بدھ، 22 نومبر، 2017

جہیز مخالف قانون کا بے جا استعمال، کب ختم ہوگا یہ اندھا قانون

2 تبصرے

جرائم کی روک تھام کے لئے حکومت خصوصی قوانین بناتی ہے، اس کا مقصد تو جرم کی دنیا پر ایک کاری ضرب لگانا ہوتا ہے مگر عموما ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ان قوانین میں ایجنسیوں کو کچھ اس قسم کی مراعات دے دی جاتی ہیں جن کی وجہ سے یہ قوانین خود انسانیت کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ٹاڈا، پوٹا اور اسپشل آرم ایکٹ اسکی واضح مثالیں ہیں۔ آج یہی صورتحال جہیز مخالف قانون کی ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں، سرکردہ شخصیات سے لے کر سپریم کورٹ تک نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس قانون کا بے جا استعمال ہورہا ہے ، سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں مرکز سے اس قانون میں ترمیم کرنے کے لیے کہا ہے۔ ایک لمبے عرصہ سے اس قانون کے خلاف آواز یں اٹھ رہی ہیں مگر سرکار اس میں ترمیم کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کرتی نظر نہیں آتی۔
 جہیز کے لئے لڑکیوں کے ستائے جانے اور جان سے ماردینے کی وارداتوں کی روک تھام کے لئے یہ قانون بنایا گیا تھا۔ اس میں جہیز مانگنے ،لینے اور دینے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔یہ ایک غیر ضمانتی جرم ہے، ایک ایسا جرم جس کی کم ازکم سزا تین سال کی قید ہے۔ یہ قانون جہیز کے بڑھتے لین دین پر قدغن لگانے میں کس حد تک کامیاب ہوا یہ سب کے سامنے ہے۔ اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔قانون کسی کے خلاف کاروائی اسی صورت میں کرے گا جب کسی فریق کی طرف سے شکایت درج کرائی جائے گی۔ اور شکایت عام طور پر شادی کے ٹوٹنے کے بعد یا کسی اور اختلاف کے وقت ہی ہوتی ہے۔
اخبارات میں میں تقریبا ہر روز جہیز سے متعلق خبردیکھنے کو ملتی ہے۔ ان خبروں پر غور کیا جائے تو حیرت انگیز طور پر ان میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ مضمون کچھ اس طرح ہوتا ہے۔’’ فلاں لڑکی کی شادی فلاں لڑکے سے ہوئی تھی ، شادی کے وقت ہی سے لڑکے والے جہیز سے خوش نہیں تھے وہ اور جہیز کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مطالبہ پورا نہ ہونے پر لڑکے کے گھروالے لڑکی کو ذہنی اور جسمانی اذیت دینے لگے۔ لڑکی نے اس کی شکایت اپنے ماں باپ سے کی انہوں نے لڑکے کے گھر والوں کو سمجھایا۔ اس کے بعد بھی سسرال والے نہیں مانے اور لڑکی کو منہ مانگی جہیز نہ لانے کی پاداش میں گھر سے نکال دیا۔‘‘

