منگل، 20 ستمبر، 2011

فرقہ وارانہ فسادات مخالف قانون کی مخالفت کیوں؟

3 تبصرے

فرقہ وارانہ فسادات مخالف قانون کی مخالفت کیوں؟
فرقہ وارانہ فسادات کے روک تھام سے متعلق قانون کے سامنے آتے ہی اس کے خلاف ایک خاص ذہنیت رکھنے والوں کی طرف سے مخالفت کی آواز بلند ہونی شروع ہوگئی ہے۔ جلسے جلوس اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور حکومت کو متاثرکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس قانون میں موجود کچھ ’’غلط شقوں ‘‘ کی وجہ سے یہ مخالفت کی جارہی ہے، حالانکہ اس بل کے خلاف آواز بلند کرنے والے اسی وقت سے شور مچارہے ہیں جب حکومت نے اسے بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ان کو معلوم بھی نہیں تھا کہ اس بل میں کیا باتیں رکھی جائیں گی، اس کے باوجود مخالفت کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ فسادی ذہنیت رکھنے والوں کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اس قانون کے آنے کے بعد جب اور جہاں اقلیتوں کو نشانہ بناکر ان کے جان ومال کو نقصان پہنچانا آسان نہیں ہوگا۔ 
فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو آزادی کے بعد پورے ملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے لے کر ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات تک جتنی انسانی جانیں گئی ہیں اور جتنی املاک کا نقصان ہوا ہے اتنا قدرتی آفات کو چھوڑ کر کسی اور وجہ سے نہیں ہوا۔ اکیلے گجرات فسادات میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دو ہزار لوگ مارے گئے ۔ ہمارے سامنے جہیز مخالف قانون کی مثال موجود ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک جہیز کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ہزار تک بھی نہیں پہنچتی اس کے باوجود اس کے روک تھام کے لئے خصوصی قانون بنایا گیا جس میں جہیز کا مطالبہ کرنے والوں اور اس کے لئے لڑکی کو اذیت دینے والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ نچلی ذات کے لوگوں کے تئیں بڑی ذات کے کچھ لوگوں میں اگرچہ نفرت کا جذبہ ہے اور وہ ان کے ساتھ اچھوتوں جیسا برتاؤ کرتا ہے اس کے باوجود ایسا سننے میں نہیں آیا کہ بڑی ذات والوں نے چھوٹی ذات والوں کی بستی پر حملہ کرکے ان کا کام تمام کردیا ہو۔ اس کے باوجود ہریجن ایکٹ بنا اور اس کا نتیجہ ہے کہ کوئی بڑی ذات کا آدمی اب ہمت نہیں کرتا کہ چھوٹی ذات والے کے لئے غلط لفظ کا استعمال کردے چہ جائے کہ اسے تنگ کرے یا اس کو جانی و مالی نقصان پہنچائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات میں دہشت گردانہ سرگرمیوں سے بھی زیادہ جان ومال کے ضائع ہونے کے باوجود اس کے روک تھام سے متعلق قانون کیوں نہ بنایا جائے؟ فرقہ وارانہ فسادات کے وقت حکومت اور لال فیتاشاہوں کو کیوں نہ جواب دہ بنایا جائے اور کچھ ایسے مؤثر قدم اٹھائے جائیں کہ فرقہ وانہ فسادات کرانے سے پہلے فرقہ پرستوں کو سو بار سوچنا پڑے۔
