اتوار، 7 جنوری، 2018

شکنجہ (افسانہ)

0 تبصرے

 پنکی اور منکی کی طرح مسکان کی پیدائش پرپھر گھر میں طوفان برپا ہوا، سلمہ کو اسی بات کا اندیشہ پہلے سے  تھا۔ مگر وہ کربھی  کیا کرسکتی تھی۔ لڑکی یا لڑکے کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں کہاں تھا۔ مگر دین محمد کو کون سمجھا ئے۔ جب بھی اس کے یہاں لڑکی ہوتی تو وہ سارا غصہ سلمہ پر اتارتا۔ اسے لگتا تھا کہ اس میں ساری خطا سلمہ کی ہی ہے۔ کچھ دنوں کے ہنگامے کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا ۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ویسے دین محمد کو اپنی بیوی سے بہت پیار تھا۔ وہ اس کو اپنے گھر بڑے ارمانوں سے لایا تھا۔ تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود اب بھی وہ جوان لگتی تھی۔ غریبی کی وجہ سے اچھے کھانے اور کپڑے کے بارے میں تو سوچنا ہی گناہ تھا۔ دین محمد کی آمدنی کا واحد ذریعہ ایک بھیںس تھی جو اس کا باپ ورثہ میں چھوڑ گیا تھا۔ دودھ میں پانی ملانے کے بعد بھی کل ملاکر چار کلو دودھ ہوتے تھے۔ سارا دودھ وہ لے جاکر گاؤں کے باہر چائے کےہوٹل پر دے آتا تھا۔ اس کے اپنے بچے دودھ کے لئے ترس جاتے تھے مگر ان کے لئے دودھ نہیں بچا پاتا تھا۔ ادھر کئی دنوں سے بھینس نے بھی دودھ دینا کم کردیا تھا۔ شاید وہ اب بوڑھی ہوگئی تھی۔ دین محمد کے گھر والوں کا پیٹ پالتے پالتے اس کا تھن بھی سوکھنے لگا تھا۔
 جب یہ دودھ دینا بند کردے گی، یا مرجائے گی تو کیا ہوگا؟
 اس نے سوچا، دوسری لے لیں گے
اس نے اپنے آپ کو تسلی دینی چاہی ۔ مگر پھر خیال آیا کہ اس کے لئے بھی تو پیسے چاہئے ۔
 اس کے پاس دودھ بیچنے کے بعد جو پیسے آتے ہیں وہ دال چاول کے لئے بھی پورے نہیں ہوتے تھے۔ وہ تو دوکان والے کا احسان ہے کہ وہ دین محمد کو ادھار پر سامان دے دیا کرتا تھا۔ ورنہ اس گاوں میں اسے کوئی ادھار کے نام پر پھوٹی کوڑی بھی دینے کو تیار نہیں۔ 
پچھلی بار اس نے گوشت کب کھایا تھا۔ اس نے ذہن پر زور ڈالا، اسے یاد آیا پچھلے برسات میں جب شبراتی کی بکری کو کالرا ہوگیا تھا اور وہ مرنے لگی تھی تو اس نے اسے کاٹ کر اس کا گوشت اونے پونے دام پر بیچ دیا تھا۔
شبراتی دین محمد کے پاس بھی آیا تھا :
’’ دین محمد ، اچھا موقع ہے ، گھر کی پالتو بکری تھی، تھوڑی بیمار ہوئی تو کیا ہوا ، اس سے گوشت پر کیا فرق پڑتا ہے۔ تھوڑا سا گوشت تم بھی لے لو۔ ایسا موقع پھر نہیں ملے گا‘‘
اپنی مالی حالت کا حوالہ دے کردین محمد نے اپنا معذرت کرنی چاہی ۔ مگر شبراتی نے اسے یہ کہہ کر راضی کرلیا کی پیسے ابھی نہیں تو کہا ہوا جب ہونگے تو دے دینا۔ گوشت وہ بھی ادھار، کل کس نے دیکھا ہے۔ اس دن اس نے جی بھر کے گوشت کھایا تھا۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ بکری بیمار تھی یا تندرست۔ کہیں گوشت میں کوئی فرق ہوتا ہے؟
گوشت کی یاد آتے ہی اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ کیا مزے دار گوشت تھا۔
اس نے سوچا کہ اگر اس کی بھیںس بھی مرنے لگی تو اس کو کاٹ کر شبراتی کی طرح اس کا گوشت بھی گاؤں میں بیچ دے گا۔ پھر اس کو خود اپنے اوپر ہنسی آئی۔ کیا بھلا کوئی بھیںس کا گوشت خریدے گا؟ شبراتی کی بکری کی بات الگ ہے۔ کہاں بکری اور کہاں بھیںس ۔ تو کیا اسے وہ اسی طرح مرنے دے گا ؟
بھینس کی یاد آتے ہی وہ دوڑ کر بھیںس کے پاس گیا۔ وہ صحیح صلامت تھی۔ وہ دیر تک اس کی پیٹھ اور منہ سہلاتا رہا۔ بھیںس بھی دین محمد کا ہاتھ چاٹنے لگی۔
پھر ایک دن اس کی بھیںس نے دودھ دینا بند کردیا ۔ بیماری کی وجہ سے اس نے جگالی کرنا بھی چھوڑدیا۔ لوگوں نے بتایا کہ اوپری اثر ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ دین محمد نے مولویوں سے منت سماجت کرکے تعویزیں بنوا بنوا کر اسے پہنایا، پانی میں گھول گھول کر پلایا۔ سارے ٹوٹکے کرکے دیکھ لئے مگر وہ صحیح نہیں ہوئی۔ آس پاس کے سارے وید حکیم کو دکھا دیا مگر کوئی بھی انہونی کو ٹال نہیں سکا۔ شبراتی کی طرح وہ اپنی بھیںس کو ذبح بھی نہیں کرسکا کہ اس کے گوشت سے کچھ روپئے نکل آئیں۔ ایک مرتبہ خیال بھی آیا مگرچاہ کر بھی اس کا ہاتھ نہیں اٹھ سکا۔
دین محمد اپنی بھینس کو مرگھٹ پر ڈال کر جب گھر آیا تو بخار سے اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ اس کو فکر ستائے جا رہی تھی کہ اب کیا ہوگا۔ گاؤں میں کمائی کا کوئی اور ذریعہ بھی تو نہیں تھا جس سے وہ اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پال سکتا۔ گھر میں جو راشن تھا وہ ایک ہفتہ بھی چلنا مشکل تھا،کیا ہوگا؟ سوچ سوچ کراس کے دماغ کی نسیں پھٹی جارہی تھیں۔ دوسری طرف بیماری کمبخت پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔
       شام کو برکھو اس کی عیادت کو آیا۔ وہ برکھو کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اس سے کہہ دے کہ اسی وقت اس کے گھر سے نکل جائے ، اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا ۔ اس نے برا سا منہ بنایا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ تم مجھے ناپسند کرتے ہو، مگر تمہاری بیماری اور بھیںس کے مرنے کی خبر سن کر میں اپنے آپ کو روک نہیں پایا ۔‘‘
’’ ہاں ، جس طرح مرے ہوئے جانور کو نوچنے کے لئے مردار جانور اپنے آپ کو روک نہیں پاتے‘‘ دین محمد نے اپنی پوری طاقت لگادی ان جملوں کو ادا کرنے میں۔ بیماری کی وجہ سے وہ بستر پر پڑا تھا۔
برکھو نے اسے سہارا دے کر بٹھانا چاہا مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کردیا۔
   برکھو کے بارے میں مشہور تھا کہ گاؤں کے غریب لوگوں کو بہلا پھسلا کر ان کی لڑکیوں کو شہر موٹے دام پر سپلائی کرتا ہے۔ لوگوں کو بڑے خواب دکھاتا ہے۔ کسی لڑکی کو گھروں میں کام کرنے کے لیے تو کسی کو شادی کا جھانسہ دے کر وہ شہر بھیج دیتا ہے۔ جہاں جس طرح تیر چل جائے وہ حربہ لگا کر   کے ان آدمیوں کے ہاتھ فروخت کردیتا تھا جن کی شادی کسی وجہ سے نہیں ہوتی تھی۔ اس کا کہنا تو یہی تھا کہ وہ ان ہی لوگوں کو لڑکیاں دیتا ہے جو ان سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ مگر کئی ایک لڑکیاں شہروں کے ریڈ لائٹ علاقوں میں بھی دیکھی گئی ہیں۔
’’تم جیسا سمجھتے ہو میں ویسا نہیں ہوں، میں نے ہمیشہ دوسروں کی مدد کی ہے۔ میں نے سنا کہ تم بیمار ہو تو تمہاری عیادت کرنے۔ ۔‘‘
’’ تم میری فکر مت کرو۔۔ میں صحیح ہوجاؤں گا‘‘ دین محمد نے برکھو کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی اس کو روک دیا۔
’’ لیکن برکھو ، اگر تو کسی غلط نیت سے آیا ہے تو یہ خیال اپنے دل سے نکال دے۔ ہماری بھیںس مری ہے تو کیا  ہوا،میں ابھی زندہ ہوں ، میرے اندر ابھی بھی طاقت ہے۔ ‘‘
جوش اور غصہ میں وہ بستر سے اٹھنا چاہا مگر بیماری کی وجہ سے اٹھ نہیں پایا اور پھر سے بستر پر ڈھیر ہوگیا۔
’’ ابھی تم کو آرام کی ضرورت ہے‘‘ برکھو نے اسے آرام کرنے کی صلاح دی۔
 دین محمد کا دھیان اپنی بیٹی پنکی کی طرف گیا۔ وہ جوان ہوگئی تھی۔ ایک مرتبہ سلمہ نے اس سے پنکی کا رشتہ ڈھونڈنے کو کہا بھی تھا، مگر ایسی حالت میں جہاں کھانے کو لالے پڑرہے ہوں شادی بیاہ کی بات کہاں سوجھتی ہے۔ آج اس نے سوچ لیا تھا کہ صحیح ہوتے ہی وہ پنکی کا رشتہ دیکھنا شروع کردے گا۔
’’ دین محمد ، تم جانتے ہو کہ میں نے کبھی کسی کی لڑکی کو زبردستی نہیں فروخت کیا ہے، ذرا سوچو، جن حالات میں وہ لڑکیا ں یہاں ہیں، وہ شہر میں جاکر اس سے اچھی حالت میں رہتی ہیں۔ کیا یہ بھی کوئی زندگی ہے، جس کو تم جی رہے ہو؟‘‘
’’ کون اچھی زندگی گذار رہا ہے اور کون خراب ، یہ فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو؟ وہ زندگی ہی کیا جو عزت بیچ کر خریدی جائے، اورتم کہتے ہو کہ میں کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا۔ نہیں، تم پہلے لوگوں کو مجبور کرتے ہو اس کے بعد ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہو‘‘ وہ بیماری سے کراہ رہا تھا۔
 ’’ تم ابھی بیمار ہو، اس وجہ سے سوچنے سمجھنے کے لائق نہیں ہو،پھر بھی جب کبھی میری ضرورت پڑے تو یاد کرلینا، ویسے میں ایک بار پھر آؤں گا‘‘ یہ کہتے ہوئے برکھو نے ایک شاطرانہ نظر دین محمد پر ڈالی اور دین محمد کے پاس سے اٹھتے ہوئے پورے گھر جائزہ لیا گویا کہ وہ اندازہ لگا رہا ہے کہ گاڑی میں کتنا تیل ہے۔ کتنے دنوں تک یہ گاڑی چل سکتی ہے۔
دین محمد کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنے بستر اٹھ سکے ورنہ وہ انجام کی پرواہ کئے بغیربرکھو کا گلا دبادیتا۔ اس نے ایک بھدی سی گالی دی ۔
’’دفع ہوجا کمینے، اﷲ نہ کرے کہ کبھی تیری منحوس شکل دیکھنی پڑے۔‘‘
سلمہ دروازے کے پیچھے ساری بات سن رہی تھی، برکھو کے جاتے ہی وہ باہر آئی۔
’’ کیا کہہ رہا تھا برکھو‘‘ سلمہ نے پوچھا۔
’’ کچھ نہیں ، اس نے یہ سمجھا کہ ہم مجبورہیں اس وجہ سے ہمیں پھنسانے آیا تھا‘‘
’’ ہائے اﷲ ، ہماری پنکی پر اس کی بری نظر پڑگئی‘‘ سلمہ نے اپنے دوپٹے کو سرپر رکھتے ہوئے کہا جو بار بار لڑھک کر کندھے پر آجارہا تھا۔
’’اے اللہ ہماری عزت تیرے ہاتھ میں ہے، تو ہی اس کی حفاظت فرما‘‘ سلمہ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے ۔ وہ دیر تک معلوم نہیں کون کون سی دعائیں مانگتی رہی۔