لڑکی کی طرف سے تھانے میں صرف شکایت کرنے کی دیر ہے، اس کے بعد ہماری پولیس سارا معاملہ آنا فانا اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ سسرال والوں کو ملک کے کونے کونے سے اکٹھا کرکے جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ اس میں حاملہ اور بوڑھے معذور لوگوں کی بھی رعایت نہیں کی جاتی۔ اس قانون نے عورت کو اتنی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ دو سال کے بچے کو بھی نامزد کرسکتی ہے کہ وہ مجھے پریشان کر رہا ہے۔
اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ عام طور پر کوئی عورت جب اپنے شوہر اور اس کے رشتہ داروں کو اس کیس میں ملوث کرتی ہے تو گھریلو تشدد کے قانون کو بھی اس کے ساتھ شامل کردیتی ہے۔ حالانکہ دونوں کا مقصد الگ اور پس منظر بھی الگ ہے۔
اس قانون کی کا فائدہ حقیقی مستحقین کو ہوا ہی نہیں سماج دشمن عناصر ہی نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ کئی معاملوں میں لڑکی کا معاشقہ کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے شوہر کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہیں پیدا کرپاتی۔ بجائے اس کے کہ وہ کوئی اور راستہ ڈھونڈے پورے گھر والوں کو جہیز قانون اور گھریلو تشدد کے جھوٹے کیس میں پھنسا کر پورے خاندان کی زندگی خراب کردیتی ہے۔
ایک گھر میں رہتے ہوئے معمولی کہا سنی ایک معمولی بات ہے۔ عام کہاوت ہے کہ جہاں دو برتن ہوں گے وہاں بجیں گے ہی۔ لیکن اس قانون کے آتے ہی گھروں کی دوستانہ فضا مکدر ہوکر رہ گئی ہے، نند اور ساس سے معمولی کہا سنی ہوتے ہی لڑکی تھانے میں پہنچ کر گھریلو تشد اور جہیز مانگنے کی رپوٹ لکھانے پہنچ جاتی ہے۔ پہلے جو بات آپس میں سلجھ جایا کرتے تھے وہ اب کورٹ اور کچہری تک پہنچ رہے ہیں۔ ان سب کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ خاندان ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادیاں ٹوٹنے کا ریشو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ کوئی بھی شوہر کبھی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ وہ اس لڑکی کو دوبارہ اپنے گھر لائے جس نے گھریلو معاملے کو کورٹ میں اچھال کر ، جھوٹے کیس میں پھنسا کر پورے خاندان کی عزت ، وقت اور پیسے کو برباد کیا۔ بعد میں یہی لڑکیاں افسوس کرتی ہیں مگر اس وقت سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
کئی دفعہ لڑکی والے عیب چھپاکر شادی کردیتے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکے والے اگر کچھ کہیں گے تو جہیز مخالف قانون کا سہارا لے کر اس کو خاموش کردیا جائے گا۔ میرٹھ کے رہنے والے اسرار کی شادی فاطمہ نام کی لڑکی سے ہوئی۔ شادی کے ایک مہینہ بعد معلوم ہوا کہ لڑکی دل کی مریض ہے۔ اس نے یہ بات لڑکی کے والدین سے کہا تو انہوں نے کہا کہ اسے یہ بیماری پہلے نہیں تھی تمہارے گھر جاکر ہوئی۔ حالانکہ لڑکی نے خود اقرار کیا کہ اس کے دل کا وال خراب تھا ڈاکٹر آپریشن کرنے کو کہہ رہے تھے۔ اب اسرار کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ وہ دل کی مریض فاطمہ کو اپنے رشتے میں باقی رکھے یا طلاق دے دے۔ بہرحال اس نے طلاق دینے کا فیصلہ کیا ۔ لڑکی والوں نے اسرار اور اس کے پورے گھر والوں پر جہیز مانگنے کاجھوٹا کیس کردیا۔ پورا گاؤں اس بات سے واقف ہے کہ طلاق کیوں ہوئی مگر چونکہ مقدمہ کردیا گیا اس وجہ سے پہلے گرفتاری سے بچنے کے لیے اسرار کو ہائی کورٹ سے اسٹے لینا پڑا اور پھر ضلع کورٹ سے اپنے پورے گھر والوں کی ضمانت کرانی پڑی ۔ گواہی اور ثبوت تو بہت بعد کی چیز ہے۔ وہاں تک معاملہ پہنچتے پہنچتے سال دوسال گذر جائیں گے۔