آج ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ فرقہ وارانہ فساد ہے۔ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی خاص بستیوں کو چھوڑکر عام ملی جلی آبادی کی طرف کم ہی قدم بڑھاتا ہے۔ اور اگر روزی روٹی کی وجہ اگر اکثریت کی بستیوں کی طرف جانا بھی پڑے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کم ازکم رہائش کے مسلم بستیوں کا انتخاب کرے۔ ایسا وہ عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے کرتا ہے۔ حالانکہ کچھ لوگ اصل مسئلہ سے رخ پھیرنے کی خاطر اسے دوسرا رخ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمان قومی دھارے میں شامل ہونے سے کتراتے ہیں۔ ایسی بات بھی نہیں کہ وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں محفوظ ہیں، اب تک کے فرقہ وارانہ فسادات بتاتے ہیں کہ فرقہ پرست طاقتیں ایسے علاقوں کو اپنے خاص نظر میں رکھتی ہیں جہاں مسلمان ترقی کر رہے ہوتے ہیں، اس کے بعد فسادات کے لئے حالات سازگار کئے جاتے ہیں اور منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ فسادات کے بعد بچے کچے مسلمانوں کو فسادات بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فسادات انہوں نے کرائے تھے۔ مسلمانوں کے علاوہ دوسری لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو بھی فسادات جھیلنا پڑا ہے ۔ لندن جیسے اپنے آپ کو مہذب کہلانے والے معاشرے میں حالیہ فسادات نے یہ ثابت کردیا ہے کوئی بھی معاشرہ اس میں کبھی بھی فسادات رونما ہوسکتے ہیں۔ہندوستان کے تناظرمیں دیکھا جائے تو فرقہ وارانہ فسادات کی مار سب سے زیادہ مسلمانوں پر ہی پڑی ہے۔اس قانون میں اقلیت کی جگہ ’’گروپ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ہر قسم کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو شامل ہے۔ چنانچہ اس میں کسی بھی مذہب کے لوگ شامل ہوسکتے ہیں جو کسی خاص علاقے میں اقلیت میں ہیں ۔ اس کے باوجود اسے ہندو مخالف بل قرار دینے والے دراصل اپنے ’فسادات کرانے کی آزادی ‘ کے حق سے دست بردار ہونا نہیں چاہتے۔ تعجب ہوتا ہے کہ آج ہزاروں بے گناہوں کا قاتل مودی جس نے حکومتی اداروں کو مسلمانوں کے قتل عام کے لئے استعمال کیا کرپشن کے خلاف انا ہزارے کی آواز میں آواز ملاکر مرکزی حکومت کو گھیرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے رام دیو ہوں یا اناہزارے دونوں کے یہاں انسانی جانوں سے زیادہ پیسوں کی اہمیت ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی تو ہزاروں انسانوں کے قاتلوں سے حمایت لینے کے بجائے انہیں ان کے گناہوں کی یاد دلاتے۔
مسلمانوں کو اور دوسری اقلیتوں کو چاہیے کہ وہ اس بل کے پاس کرانے کے لئے آگے آئیں اور حکومت اور دوسری پارٹیوں پر دباو بنائیں جلسے جلوس سمینار اور مظاہروں کے ذریعہ اس بل کی حمایت کریں ۔ اگر ہم اس بل کو پاس نہیں کراسکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اقلیتوں کے خلاف سازش رچ کر کوئی بھی بلا خوف کہیں بھی فساد کر سکتا ہے۔ 
ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ گجرات فسادات کو چھوڑ کر تقریبا سبھی بڑے فسادات کانگریس حکومت کے دور میں ہوئے اور ان میں سب سے زیادہ نقصان مسلم اقلیت کا ہوا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کانگریس نے اس کو محسوس کیا اور متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت کے دوسرے دور میں اس قانون کو پاس کرنے کی طرف قدم بڑھایا۔ لیکن حکومت کی ذمہ داری اسی پر ختم نہیں ہوجاتی ہے، اسے ہمت کرکے اس بل کو پاس کرانا ہوگا تاکہ ملک کی اقلیتیں بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکیں۔ایسا نہ ہو کہ خواتین ریزرویشن بل کی طرح یہ بل بھی ٹھنڈے بستے میں چلاجائے۔


