سے فاصلہ پر "حلوا" نامی گاو ں ہے جس کو بستی کے راجہ نے اپنے باغ کی حفاظت کے لئے بسایا تھا اس میں چند گھر مسلمان بھی تھے وہ مسلک اہلحدیث کی طرف راغب تو ہوئے مگر گاو

ں میںکوئی مدرسہ نہیں تھا اور نہ ہی مسجد قاعدے کی تھی ، ایک چھپر ڈال کر مسجد بنائی گئی تھی۔ عالم ہونے کا جھوٹا رعب جماکر ایک بریلوی ان کو گمراہ کررہا تھا۔ میں نے یہ سب باتیں بتائیں تو مولانا اپنے خرچ پر ہم لوگوں کوہر جمعہ کو وہاں بھیجنا شروع کردیا اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ وہ بریلوی شخص وہاں سے بھاگ گیا۔ مولانا نے وہاں کی مسجد بنوانے اور وہاں ایک مستقل عالم دین رکھنے کی کوشش بھی کی مگر کامیاب نہ ہوسکے اس وجہ سے کہ گاو ں والے خود وہاں ایک عالم اور مدرسہ کے حق میں نہیں تھے۔
مولانا کے گھریلو حالات:
مولانا کے چار لڑکے تھے جن میں سے ایک کی وفات تقریباً 51 سال کی عمر میں ہو گیا تھا جب ہوایک دوسرے لڑکے عزیز الرحمن کا انتقال جوانی میں ہوا،انتقال سے کچھ پہلے ہی ان کی شادی ہوئی تھی۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں مقصد حیات ہیں۔ بڑے
صاحب زادے کا نام مسعود احمد اور چھوٹے کانام عبید الرحمن ہے۔ لڑکیوں کے نام جو یرہ اور ام حبیبہ ہیں۔ ثانی الذکر ہماری والدہ ہیں۔
جب سے ناناجان نے ڈومریا گنج اور گور میں دوکان کھول کر دونوں لڑکوں کو الگ الگ دوکان سونپی تھی اس وقت سے مسعود ماموں ڈومریا گنج چلے گئے اور عبید الرحمن ماموں گھر پر رہتے اور دوکان پر وہیں سے آتے جاتے تھے ۔ بعد میں انہوںنے بھی اپنی فیملی کو گھر سے گور بلا لیا۔ نانا اور نانی کو گاو

ں سے محبت تھی اس وجہ سے وہ گاو ں چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے ہماری والدہ نے ہماری چھوٹی بہن کو ان کی خدمت کے لئے رکھ دیا آپ اپنے انتقال سے کچھ دنوں پہلے گورمنتقل ہوگئے تھے۔ آپ کے بڑے صاحب زادے کو یہ شکایت تھی کہ والد محترم (مولانافرید صاحب) عبید الرحمن پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ آپ نے پوری کوشش کی کہ اپنی زندگی ان دونوں بھائیوں میں بٹوارہ کردیں مگر کامیاب نہ ہوسکے ۔ مسعود ماموں کبھی راضی نہ ہوئے کہ ڈومریا گنج کی جائداد میں سے کوئی حصہ عبید الرحمن ماموں کو دیں۔
نانا محترم کو لڑکیوں کے حق وراثت کی اہمیت کا علم تھا مگر وہ مجبور تھے ان کا کہنا تھا کہ جب ایک بھائی دوسرے بھائی کو حق دینے پر راضی نہیں ہے تو بہن کو کیسے حصہ دیگا ، بالآخر آپ نے اپنے انتقال سے کچھ پہلے جو وصیت لکھی تھی اس میں اس بات کی تاکید کردی کہ لڑکیوں کو بھی جائداد میں سے حق دیا جائے۔ اب موجودہ حالت یہ ہے کہ پیکولیا مسلم کا گھر اور کھیت اور گور کی دوکان عبید الرحمن ماموں کے قبضے میں ہے اس کے علاوہ نانی جان کو اپنے میکہ سے وراثت میں ممبئی میںدو کانوں کی شکل میں جو حصہ ملا تھا وہ بھی انہیں کے قبضے میں ہے۔ اور ڈومریا گنج کی زمین مسعود ماموں کے قبضے میں ہے۔ اس طرح کل ملا کر بغیر بٹوارہ کے دونوں بھائی اپنی اپنی جگہ پر رہ رہے ہیں۔