اس رات دین محمد نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ کہیں سفر پر جا رہا ہے۔ اچانک سامنے کی طرف سے ایک بڑا پتھرلڑھکتا ہوا ان کی طرف بڑھتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے وہ دوڑتے ہیں لیکن ہر دوسرے قدم پر گر جاتا ہے۔ وہ پتھر کسی جانور کی طرح ان کا پیچھا کرتا ہے۔  اس بیچ پنکی کا کپڑا ایک جھاڑی میں پھنس جاتا ہے وہ اسے بچانے کے لئے آگے بڑھتا ہے مگر اتنے میں وہ بڑا پتھر پنکی کے اوپر گر جاتا ہے۔ مارے خوف سے اس کی چیخ نکل جاتی ہے۔اس کی نیند کھل جاتی ہے، مگر خوف سے وہ بدستور چیخ رہا تھا۔ اس کی بیوی سلمہ اور بیٹیاں بدحواشی میں بستروں سے کود پڑیں۔
’’کیا ہو ا، چلا کیوں رہے ہو؟‘‘ اس کی بیوی نے اسے جھنجھوڑ کر خاموش کرانا چاہا۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ پیاس سے اس کی زبان سوکھی جارہی تھی۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی چاروں طرح اندھرا تھا۔
’’ پانی، ایک گلاس پانی دو‘‘ بیوی کی آواز کی سمت منہ کرکے اس نے آواز لگائی۔
’’لاتی ہوں، بابا۔ الٹی سیدھی باتیں دن بھر سوچتے رہتے ہو تو خواب میں بھی وہی دکھتا ہوگا۔ ‘‘ اس کی بیوی نے ہمدردی کے چند جملے کہنے کے بجائے جلی کٹی سنانا شروع کردیا۔ اتنی گہری نیند سے بے وقت اٹھنا اسے ناگوار گذرا تھا۔
اس کی بیماری بڑھتی ہی جارہی تھی۔ اب اسے کھانسی کے دورے بھی پڑنے لگے تھے۔ بلغم کے ساتھ خون دیکھ کراس کی بیوی پریشان ہوگئی، پریشان ہونے کی بات بھی تھی۔ گھرمیں ایک پھوتی کوڑی نہیں تھی۔ دوا دارو کہاں سے لائے۔ اور اگر ایسے ہی چھوڑ دے تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ جب بھی کھانسی کا دورہ پڑتا سارے لوگ سہم سے جاتے ۔ وہ دھیرے دھیرے موت کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ سبھی اداس تھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔
برکھو گھر کی حالت دیکھ چکا تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ بھیںس کے مرنے کے بعد ان کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں رہ گیا ہے۔ اس کی دور رس نگاہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ کتنے دنوں بعد یہ شکار ہمارے جال میں آسکتا ہے۔ اس کے اندازے کے مطابق اب بالکل مناسب وقت تھا۔
دروازے پر برکھو کو دیکھ کر دین محمد کی بیوی نے دروازہ کھول دیا۔ اور دین محمد کی چارپائی کی طرف اشارہ کرکے ایک طرف ہوگئی۔
برکھو نے ایک شاطرانہ مسکراہٹ کے ساتھ دین محمد کو سلام کیا جس کے جواب میں دین محمد نے اس طرح منہ بنایا جیسے کسی بچے کو کڑوی دوا پلا دی گئی ہو۔
’’ کہو اب طبیعت کیسی ہے؟ برکھو نے دریافت کیا ۔ ساتھ ہی ایک ماہر کاروباری کی طرح گردوپیش کا جائزہ لینے لگا۔ اس کو یقین ہوگیا کہ اب دین محمد انکار کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔
’’ ٹھیک ہی ہے‘‘ دین محمد نے مختصر سا جواب دیا۔
’’سنا ہے کہ تم کو ٹی بی ہوگئی ہے‘‘ برکھو نے بات بڑھانی چاہی۔ وہ دین محمد کے چہرے کا اتار چڑھاؤ اور اس کا رد عمل دیکھنا چاہتا تھا۔
’’ جہاں تم جیسے خبیث رہتے ہوں ، وہاں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ اس نے برکھو کے سوال کا مطلب سمجھتے ہوئے کہا۔ دین محمد بھی ایک جہاں دیدہ آدمی تھا ۔ باتوں کی تہ تک پہنچنا اسے بھی آتا تھا۔
برکھو کو لگا کہ یہاں دال نہیں گلنے والی، مگر پھر بھی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔  وہ ان  لوگوں میں سے تھا جو ہار نہیں مانتے ۔
’’ اگر تم کو بروقت علاج نہ ملاتو کچھ بھی ہوسکتاہے میرا مطلب ہے کہ تم میری بات سمجھ رہے ہوگے۔ اور علاج کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے، جو تم کو کوئی بھی مفت میں دینے سے رہا۔ ‘‘
اگر میں مرگیا تو اس سے تمہارا کیا فرق پڑتا ہے‘‘
’’مجھے تو نہیں مگر تمہاری بیوی اورتین بچیوں کو ضرور فرق پڑے گا‘‘
وہ سوچ میں پڑگیا، واقعی اگر اس کو کچھ ہوگیا تو اس کی بیوی بچوں کا کیا ہوگا۔ آدمی زندگی بھر بیوی بچوں کی فکر میں رہتا ہے، یہاں تک مرنے کے وقت ان کی فکر سکون سے مرنے بھی نہیں دیتی۔
اس کو فکر میں ڈوبا دیکھ کر برکھو سمجھ گیا کہ تیر نشانے پر لگا ہے ۔
’’ دین محمد، ذرا سوچو ایک بیٹی کو اگر تم دے دو تو اس کے بدلے میں تم کو اتنا روپیہ ملے گا کہ اپنا علاج بھی کرا لوگے اور اپنی باقی بیٹیوں کی شادی بھی بڑے دھوم دھام سے کر سکتے ہویہی نہیں بلکہ  تم ایک نہیں دو دو گائیں خرید سکتے ہو ‘‘
’’لیکن میں اپنی بیٹی کو بیچنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ‘‘
’’تم سے بیٹی بیچنے کے لیے کون کہہ رہا ہے، میں تو تمھاری بیٹی کا ہاتھ مانگ رہا ہوں‘‘
’’وہ کیسے ‘‘دین محمد نے تعجب سے پوچھا اسے لگا کہ برکھو اسے دھوکا دینا چاہتا ہے۔اگر برکھو اس سے بیٹی کا ہاتھ مانگ رہا ہے تو اس میں برا کیا ہے اوپر سے ایک بڑی رقم بھی اسے مل جائے گی ۔ لیکن اس نے تسلی کرنی چاہی کہ کہیں کوئی دھوکہ تو نہیں۔
برکھو سمجھ گیا کہ چڑیا جال میں پھنس چکی ہے۔ اس نے دین محمد کو تسلی دی:
’’ ہمارے پاس بہت سارے لوگ شہر سے ایسے بھی آتے ہیں جن کو دیہات کی بھولی بھالی لڑکی سے شادی کرنی ہوتی ہے وہ اس کے لئے کوئی بھی رقم دینے کے تیار ہوتے ہیں۔ تم اس کی فکر نہ کرو میرے پاس ایک بہت ہی بڑے گھر کا رشتہ ہے۔ ‘‘
دین محمد نے اتنے اہم معاملہ میں بیوی سے مشورہ کرلینا ضروری سمجھا۔ اس لیے برکھو کو کل آنے کو کہا۔
برکھو نے بھی جلد بازی کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ اس سے بھی بات بگڑ سکتی ہے۔ اور کل ہی کی تو بات ہے، ایک دن اور سہی۔
رات میں برکھو کی تجویز کو لے کر میاں بیوی میں خوب تو تو میں میں ہوئی، لیکن برکھو نے جب اپنا فیصلہ سنا دیا وہ پنکی کو برکھو کو دے کر ہی رہے گا تو سلمہ کو خاموش ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔ ویسے بھی عورتوں کی سنتا ہی کون ہے؟  سلمہ نے ہار مانتے ہوئے جب پنکی سے رائے لینے کی بات کہی تو دین محمد نے اسے یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ ہم اس کے باپ ہیں اس کے اچھے برے کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ کیا جانے کہ شادی بیاہ کیا ہوتا ہے۔
برکھو صبح ہی صبح دین محمد کے گھر پہنچ گیا۔ اسے رات بھر اسی بات کی فکر تھی کہ کہیں کوئی دین محمد کو بہکا پھسلا کر پھیر نہ دے۔ برکھو کو دیکھ کر اس بار دین محمد نے ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔ بیٹھے کا اشارہ پاتے ہی برکھو دین محمد کے سرہانے بیٹھ گیا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ شاید ان میں سے کوئی بھی خود سے ابتدا نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ دین محمد کے رویے میں آئی تبدیلی سے برکھو نے بھانپ لیا تھا کہ راستہ صاف ہے۔ اس وجہ سے ماہر کھلاڑی کی طرح وہ کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آخر تجربہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اب تک علاقے کی سیکڑوں لڑکیوں کو شہر بھیج چکا تھا۔ اسے پوری خبر ہوتی تھی کس کے یہاں کتنی لڑکیا ں اور کیسی ہیں۔ اس کی گہری نگاہیں آدمی کے دماغ کو بھی پڑھ لیا کرتی تھیں۔ کس کو کس طرح لائن پر لانا ہے اسے اچھی طرح معلوم تھا۔ اس نے اپنے بزنس کے لئے کچھ اصول بنارکھے تھے جن پر وہ سختی سے کاربند تھا ۔ برسوں سے یہی کاربار کررہا ہے اس کے باوجود پولیس اور کچہری کا لفڑا نہیں ہوا۔ اس کا سب سے پہلا اصول تھا کہ وہ زور زبردستی کا قائل نہیں تھا۔ لڑکیاں ضرور سپلائی کرتا تھا مگر چھین کر نہیں، ان کے ماں باپ کوبہلا پھسلا کر خود ان کے جگر گوشوں کو ان سے جدا کرنے پر وہ راضی کرلیتا ۔ لڑکیاں اس کو دیکھ کر سہم جاتی تھیں۔ جب کہ کئی لوگوں کے لئے وہ نجات دہندہ بھی تھا۔
’’ مجھے تمہاری تجویز منظور ہے مگر میر ی بھی ایک شرط ہے۔ ‘‘ آخر دین محمد نے بات کی ابتدا کردی ۔ اس نے بسترسے  اٹھنے کی ناکام کوشش کی،بستر پر گرنے ہی والا تھا کہ برکھو نے اسے سہارا دیا۔ میلے کچیلے بستروں میں لپٹا دین محمد کو وہ عام حالتوں میں ہاتھ بھی نہیں لگاتا مگر یہاں تو اس کا اپنا مطلب تھا ۔دل جیتنے کے لئے کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ اسے سہارا دے کر دیوار کے سہارے بٹھادیا۔ اس کوشش میں دین محمد کی حالت غیر ہوگئی۔ دیر تک کھانسی کا سلسلہ چلتا رہا ۔
’’بولو ، کیا شرط ہے‘‘ برکھو نے گلا صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ ہم اپنی بیٹی کو بنا نکاح کے کسی کے ساتھ وداع نہیں کریں گے‘‘
’’ بس ، یہی ایک شرط ؟ کچھ لین دین کی بات نہیں کروگے؟‘‘ برکھو نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے پوچھا۔
لین دین کی بات پر دین محمد نے گردن جھکادی، حالات نے اس کو اس مقام تک پہنچادیا تھا کہ اس کے سامنے اس کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ ورنہ اس کی غیرت اس بات کو گوارا نہیں کررہی تھی وہ اپنی بیٹی کا سودا کرے۔ وہ ہمیشہ ان لوگوں کی پر لعنت ملامت کرتا تھاجو اپنی بیٹیوں کو بیچ کر ان پیسوں پر عیش کرتے تھے۔ آج وہی خود اپنی بڑی لڑکی کا سودا کرے تو دوسروں کو کیا منہ دکھائے گا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ بولنا چاہا مگر زبان لڑکھڑا کر رہ گئی۔
