منگل، 5 نومبر، 2013

فرقہ وارانہ فسادات: مسلمان بھی اپنا محاسبہ کریں...

0 تبصرے


مظفر نگر کے حالیہ فسادات نے ایک بار پھر فرقہ وارانہ فسادات کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ فسادات کے اسباب وعلاج پر بحث ہورہی ہے۔ فرقہ وارانہ مخالف بل کو پاس کرنے کے لئے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ عام طور پر فسادات کے اسباب ہندو فرقہ پرستی میں تلاش کیے جاتے ہیں ۔ہندوستان کے تناظر میں یہ بات ایک حد تک صحیح بھی ہے مگر کیا مسلمان اس کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ میری بات بہت سارے لوگوں کو ناگوار لگے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں مسلمانوں کو بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ انہیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ برادران وطن کی ایک بڑی تعداد ان سے نفرت کرتی ہے۔مسلمانوں کے ساتھ لین دین کرنا تو دور کسی مسلم کا نام آتے ہی ان زبان پر گالی آجاتی ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ تالی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔




انٹرنیٹ پر سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹوں پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سیلاب ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جھلک دیکھنی ہو تو کسی ایسی ویب سائٹ پر جائیں جہاں خبروں پر قارئین کو آزادانہ رائے پیش کرنے کی آزادی ہو۔ وہاں پر اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے کوئی بھی خبر کھول کر اس پر قارئین کے تبصرے پڑھیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کوئی بھی مسلمان ان تبصروں کی زبان کو دیکھ کر مشتعل ہوجائے گا۔ یہ کون لوگ ہیں جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کی زبان استعمال کررہے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ملک کا نوجوان سیکولرزم پر یقین رکھتا ہے لیکن انٹرنیٹ پر نفرت آمیز تبصرہ کرنے والا نوجوان طبقہ ہی ہے جس نے تقسیم ہند کا سانحہ نہیں دیکھا۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو بابری مسجد اور سکھ مخالف فسادات کوبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے۔

ایک زندہ قوم کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب اس پر کوئی مشکل گھڑی آتی ہے تو سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرتی ہے۔ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر نظر دوڑاتی ہے پھر باہر کی دنیامیں نظرڈالتی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے مسئلہ میں مسلمانوں کوایک زندہ قوم کو رویہ اختیار کرنا چاہئے۔



غیرمسلموں میں مسلمانوں کے تعلق سے نفرت کی سب سے بڑی وجہ نام نہاد جہادی تنظیمیں ہیں۔ یہ تنظیمیں حالات و ظروف سے بے خبر آج بھی ہزار سال پہلے کی دنیا میں جی رہی ہیں جہاں چند لوگ تلوار اٹھا کر علاقہ کی تقدیر بدل دیا کرتے تھے۔ ان تنظیموں کی بزدلانہ حرکتوں کی وجہ سے پورا عالم اسلام میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کب کہاں اور کس کا قتل ہوجائے، بم پھوٹ جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی سزا مسلم اقلیتوں مل رہی ہے۔ برادران وطن کی نظر میں مسلمان جھگڑالو قوم ہے جہاں بھی مسلمان رہتے ہیں ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔

ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عام طور پر اپنے محدود دائرے میں مگن رہتے ہیں۔ خود ہی غیر مسلموں سے دوری بنا کر رہتے ہیں۔ ایسا غیر مسلموں کے مذہب اور ان کے رسم ورواج کے بارے میں عدم واقفیت کی وجہ سے بھی ہے۔ خود اپنے دین سے عدم واقفیت کی وجہ سے مسلمان یہ سمجھتے ہیں غیر مسلموں سے دوری بناکر رکھنا ہی عین اسلام ہے۔ اس سے برادران وطن اسلام اور مسلمانوں کے بارے جان نہیں پاتے۔ اکثرایسا دیکھا گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ رہنے والے غیر مسلموں میں ان کے خلاف نفرت نہیں ہوتی ہے یا کم ہوتی ہے۔ اس وجہ سے مسلم نوجوانوں کو خاص طور پر غیر مسلموں سے میل جول پیدا کرنا چاہئے۔