ہفتہ، 3 ستمبر، 2011

انا ہزارے کی تحریک۔ میڈیا کا پیپلی لائیو شو

0 تبصرے
اگست کےنصف آخر میں دہلی میں صرف ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی، ۔ سڑک مارکیٹ گلی کوچے ہر جگہ بس انا، انا کا  نعرہ تھا۔ ہرجگہ سے تھک ہار کر گھر پہنچ کر جب ٹی وی آن کرکے کچھ سکون حاصل کرنا چاہتا تو وہاں بھی وہی شوروشرابا۔ اللہ بھلاکرے ان ٹی وی والوں کوکہ انہوں نے تو گویا اپنے سبھی رپورٹروں کو اسی کام پر لگادیا تھا کہ صرف اناکی خبر ارسال کرو، کسی گلی میں دو چار لوگوں نے جمع ہوکر نعرہ لگایا کہ ٹی وی پر اس محلہ اور علاقہ کا نام انا جی کے سپورٹروں میں آگیا۔ 
اگر ہم اس تحریک کی کامیابی کا نوے فیصد کریڈٹ ٹی وی اور اخبارات کو دیں تو بے جانہ ہوگا۔ جہاں تک ٹی کی رسائی تھی وہیں تک انا کی آندھی تھی، اس کے باہر سب کچھ سونا سا تھا۔ میں نے جب اپنے گاوں بلرام پور ضلع میں اس تحریک کے بارے میں جاننا چاہا تویہ جان کر تعجب ہوا کہ یہاں اکثر لوگوں نے انا کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ میڈیا نےاس تحریک کے لئے جو کچھ کیا اس کو دیکھ کر پیپلی لائف یاد آگئی جو عامر خان کی ایک بہت اچھی فلم تھی۔
  کاش میڈیا ان لوگوں پر بھی توجہ دیتا جو گیارہ گیارہ سالوں سے بھوک ہڑتال پر زندگی اور موت کے درمیان جوجھ رہے ہیں۔ وہ کہیں اور نہیں دہلی میں جنتر منتر پر ہی ہیں۔ وہ بھی انسان ہیں، اگر ان کے پاس وسائل نہیں تو یہ کام میڈیا کرسکتا ہے۔
           دوسری بات یہ کہ اس پورے معاملہ میں انا جی صرف ایک مکھوٹا تھے، وہ وہی کرتے تھے جو کیجری وال اور کرن بیدی کہتی تھیں۔ ایسے میں انا جی کو اس تحریک کا قائد کیسے کہا جاسکتا ہے۔؟
            مسلمانوں نے اگرچہ اس تحریک میں اوروں کی طرح حصہ لیا مگر اکثر مسلمان انا کے بارے میں تذبذب کا شکار رہے، اردو اخبارات ہمیشہ شک کا اظہار کرتے رہے۔ ایسا وندے ماترم ، دوسرے نعروں کی وجہ سے بھی ہوا۔ دوسری بات یہ اس تحریک میں بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ پیش پیش تھے مسلمان بے چارہ دودھ کا جلا کیا کرے گا کہنے کی ضرورت نہیں۔
           انا جی پی ایم کو تو لوک بال سے باہر رکھنے پر راضی نہ ہوئے مگر ججوں کے معاملے میں راضی ہوگئے۔ آخر ایسا کیوں؟ سپریم کورٹ نے الہ باد ہائی کورٹ کے بارے میں ابھی جلد ہی کہا ہے اوپر سے نیچے تک سب کچھ سڑ چکا ہے۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ بعض ضلع کے جج تو باقاعدہ ریٹ طے کر رکھے ہیں۔ ایسے میں ان کو الگ کرنے پر انا راضی کیسے ہوگئے؟
          میرے خیال میں صدر،وزیر اعظم چیف اور جسٹس آف انڈیا کے علاوہ ہرایک کو اس کے دائرے میں آنا چاہئے۔ ان تینوں کو اس لئےنہیں کہ یہ بہت ہی باوقار عہدے ہیں۔ انہیں آزادانہ طورپر کام کرنے دینا ملک کے حق میں ہے۔
         