 دین محمد کو روتا دیکھ کر برکھو کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی ، دین محمد کے آنسو دیکھ کر اس کو ویسی ہی خوشی کا احساس ہوا جیسا پرندہ کو جال میں پھڑپھڑاتا دیکھ کر ایک شکاری کو ہوتا ہے۔ لیکن یہاں پر خوشی کا اظہار مصلحت کے خلاف تھا اس وجہ سے اس نے چہرے پر غم کے آثار ظاہر کرتے ہوئے اسے دلاسا دیا۔
’’ میرا مطلب ایسا کچھ نہیں تھا، مجھے تمہاری شرط منظور ہے، میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا کہ میں تم سے لڑکی کا ہاتھ مانگتا ہوں۔ وہ ایسے گھر میں بیاہ کرجائے گی جہاں اس کو کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہوگی ۔ لڑکے والے تمہیں اگر اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ تم اپنی پوری زندگی میں اسے جو نہیں دے پاؤگے وہ سب کچھ وہاں اسے ملے گا۔ اس سے کیا تمہیں سکون نہیں ملے گا؟ تمہاری بیٹی عیش کرے گی، عیش‘‘ اس نے آخری جملے پر کافی زور دیا۔
’’ جیسی تمہاری مرضی‘‘ اس نے نحیف سی آواز میں کہا۔
’’ ٹھیک ہے، تمہیں پچاس ہزار روپئے ملیں گے ، جس میں سے آدھے روپئے کل مل جائیں گے، باقی لڑکی کو وداع کرنے کے دن ، بو لو منظور ہے؟‘‘
’’ پچاس ہزار روپئے؟؟ ‘‘ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
’’ جی ہاں پورے پچاس ہزار‘‘ برکھو نے اپنی مونچھو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ پان کی پچکاری جو کافی دیر سے پریشان کررہی تھی اس کو مناسب جگہ ٹھکانے لگانے کے بعد اس نے دین محمد کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
’’ بولو رخصتی کب کر رہے ہو، دین محمد؟‘‘
’’ جب آپ چاہیں‘‘
 دین محمد ابھی تک پچاس ہزار کے سحر سے آزاد نہیں ہوا تھا۔ وہ تشکر کے جذبہ سے جھکا جا رہا تھا۔ اتنی بڑی رقم اس نے خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ اس نے اسی وقت پلان بنانا شروع کردیا کہ اس رقم سے کیا کرے گا۔ سب سے پہلے ایک بھیںس لائے گا۔ اس کے بعد گھر کی مرمت کرائے گا۔ پوال کی چھپر کو بھی تین سال ہوگئے ، جگہ جگہ سے چھپر میں چھید ہوگیا جس سے وہ گھر کے اندر سوتے ہوئے آسمان دیکھا کرتا تھا۔ کئی بار نیا چھپر ڈالنے کو سوچا مگر اس کے لئے بھی بانس اور پوال تو خریدنا پڑتا ، جس کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔ اس بار ان پیسوں سے ایسا گھر بنوائے  گا کہ لوگ دور سے دیکھیں گے۔ برجو کی بیوی اس کے گھر آکر بہت شان سے اپنے گھر کی تعریف کیا کرتی تھی اس کے جانے کے بعد دیر تک اس کی بیوی اس سے بلاوجہ لڑا کرتی تھی ۔ اب وہ اس سے اونچا مکان بنوا کراسے بتائے گا کہ گھر کیا ہوتا ہے۔ اور ہاں اپنی دو بیٹیوں کی شادی اتنے دھوم دھام سے کرے گا کہ پورا گاؤں تماشہ دیکھے گا۔ لیکن نہیں، سب سے پہلے اپنا علاج کرائے گا۔ علاج کی طرف دھیان جاتے ہی اس پر کھانسی کا دورہ پڑگیا۔
برکھو نے آگے بڑھ کر اس کی بیٹھ سہلانا شروع کردیا اور ساتھ ہی منہ پر ایک رومال رکھ لیا کہ کہیں ٹی بی کے جراثیم اس کے اندر نہ چلے جائیں۔
کھانسی کی وجہ سے دین محمداپنے سپنوں کی دنیا سے باہر آیا۔ اس نے نئے سرے سے ایک بار آس پاس کا جائزہ لیا۔ برکھو کے چہرے پر اس نے نظر ڈالی۔ آج وہ اسے ایک مسیحا نظر آرہا تھا۔
’’ کیا سوچ رہے ہو دین محمد، نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ ‘‘ برکھو نے ہوشیاری سے بات آگے بڑھانا چاہا۔
’’ تم اپنی مرضی کے مطابق جو تاریخ رکھنی چاہو رکھ لو، ہم تیار ہیں‘‘ اس نے سارا کچھ برکھو کے اوپر چھوڑدیا۔
’’ آنے والے اتوار کو کیسا رہے گا‘‘
’’ ٹھیک ہے اسی اتوار کو ‘‘
برکھو چلا گیا، دوسرے دن وعدے کے مطابق پچیس ہزار کی رقم دین محمد کے گھر دے گیا۔ دین محمد نے اس پہلے اتنی بڑی رقم نہیں دیکھی تھی۔ وہ بار بار اس کو گنتا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی طبیعت صحیح ہوگئی۔ اس نے بیوی کو آواز دی،
’’ دیکھو ، برکھو ہمیں پچیس ہزار دے گیا ہے، وہ اسی اتوار کو وہ پچیس ہزار اور دے گا‘‘ اس نے خوشی اور جوش بھرے لہجے میں بیوی کومخاطب کیا۔
’’ یہ روپئے تمہیں ہی مبارک ہوں، بیٹی کو بیچ کر اس کی قیمت پر خوش ہورہے ہو، شرم نہیں آتی؟‘‘ سلمہ نے اپنی نفرت اور بے زاری کا برملا اظہار کردیا۔ ویسے وہ عام طور پر شوہر سے زبان لڑانے والی عورت نہیں تھی۔ مگر یہاں اس کی بیٹی کی زندگی کا سوال تھا، اگر دین محمد اس کا باپ تھا تو وہ بھی ایک ماں کی حیثیت سے اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار نہ سہی تو کم ازکم فیصلے میں شریک ہونے کا حق تو رکھتی ہے۔
دین محمد بیوی کے تیور دیکھ کر سہم گیا۔ اس نے وہ ساری پٹی جو برکھو نے اسے پڑھائی تھی اسے پڑھادی۔ لیکن اس کے باوجود اس کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا۔
’’ جاؤ، قیامت کے دن میں تمہارا دامن پکڑوں گی، میری بیٹی تمہارا دامن پکڑے گی۔ ‘‘ وہ رونے لگی۔
’’ میرا دل صاف ہے، ﷲ جانتا ہے، میں کچھ غلط نہیں کررہا ہوں۔‘‘ دین محمد نے صفائی دی۔
جیسے جیسے دن قریب آرہا تھا ، گھر میں میاں بیوی میں تکرار بڑھتی جارہی تھی۔ ایک دن سلمہ نے زہر کھانے کی دھمکی دی ، اس دن دین محمد نے اسے بہت مارا۔ بچیاں سہم گئیں، پڑوس والے اکٹھا ہوگئے ، لوگوں نے دین محمد کو برا بھلا کہا۔ اور دنوں کو سمجھا بجھا کر چلے گئے۔ اس دن کے بعد سلمہ نے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔ دین محمد کی بیماری پچیس ہزار دیکھتے ہی ختم ہوگئی۔ اب وہ تندرست ہورہا تھا۔ کبھی کبھی کھانسی کے دورے پرتے مگر اس کی طرف دھیان دینے کا وقت ہی اس کے پاس نہیں تھا۔
اس بیچ کسی نے پنکی نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی، امی اور ابو کے روز روز کے جھگڑے سے اسے معلوم ہوگیا تھا کہ اس کی شادی کی بات ہورہی ہے۔ دوسری لڑکیوں کی طرح اس کے بھی کچھ ارمان تھے ، مگر یہاں تو اس کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کے سپنوں کا شہزادہ کون ہے۔ اس کا نام کیا ہے؟ وہ کہاں کا رہنے والا ہے۔ اس کی ہمت ہی نہیں پڑتی کہ وہ امی یا ابو سے پوچھے۔ کیا کہیں گے ، کتنی بے حیا ہے، اپنی شادی کے بارے میں بات کرتی ہے۔
آخر وہ دن بھی آگیا جب ایک بڑی سی گاڑی میں کئی لوگ بیٹھ کر آئے ان کے ساتھ برکھو بھی تھا۔ وہ اپنے ساتھ نکاح پڑھوانے کے لئے مولوی بھی ساتھ لائے تھے۔
 برکھو نے آگے بڑھ کر دین محمد کو سلام کیا۔ مہمانوں کو بیٹھنے کے لئے چار پائیاں بچھادی گئیں۔ برکھو نے پورے مجمعے پر نظر ڈالی اور کہا :
’’ اب دیر نہیں کرنا چاہئے انہیں شہر واپس جانا ہے۔ نکاح کا انتظام کیا جائے۔‘‘
دین محمد کی نظریں دولہے کو تلاش کررہی تھیں، آخر اس نے پوچھ ہی لیا کہ دولہا کہاں ہے؟ دین محمد کے اس سوال پر برکھو نے کسی کو آنکھوں سے اشارہ کیا ۔ وہ دین محمد کے پاس آیا اور اسے گاڑی تک لے گیا۔
’’ دولہا یہاں ہے‘‘ اس نے گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ اس نے گاڑی میں جھانک کر دیکھا،اس کے اندر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ ایسالگتا تھا کہ وہ سیٹ بیلٹ سے بندھا ہے، مگر قریب جانے پر معلوم ہوا کہ اس کو رسی سے باندھ کر رکھا ہے۔ وہ سر نیچے کئے معلوم نہیں کیا دیکھ رہا تھا۔ آہٹ پاتے ہی چلانا شروع کردیا۔
’’ میں ایک ایک کو دیکھ لوں گا ، حرام خورو‘‘
اس کی دہاڑ سن کر سارے لوگ گاڑی کے پاس جمع ہوگئے۔ وہ بھیڑ دیکھ کو اور بھی بد حواشی میں چلائے جارہا تھا۔
دولہا پاگل ہے یہ بات تیزی سے پورے گاؤں میں پھیل گئی، گھر میں بھی لوگوں کو معلوم ہوگیا۔سلمہ کی چیخ نکل گئی ، ’’ہائے ﷲ میری بیٹی کا کیا ہوگا؟‘‘
دولہے کی یہ حالت دیکھ کر دین محمد کے اوسان خطا ہوگئے۔ دین محمد نے قہر آلود نظروں سے دیکھا، آگے بڑھ کر اس نے برکھو کا گریبان پکڑنا چاہا مگر اس سے پہلے برکھو کا ایک زور گھونسہ اس کے منہ پر پڑا وہ چکرا کر زمین پر گر پڑا۔ کچھ لوگ اس کو سہارا دینے کے لئے آگے بڑھے ،اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے سب کو جھٹک دیا۔ اور چلایا:
’’ برکھو ، تونے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے، میں تجھے نہیں چھوڑوں گا‘‘
’’ میں نے کوئی دھوکہ نہیں دیا، تم نے لڑکے کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا، میں نے کہا تھا کہ تمہاری لڑکی ایک بڑے گھر میں جائے گی جہاں روپیے پیسوں کی ریل پیل ہوگی، بتاؤ کیا میں نے غلط کہا تھا؟‘‘
دین محمد نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا، مگر اس کو احساس ہوا کہ غلطی اسی کی ہے اسے ساری بات پہلے سے واضح کرلینا چاہئے تھا۔ اسے خود پر غصہ آرہا تھا کہ اس نے برکھو پر اتنا بھروسہ کیوں کیا؟ لیکن بات واضح نہ کرنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ برکھو اس کی پھول جیسی پنکی کو ایک پاگل سے بیاہ دے، غصہ سے اس کی سانس اوپر نیچے ہورہی تھی، اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ مٹھیاں بندھی ہوئی تھی۔ وہ ایک بار پھر برکھو کی طرف بڑھا مگر معلوم نہیں اسے کیا ہوا کہ وہ خود اپنی چہرے پر تھپڑ مارنے لگا۔ وہ بالکل پاگل ہوا جارہا تھا۔ جب تک لوگ اسے پکڑتے اس نے اپنا چہرہ خود سے مار مار کر لال کرلیا۔
’’مجھے چھوڑ دو، غلطی میری تھی ، میں نے اپنی بیٹی کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، مجھے اس کی سزا ملنی ہی چاہئے‘‘ وہ مسلسل چلا رہا تھا۔