لکھنؤ کے دیپک کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہے۔ اس کی شادی لکھنؤ ہی میں ہوئی ، لڑکی ایک کمپنی میں کام کرتی ہے، اور دیپک خود حیدرآباد میں ایک سرکاری آفس میں ملازم ہے۔ شادی کے بعد لڑکی اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی تھی اس کے فون کال نہیں رسیو کرتی تھی، اس کے ماں باپ کو پریشان کرتی تھی، دیپک کو معلوم ہوا کہ اس کا آفس ہی کے کسی کڑکے کے ساتھ معاشقہ ہے اس نے لڑکی کو سمجھانا چاہا مگر وہ نہ مانی، بالآخر اس نے طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا۔ لڑکی کے گھر والوں نے اس پر اور اس کے پورے گھر والوں پر جھوٹا جہیز اور گھریلو تشدد کا مقدمہ کردیا۔ بے چارے ماں باپ ناحق جیل گئے اور دیپک کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہیں پر معاملہ ختم ہوجائے تو بھی کوئی بات نہیں اس کو پوری زندگی اس لڑکی کو رہائش اور خرچ بھی دینا پڑے گا۔
اگر کسی کو شکایت ہے کہ فلاں شخص جہیز کا مطالبہ کر رہا ہے تو اس سے اپنی لڑکی کی شادی ہی نہ کرے، اور اگر وہ اپنی لڑکی کی شادی کر رہا ہے تواس کا مطلب یہ کہ وہ خود جہیز کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے پہلے تو شادی کردی جاتی ہے اس کے بعد جب کسی قسم کا اختلاف ہوتا ہے تو لڑکے اور اس کے گھر والوں سے بدلہ لینے کے لئے اس کو جھوٹے جہیز کے کیس میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ قانون لڑکے کے گھر والوں سے بدلہ لینے کا ایک مؤثر ہتھیار بن گیا ہے۔
                    جہیز مخالف قانون بنایا گیا تھا لڑکیوں کی حفاظت کے لئے مگر اس کی وجہ سے سب سے زیادہ عورتوں کو ہی اذیت پہنچائی گئی ہے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ جہیز مانگنے کی شکایت کی گئی ہو اور لڑکے کی ماں اور بہن کا نام نہ لیا گیا ہو۔ کیا سبھی واقعات میں ماں اور لڑکے کی بہن ملوث ہوتی ہے؟ ارن اور جے مالا نے کورٹ میرج کی جس کی وجہ سے ارن کو اس کے گھر والوں نے گھر سے بے دخل کردیا ۔ وہ دونوں ایک کمپنی میں کام کرتے تھے اور اپنے گاوں سے دور ایک شہر میں رہتے تھے کسی بات پر ان دونوں میں کہا سنی ہوئی تو جے مالا نے لڑکے اور اس کے ماں باپ کے خلاف پولیس میں جہیز مانگنے اور اس کے لئے ذہنی اور جسمانی تشدد کرنے کی رپوٹ لکھا دی، ارن لاکھ کہتا رہا کہ وہ گھر سے بے دخل ہے اس کے ماں باپ اس سے ملنے بھی نہیں آتے مگر پولیس نے ایک بھی نہیں سنی ۔ اس کے ماں باپ اور خود ارن کو پولیس نے جیل نے اندر ڈال ڈیا۔ یہ ہے جہیز مخالف قانون کا استعمال۔ چونکہ لڑکی والوں کا مقصد لڑکے والوں کو سبق سکھانا ہوتا ہے اس وجہ سے لڑکے کی والدہ اور اس کی بہنوں کو خاص طور پر نامزد کیا جاتا ہے۔
وکیلوں کی چونکہ روزی روٹی اسی سے جڑی ہوتی ہے اس وجہ سے کس طرح کس کو پھنسایا جائے جھوٹا مقدمہ کس طرح بنایا جائے یہ سارے گُر وہ لڑکی والوں کو بتادیتے ہیں۔
اس قانون کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ محض لڑکی کی شکایت ہی کو بنیاد بناکر آپ کو مجرم مان لیا جاتا ہے، لڑکی کی یہ ذمہ داری نہیں ہوتی ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ واقعی اس کو تشدد کا نسانہ بنایا گیا بھی یا نہیں، یہی نہیں اس قانون کی ایک اور خرابی ہے کہ یہ غیر ضمانتی ہے، یعنی اگر کسی کی بیوی اگر اس کے خلاف جہیز مخالف قانون کا سہارا لے کر شکایت کردے تو اس کے لئے جیل جانے سے بچنے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ ہائی کورٹ سے جاکر گرفتاری پر اسٹے آرڈر لے کر آئے۔
غیر سرکاری تنظیمیں اور خود سپریم کورٹ اب مان رہا ہے کہ اس قانون کا بے جا استعمال ہورہا ہے، مگر معلوم نہیں کیوں حکومت اس میں بدلاو ٔ کرنے کو تیار نہیں۔ ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوے فیصد سے زائد جہیز کے مقدمات فرضی ہیں۔ اگر حکومت اس قانون میں بدلاو ٔ نہیں کرتی تو اسی طرح خاندان ٹوٹتے رہیں گے۔ بے گناہ نوجوان اپنا قیمتی وقت عدالتوں میں برباد کریں گے۔ کیا اب بھی حکومت کو کسی چیزکا انتظار ہے؟