ایک عام تاثر مسلموں کے تعلق سے ہم وطنوں میں یہ ہے کہ یہ ایک گندی قوم ہے۔ پہلی فرصت میں مسلمان یہ کہہ کر اپنا دامن صاف کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسلام میں صفائی کو آدھا ایمان کہا گیا ہے۔ مگر زمینی حقیقت کیا ہے؟ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں محسوس کرنی چاہئے کہ آج مسلمان واقعی صفائی پر دھیان نہیں دیتے۔ہمارا اپنا مشاہدہ ہے کہ مسلم علاقے گندگی اور غلاظت سے پہچانے جاتے ہیں۔لوگ شکایت کرتے ہیں کہ حکومت مسلم علاقوں میں صفائی پر توجہ نہیں دیتی۔ یہ بات اگر سچ بھی ہوپھر بھی مسلمانوں کی اپنی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی؟ غیر مسلم روزانہ اپنے گھر میں جھاڑو لگاتا ہے اور اپنے گھر کے سامنے کی سڑک پر بھی جھاڑو لگاتا ہے۔ اپنے گھر کے اندر بھی روشنی رکھتا ہے اور گھر کے باہر بھی راہگیروں کے لئے بلب جلا کر رکھتا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ اپنے گھر کا سارا کچڑا سڑک پر یا کسی خالی پلاٹ میں ڈال کر فرمان بنی پر عمل کرلیتے ہیں۔ کسی بھی مسلم بستی میں گھر کے سامنے بلب لگا ہوا نہیں ملتا۔ ہمارے اس رویے سے کیا برادران وطن ہم سے نفرت نہیں کریں گے؟

مسلمانوں کے اندر خدمت خلق کا رجحان بھی غیر مسلموں کے مقابلے میں کم ہے۔ مسلمانوں میں زکوۃ کا نظام ہے مگر اس کاایسابے ہنگم طریقہ مسلمانوں نے اپنا رکھا ہے کہ یہ مسلمانوں کی نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بن گیا ہے۔ گلی کوچوں میں بھکاریوں کی بھرمار ہے۔ جو نئے نئے انداز میں اداکاری کرکے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ گندگی کے بعد مسلم علاقوں کی دوسری پہچان یہی بھیک منگے ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ زکوۃ کا ایسا مربو ط نظام قائم ہوتا جس سے حقیقی حق داروں تک امداد پہنچ جاتی اور اس روپئے سے اسپتال اور دیگر رفاہی کام انجام دیئے جاتے۔ہندوستان میں اور بھی اقلیتیں رہتی ہیں لیکن تشدد کا نشانہ مسلمان ہی کیوں بنتے ہیں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ دوسری اقوام بوجھ بننے کے بجائے برادران وطن کے لئے سہولت فراہم کرتے ہیں۔ انہی کے اسکولوں میں اکثریتی فرقہ کے بچے پڑھتے ہیں۔ انہی کے اسپتال میں علاج کے لئے جاتے ہیں۔ کوئی بھی پریشانی کا وقت ہو وہ مدد کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اکثریتی فرقہ انہیں کوئی کیوں تنگ کرے گا؟ رہ گئے مسلمان ، تو وہ اپنے علاقوں میں بھی معیاری اسکول اور اسپتال نہیں کھول سکتے ،تو ان سے کیا امید کی جائے کہ دوسرے علاقوں میں بھی اسکول و اسپتال قائم کریں۔ مسلمانوں کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے۔

آج جب فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب تلاش کئے جارہے ہیں تو ہماری گذارش ہے کہ ان نکات پر بھی غور کیا جائے۔ہم دعا کرتے ہیں کہ آنے والا کل ہندوستان کے لئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ہو۔