بدھ، 22 نومبر، 2017

جہیز مخالف قانون کا بے جا استعمال، کب ختم ہوگا یہ اندھا قانون

2 تبصرے

جرائم کی روک تھام کے لئے حکومت خصوصی قوانین بناتی ہے، اس کا مقصد تو جرم کی دنیا پر ایک کاری ضرب لگانا ہوتا ہے مگر عموما ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ان قوانین میں ایجنسیوں کو کچھ اس قسم کی مراعات دے دی جاتی ہیں جن کی وجہ سے یہ قوانین خود انسانیت کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ٹاڈا، پوٹا اور اسپشل آرم ایکٹ اسکی واضح مثالیں ہیں۔ آج یہی صورتحال جہیز مخالف قانون کی ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں، سرکردہ شخصیات سے لے کر سپریم کورٹ تک نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس قانون کا بے جا استعمال ہورہا ہے ، سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں مرکز سے اس قانون میں ترمیم کرنے کے لیے کہا ہے۔ ایک لمبے عرصہ سے اس قانون کے خلاف آواز یں اٹھ رہی ہیں مگر سرکار اس میں ترمیم کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کرتی نظر نہیں آتی۔
 جہیز کے لئے لڑکیوں کے ستائے جانے اور جان سے ماردینے کی وارداتوں کی روک تھام کے لئے یہ قانون بنایا گیا تھا۔ اس میں جہیز مانگنے ،لینے اور دینے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔یہ ایک غیر ضمانتی جرم ہے، ایک ایسا جرم جس کی کم ازکم سزا تین سال کی قید ہے۔ یہ قانون جہیز کے بڑھتے لین دین پر قدغن لگانے میں کس حد تک کامیاب ہوا یہ سب کے سامنے ہے۔ اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔قانون کسی کے خلاف کاروائی اسی صورت میں کرے گا جب کسی فریق کی طرف سے شکایت درج کرائی جائے گی۔ اور شکایت عام طور پر شادی کے ٹوٹنے کے بعد یا کسی اور اختلاف کے وقت ہی ہوتی ہے۔
اخبارات میں میں تقریبا ہر روز جہیز سے متعلق خبردیکھنے کو ملتی ہے۔ ان خبروں پر غور کیا جائے تو حیرت انگیز طور پر ان میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ مضمون کچھ اس طرح ہوتا ہے۔’’ فلاں لڑکی کی شادی فلاں لڑکے سے ہوئی تھی ، شادی کے وقت ہی سے لڑکے والے جہیز سے خوش نہیں تھے وہ اور جہیز کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مطالبہ پورا نہ ہونے پر لڑکے کے گھروالے لڑکی کو ذہنی اور جسمانی اذیت دینے لگے۔ لڑکی نے اس کی شکایت اپنے ماں باپ سے کی انہوں نے لڑکے کے گھر والوں کو سمجھایا۔ اس کے بعد بھی سسرال والے نہیں مانے اور لڑکی کو منہ مانگی جہیز نہ لانے کی پاداش میں گھر سے نکال دیا۔‘‘