جب تک تجارت کرتے رہے اس وقت تک آپ کے پاس پیسوں کی کمی نہ تھی مگر جب آپ نے تجارت چھوڑ دی تو آپ نے اپنے دونوں لڑکوں سے ہر مہینہ ایک معمولی رقم طے کردی کہ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے دے دیا کریں گے۔ مگر سچ یہ ہے کہ رقم بھی کبھی ملتی کبھی نہیں ملتی تھی آپ نے ایک مرتبہ دلبرداشتہ ہو کر ایک چھوٹی سی جائداد بیچ دی۔ ایک مرتبہ آ پ نے اپنے قرضوں کی ادائیگی کے ایک پرانا گھر جو کبھی بھینسوں کے باندھنے کے لئے استعمال ہونا تھا وہ بھی بیچ دیا۔ دونوں دفعہ کافی لے دے ہوئی۔ نانا نے اس موقع پر کہا کہ اگر آپ لوگ خرچ نہیں دیں گے تو اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اس میں سے ایک زمین تو ان لوگوں نے روئیے دے کر واپس اپنے قبضے میں لے لیا مگر گھر ابھی تک نہ لے سکے اور نہ یہ اب ممکن ہے۔ مدرسہ سے ایک پیسہ نہ لیتے تھے مگر جب لڑکوں کی طرف سے خرچ ملنا بند ہوگیا اور آمدنی کا کوئی ذریعہ بھی نہ رہ گیا تو آپ نے منتظمین کے کہنے پر ایک معمولی رقم اپنے گذارہ کے لیے لینے لگے۔نانا اور نانی اپنے بچوں سے الگ پیکولیا مسلم ہی میں رہا کرتے تھے ،ضروری سی بات ہے کہ آپ کو اپنی ضرورت کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑتی رہی ہوگی ۔
مولانا کی آخری آرزو:
انتقال سے کچھ دن پہلے ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں شریک ہونے کے لئے آئے ہوئے تھے۔آپ نے اس موقع پر مجھ سے کہا تھا کہ میری آخر خواہش ہے کہ گھر کی مسجد سے ملحق ایک حفظ کا مدرسہ قائم کردوں۔ اس کے لئے انہوںنے صدر مرکز کو خط بھی لکھا تھا۔ مگر آپ کی زندگی نے آپ کا ساتھ نہ دیا اور آپ کا انتقال ہو گیا۔
ابوالکلام آزاد اویکننگ سینٹر سے آپ کے تعلقات:
آپ تاعمر مرکز کے مجسل عامہ کے ایک سرگرم رکن رہے۔ خواہ کتنے ہی بیمار کیوں نہ ہوں مرکز کی میٹنگوں میں شرکت کے لئے ضرور حاضر ہوا کرتے تھے ۔ آخری دفعہ جب حاضر ہوتے تھے تو ان کی حالت یہ تھی کہ لاٹھی کے سہارے بمشکل قدم اٹھاپاتے تھے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ کندھے کے سہارے لے جانا پڑتا تھا، مگر آپ کا جذبہ تھا کہ آپ نہ صرف یہ کہ میٹنگ میں شریک ہوئے بلکہ اپنے بھانجے سے ملنے آگرہ بھی گئے اور ان کے حفظ کے مدرسہ کے لئے تعاون کی درخواست کی۔ آدھے جسم پر فالج کا حملہ ہوچکا تھا،جس کی وجہ سے زبان لڑکھڑارہی تھی،قلم پکڑنے میں دشواری ہورہی تھی،سکریٹری صاحب نے ایک کاغذ پر دستخط کرنے کے لئے آپ کو دیا تو اس موقع پرکسی نے کہا کہ اب آپ کمزور ہوگئے ہیں اسلئے ان ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوجائیں ،سکریٹری صاحب نے کہا کہ مولانا کا دل ابھی جوان ہے اس پر آپ صرف مسکراکر رہ گئے گویا کہ اب کتنے سال زندہ ہی رہنا ہے۔آپ کا یہ دہلی کا یہ آخری سفر ثابت ہوا ۔