اتوار، 5 نومبر، 2017

پسماندہ طبقات کے اشرافیہ کو ریزرویشن کیوں؟

0 تبصرے

آئین ہند کے معماروں نے معاشرہ کے تمام طبقات کے ساتھ برابری کا برتاؤ کیا ہے ۔ معاشرہ کے وہ طبقات جو صدیوں سے دبے کچلے چلے آرہے ہیں ان کے لیے ریزرویشن کی رعایت دی ہے ۔ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں ان کے لیے نششتیں محفوظ کی گئیں، فیس اور عمر کی حد میں رعایت دی گئی۔ ان مراعات کی وجہ سے پسماندہ اور دلت سماج کی ایک بڑٰی تعداد نے اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ پاکر اعلی تعلیم حاصل کرلیا اور اس کی بنیاد پراعلی سرکاری عہدوں پر بھی فائزہوگیے ۔ تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں ہی میں پسماندہ طبقات کو رعایت ہی نہیں دی گئی اس کا دائرہ بڑھا دیا گیا اور ترقی میں بھی انہیں ترجیح دی جانے لگی۔ ایک عرصہ تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ غریب اور دبے لوگ آگے آتے گیے لیکن دھیرے دھیرے پسماندہ طبقات میں بھی ایک اشرافیہ طبقہ پیدا ہوگیا۔ یہ وہ طبقہ ہے تھا جس کو سب سے پہلے ریزرویشن کا فائدہ ملا۔ ان لوگوں نے سرکاری رعایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلائی اور اعلی نوکریوں پر انہیں فائز کرادیا۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سرکاری نوکری ایک عام آدمی کے لیے ایک خواب ہے وہاں ان کے گھر اور خاندان کا ہر فرد کسی نہ کسی اعلی عہدہ پر فائزہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ گھر اور خاندان مالی لحاظ سے متمول ہوگیا لیکن پسماندہ طبقہ کا لیبل ہونے کی وجہ سے انہیں اب تک رعایت مل رہی ہے ۔ اس رویہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ جن مقاصد کے لیے ریزرویشن کا نفاذ ہوا تھا دھیرے دھیرے وہی فوت ہوتا جارہا ہے ۔ پسماندہ طبقات کے لیے دی گئی ساری رعایتوں کا سیدھے فائدہ پسماندہ طبقات کے اشرافیہ کو مل رہا ہے ۔ عام پسماندہ طبقہ کے افراد جو دبی کچلی حالت سے نکلنے کے اپنے پر تولتے ہوئے باہر نکلتے ہیں تو ان کا سامنا خود ان کے اپنے طبقہ کے اشرافیہ سے ہوتا ہے ۔ مستحق ہونے کے باوجود انہیں ان کا حق نہیں مل رہا ہے ۔
آئین ہند کے معماروں نے انگریزوں کے ذریعہ نافذ کیے گیے ریزرویشن کو اس لیے باقی رکھا تھا تاکہ سماج کے وہ طبقات جو صدیوں سے دبے کچلے چلے آرہے ہیں وہ بھی سماج کا حصہ بن سکیں۔ سماج میں انہیں بھی اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا موقع ملے ۔ انہوں نے مذہبی بنیاد پر نہ تو ریزرویشن دیا اور نہ مذہب کی بیناد پر کسی کو ریزرویشن سے منع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو بھی شیڈول کاسٹ کا ریزرویشن دیا جاتا رہا۔ بعد میں پنڈٹ نہرو کے دور حکومت میں صرف ہندؤوں کو ہی اس کا فائدہ دینے کا صدارتی ریفرنس آیا جس میں بعد میں بدھسٹوں اور سکھوں کوبھی شامل کرلیا گیا۔ لیکن مسلمانوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔ یہ آئین ہند کے ساتھ سراسر کھلواڑ تھا لیکن مسلمان ایک عرصہ سے اس گھونٹ کو برداشت کرتا رہا ہے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسی پیشہ سے وابستہ افراد کو ساری رعایتیں ملتی ہیں لیکن مسلمانوں کو نہیں؟