لڑکی کی طرف سے تھانے میں صرف شکایت کرنے کی دیر ہے، اس کے بعد ہماری پولیس سارا معاملہ آنا فانا اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ سسرال والوں کو ملک کے کونے کونے سے اکٹھا کرکے جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ اس میں حاملہ اور بوڑھے معذور لوگوں کی بھی رعایت نہیں کی جاتی۔ اس قانون نے عورت کو اتنی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ دو سال کے بچے کو بھی نامزد کرسکتی ہے کہ وہ مجھے پریشان کر رہا ہے۔
اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ عام طور پر کوئی عورت جب اپنے شوہر اور اس کے رشتہ داروں کو اس کیس میں ملوث کرتی ہے تو گھریلو تشدد کے قانون کو بھی اس کے ساتھ شامل کردیتی ہے۔ حالانکہ دونوں کا مقصد الگ اور پس منظر بھی الگ ہے۔
اس قانون کی کا فائدہ حقیقی مستحقین کو ہوا ہی نہیں سماج دشمن عناصر ہی نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ کئی معاملوں میں لڑکی کا معاشقہ کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے شوہر کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہیں پیدا کرپاتی۔ بجائے اس کے کہ وہ کوئی اور راستہ ڈھونڈے پورے گھر والوں کو جہیز قانون اور گھریلو تشدد کے جھوٹے کیس میں پھنسا کر پورے خاندان کی زندگی خراب کردیتی ہے۔
ایک گھر میں رہتے ہوئے معمولی کہا سنی ایک معمولی بات ہے۔ عام کہاوت ہے کہ جہاں دو برتن ہوں گے وہاں بجیں گے ہی۔ لیکن اس قانون کے آتے ہی گھروں کی دوستانہ فضا مکدر ہوکر رہ گئی ہے، نند اور ساس سے معمولی کہا سنی ہوتے ہی لڑکی تھانے میں پہنچ کر گھریلو تشد اور جہیز مانگنے کی رپوٹ لکھانے پہنچ جاتی ہے۔ پہلے جو بات آپس میں سلجھ جایا کرتے تھے وہ اب کورٹ اور کچہری تک پہنچ رہے ہیں۔ ان سب کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ خاندان ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادیاں ٹوٹنے کا ریشو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ کوئی بھی شوہر کبھی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ وہ اس لڑکی کو دوبارہ اپنے گھر لائے جس نے گھریلو معاملے کو کورٹ میں اچھال کر ، جھوٹے کیس میں پھنسا کر پورے خاندان کی عزت ، وقت اور پیسے کو برباد کیا۔ بعد میں یہی لڑکیاں افسوس کرتی ہیں مگر اس وقت سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
کئی دفعہ لڑکی والے عیب چھپاکر شادی کردیتے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکے والے اگر کچھ کہیں گے تو جہیز مخالف قانون کا سہارا لے کر اس کو خاموش کردیا جائے گا۔ میرٹھ کے رہنے والے اسرار کی شادی فاطمہ نام کی لڑکی سے ہوئی۔ شادی کے ایک مہینہ بعد معلوم ہوا کہ لڑکی دل کی مریض ہے۔ اس نے یہ بات لڑکی کے والدین سے کہا تو انہوں نے کہا کہ اسے یہ بیماری پہلے نہیں تھی تمہارے گھر جاکر ہوئی۔ حالانکہ لڑکی نے خود اقرار کیا کہ اس کے دل کا وال خراب تھا ڈاکٹر آپریشن کرنے کو کہہ رہے تھے۔ اب اسرار کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ وہ دل کی مریض فاطمہ کو اپنے رشتے میں باقی رکھے یا طلاق دے دے۔ بہرحال اس نے طلاق دینے کا فیصلہ کیا ۔ لڑکی والوں نے اسرار اور اس کے پورے گھر والوں پر جہیز مانگنے کاجھوٹا کیس کردیا۔ پورا گاؤں اس بات سے واقف ہے کہ طلاق کیوں ہوئی مگر چونکہ مقدمہ کردیا گیا اس وجہ سے پہلے گرفتاری سے بچنے کے لیے اسرار کو ہائی کورٹ سے اسٹے لینا پڑا اور پھر ضلع کورٹ سے اپنے پورے گھر والوں کی ضمانت کرانی پڑی ۔ گواہی اور ثبوت تو بہت بعد کی چیز ہے۔ وہاں تک معاملہ پہنچتے پہنچتے سال دوسال گذر جائیں گے۔
لکھنؤ کے دیپک کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہے۔ اس کی شادی لکھنؤ ہی میں ہوئی ، لڑکی ایک کمپنی میں کام کرتی ہے، اور دیپک خود حیدرآباد میں ایک سرکاری آفس میں ملازم ہے۔ شادی کے بعد لڑکی اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی تھی اس کے فون کال نہیں رسیو کرتی تھی، اس کے ماں باپ کو پریشان کرتی تھی، دیپک کو معلوم ہوا کہ اس کا آفس ہی کے کسی کڑکے کے ساتھ معاشقہ ہے اس نے لڑکی کو سمجھانا چاہا مگر وہ نہ مانی، بالآخر اس نے طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا۔ لڑکی کے گھر والوں نے اس پر اور اس کے پورے گھر والوں پر جھوٹا جہیز اور گھریلو تشدد کا مقدمہ کردیا۔ بے چارے ماں باپ ناحق جیل گئے اور دیپک کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہیں پر معاملہ ختم ہوجائے تو بھی کوئی بات نہیں اس کو پوری زندگی اس لڑکی کو رہائش اور خرچ بھی دینا پڑے گا۔
اگر کسی کو شکایت ہے کہ فلاں شخص جہیز کا مطالبہ کر رہا ہے تو اس سے اپنی لڑکی کی شادی ہی نہ کرے، اور اگر وہ اپنی لڑکی کی شادی کر رہا ہے تواس کا مطلب یہ کہ وہ خود جہیز کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے پہلے تو شادی کردی جاتی ہے اس کے بعد جب کسی قسم کا اختلاف ہوتا ہے تو لڑکے اور اس کے گھر والوں سے بدلہ لینے کے لئے اس کو جھوٹے جہیز کے کیس میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ قانون لڑکے کے گھر والوں سے بدلہ لینے کا ایک مؤثر ہتھیار بن گیا ہے۔
                    جہیز مخالف قانون بنایا گیا تھا لڑکیوں کی حفاظت کے لئے مگر اس کی وجہ سے سب سے زیادہ عورتوں کو ہی اذیت پہنچائی گئی ہے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ جہیز مانگنے کی شکایت کی گئی ہو اور لڑکے کی ماں اور بہن کا نام نہ لیا گیا ہو۔ کیا سبھی واقعات میں ماں اور لڑکے کی بہن ملوث ہوتی ہے؟ ارن اور جے مالا نے کورٹ میرج کی جس کی وجہ سے ارن کو اس کے گھر والوں نے گھر سے بے دخل کردیا ۔ وہ دونوں ایک کمپنی میں کام کرتے تھے اور اپنے گاوں سے دور ایک شہر میں رہتے تھے کسی بات پر ان دونوں میں کہا سنی ہوئی تو جے مالا نے لڑکے اور اس کے ماں باپ کے خلاف پولیس میں جہیز مانگنے اور اس کے لئے ذہنی اور جسمانی تشدد کرنے کی رپوٹ لکھا دی، ارن لاکھ کہتا رہا کہ وہ گھر سے بے دخل ہے اس کے ماں باپ اس سے ملنے بھی نہیں آتے مگر پولیس نے ایک بھی نہیں سنی ۔ اس کے ماں باپ اور خود ارن کو پولیس نے جیل نے اندر ڈال ڈیا۔ یہ ہے جہیز مخالف قانون کا استعمال۔ چونکہ لڑکی والوں کا مقصد لڑکے والوں کو سبق سکھانا ہوتا ہے اس وجہ سے لڑکے کی والدہ اور اس کی بہنوں کو خاص طور پر نامزد کیا جاتا ہے۔
وکیلوں کی چونکہ روزی روٹی اسی سے جڑی ہوتی ہے اس وجہ سے کس طرح کس کو پھنسایا جائے جھوٹا مقدمہ کس طرح بنایا جائے یہ سارے گُر وہ لڑکی والوں کو بتادیتے ہیں۔
اس قانون کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ محض لڑکی کی شکایت ہی کو بنیاد بناکر آپ کو مجرم مان لیا جاتا ہے، لڑکی کی یہ ذمہ داری نہیں ہوتی ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ واقعی اس کو تشدد کا نسانہ بنایا گیا بھی یا نہیں، یہی نہیں اس قانون کی ایک اور خرابی ہے کہ یہ غیر ضمانتی ہے، یعنی اگر کسی کی بیوی اگر اس کے خلاف جہیز مخالف قانون کا سہارا لے کر شکایت کردے تو اس کے لئے جیل جانے سے بچنے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ ہائی کورٹ سے جاکر گرفتاری پر اسٹے آرڈر لے کر آئے۔
غیر سرکاری تنظیمیں اور خود سپریم کورٹ اب مان رہا ہے کہ اس قانون کا بے جا استعمال ہورہا ہے، مگر معلوم نہیں کیوں حکومت اس میں بدلاو ٔ کرنے کو تیار نہیں۔ ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوے فیصد سے زائد جہیز کے مقدمات فرضی ہیں۔ اگر حکومت اس قانون میں بدلاو ٔ نہیں کرتی تو اسی طرح خاندان ٹوٹتے رہیں گے۔ بے گناہ نوجوان اپنا قیمتی وقت عدالتوں میں برباد کریں گے۔ کیا اب بھی حکومت کو کسی چیزکا انتظار ہے؟