٭٭٭٭



بدھ، 23 اکتوبر، 2013

پلاننگ کمیشن کا نیا سوشہ: طلاق کے بعد بیوی آدھی جائداد کی حق دار

0 تبصرے
کیا یہ اتفاق ہے کہ میڈیا میں اچانک ایک جیسی خبریں آنے لگتی ہیں، مثلا کچھ دنوں پہلے دہلی میں بلیو لائن بسوں کے بارے میں روزانہ اخبارات اور ٹی وی چینل تفصیلی خبریں دیا کرتے تھے ۔ معمولی سا بھی سڑک حادثہ اگر اس میں کسی بھی طرح بلیولائن کی شمولیت رہی ہو اگر چہ غلطی اس میں کسی اور کی ہو اس کو بلیو لائن کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ میڈیا کے اسی پرپیگنڈے نے بلیولائن کو کلر لائن بنادیا۔ اور بالآخر بلیو لائن کو سڑکوں سے ہٹنا پڑا۔بالکل یہی صورت حال اس وقت عورتوں سے متعلق خبروں کے بارے میں بھی ہے۔ کوئی بھی نیوز چینل کھولو اس میں عورتوں کے ساتھ چھیڑکھانی ، زبردستی اور مارپیٹ جیسے واقعات کی خبریں ملیں گی۔ کیااس سے پہلے یہ سب کچھ نہیں ہوتا رہا ہے۔ بلیولائن بسوں سے حادثے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور اسی قسم کے حادثے اب بھی روزانہ کہیں نہ کہیں ڈی ٹی سی سے بھی ہورہے ہیں۔ مگر نہ پہلے ان کی کوریج ہوتی تھی نہ اب ہوتی ہے۔
دراصل میڈیا میں کچھ لوگ ہیں جو اپنی پسند اور مرضی کے موضوعات کو اچھالتے ہیں۔میڈیا کے بارے میں جانکاری رکھنے والے بتاتے ہیں کہ بلیولائن کو ہٹانے کے لئے دہلی کے وزیر ٹرانسپورٹ نے میڈیا کے پرپیگنڈے کا سہارا لیا تھا۔ پہلے میڈیا میں اس کی تشہیر کرائی اور پھر اسی کو بہانہ بناکر ان کو سڑکوں سے ہٹایا گیا۔ دوسرے میڈیا گروپ مجبوری یا غیر محسوس طریقے سے ان کے پرپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔
آج کل عورتوں سے متعلق اس قسم کی خبروں کی بھر مار دیکھ کرلگتا ہے کہ کچھ خاص قسم کی فضا تیار کی جارہی ہے۔ ہمارا شک اس وقت یقین کی صورت اختیار کرگیا جب پلاننگ کمیشن کا بیان سامنے آیا کہ وہ جلد ہی شوہر کی پراپرٹی میں بیوی کو آدھے کا حق دار بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پلاننگ کمیشن کی سفارشات اگر مان لی گئیں تو ایسی صورت میں طلاق کی صورت میں شوہر کی پوری پراپرٹی دوحصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ اس میں سے آدھی جائداد بیوی کو دے دی جائے گی ۔ باقی میں شوہر اور اس کے رشتہ دار جیسے تیسے گذارہ کریں۔ خاص بات یہ کہ اس میں منقولہ اور غیر منقولہ جائداد میں فرق نہیں کیا گیا ہے۔
                    پلاننگ کمیشن کی مانیں تو ایسا اس لئے کیا جارہا تاکہ طلاق اور علیحدگی کے بعد معاوضے کو لے کر عورتوں کو ہورہی پریشانیوں سے نجات دلایا جائے۔ پلاننگ کمیشن کو سب سے زیادہ فکر مسلم خواتین لے کر ہورہی ہے۔ اس لیے کہ مسلم پرسنل لاء کے مطابق طلاق کے بعد عدت کے خرچ کے علاوہ کسی اور قسم کے خرچ کے لئے بیوی دعوی نہیں کرسکتی۔ قانون بن جانے کی صورت میں مسلم عورتوں کو بھی طلاق کے بعد شوہر کی جائداد کا آدھا حصہ مل جائے گا۔
اگر چہ ابھی یہ ایک سفارش ہے کوئی قانون نہیں ۔ اگر اس قانون کی مخالفت نہ کی گئی اور یہ قانون ایسے ہی پاس ہوگیا تو ہمارا خاندانی نظام اور اس کا پورا سسٹم برباد ہوجائے گا۔