انتقال:
آپ کے مزاج میں سختی تھی جس کی وجہ سے عام طور پر لوگ آپ کا سامنا کرنے سے ڈرتے تھے ،کئی دفعہ خیال ہوا کہ آپ سے زندگی کے بارے میں اہم معلومات پوچھ کر لکھ لوں مگر ہمت نہیں ہوسکی،اسکا نقصان یہ ہوا کہ آپ کی زندگی کے بہت سارے گوشوں کے بارے میں معلومات نہ ہوسکی ۔ مزاج کی سختی کے باوجود عجیب بات میں نے یہ محسوس کیا کہ آخری عمر بہت نرمی آگئی تھی۔کوئی بات بھی کرتے تو ہنس کر مسکراکر کیا کرتے تھے۔ انتقال سے پہلے والی رات آپ نے سینے میں معمولی سے درد شکایت کی۔ تیل سے مالش کردی گئی اورآپ سوگئے۔ کسے معلوم تھا کہ اس سونے کے بعد اب جاگنا نہیں ہوگا۔ صبح جب فجر کے وقت آپ بیدار نہیں ہوئے تو کمرے میں جاکر دیکھا گیا ، معلوم ہو اکہ رات ہی میں کسی وقت آپ کا انتقال ہوگیا۔ تھوڑے ہی وقت میں آپ کے انتقال کی خبر اطراف وجوانب میں پھیل گئی ۔ آپ کی لاش کو آبائی قبرستان میں دفن کر نے کے لئے پیکو لیا لے جایا گیا جہاں انہیں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں دفن کردیا گیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔

منگل، 9 جون، 2009

فضا ابن فیضی_مثبت فكر كا شاعر

4 تبصرے
سستی شہرت اور ادبی گروہ بندیوں سے الگ رہ کر خالص اردو ادب کی خدمت انجام دینے والوں کی فہرست اردو ادب کی دنیا میں بہت طویل نہیں ہے۔ اس کی وجہ اردو والوں کی ذہنیت اور ایک خاص قسم کا ماحول ہے ،کسی مخصوص ادبی تحریک سے وابستہ نہ ہونے کا مطلب تمام کاوشوں کے باوجود گمنانی کے غار میں اپنے آپ کو ڈالنے کے مترادف ہے، ان خدشات کے باوجود جن لوگوں نے اپنا مطمح نظر صرف اردو ادب کی خدمت رکھا ان میں سے ایک معروف نام فضا ابن فیضی مرحوم کا ہے۔ افسوس کہ قحط الرجال کے اس دور میں فضا صاحب بھی 17جنوری 2009ءکو انتقال كرگئے۔
فضا صاحب کا نام تو فیض الحسن تھا مگر اپنے قلمی نام فضا ابن فیضی سے مشہور ہوئے یہاں تک کہ لوگ ان کا اصلی نام بھول گئے۔ یکم جولائی 1923ءکو مئوناتھ بھنجن یوپی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد مئو کے معروف دینی ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ مئو میں درس نظامی میں داخلہ لیا اور 1942ءمیں فراغت حاصل کی۔ آپ کی رسمی تعلیم بس اتنی ہی ہے بعد میں فضا صاحب نے پرائیویٹ طور پر انگریزی سیکھنے کی طرف توجہ کی مگر آبائی تجارت نے ان کو موقع نہ دیا اور تجارت میں لگ گئے کرانہ کی ایک دکان سے ہونے والی آمدنی ذریعہ معاش تھی اس کے علاوہ آمد نی کا ایک ذریعہ پاکستانی رسائل و جرائد تھے جہاں وہ باقاعدگی سے اپنے اشعار اشاعت کے لئے بھیجا کرتے تھے افسوس کہ ہندو پاک کی باہمی چپقلش کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ زندگی بھر کسی کی ملازمت نہ کی ،فرماتے ہیں