       میں اس تحریک کا حامی تو ضرور تھا مگر اندر سے خائف بھی کہ کہیں یہ آر ایس ایس کا ہی دوسرا روپ نہ ہو، اب جب کہ انا جی کی تقریبا ساری باتیں مان لی گئی ہیں مجھے یہ ڈر ستا رہا ہے کہ کہیں یہ بل ہمارے سیاسی نظام کے ضروری جز چیک اینڈ بیلنس کو بگاڈ نہ دے۔
       ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اس تحریک کی کامیابی سے شعلے اسٹائل کی تحریکوں کا دور نہ شروع ہوجائے۔ یعنی میری باتیں سو فیصدی تسلیم کی جائیں ورنہ میں اپنی جان دے دوں گا۔ جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی بات رکھنے کا حق ہے، مگر یہ اختیار کسی کو نہیں ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کرے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہی صحیح ہے باقی سب غلط ہے۔
اللہ کرے کہ خیر ہو اور ملک ترقی کرے۔


جمعرات، 1 ستمبر، 2011

عزیز سلفی کی شاعری

2 تبصرے

عزیز سلفی کی شاعری 
’پرواز‘کی اشاعت سے پہلے کم ہی لوگ مولانا عزیز الرحمان عزیز سلفی کو ایک شاعر کی حیثیت سے جانتے ہوں گے ۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے سینئر استاد اور کئی عربی اردو دینی کتابوں کے مصنف کی حیثیت سے دنیا ان کو جانتی ہے۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں یہ ہمارے لئے ایک خبر تھی ، ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے لئے جو عزیز سلفی کو ان کی کتابوں کے حوالے سے جانتے ہوں گے۔ 
 عزیرالرحمان عزیز سلفی نے عام شاعروں کی طرح اپنی شاعری کی ابتدا ء غزلوں سے کی عزیز سلفی کی پہلی غزل کا مطلع ہے
میں ہوکے در پہ ترے اشکبار آیا ہوں 
نگاہ لطف اٹھا سوگوار آیا ہوں
گویا کہ عزیز سلفی نے شاعری کی وادی میں قدم رکھتے ہی اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ ہم بھی ایک عاشق کا دل رکھتے ہیں، جس کے اندر کوئی محبوب بستا ہے اس کے التفات سے شہنائیاں بجتی ہیں اور منہ پھیرلینے پر زندگی خفاخفا سی لگنے لگتی ہے۔
اسی غزل کے چند اشعار اور ملاحظہ ہوں:
یہ پھول ہوکے دریدہ قبا ہیں کیوں خنداں
چمن میں، میں بھی اگر تار تار آیا ہوں
نسیم لا !ذرا تو ان کی زلف کی خوشبو
تڑپتا لوٹتا دیوانہ وار آیا ہوں
یہ میری کوشش اول ہے دیکھ اے ناصح 
کہ فکر نو کو لئے بے قرار آیا ہوں
علامہ اقبال کی اپنی شاعری کے ابتدائی ایام میں ایک مشاعرے ایک غزل پڑھی تھی جس میں ایک شعر تھا:
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے 
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
اس شعر پر انہیں زبردست داد ملی جس کی وجہ سے انہیں شعر گوئی کی طرف توجہ دینے کا حوصلہ ملا۔ معمولی فروگذاشتوں کو اگر نظر انداز کردیا جائے تو مولانا کی یہ پہلی غزل ایک عظیم شاعر کے آمد کی نوید تھی۔ مگر یہ اردو ادب کی بدقسمتی تھی اس آواز کو علامہ اقبال کی طرح کو ئی عزیز سلفی کو بتانے والا نہ تھا۔ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مولانا کو ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے جانتے۔
عزیز سلفی کی غزلوں میں ہمیں اردو کی روایتی شاعری کے سبھی موضوعات مل جاتے ہیں۔ حسن وعشق کی سرمستیاں، محبوب سے رازونیاز، محبوب سے دور ہونے پر رنج وغم کا اظہار وغیرہ
عزیز سلفی سراپانگاری میں کمال کا ملکہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب کا سراپا کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