اتوار، 5 نومبر، 2017

پسماندہ طبقات کے اشرافیہ کو ریزرویشن کیوں؟

0 تبصرے

آئین ہند کے معماروں نے معاشرہ کے تمام طبقات کے ساتھ برابری کا برتاؤ کیا ہے ۔ معاشرہ کے وہ طبقات جو صدیوں سے دبے کچلے چلے آرہے ہیں ان کے لیے ریزرویشن کی رعایت دی ہے ۔ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں ان کے لیے نششتیں محفوظ کی گئیں، فیس اور عمر کی حد میں رعایت دی گئی۔ ان مراعات کی وجہ سے پسماندہ اور دلت سماج کی ایک بڑٰی تعداد نے اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ پاکر اعلی تعلیم حاصل کرلیا اور اس کی بنیاد پراعلی سرکاری عہدوں پر بھی فائزہوگیے ۔ تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں ہی میں پسماندہ طبقات کو رعایت ہی نہیں دی گئی اس کا دائرہ بڑھا دیا گیا اور ترقی میں بھی انہیں ترجیح دی جانے لگی۔ ایک عرصہ تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ غریب اور دبے لوگ آگے آتے گیے لیکن دھیرے دھیرے پسماندہ طبقات میں بھی ایک اشرافیہ طبقہ پیدا ہوگیا۔ یہ وہ طبقہ ہے تھا جس کو سب سے پہلے ریزرویشن کا فائدہ ملا۔ ان لوگوں نے سرکاری رعایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلائی اور اعلی نوکریوں پر انہیں فائز کرادیا۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سرکاری نوکری ایک عام آدمی کے لیے ایک خواب ہے وہاں ان کے گھر اور خاندان کا ہر فرد کسی نہ کسی اعلی عہدہ پر فائزہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ گھر اور خاندان مالی لحاظ سے متمول ہوگیا لیکن پسماندہ طبقہ کا لیبل ہونے کی وجہ سے انہیں اب تک رعایت مل رہی ہے ۔ اس رویہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ جن مقاصد کے لیے ریزرویشن کا نفاذ ہوا تھا دھیرے دھیرے وہی فوت ہوتا جارہا ہے ۔ پسماندہ طبقات کے لیے دی گئی ساری رعایتوں کا سیدھے فائدہ پسماندہ طبقات کے اشرافیہ کو مل رہا ہے ۔ عام پسماندہ طبقہ کے افراد جو دبی کچلی حالت سے نکلنے کے اپنے پر تولتے ہوئے باہر نکلتے ہیں تو ان کا سامنا خود ان کے اپنے طبقہ کے اشرافیہ سے ہوتا ہے ۔ مستحق ہونے کے باوجود انہیں ان کا حق نہیں مل رہا ہے ۔
آئین ہند کے معماروں نے انگریزوں کے ذریعہ نافذ کیے گیے ریزرویشن کو اس لیے باقی رکھا تھا تاکہ سماج کے وہ طبقات جو صدیوں سے دبے کچلے چلے آرہے ہیں وہ بھی سماج کا حصہ بن سکیں۔ سماج میں انہیں بھی اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا موقع ملے ۔ انہوں نے مذہبی بنیاد پر نہ تو ریزرویشن دیا اور نہ مذہب کی بیناد پر کسی کو ریزرویشن سے منع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو بھی شیڈول کاسٹ کا ریزرویشن دیا جاتا رہا۔ بعد میں پنڈٹ نہرو کے دور حکومت میں صرف ہندؤوں کو ہی اس کا فائدہ دینے کا صدارتی ریفرنس آیا جس میں بعد میں بدھسٹوں اور سکھوں کوبھی شامل کرلیا گیا۔ لیکن مسلمانوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔ یہ آئین ہند کے ساتھ سراسر کھلواڑ تھا لیکن مسلمان ایک عرصہ سے اس گھونٹ کو برداشت کرتا رہا ہے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسی پیشہ سے وابستہ افراد کو ساری رعایتیں ملتی ہیں لیکن مسلمانوں کو نہیں؟
ایک عرصہ سے آواز اٹھتی رہی ہے کہ ریزرویشن کی بنیاد کیا ہونی چاہیے ؟ پسماندگی یا ذات برادری؟ اور اگر مذہبی بنیاد پر ریزرویشن دیا جائے تو مسلمانوں کو کیوں نہیں جن کے بارے میں سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ دلتوں سے بھی پچھڑے ہیں۔ اور اگر مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینا غیر آئینی ہے تو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن سے روکنا بھی غیر آئینی ہے ۔ آخر اس کے خلاف آواز کیوں نہیں بلند کی جاتی۔
ہم ایک مرتبہ پھر اپنے موضوع پر آتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے والے پسماندہ طبقات کے اشرافیہ نے ریزرویشن کے فوائد کا دورازہ دوسروں کے لیے بند کردیا ہے ۔ اس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ حقیقی مستحقیق کو ان کا حق نہیں مل رہا ہے ۔ اس وجہ سے اس قانون میں تبدیلی کرکے پسماندہ طبقات میں سے کریمی لیئر کو الگ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں بہار میں نتیش کمار نے ایک اچھی پہل کی ہے انہوں نے پسماندہ طبقات کو دو زمروں میں تقسیم کردیا ہے ۔ ایک پسماندہ دوسرا انتہائی پسماندہ طبقہ۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے بھی ذات برادری کو ہی معیار مانا ہے ۔ کیا ضروری ہے کہ کسی ذات سے تعلق رکھنے والے سبھی لوگ انتہائی پسماندہ ہوں؟ ایسا بھی ہوسکتا ہے اسی ذات کے کچھ لوگ بڑے سرکاری عہدوں پر ہوں، بڑے تاجر ہوں۔ مرکزی یا ریاستی وزیر ہو۔ ایک انتہائی پسماندہ زمرہ سے تعلق رکھنے والے وزیر کے لڑکے کو بھی ریزرویشن کا فائدہ مل جاتا ہے لیکن دوسرا لڑکا جو صرف پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتا ہے اور غریب بھی لیکن اس کو فائدہ نہیں ملتا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پسماندہ طبقات میں کریمی لیئر کا معیار ذات پات کے بجائے مالی حالت کو بنایا جائے ۔ ماں یا باپ کے کسی اعلی عہدے پر فائز ہونے پر اس کے بیٹوں کو وہ رعایت نہ دی جائے جو صرف غریب اور واقعی پسماندہ لوگوں کا حق ہے ۔ اس طرح پسماندہ طبقات کے لیے دی جانے والی رعایتوں کا فائدہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے گا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ریزرویشن کی ایک میعاد ہونی چاہئے ۔ ہر پانچ سال کے وقفہ میں اس کی جانچ ہونی چاہیے کہ اس کا فائدہ واقعی پہنچ رہا ہے یا نہیں۔ اور متعلقہ طبقات کی سماجی اور مالی حالت درست ہوئی یا نہیں جن طبقات کی حالت میں سدھار آجائے اسے ریزرویشن کے زمرہ سے خارج کیا جائے جو واقعی مستحق لوگوں کا حق ہے۔ ورنہ کہاوت ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑی اور گھوم گھوم کر اپنوں کو دے ۔