تھا شوق بہت شہ کا مصاحب بن جاں
خیر گذری کہ فضا نوکری کرنے سے بچا
فضا ابن فیضی کی شاعری
فضا ابن فیضی کی شاعری مثبت فکر کی ترجمان ہے آپ نے حالات و زمانہ کو جیسا دیکھا اپنے اشعار میں بے تکلف بیان کر دیا، نظم، غزل ،نعت اور حمد ہر صنف شاعری پر آپ نے خامہ فرسائی کی۔ مخمور سعیدی صاحب کہتے ہیں کہ ان کی غزلوں میں نظموں کے مقابلہ میں تنوع زیادہ ہے ان کی نظم گوئی چند ایک موضوعات کے دائرے میں گھومتی ہے۔ غالبا مخمور سعیدی صاحب نے فضا صاحب کے نعتیہ مجموعہ کلام ”سرشاخ طوبی “کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی نظموں میں بھی کی غزلوں کی طرح مضامین کا تنوع موجود ہے ان کا مجموعہ کلام ”شعلہ نیم سوز “جو کہ نظموں کا مجموعہ ہے اس پر شاہد ہے۔
فضا صاحب مشاعرے میں بلائے جاتے تھے اور اشعار بھی پڑھتے تھے مگر سب سے بڑی مجبوری فضا صاحب کے ساتھ یہ تھی کہ وہ مشاعروں کی سطح تک گر کر اشعار پڑھنے کے قائل نہ تھے۔فضا صاحب ہمیشہ معیاری شاعری کرتے تھے خواہ اس پر انہیں داد ملے یا نہ ملے۔
فضا صاحب چونکہ عربی و فارسی زبان کے ماہر تھے اس وجہ سے ان کی شاعری میں عربی و فارسی تراکیب کی کثرت ہے یہی وجہ ہے کہ فضا صاحب کی شاعری سمجھنے کے لئے عربی اور فارسی زبان کی واقفیت بھی ضروری ہے۔ فارسی اور عربی نہ جاننے والوں کے لئے ان کی شاعری سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔ مگر عجیب بات یہ کہ فضا کے ترانے اس سے مختلف ہیں۔ فضا صاحب نے جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ سنابل اور کئی دیگر اداروں کا ترانہ لکھا ہے اس کے اندر الفاظ انتہائی سہل تراکیب آسان اور فکر کی بلندی اپنے عروج پر ہے۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے ترانہ کے چند بند ملاحظہ فرمائیں:
سحر کا پیرہن ہیں ہم، بہار کی ردا ہیں ہم
بدن پہ زندگی کے رنگ و نور کی قبا ہیں ہم
چراغ کی طرح سرِدریچہ وفا ہیں ہم
مغنیِ حرم ہیں، بربط لبِ حرا ہیں ہم
کہ گلشن رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
خدا کرے فضا یوں ہی خواب جاگتے رہیں
یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں
ہنرورانِ سنت و کتاب جاگتے رہیں
چمن چمن بشارتِ نسیم جاں فزا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
مذکورہ دو بندوں میں ردا, قبا اور مغنی عربی الفاظ ہیں مگر ان کو فضا صاحب کے نہایت خوبصورتی سے باندھا ہے بلکہ ان عربی الفاظ کی اضافت فارسی کی طرف کرکے ایک خوش کن نغمگی پیدا کردی ہے’ مغنی حرم‘ اور’ طیور خوش نوا‘ جیسی تراکیب فضا کی شعری مہارت کو واضح کرتی ہیں۔
