ہفتہ، 3 ستمبر، 2011

انا ہزارے کی تحریک۔ میڈیا کا پیپلی لائیو شو

0 تبصرے
اگست کےنصف آخر میں دہلی میں صرف ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی، ۔ سڑک مارکیٹ گلی کوچے ہر جگہ بس انا، انا کا  نعرہ تھا۔ ہرجگہ سے تھک ہار کر گھر پہنچ کر جب ٹی وی آن کرکے کچھ سکون حاصل کرنا چاہتا تو وہاں بھی وہی شوروشرابا۔ اللہ بھلاکرے ان ٹی وی والوں کوکہ انہوں نے تو گویا اپنے سبھی رپورٹروں کو اسی کام پر لگادیا تھا کہ صرف اناکی خبر ارسال کرو، کسی گلی میں دو چار لوگوں نے جمع ہوکر نعرہ لگایا کہ ٹی وی پر اس محلہ اور علاقہ کا نام انا جی کے سپورٹروں میں آگیا۔ 
اگر ہم اس تحریک کی کامیابی کا نوے فیصد کریڈٹ ٹی وی اور اخبارات کو دیں تو بے جانہ ہوگا۔ جہاں تک ٹی کی رسائی تھی وہیں تک انا کی آندھی تھی، اس کے باہر سب کچھ سونا سا تھا۔ میں نے جب اپنے گاوں بلرام پور ضلع میں اس تحریک کے بارے میں جاننا چاہا تویہ جان کر تعجب ہوا کہ یہاں اکثر لوگوں نے انا کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ میڈیا نےاس تحریک کے لئے جو کچھ کیا اس کو دیکھ کر پیپلی لائف یاد آگئی جو عامر خان کی ایک بہت اچھی فلم تھی۔
  کاش میڈیا ان لوگوں پر بھی توجہ دیتا جو گیارہ گیارہ سالوں سے بھوک ہڑتال پر زندگی اور موت کے درمیان جوجھ رہے ہیں۔ وہ کہیں اور نہیں دہلی میں جنتر منتر پر ہی ہیں۔ وہ بھی انسان ہیں، اگر ان کے پاس وسائل نہیں تو یہ کام میڈیا کرسکتا ہے۔
           دوسری بات یہ کہ اس پورے معاملہ میں انا جی صرف ایک مکھوٹا تھے، وہ وہی کرتے تھے جو کیجری وال اور کرن بیدی کہتی تھیں۔ ایسے میں انا جی کو اس تحریک کا قائد کیسے کہا جاسکتا ہے۔؟
            مسلمانوں نے اگرچہ اس تحریک میں اوروں کی طرح حصہ لیا مگر اکثر مسلمان انا کے بارے میں تذبذب کا شکار رہے، اردو اخبارات ہمیشہ شک کا اظہار کرتے رہے۔ ایسا وندے ماترم ، دوسرے نعروں کی وجہ سے بھی ہوا۔ دوسری بات یہ اس تحریک میں بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ پیش پیش تھے مسلمان بے چارہ دودھ کا جلا کیا کرے گا کہنے کی ضرورت نہیں۔
           انا جی پی ایم کو تو لوک بال سے باہر رکھنے پر راضی نہ ہوئے مگر ججوں کے معاملے میں راضی ہوگئے۔ آخر ایسا کیوں؟ سپریم کورٹ نے الہ باد ہائی کورٹ کے بارے میں ابھی جلد ہی کہا ہے اوپر سے نیچے تک سب کچھ سڑ چکا ہے۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ بعض ضلع کے جج تو باقاعدہ ریٹ طے کر رکھے ہیں۔ ایسے میں ان کو الگ کرنے پر انا راضی کیسے ہوگئے؟
          میرے خیال میں صدر،وزیر اعظم چیف اور جسٹس آف انڈیا کے علاوہ ہرایک کو اس کے دائرے میں آنا چاہئے۔ ان تینوں کو اس لئےنہیں کہ یہ بہت ہی باوقار عہدے ہیں۔ انہیں آزادانہ طورپر کام کرنے دینا ملک کے حق میں ہے۔
         
       میں اس تحریک کا حامی تو ضرور تھا مگر اندر سے خائف بھی کہ کہیں یہ آر ایس ایس کا ہی دوسرا روپ نہ ہو، اب جب کہ انا جی کی تقریبا ساری باتیں مان لی گئی ہیں مجھے یہ ڈر ستا رہا ہے کہ کہیں یہ بل ہمارے سیاسی نظام کے ضروری جز چیک اینڈ بیلنس کو بگاڈ نہ دے۔
       ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اس تحریک کی کامیابی سے شعلے اسٹائل کی تحریکوں کا دور نہ شروع ہوجائے۔ یعنی میری باتیں سو فیصدی تسلیم کی جائیں ورنہ میں اپنی جان دے دوں گا۔ جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی بات رکھنے کا حق ہے، مگر یہ اختیار کسی کو نہیں ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کرے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہی صحیح ہے باقی سب غلط ہے۔
اللہ کرے کہ خیر ہو اور ملک ترقی کرے۔