شادی بیاہ صرف جسمانی ملن کا نام نہیں، بلکہ یہ دو روحوں کا ملن ہے۔ اس کو روپئے پیسے اور جائداد سے جوڑ کر دیکھنا اپنے آپ میں ایک غلط عمل ہے۔مستقبل میں ایسے واقعات بھی سامنے آئیں گے کہ لڑکی کی شادی صرف جائداد ہڑپنے کے لئے کی گئی ۔ شادی کے بعد طلاق کی عرضی داخل کی جائے گی اور ایک دو دن ساتھ رہنے کا معاوضہ لڑکی آدھے جائداد کی صورت میں وصول کرے گی۔
ابھی ایک سال پہلے پولیس نے ایک ایسی لڑکی کو گرفتار کیا تھا جو شادی کا ناٹک کرکے کئی ایک نوجوانوں کو کنگال کرچکی تھی۔ دلالوں کے ذریعہ وہ شادی کی بات کرتی اور پھر موقع پاکر گھر کے سبھی زیور اور نقدی اپنے دلالوں کی مدد سے صاف کردیا کرتی تھی۔
وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ لڑکیوں کا ایک گروہ ایسا تیار ہو جو بڑے گھرانے کے لڑکوں کو اپنے جال میں پھانسیں اور پھر ان سے الگ ہوکر ان کی جائداد کے برابر کے حق دار بن جائیں۔
دوسری بات یہ کہ پلاننگ کمیشن کو صرف لڑکی دکھائی دیتی ہے نہ لڑکا دکھتا ہے نہ اس کے ماں باپ اور بھائی بہن۔ لڑکے کو سب کی نگہداشت کرنی ہوتی ہے۔ جب آدھی جائداد لڑکی کو دے دی جائے گی تووہ اپنے ماں باپ کی نگہداشت کیسے کرے گا؟کیا خاندان میں صرف میاں اور بیوی ہی ہوتے ہیں؟ اور کوئی دوسرا رشتہ نہیں ہوتا ہے۔؟
سب سے بڑا مسئلہ لڑکوں کی تعلیم اور تربیت سے متعلق ہوتا ہے۔طلاق کے بعد لڑکے اگر شوہر کے پاس رہے تو کیا تب بھی بیوی آدھی جائداد کی حق دار ہوسکتی ہے؟
اگرچہ یہ کہا گیا ہے کہ شوہر کے ساتھ بیوی کی جائداد بھی تقسیم ہوگی مگر بیوی کی جائداد کیا ہوتی ہے؟ زیورات ، نقدی یا زمین وغیرہ عموماً وہی ہوتا ہے جو شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے۔ اگر معاملہ برابری کا ہے تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر بیوی کمارہی ہے تو طلاق کے بعد اپنے سابقہ شوہر کے اخراجات برداشت کرے۔ اسکے نان ونفقہ کی ذمہ دار ہو۔ اس لئے کہ پلاننگ کمیشن کی نظر میں دونوں برابر ہیں۔
دراصل پلاننگ کمیشن کا یہ فیصلہ خاندانوں کو توڑنے کا کام کرے گا ۔ سماج دشمن عناصر کی ہمت افزائی کا باعث ہوگا۔
صحیح بات تو یہ ہے طلاق کے بعد عورت کا عدت کی مدت کے خرچ کے علاوہ کوئی اور حق بنتا ہی نہیں ہے جیسا کہ اسلام کا فیصلہ ہے۔اس لئے کہ شوہر اپنی بیوی کو خرچ اس وجہ سے دیتا ہے کیوں کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ طلاق کے بعد جب وہ بیوی ہی نہیں رہی تو ایسی صورت میں وہ خرچ کی حق دار کیوں کر ہوسکتی ہے؟اور جہاں تک رہی بات یہ کہ عورت طلاق کے بعد کھائے گی کیا ؟ تو اس کی ذمہ داری ماں باپ پر ہے۔ اسلام نے عورت کو لڑکے کی طرح جائداد کا وارث بنایا ہے۔ بچوں کی پرورش اس کے ذمہ نہیں رکھا گیا ہے اس وجہ سے اس کو صرف اپنے اوپر ہی خرچ کرنا ہے۔ ایسے میں اسلام کو عورت کا مخالف ثابت کرنا بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اپنی ذمہ داری (یعنی لڑکی کو وراثت میں حصہ دینا ) سے بچنا چاہتے ہیں اور ناجائز طور پر وہ سابقہ شوہر سے لینا چاہتے ہیں۔