فضا صاحب کا رشتہ ایک طرف قدیم کلاسیکی شاعری سے ملتا ہے تو دوسری طرف جدید لب و لہجہ کی شاعری سے بھی انہوں نے اپنا تعلق جوڑے رکھا، بجا طور پر فضا کی شاعری قدیم وجدید کا
فضاابن فیضی ایک نظر میں:
نام: فیض الحسن بن مولانا منظور حسن۔
تاریخ ولادت: یکم جولائی1923ء
تعلیم: عالمیت اورفضیلت جامع عالیہ عربیہ مئو سے (1942)
الہٰ آباد بورڈ سے منشی ،کامل مولوی عالم اور فاضل کے امتحان۔
ذریعہ معاش: تجارت
مجموعہ کلام :
سفینہء زرگل (غزلیات ورباعیات) فیضی پبلیکیشنز مئو
سبزہء معنی بیگانہ (غزلیات)اسلامک سائنٹفک ریسرچ اکیڈمی،نئی دہلی۔25
شعلہء نیم سوز (غزلیات) فیضی پبلیکیشنز، مئو
دریچہء سیم سمن (غزلیات)
پس دیوار حرف (غزلیات)
سرِشاخ طوبی (حمد ،نعت ومنظومات) جامعہ سلفیہ بنارس
غزال مشک گزیدہ (رباعیات)
لوح آشوب آگہی (منظومات)
آئینہ نقش صدا(غزلیات)
سخنہائے گفتی (خطبہء استقبالیہ) دانش کدہ مئو
خود نوشت حالات زندگی اور شاعری دانش کدہ مئو
سنگم ہے۔ فضا نے اپنا رشتہ میرو داغ سے بنائے رکھا اور اسی معیار کی شاعری پوری زندگی کرتے رہے۔ نمو نے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
غیر مشروط مسائل لب و لہجہ مشروط
چلو اچھا ہے کہ وہ ہم سے مخاطب ہی نہ تھا
چلتے پھرتے پاں میں لفظوں نے بیڑی ڈال دی
اب کہاں دہلیزِ معنی چھوڑ کر جاں گا میں
مجھے پکار رہی ہے زمیں کی پہنائی
یہ در تو کھول کہ میں آسمان سے نکلوں
بہت قریب رہا مجھ سے وہ مگر پھر بھی
یہ فاصلہ سا مرے آس پاس کیسا ہے
چاند کا درد سمجھ دن میں چمکنے والے
تو تو اک پل کو کبھی منظر شب میں نہ کھلا
اس کی قربت کا نشہ کیا چیز ہے
ہاتھ پھر جلتے توے پر رکھ دیا
خاکسترِحیات ہوں دامن میں باندھ لے
پیارے تو مجھ کو شعلہ سمجھ کر ہوا نہ دے
فضا نقادوں کی نظر میں:
فضاکی زندگی ہی میں ماہرین فن نے ان کی شاعری کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ پروفیسر عبد المغنی صاحب کہتے ہیں:”آج کے طوفان مغرب میں فضا کی مشرقیت اپنی جگہ ایک مضبوط ستون ہے اور یہ ایقان شاعر کے فکری رسوخ اور ذہنی بلوغ کی علامت ہے پروفیسر مسعود حسین کہتے ہیں:”وہ صوت و لفظ کے نازک رشتے کے محرم ِراز ہیں۔“
فضا پرلکھے گئے ڈاکٹریٹ کے مقالے:
(1) ”فضا ابن فیضی فکر و فن اور شخصیت“ ڈاکٹر محمد شفیع بنارس ہندو یونیورسٹی ۔
(2) ”فضا ابن فیضی کی شاعری اور شخصیت “مقالہ نگار ڈاکٹر ممتاز،پٹنہ یونیورسٹی ۔
(3) ”فضا ابن فیضی “ڈاکٹر حدیث انصاری ، اسلامیہ کریمیہ کالج، اندور۔
(4فضا ابن فیضی پرتحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹر تبسم بانو نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