عزیر اسرائیل
شعبۂ اردو دہلی یونی ورسٹی
9210919540

پس

پیر، 23 اکتوبر، 2017

آنگن کے نسوانی کردار۔ ایک تنقیدی مطالعہ

6 تبصرے

     اگر داستانوی ادب کا چھوڑ دیا جائے تو اردو فکشن کی دنیا میں عورت کی تصویر میں یکسانیت نظر آتی ہے ۔ عورت مظلوم ہے یہ بات ہمارے اکثر فکشن نگاروں نے نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اپنے قلم کے ذریعہ ثابت بھی کیا ہے ۔ ناول افسانے سے لے کر قصے کہانیوں تک ہر جگہ عورت کی یہی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے ۔ لیکن کیا یہی عورت کا حقیقی چہرہ ہے ؟ نہیں۔ عورت کا ایک چہر ہ اور بھی ہے جو اس روایتی چہرے سے قدرے مختلف ہے ۔ یہ چہرہ ہمیں حقیقی زندگی میں دیکھنے کو مل جاتا ہے مگر جدیدفکشن کی دنیا میں خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ عورت کے اس چہرہ کو جن فکشن نگاروں نے پیش کیاہے ان میں خدیجہ مستور سرفہرست ہیں۔ خدیجہ مستور نے صرف دو ناول لکھے ہیں’’آنگن ‘‘اور ’’زمین‘‘۔ مگر ان کا ناول ’آنگن ‘ہی انہیں اردو فکشن کی دنیا میں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔
                    خدیجہ مستور کے ناول ’’آنگن ‘‘اور ’’زمین ‘‘اردو فکشن میں اس لحاظ سے الگ پہچان رکھتے ہیں کہ اس کے اندر عورت کی مظلومیت کی داستان بیا ن کر نے کے بجائے عورت کو جد وجہد کرتے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوتے دکھایا گیا ہے ۔ مگر ان کرداروں کے حوالے سے خدیجہ مستور نے عورت سماج کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ بد نما ہوتے ہوئے بھی حقیقت سے قریب ہونے کی وجہ سے بھلا معلوم ہوتا ہے ۔ خدیجہ مستور جو کہ خو د ایک خاتون ہیں انہوں نے ان کرداروں کے حوالے سے عورتوں کے غم وغصہ ، نفرت ، عداوت کی ایک حقیقی تصویر سے قاری کو روشناس کر ایا ہے ۔ اور بتایا ہے کہ عورت جب مظلومیت کے بجائے ظلم کرنے پر اتر آتی ہے تو صدیوں کا حساب چند لمحوں میں چکا دیتی ہے ۔
آنگن اور زمین دونوں تقسیم وطن کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔ دونوں ناول باہم مربوط ہیں۔ آنگن میں تقسیم سے پہلے اور زمین میں تقسیم کے بعد کے واقعات ہیں۔آنگن مسلم لیگ اور کانگریس کے خیالات رکھنے والے ایک خاندان کے حوالے سے آزادی کی لڑائی سے لے کر تقسیم تک کی روداد ہے ، باپ کٹر کانگریسی ہے تو بیٹے مسلم لیگ کے لئے جان چھڑکتے ہیں۔ وہیں ایک دو کردار ایسے بھی ہیں جو انگریزوں کو باعث رحمت سمجھتے ہیں۔ گویا کہ اس وقت کے ہندوستان کی ترجمانی کرنے والے سبھی خیالات کے لوگوں کا مجموعہ ہے یہ خاندان۔
 عالیہ اور اس کی بہن فہمیدہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں،پورا ناول عالیہ کی زبانی واحد متکلم کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے ۔ آزادی کی تحریک زوروں پر ہے۔ زمین داری اگر چہ باقی ہے مگر بھائیوں میں بٹوارہ ہونے کی وجہ سے جائداد بٹ گئی۔ پہلے جیسے ٹھاٹ باٹ اگر چہ نہ رہے مگر پھر بھی گھر کا نظام کسی طرح چل رہا ہے۔ ابو کے اچانک انتقال پر ان سب کو چچا جان کے گھر جانا پڑا۔ اس کے بعد آزادی اور تقسیم ملک کے بعد تک کی ساری روداد اس ناول میں بیان کی گئی ہے ۔ یہ ناول حقیقی معنوں میں تقسیم ملک کے موضوع پر لکھے گئے ناولوں میں ایک اہم مقام رکھتا ہے ۔
                    آنگن کے نسوانی کرداروں میں عالیہ ، تہمینہ ، کریمن بوا چھمی ، اور نجمہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ عالیہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے پوری کہانی اسی کے ارد گرد گردش کرتی نظر آتی ہے ۔ خدیجہ مستور نے اس ناول میں بیانیہ تکنیک کا استعمال کیا ہے ۔ ان کرداروں میں صرف تہمینہ ہی واحد کردار ہے جو روایتی لباس میں نظر آتی ہے صفدر سے محبت کرنے کے باوجود وہ گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہے مگر اظہارمحبت نہ کر سکی ۔ اس کے علاوہ سبھی کردار صدیوں سے مردوں کی ناانصافی کا حساب مانگتے نظر آتے ہیں ۔
                    عالیہ کی والدہ کا کردار ایک روایتی ماں کا کردار ہے انہوں نے اپنی مر حومہ نند کی ناجائز اولاد صفدر کی زندگی اجیرن کر دی اور مجبور ہوکر انہیں گھر چھوڑ نا پڑا ۔عالیہ کے والد ان کو بیٹے کی طرح مانتے تھے اس کے باوجود وہ چاہ کر بھی تہمینہ کی شادی صفدر سے نہیں کراسکے ۔ عالیہ کی امی کی بد سلوکی کی وجہ سے وہ علی گڑھ تعلیم کے لئے جانے کے بعد پھر لوٹ کر نہ آئے ۔ والد گھر کے مالک ہونے کے باوجود عالیہ کی والد ہ سے ڈرتے تھے زمینداری ختم ہونے کے بعد جائیداد کا جو حصہ ملا تھا اس کو بھی محترمہ نے اپنے بھائی کے یہاں بھیج دیا ۔ اتنی سخت تھیں کی شوہر کو گھر میں رکنے نہ دیتی تھیں۔ گھر میں گھستے ہی طنز کے تیر چلانا شروع کردیتیں لہذا گھر کے باہر کی مصروفیات ہی ان کے ذمہ رہ گیا تھا ۔ انہیں اپنے شوہر کا سیاست میں حصہ لینا اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنا بالکل پسند نہ تھا۔ وہ انگریزوں کو باعث رحمت سمجھتیں اور ہمیشہ ان کی تعریف کے گن گاتی تھیں۔ انہیں اپنے بھائی پر فخر تھا جن کی بیوی ایک انگریز تھیں۔ ہمیشہ ان کا نام لے کر اپنے شوہر کو تنگ کیا کرتی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے بھائی کو ان کی فکر کم ہی ہوتی تھی۔ عالیہ کی ماں کا کردار ایک مطلب پرست اور جھگڑالو عورت کا ہے ۔ جب ان کے شوہر ایک انگریز کو زخمی کردینے کے جرم میں گرفتار ہوئے تواپنے شوہر ہی کو مورد الزام ٹھہرایا۔
                    شوہر کے انتقال کے بعد عالیہ اپنی والد ہ کے ساتھ اپنے چچا کے یہاں چلی آئی ۔ یہاں پر بھی ماحول گھر ہی جیسا ہے۔ عالیہ کے چچا کی ایک دوکان ہے جس سے تھوڑی بہت آمدنی ہوجایا کرتی ہے۔ مگر اس کی آمدنی کا اکثر حصہ کانگریس کے ان مہمانوں کی نوازش پر خرچ ہوجاتا ہے جو چچا سے ملنے آتے ہیں۔ اسی بات کو لے کرچچی اورچچا میں ہمیشہ تکرار ہوتی۔ جب عالیہ پڑھائی مکمل کر لیتی ہے تو رزلٹ آنے سے پہلے عالیہ کی والدہ چچی جان کو کھرا کھوٹا سناتی ہیں۔
’’بس اب تم جلدی سے ملازمت کے لئے درخواستیں دینے لگو، میں بھر پائی ان مصیبتوں سے ، اس اجڑے گھر میں جانے کس طرح دن گذارے ہیں، کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں ملا۔‘‘
اماں نے بڑی بے باکی سے کہا، اس وقت وہ بڑی مغرور نظر آرہی تھیں۔
’ارے چھوٹی دلہن ، میں نے تو اپنی جان سے زیادہ تمہارا خیال کیا ہے اور۔۔۔‘
بڑی چچی سے کچھ کہتے نہ بن پڑ رہی تھی۔
’بس جناب آپ کے خیال کا شکریہ، اب آپ لوگ میری جان بخش دیں اور احسان نہ جتائیں، مجھے پتا تھا کہ ایک دن یہی سننا ہوگا۔‘
’اماں!‘عالیہ نے حیران ہوکر اماں کو پکارا اور بڑی چچی کی طرف دیکھ کر سر جھکالیا ابھی تو امتحان کا نتیجہ بھی نہیں نکلا، کیا یہی سب کچھ سننے کے لئے اس نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہا تھا، اس کا جی چاہا کہ اپنے فیل ہونے کی دعائیں مانگنے لگے ۔‘‘ ( آنگن ،ص۲۵۹)
                    گویا کہ والدہ کی شکل میں جو کردار پیش کیا گیا ہے وہ بے درد اور مطلب پرستی کی انتہا تک پہنچا ہوا ہے ۔ جس شخص نے ان کو اور بیٹی کو مصیبت کے موقع پر سہارا دیا، خوشحالی نہیں بلکہ اچھے دن کی امید پیدا ہوتے ہی انہیں کھری کھوٹی سنانے لگیں، ان کے تمام احسانات کو یکسر نظر انداز کردیا۔
                    عالیہ کی دادی بھی کچھ کم شدت پسند نہ تھی ۔ نوکروں پر ناراض ہوتیں تو رسیوں سے ان کی کھال اندھیڑ لیتی تھی ۔ در اصل یہ دو کردار ان گھر انوں کی تصویر پیش کر رہے ہیں جہاں وزارت داخلہ عورتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور کسی طرح یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ خارجی امور بھی ان ہی کے ماتحت رہیں۔
                    چھمی عالیہ کے ماموں کی لڑکی ہے ۔ اسکی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے سوتیلی ماں اپنے پاس رکھنے کو روادار نہیں اس وجہ سے وہ اپنے چچا کے ساتھ رہ رہی ہے ۔ وہ اپنے چچا کے لڑکے جمیل سے پیار کر تی ہے مگر ایک طرفہ محبت ثابت ہوتی ہے ، جمیل کی طرف سے بے تعلقی کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ باغی فطرت کی ہوجاتی ہے ۔ گھر میں بغیر کسی وجہ سے ہنگامہ کھڑا کرتی ہے ۔ اور بغیر کسی وجہ کے اپنے چچا کو لڑائی کر کے تنگ کرتی ہے ۔ حالت یہاں تک کہ خراب ہوجاتی ہے کہ چچا جان جو کہ کٹر کانگریسی ہیں جیسے ہی گھر میں گھستے ہیں چھمی ان کے سامنے مسلم لیگ زندہ باد کا نعرہ لگانے لگتی ہے مجبوراً یہ بیچارے گھر سے باہر چلے جاتے ہیں ۔ چھمی کی چچی کا رویہ چچا جان کے لیے کیا کم تھا کہ چھمی نے اپنے رویے سے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ ان سب سے مجبور ہوکر بیچارے اب گھر کے اندر کم ہی آتے تھے اور اگر کبھی آنا بھی ہوتا تو فوراً واپس جانا پڑتا۔ تنگ آکر اس کی شادی ایک گوالے سے کردیتے ہیں ۔ وہ ناپسند کرتے ہوئے بھی خاموشی سے اس رشتے کو قبول کرلیتی ہے ۔ وہاں اس کے لڑکے بھی ہوتے ہیں۔ مگر اس کے شوہر کے اچانک انتقال کے بعد واپس گھر آجاتی ہے ۔ بالکل شانت، خاموش، ملک کی آزادی کے بعدجمیل بالآخر اس سے شادی کرنے پر راضی ہوجاتا ہے ۔ اس طرح وہ اپنا پیار حاصل کرلیتی ہے ۔
                    نجمہ پھوپھی نے انگریزی میں ایم ۔ اے کیا کر لیا کہ اب پوری دنیا کو جاہل سمجھتی ہیں ۔ گھر میں کسی سے بات نہیں کر تی کہ’’ جاہلوں کے منہ کون لگے ‘‘ وہ انگریزی کے علاوہ کسی تعلیم کو تعلیم کے زمرے میں رکھتی ہی نہیں ہیں۔ چھمی کو کبھی کبھی اپنے ذاتی کام کے لئے بلاتی تھیں مگر جب سے اس نے کسی کام کے لئے منع کیا اسی دن سے وہ بھی جاہلوں کے زمرے میں آگئی۔ آخر میں نجمہ کی زندگی عبرت کا نشان بن جاتی ہے ۔ کسی بچولئے نے ان کی شادی یہ کہہ کر ایک شخص سے کرادی کہ یہ انگلش سے ایم اے ہے ، مگر وہ معمولی انٹر پاس تھا۔ نجمہ کا کردار ہمیں بتاتا ہے کہ جولوگ تھوڑا پڑھ لکھ لینے کی وجہ سے اپنے آپ کو خود اپنی سوسائٹی اور گھر والوں سے اعلی و ارفع سمجھ لیتے ہیں وہ خود دوسروں کے لئے ایک مضحکہ خیز کردار بن جاتے ہیں۔ اس سے ان کا تو کوئی بھلا نہیں ہوتا الٹے اپنی زندگی مصیبت میں ڈال لیتے ہیں۔
                    کریمن بوا ایک نوکرانی ہیں ایک نوکرانی ہونے کی وجہ سے ان کا کسی پر زور نہیں لیکن اسرار میاں کوحالات نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ وہ اس گھر کے غلام بن کر رہ گئے تھے ۔ در اصل اسرار میاں اسی گھر کی اولاد تو تھے مگر ایک رکھیل کی بطن سے پیدا ہوئے تھے اس میں ان بیچارے کی کیا خطا تھی مگر دادی جان نے جب رکھیلوں کو گھر سے چھٹی دی تو ان کے لڑکوں کو یہ کہہ کر جانے سے روک دیا تھا کہ یہ ہمارا خون ہیں۔ اس لئے ہمارے ساتھ رہیں گے ۔ باقی لڑکے تو دادی کی سختی کی وجہ سے کہیں بھاگ گئے مگر اسرار میاں اب تک حق نمک ادا کررہے ہیں۔ان کی دن رات کی محنت کے باوجود دادی جان نے کبھی گھر کے ایک فرد کی طرح انہیں قبول کیا۔ کریمن بوا کا گھر میں کسی پر زور چلتا تھا تو بس وہ اسرار میں تھے ۔ کریمن بواان کو ہی اپنی ستم کا نشانہ بناتی تھیں ۔ گھر والوں کے لئے انتہائی شفیق نظر آنے والی کریمی بوا کا چنگیزی چہرہ اسرار میاں کے لئے سامنے آتا ۔ اگر کریمن بوا کا چلتا تو وہ گھر کا بچا ہوا باسی کھا نا بھی نہ دیتیں ۔ اسرار میاں کوئی کریمن بوا پر عاشق نہ تھے وہ صرف دو وقت کی روٹی چاہتے تھے مگر یہ دو وقت کی روٹیاں گالیوں کے ساتھ ملتی تھیں ۔
                    عالیہ اس ناول کا مر کز ی کردار ہے ۔ خدیجہ مستور نے اس ناول کو عالیہ کی زبانی ہی بیان کیا ہے پورا ناول واحد متکلم کے صیغہ میں ہے ۔ عالیہ کا دل کچھ نرم ہے وہ ان سبھوں کو دیکھ کر دل ہی میں کڑھتی ہے ۔ مگر دوسری طرف جمیل کی محبت کو جس سنگ دلی سے ٹھکراتی ہے وہ عالیہ کو بھی لے جاکر انہی عورتوں کے زمرے میں کھڑا کر دیتا ہے ۔ دراصل عالیہ کے یہاں محبت کا تصور کچھ عجیب ہے وہ سمجھتی ہے کہ مرد عورت سے محبت کرکے اس کو محکوم بنانا چاہتا ہے ۔ یہاں خدیجہ مستور نے عورت اور مرد کے رشتہ کے بارے میں عالیہ کے ذریعہ اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ خدیجہ مستور کے یہاں عورت کی آزادی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ جہاں انہیں آزادی پر حرف آنے کا اندیشہ ہوتاہے وہاں وہ دوسرے تمام فوائد کو بالائے طاق رکھ دیتی ہیں۔آزادی کے بعد عالیہ اپنی امی کے ساتھ پاکستان ہجرت کرجاتی ہے ۔ اسکے ماموں جو انگریزوں کے ہمنوا تھے اس سے پہلے پاکستان جاکر اپنے حصے کی ملائی پر ہاتھ صاف کرچکے ہوتے ہیں۔ ایک موقع پر عالیہ کی ملاقات صفدر سے ہوتی ہے ۔ وہ اسے اپنے گھر لاتی ہے ۔ امی اس کی شکل دیکھنے کو روادار نہیں۔ اس کے باوجود اب بیٹی کے آگے وہ بے بس ہوجاتی ہیں۔ ان کے سامنے عالیہ صفدر سے شادی کرنے کی بات کرتی ہے ۔ مگر آخر میں خود ہی شادی کرنے سے منع کردیتی ہے ۔ اس لئے کہ صفدر کے اندر وہ جس نوجوان کی شبیہ دیکھنا چاہ رہی تھی وہ نہیں تھی۔ وہ روز روز کی بھاگ دوڑ کی زندگی سے تنگ آگیا تھا۔ وہ شادی کے بعد اطمینان کی زندگی گذارنا چاہتا تھا۔ یہ بات عالیہ کی نظر میں صفدر کی وقعت کا محل مسمار کرنے کے لئے کافی تھی۔ عالیہ کا کردار نہایت پیچیدہ ہے۔
آنگن کا ایک اور کردار ہے جو اگر چہ ضمنی کردار ہے۔ چند لمحوں کے لئے سامنے آتا ہے مگر اس کے ذریعہ خدیجہ مستور نے برائی کے بارے میں عورتوں اور مردوں کے لئے دوہرے معیارپر زبردست وار کیا ہے۔ کسم دیدی ایک بیوہ عورت ہیں۔ ہندوسماج میں بیوہ کی دوسری شادی ممکن نہیں اس وجہ سے ایک دن کسم دیدی کسی مرد کے ساتھ فرار ہوجاتی ہیں۔ وہ آدمی کسم دیدی کے ساتھ دھوکہ کے دیتا ہے۔ اب یہاں پر ہر کوئی کسم ہی کو مورد الزام ٹھہراتا ہے کہ وہ ایک غیر مرد کے ساتھ فرار ہوگئی۔کسم یہ بے عزتی برداشت نہیں کرپاتی ہے اور ایک تالاب میں ڈوب کر خود کشی کرلیتی ہے۔ خدیجہ مستور عالیہ کی زبانی آواز بلند کرتی ہیں کہ کوئی اس آدمی کو برا کیوں نہیں کہتا جس نے کسم کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ وہی کام ایک مرد کرے تو کوئی کچھ نہ کہے اور عورت کرے تو ہر کوئی ملامت کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھے۔
دراصل خدیجہ مستور عورتوں کو حکم سنانے والی اور فیصلہ لینے والی کے کردار میں دیکھنا چاہتی ہیں ۔ اس وجہ سے انہوں نے یہ کردار تخلیق کئے ۔ یہ خدیجہ مستور کی حقیقت نگاری ہے کہ انہوں نے یہ بھی دکھا دیا کہ عورت فیصلہ لینے کے مقام پر پہنچ کر کیاکرسکتی ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے عالیہ کی امی ، چچی، اور دادی کے اندر یہ سختی کن حالات کی پیداوار ہے؟
جہاں تک عالیہ کے اندر مردوں کے تعلق سے بدگمانی کی بات ہے تو اس کی وجہ تہمینہ اور کسم دیدی کے واقعات ہیں ان دونوں واقعات نے عالیہ کو پوری مرد برادری سے بدظن کردیا۔ گھر کی دوسری عورتوں کے بارے میں یہ بات نہیں ہے۔ ان کے اندر مردوں کے خلاف نفرت کی وجہ دوسری ہے۔ دراصل ہمارے بہت سے رہنماسماج سیوا میں اپنے گھربار اور ان کی ضروریات کو بھول جاتے ہیں۔ ہر ایک کا حق ہے۔ سماج اور ملک کے ساتھ گھر اور خاندان بھی اہم ہے۔ اس ناول میں چاہے عالیہ کے ابو ہوں یا چچا دونوں گھر کے بجائے باہر کی مصروفیات میں مگن رہا کرتے ہیں اس طرح سے گھر کی عورتوں میں ان کے خلاف ہی نفرت کا مادہ پنپنے لگتا ہے۔ اور دھیرے دھیرے یہ نفرت سختی میں بدل جاتی ہے۔ جس کا شکار صرف ان کے شوہر ہی نہیں بلکہ ان کے تحت آنے والے گھر کے دوسرے افراد بھی ہوتے ہیں۔