مذکورہ قانون اپنی تمام قباحتوں کے ساتھ مسلم پرسنل لاء میں صریح مداخلت ہے، جس کی قانون قانون ہند میں ہمیں ضمانت دی گئی ہے۔اس وجہ سے اس قانون کی بڑے پیمانہ پر مخالفت ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ ہم سوئے رہیں اور جب بیدار ہوں تو معلوم ہو کہ اب دیر ہوچکی ہے۔

ٹکٹوں کی کالابازاری، دلال مالامال، مسافر پریشان

0 تبصرے
مئی جون میں اسکولوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان دو مہینوں میں لوگ اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں گذارنے اپنے گاؤں یا شہر کا رخ کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے گرمیوں میں ٹرینوں میں بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔ ایک دو اضافی ٹرینوں سے بھی یہ بھیڑ مسئلہ کا حل نہیں ہوپاتا ہے۔ گرمی کی چھٹیوں کے لیے ریزرویشن ٹکٹ پانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔ ریلوے کے نئے قانون کے مطابق نوے دن پہلے ریزرویشن ٹکٹ لیا جاسکتا ہے۔ آج کل حالت یہ ہے کہ ٹکٹ کاونٹر کھلنے کے ایک دو گھنٹہ کے اندر ہی ساری سیٹیں ختم ہوجاتی ہیں۔پہلے ایسا تتکال ٹکٹوں کے لئے ہوتا تھا اب عام ریزرویشن ٹکٹوں کا بھی یہی حال ہوگیا ہے ، یہ حالت خاص طور پر شمالی ہند کی طرف جانے والی ٹرینوں میں ہے۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ سارے ٹکٹ جاتے ہیں۔ آسان سا جواب ہے کہ یہ سب دلالوں کی جھولی میں جاتا ہے۔
                    دراصل گرمی کی چھٹیوں میں ٹکٹ کے لئے مارا ماری کو دیکھتے ہوئے دلال پہلے ہی سارے ٹکٹ بک کرلیتے ہیں ۔ عام آدمی کو چھٹی سے ایک مہینہ ٹکٹ کا خیال آتا ہے ، اس وقت تک سارے ٹکٹ ختم ہوچکے ہوتے ہیں ، اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ دلالوں کے پاس جائے اور کئی گنا زیادہ قیمت پر ان ٹکٹوں کو خریدے۔ تعجب یہ ہے کہ یہ سارا کام انتظامیہ کے ناک کے نیچے ریلوے اسٹیشنوں کے ارد گرد بیٹھے ٹریول ایجنٹ ڈھڑلے سے کر رہے ہیں ۔ ریلوے انتظامیہ کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے اس کے باوجود سب کچھ برداشت ہی نہیں بلکہ کچھ کرپٹ ملازمین اس میں برابر کا حصہ وصول کرتے ہیں۔
اگر آپ کو آج ہی سفر کرنا ہے اور آپ کے پاس ٹکٹ نہیں ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، نئی دہلی اور پرانی دہلی جیسے اسٹیشنوں پر ’آج کاریزویشن ٹکٹ ، آج کا ریزویشن ٹکٹ‘ کی آواز لگانے والے دلال مل جائیں گے، ان سے رابطہ کرنے پر وہ آپ کو پاس ہی کسی ٹریول ایجنسی پر لے جائیں گے، ٹریول ایجنٹ آج ہی کے ٹکٹوں کی ایک موٹی گڈی لے کر بیٹھا ہوگا، ٹکٹ کی قیمت ضرورت مند کی ضرورت کے حساب سے طے ہوتی ہے جو کسی بھی صورت میں دوگنی سے کم نہیں ہوتی۔ جو ٹکٹ بچ جاتے ہیں ان کو واپس بھی نہیں کیا جاتا اس کے لیے یہ ایجنٹ ٹرین میں چلنے والے ٹی ٹی سے بات کرلیتے ہیں وہ ان سیٹوں کو منہ مانگی قیمت پر بیچ لیتے ہیں ۔ اس طرح دلالوں اور ریلوے کے کچھ کرپٹ ملازمین کی ملی بھگت سے عام مسافروں کے لئے ٹکٹ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں رہ گیا ہے۔
                    ریلوے  اگر واقعی چاہتی کہ دلالوں کی اس ہیرا پھیری سے مسافروں کو نجات دلائیں تو اس کے لیے انہیں سخت قدم اٹھانے ہوں گے۔ اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے تمام ریزرویشن ٹکٹوں کے لئے شناختی کارڈ کو لازمی کردیا جائے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے تتکال ٹکٹوں کے لئے شناختی کارڈ کو ضروری قرار دیا گیا تھا یہ ایک اچھا قدم ہے اس سے فرضی ناموں پر ٹکٹوں کی خرید اور فروخت پر لگام لگے گی۔ آج کے زمانے میں کم ہی لوگ ہوں گے جن کے پاس کسی بھی قسم کا شناختی کارڈ نہ ہو۔


                    دوسرا کام یہ کیا جاسکتا ہے کہ ریزرویشن کی مدت تین مہینہ سے کم کرکے دو مہینہ کردیا جائے۔میری اپیل ہے کہ جلد ہی مذکورہ تدابیر یا اس کے علاوہ جو بھی ماہرین کامشورہ ہو اپناکر مسافروں کو دلالوں سے نجات دلائیں۔ امید کہ محترمہ ممتا بینرجی جلد اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں گی۔