(5) فی الحال پاکستان میں ايك صاحب فضا ابن فیضی اور انکی کتابوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔
پروفیسر ابو الکلام قاسمی صاحب کہتے ہیں :”فضا ابن فیضی ان معدودے چند ممتاز شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی مشاقی اور قدرت ِاظہار کلاسیکی روایت سے ان کی دلچسپی اور وابستگی کا پتہ دیتی ہے اور نئے شعری رجحانات کی ان کی شاعری کو نئے اسالیب اظہار اور نئے طرز احساس سے ہم رشتہ کرتی ہے“۔
اعتراف ہنر:
فضا کی ادبی خدمات پر مختلف ادبی تنظیموں نے انہیں ایوارڈ سے نوازا۔ ’سفینہ زرگل ‘کی اشاعت پر اردو اکادمی لکھنو اور مجموعی ادبی خدمات پر غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی 2000ءمیں انہیںایوارڈ سے نوازا گیا۔ ادبی ایوارڈ فہرست یہاں گنانا ممکن نہیں ہاں یہ بتانا مناسب ہے کہ ۱۹۹۱ءمیں سہ ماہی توازن مالیگاں نے ایک خصوصی نمبر نکالا تھا جس کی ضخامت296 صفحات ہے اس میں ملک کے معروف ناقدین نے فضا کی شاعری کا مختلف جہات سے جائز لیا ہے۔ فضا کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی کے مقالے ان کی زندگی ہی میں لکھے گئے۔ ڈاکٹر شفیع صاحب بنارس یونیورسٹی سے اور اندور سے ڈاکٹر حدیث انصاری نے آپ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ اول الذکر مقالہ 2001ءمیں شائع بھی ہو چکا ہے۔
خلاصہ کلام:
فضا صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی غزلوں میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں ایک خامی یہ ہے کہ عربی و فارسی اور مشکل الفاظ کی بھر مار نے ان کی شاعری کو عوام سے دور کر دیا۔ انہی مشکل الفاظ کی وجہ سے ان کی شاعری میں نغمگی کی کمی پائی جاتی ہے جہاں فضا نے اس حصار کو توڑا ہے وہاں ان کا اصلی جوہر کھل کر سامنے آیا ہے ،خاص طور پر نظموں میں ۔فضا کی مشکل پسند ہی ہے کہ ان کے سبھی مجموعہ کلام کے نام سہ حرفی ہیں۔ ’سفینہ گل‘،’ سبزہ معنی بیگانہ‘، ’دریچہ سیم سمن ‘اور ’پس دیوار حرف ‘وغیرہ۔ فضا کے کل آٹھ مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں ان میں سے بعض مجموعے کئی یونیورسٹیز میں داخل نصاب ہیں۔فضا کے یہاں تصوف کے مضامین نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اہلحدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے یہ بات مشہور و معروف ہے کہ اہل حدیث اور تصوف میں بعد المشرقین کا فرق ہے،ہاں ،دینی مضامین کی کثرت ہے بلکہ ایک مجموعہ کلام ’سر شاخ طوبی ‘عشق نبی میںڈوب کر لکھا گیا نعتیہ مجموعہ کلام ہے۔
اس مقاله كا خاتمه فضا هى کے ايك شعر سے كرتا هوں
مجھ سے ملنا ہو تو پھر میری کتابیں دیکھنا
ہرورق پر عکس اپنا چھوڑ کر جاں گا میں
٭٭٭٭
٭٭٭