٭٭٭٭

پیر، 31 جولائی، 2017

اردو ریسرچ جرنل کا گیارہواں شمارہ (جولائی تا ستمبر)

2 تبصرے
اردو ریسرچ جرنل کا گیارہواں شمارہ (جولائی تا ستمبر) آن لائن شائع کردیا گیا ہے۔ جرنل کو پڑھنے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے  اس لنک پر کلک کریں:

فہرست مضامین
1.                   
اپنی بات   (مدیر)
4
2.                    
قرآن، سائنس اور سائنسی مزاج۔ماضی، حال اور مستقبل
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، ڈائرکٹر، اسلامک فاؤنڈیشن، برائے سائنس وماحولیات،نئی دہلی
6

3.                   
داغ دہلوی:  خطوط کے آئینے میں
ڈاکٹر محمد کاظم، ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی، دہلی
21

4.                    
مصحفیؔ کے شعری امتیازات
ڈاکٹر احمد امتیا ز، اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی دہلی
29

5.                    
اُردو  میں غزلِ مسلسل کی روایت اور فن
ڈاکٹر جعفر جری، چیئرپرسن بورڈ آف اِسٹڈیز ، شعبہ ء اُردو ، ساتاواہنا یونیورسٹی ، کریم نگر
33
6.                    
آفاقی اقدار کا شاعر:خلیل  الر حمن اعظمیؔ(نظم نگاری کے حوالے )
میررحمت اللہ ،ریسرچ اسکالر یونیو رسٹی آف حیدرآباد
48
7.                    
اردو لسانیات:  ایک تعارف
ڈاکٹر محمد حسن، صدرِ شعبہ اردو، گورئمنٹ ڈگری کالج کولگام کشمیر
53

8.                   
تخلیق ا ور تنقیدکا باہمی ربط :تحقیقی مطالعہ
ڈاکٹر ذکیہ  رانی، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو ، وفاقی اردویونیورسٹی، کراچی
58

9.                    
اردو  اورترکی  زبان: ایک  تقابلی جائزہ
سلما ن زارع، متعلم تہران یونیورسٹی، ایران
65
10.                
محمد احسن فاروقی کے ناولوں میں عورت  کا تصور
ڈاکٹر رفیق  سندیلوی، پرنسپل اسلام آباد کالج فار بوائز،اسلام آباد، پاکستان
75

11.               
داستان"طلسمِ حرات"؛مابعد الطبیعیاتی مطالعہ
ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام، شعبۂ اُردو،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بہاول پور
81

12.                
میرزا ادیب کے طویل افسانے -فکریات ورجحانات
ڈاکٹر نسیم عباس احمر،استاد شعبہ اردو، یو نیورسٹی آف سرگودھا
86

13.               
کرشن چندر بحیثیت افسانہ نگار
ڈاکٹر دلپذیر، فتح پور، پونچھ جموںو کشمیر
95

14.                
کرشن چندر کے ناولوں میں نسوانی مسائل
نیبولال، ریسرچ اسکالر،دہلی یونیورسٹی دہلی
98

15.                
حسین بن منصور حلاج اور سدھارتھ  میں فکر ی مماثلت:تحقیقی وتنقیدی جا ئز ہ
محمد فر ید، لیکچرار شعبئہ اُردو، اوپی ایف بو ائز کا لج ایچ ایٹ فو ر، اسلام آ باد، پاکستان
104

16.                
رانا پرمود: ابن صفی کا لازوال منفی کردار
محمد عثمان احمد، ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
111

17.                
راجندر سنگھ بیدی کے ناولٹ "ایک چادر میلی سی"میں  پنجابی تہذیب
جمشید احمد ٹھوکر، ریسرچ اسکالر، یونی ورسٹی آف حیدرآباد
114

18.               
شوکت صدیقی کے ناولوں میں مظلوم طبقےکی عکاسی
شگفتہ پروین
118

19.                
اردو تلمیحات کا حکائی پس منظر
عمران عاکف خان، 259، تاپتی ہاسٹل جواہر لعل نہرویونیورسٹی، نئی دہلی۔110067
127

20.                
اردو داستان میں محبت کی نفسیا ت
طاہر نواز، ریسرچ اسکالر ، وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد
134

21.                
اردو فکشن میں سماجی مسائل کی عکاسی (جموں وکشمیر کے حوالے سے)
محمد سلما ن حجام، ریسرچ اسکالر پنجابی یونی ورسٹی پٹیالہ
139

22.                
تحریک سر سید کا سیاسی ومعاشرتی پس منظر
محمد فیض احمد،ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو ،دہلی یونیورسٹی
144

23.                
سر سید کے تعلیی، افکار، مکاتیب سر سید کی روشنی میں
محمد شاداب شمیم، ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی  ،دہلی
146

24.                 
ممتحنہ اختر، ریسرچ سکالر،  کشمیر یونیورسٹی‘سری نگر
149

25.                
علوم مشرقیہ  کے فروغ  میں منشی نول کشور کی خدمات
محمد سلیم قادری، لکچر ر اردو، داتا رام میموریل انٹر کالج ، بدایوں
153
26.                
تصوف، اردوادب اور ہمارا معاشرہ
ربّانی بشیر، ریسرچ اسکالر، سنٹر ل یونیورسٹی آف کشمیر
155

27.                
اقبال کے کلام میں  قرآنی پیغمبر انہ تلمیحا ت
نویدحسن ملک، لکچر ار گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج جنڈانوالہ (بھکر)، پنجاب، پاکستان
160

28.                
اقبال کے مذہبی تصورات مکاتیب اقبال کے آئینے میں
محمد شبیر احمد، ریسرچ اسکالر: کشمیر  یونیورسٹی
166

29.                
ڈاکٹر انوار احمد کے افسانوں  میں سماجی اور سیاسی تناظرات
ڈاکٹرمسرت بانو، اسسٹنٹ پروفیسر ،گورنمنٹ کالج برائے خواتن،شاہ پور ضلع سرگودھا(پاکستان)
171