آنکھیں ہوں جیسے کوئی مے کا چھلکتا ساغر
بھول سے اوڑھنی کاندھے پہ سرک آئی ہو
زلف کی کالی گٹا تابش روئے انور 
جیسے کہ چاندنی بدلی میں نکل آئی ہو
اس کے ہر عضو سے پھوٹتا اس طرح شباب
اس کا ہر انگ ہی لیتا ہوا انگڑائی ہو
اس کے رخسار پہ پھیلی ہو حیا کی سرخی
کچھ مجھے دیکھ کے وہ اس طرح گھبرائی ہو
بڑھ کے میں چوم لوں اس کے حسیں یاقوت سے لب
اور باہوں میں مری وہ بھی سمٹ آئی ہو
کہتے ہیں کہ کسی کو اتنا نہ چاہو کہ وہ تمہاری محبتوں کا سوداگر بن جائے اور اپنی محبت کا تاوان وصولنے لگے۔عزیز سلفی نے کسی کو دل سے چاہا جس کی فرقت میں وہ آہ بھرتے رہے۔ ان کا محبوب ان پر جفائیں کرتا جاتا ہے اور عزیز سلفی اس کے لئے خیر کی دعائیں کرتے جاتے ہیں:
تم حسیں جتنے ہو اتنے ہی ستمگر ظالم
جو جفا کیش نہ ہو وہ کوئی گلفام نہیں
زخم ہر روز نیا دل پہ مرے لگتا ہے
آنکھ روئے نہ لہو ایسی کوئی شام نہیں
عزیز سلفی کومحبوب کی فرقت کا غم اس قدر ہے کہ باد صبا ان کے لئے راحت کا سامان نہیں بلکہ ان کے زخموں پرنمک پاشی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے، چاندنی کی ٹھنڈی روشنی سے لو لگتی ہے:
یہ چاندنی کی دھوپ بھی برسارہی ہے لو
ڈستی ہے ناگ بن کے یہ خلوت ترے بغیر
موج صبا نے کی ہیں نمک پاشیاں بہت
آآ کے دل جلاتی ہے نکہت ترے بغیر
ہے خشک ہوا گھنگور گھٹا بادل کی گرج بجلی کی چمک
راتوں کو فراق یار مجھے بسمل کی طرح تڑپاتا ہے
دنیائے محبت کی ہر بات نرالی ہے
جو ظلم کا خوگر ہے وہ آکھ کا تارا ہے
اس میں عزیز سلفی کو اس بات کا احساس ہے کہ محبوب اگر بے التفاتی کرتا ہے تو اس کے یہاں بھی کچھ مجبوریاں ہوں گی۔ وہ اپنی بے وفائی پر نادم بھی ہے
ہیں جھکی جھکی نگاہیں کوئی سوگوار کیوں ہے
مرا دل مسل کے آخر کوئی شرمسار کیوں ہے
پس قتل یہ ہوئی کیوں انہیں قتل پہ ندامت
مری قبر کے سرہانے کوئی اشکبار کیوں ہے
عاشق اپنی معشوقہ سے ملنے کے لئے کیسی کیسی بچکانہ باتیں سوچتاہے ، کبھی سوچتا ہے کاش ایسا ہوجائے ویسا ہوجائے وغیرہ وغیرہ عزیزسلفی کیا سوچتے ہیں:
مجھ کو صحرائے محبت میں پھراتا ہے جنوں
اٹھتا جس سمت قدم ہو ترا گھر ہوجائے
واہ ، دعا بھی عاشقوں والی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عزیزسلفی کا محبوب کون ہے؟ ویسے ایک بات ہے کسی انسان کو عالم ڈاکٹر،انجینئر بنانے میں کسی عورت کا ہاتھ ہو یا نہ ہو مگر شاعر بنانے میں عورت کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے وہی اسے عشق کے اسرار ورموز سے واقف کراتی ہے۔ اس لئے میرا ماننا ہے کہ ایک اچھے شاعر کے لئے عاشق ہونا ضروری ہے۔عزیز سلفی نے یہ کہہ کر معاملہ صاف کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ان کی شریک حیات ہیں۔ عزیز سلفی ایک بڑے عالم دین ہیں اس وجہ سے ان سے یہی امید بھی کی جاتی ہے۔ مگر ان کی شاعری کچھ الگ ہی کہانی بیان کرتی نظر آتی ہے۔ اگر محبوب ان کی بیوی ہے تو اس کے یہ عشوہ ناز و ادا، اس کی جدائی میں آنسو بہانا اور کبھی ملے بھی تو اس کی جفائیں اس لئے یا تو مولانا حقیقت بتاتے ہوئے شرمارہے ہیںیا ان کی شاعری کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے۔ ویسے بھی عشق ایک حقیقی اور فطری جذبہ ہے کسی کو بھی ہوسکتاہے اس میں نہ تو کچھ چھپانے کی ضرورت ہے نہ شرمانے کی کوئی حاجت ہے۔ 