ایک عرصہ سے آواز اٹھتی رہی ہے کہ ریزرویشن کی بنیاد کیا ہونی چاہیے ؟ پسماندگی یا ذات برادری؟ اور اگر مذہبی بنیاد پر ریزرویشن دیا جائے تو مسلمانوں کو کیوں نہیں جن کے بارے میں سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ دلتوں سے بھی پچھڑے ہیں۔ اور اگر مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینا غیر آئینی ہے تو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن سے روکنا بھی غیر آئینی ہے ۔ آخر اس کے خلاف آواز کیوں نہیں بلند کی جاتی۔
ہم ایک مرتبہ پھر اپنے موضوع پر آتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے والے پسماندہ طبقات کے اشرافیہ نے ریزرویشن کے فوائد کا دورازہ دوسروں کے لیے بند کردیا ہے ۔ اس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ حقیقی مستحقیق کو ان کا حق نہیں مل رہا ہے ۔ اس وجہ سے اس قانون میں تبدیلی کرکے پسماندہ طبقات میں سے کریمی لیئر کو الگ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں بہار میں نتیش کمار نے ایک اچھی پہل کی ہے انہوں نے پسماندہ طبقات کو دو زمروں میں تقسیم کردیا ہے ۔ ایک پسماندہ دوسرا انتہائی پسماندہ طبقہ۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے بھی ذات برادری کو ہی معیار مانا ہے ۔ کیا ضروری ہے کہ کسی ذات سے تعلق رکھنے والے سبھی لوگ انتہائی پسماندہ ہوں؟ ایسا بھی ہوسکتا ہے اسی ذات کے کچھ لوگ بڑے سرکاری عہدوں پر ہوں، بڑے تاجر ہوں۔ مرکزی یا ریاستی وزیر ہو۔ ایک انتہائی پسماندہ زمرہ سے تعلق رکھنے والے وزیر کے لڑکے کو بھی ریزرویشن کا فائدہ مل جاتا ہے لیکن دوسرا لڑکا جو صرف پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتا ہے اور غریب بھی لیکن اس کو فائدہ نہیں ملتا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پسماندہ طبقات میں کریمی لیئر کا معیار ذات پات کے بجائے مالی حالت کو بنایا جائے ۔ ماں یا باپ کے کسی اعلی عہدے پر فائز ہونے پر اس کے بیٹوں کو وہ رعایت نہ دی جائے جو صرف غریب اور واقعی پسماندہ لوگوں کا حق ہے ۔ اس طرح پسماندہ طبقات کے لیے دی جانے والی رعایتوں کا فائدہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے گا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ریزرویشن کی ایک میعاد ہونی چاہئے ۔ ہر پانچ سال کے وقفہ میں اس کی جانچ ہونی چاہیے کہ اس کا فائدہ واقعی پہنچ رہا ہے یا نہیں۔ اور متعلقہ طبقات کی سماجی اور مالی حالت درست ہوئی یا نہیں جن طبقات کی حالت میں سدھار آجائے اسے ریزرویشن کے زمرہ سے خارج کیا جائے جو واقعی مستحق لوگوں کا حق ہے۔ ورنہ کہاوت ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑی اور گھوم گھوم کر اپنوں کو دے ۔

عزیر اسرائیل
شعبۂ اردو دہلی یونی ورسٹی
9210919540

پس