عزیز سلفی کی شاعری ہمیں اپنی طرف ایک اور وجہ سے اپنی طرف کھینچتی ہے وہ ہے ان کے موضوعات کا تنوع ۔مولانا نے جہاں اسلامی تہواروں پر نظمیں کہی ہیں وہیں ہندؤں کے تہواروں پر بھی نظمیں کہی ہیں ۔ عزیز سلفی نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ بنارس میں گذاراہے سچ پوچھئے تو جوانی سے لے کر عمر کے اس مقام تک جہاں سے عہد جونی کو پیچھے مڑ کر دیکھنا پڑتا ہے عزیزسلفی نے بنارس میں گذارے۔ وہاں کا تہذیب اور کلچر ان کی رگوں میں بسا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں صبح بنارس کی جھلک نظر آتی ہے۔ عزیز سلفی نے ہندوں کے تہواروں پر جو نظمیں کہی ہیں ان کے اندر ان تہواروں کی اچھائیوں کا تذکرہ تو ہے ہی ساتھ ہی مذہب کے نام پر امن وامان کو غارت کرنے والوں کے عمل سے ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔

آئی دیوالی گھر گھر چراغاں ہوا بام ودر دیکھو گلشن بداماں ہوا 
ہر محل میں ہے خوشیوں کا ساماں ہوا خوب اظہار شوق فراواں ہوا
جگمگا اٹھا ہے نور سے ہر محل
کتنی پریاں ہیں مصروف رقص وغزل
ہجر کے مارے کتنے گلے سے ملے وصل کی شب دیئے دیکھو کتنے جلے
مدتوں بعد ہیں آج دل سے ملے آج ساقی ملا دور مے بھی بھی چلے
آج خوشیوں کے ساون کی برسات ہے
جس کے تھے منتظر آج وہ رات ہے
عزیز سلفی ایک دردمند دل رکھتے ہیں دیوالی کی چکاچوند روشنی انہیں ایک بیوہ کے آنسو اور اس کے غم کو اوجھل نہ کرسکی۔ اس لئے ’تصویر کا دوسرا رخ‘ بھی دکھا یا ہے۔
کوئی بیوہ دل اپنا دبائے ہوئے اپنے پلکوں پہ آنسو سجائے ہوئے
بچھڑے پیتم کو دل میں بسائے ہوئے میلے آنچل میں چہرہ چھپائے ہوئے
رات بھر کروٹیں وہ بدلتی رہی
اور دیوالی ہنستی ہنساتی رہی
کچھ اسی طرح عزیز سلفی نے دیوالی پر بھی ایک نظم لکھی ہے جس میں دیوالی سے متعلق چھوٹی سی چھوٹی باتوں کا خوب صورت انداز میں ذکر کیا ہے۔لیکن ہولی کے نام پر بے ہودگی انہیں پسند نہیں اس لئے وہ کہتے ہیں:
سرتاپا ہیں رنگ میں ڈوبے مے میں دھت ہیں سارے
بیٹھے گھر میں منہ کو چھپائے دکھیارے بیچارے
اس کی دیکھو ناک ہے زخمی اس کا سر ہے پھوٹا
بدن ہے سارا خون میں ڈوبا پہر بھی شاید ٹوٹا
رنگ کی ہولی کے بدلے میں کھیلی خون کی ہولی 
کسی نے اس کا کرتا پھاڑا، اس نے پھاڑ دی چولی
’پرواز ‘کی اشاعت میں ایک بات کا خیا ل رکھا گیا ہے کہ ہر غزل یا نظم کب کہی گئی اس کی تاریخ بھی درج کردی گئی ہے، اس کے مطالعہ سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ جوانی کی عمر کی شاعری میں جو جوش ، ولولہ اور روانی تھی وہ دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی، یہی نہیں بلکہ فکر کی وسعت بھی پھیلنے کے بجائے سمٹتی گئی، اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ درس وتدریس کی وجہ انہیں اس کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہ ملی ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے شاعری ایک قسم کی آوارہ مزاجی چاہتی ہے جس کو عزیز سلفی بعد میں نبھا نہ سکے۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ان پر سنجیدگی آتی گئی اور عمدہ قسم کی شاعری اسی سنجیدگی میں دفن ہوتی گئی۔
عزیز سلفی کے اندر ایک عظیم شاعر تھا جس کو کبھی کھل کر سامنے آنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ عزیز نے جو کچھ بھی شاعری کے نام پر کہا ہے وہ اگرچہ مقدار میں کم ہے مگر کسی بھی فنکار کی عظمت اس کلام کی تعداد سے نہیں بلکہ معیار سے جانچی جاتی ہے۔ اس معاملے میں عزیز سلفی کا کافی خوش قسمت ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پرواز کو وقتی اشعار جو کسی کی شادی یا اعزہ و اقربا کے موت کے وقت کہے گئے اس مجموعے میں شامل نہ کئے جاتے۔ 

عزیر اسرائیل
شعبہ اردو ،دہلی یونی ورسٹی


مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھوتی بھوجپوری فلم صنعت

0 تبصرے

مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھوتی ,بھوجپوری فلم صنعت
آپ مانیں یا نہ مانیں آج بھوجپوری سنیما ہندی سنیما کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھررہا ہے۔ یہ معاملہ صرف یوپی بہار کا نہیں ہے بلکہ دہلی اور ممبئی جیسے شہروں میں بھی جہاں اترپردیس اور بہار کے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں ہندی نغموں کے ساتھ بھوجپوری موسیقی بھی اپنی موجودگی درج کرارہی ہے۔
بچے ہوں یا جوان یا پھر بوڑھے ہر طبقہ بھوجپوری موسیقی کا دلدادہ ہے۔ایسا ممکن نہیں کہ یہ تبدیلی یکبارگی آگئی ہو اور پوروانچل (مشرقی یوپی کا وہ علاقہ جہاں بھوجپوری بولی اور سمجھی جاتی ہے) یکبارگی ہندی سنیما کو چھوڑ کر بھوجپوری کا دامن تھام لیا ہو، ضروری سی بات ہے کہ اس تبدیلی میں کچھ عرصہ لگا ہوگامگر جس سرعت کے ساتھ یہ سب ہو اوہ چونکانے والا ضرور ہے ۔
اس تبدیلی کے پیچھے سب سے بڑا محرک علاقائیت کا بڑھتا رجحان ہے،علاقائیت اگر مثبت فکر لئے ہوئے ہو تو اس کو معیوب نہیں کہا جاسکتاہے ۔اس رجحان کو اپنے تہذیب اور کلچر سے پیار کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہئے ۔یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی اجازت دستور ہند ہمیں فراہم کرتا ہے ۔
ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کی فلموں نے عرصہ سے اپنی پہچان بنالی ہے خاص طور پر کنڑاور بنگلہ فلمیں اپنے معیار کے اعتبار سے کافی ترقی کرچکی ہیں ، وہاں کی حکومتوں کا تعاون بھی انہیں حاصل رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں کی فلم انڈسٹری کے لئے یہ ممکن ہوسکا کہ وہ ہندی سنیما کا مقابلہ کرسکیں۔اس کے بالمقابل بھوجپوری کا معاملہ ذرا مختلف ہے ، ابھی تک بھوجپوری کو ایک مستقل زبان کادرجہ نہیں مل سکا ہے ، یہ زبان اب بھی جاہلوں کی زبان سمجھی جاتی ہے ، بھوجپوری بولنے والے جہاں کہیں بھی جاتے ہیں وہ اپنی زبان میں بات کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں،انہیں یہ خوف ہوتاہے کہ لوگ انہیں جاہل ان پڑھ اور گنوار نہ جانے کن کن القاب سے یاد کریں گے۔ اس سے خوف پیدا ہوگیا تھا کہ بھوجپوری زبان اور اس کے ذخیرۂ الفاظ کہیں ختم نہ ہوجائیں۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ بھوجپوری والے بھی اپنی زبان کے لئے بیدار ہورہے ہیں۔ اس کی ایک واضح ثبوت بھوجپوری سنیما کی مقبولیت ہے۔ ایک زمانہ تک بھوجپوری میں اچھے فلم ایکٹروں کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو اس سے مایوسی ہوتی تھی مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔دنیش کماریادو عرف نرہوا،روی کشن جیسے اداکاروں نے جیسے بھوجپوری سنیما میں جان ڈال دی ہے۔پہلے جہاں بڑی کمپنیاں اپنا سرمایہ لگانے سے کتراتی تھیں وہیں اب بڑی بڑی کمپنیاں اپنا سرمایہ لگارہی ہیں۔اس سے یہ امید بنی ہے کہ ایک دن بنگلہ ،پنجابی اور کنڑ فلموں کی طرح یہ بھی اپنا مقام بنالے گی۔
بھوجپوری سنیما کے ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندی سنیما گاؤں دیہات میں رہنے والوں کی آرزؤں اور امنگوں کی ترجمانی نہیں کرپارہا ہے۔’روٹی کپڑا اور مکان‘، ’مدرانڈیا ‘ اور اس زمانہ کی دیگر فلموں کو چھوڑ کر ہندی سنیما گاؤں کی زندگی سے دور ہوتاگیا،اب نہ اس کے اندر گاؤں ہے نہ گاؤں والے ہیں اور نہ ان کے مسائل۔ گاؤں والوں کے لئے اس کی کہانی اوراس کے کردار اجنبی ہوتے ہیں۔ ان کے لئے بھوجپوری فلمیں ایک بہتر متبادل کے طور پر سامنے آئیں۔اس میں گاؤں کی مٹی کی خوشبواور کھیت کھلیان اور ان کی دل چسپی اورمتوجہ کرنے والی سبھی چیزیں ہیں ۔اس میں محبت کرنے والے کارپوریٹ گھرانے کے نازونعم میں پلے بڑھے جوڑے نہیں ہیں۔بلکہ انہی جیسے بھولے بھالے انسان ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ بھوجپوری سنیما کے مخاطب صرف گاؤں دیہات کے لوگ ہیں ،بھوجپوری بولنے والے شہروں میں بھی یہ اسی طرح مقبول ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھوجپوری سنیما اپنے ابتدائی دور سے گذر رہا ہے اس کے اندر ابھی کمیاں ہوں گی اور ہیں بھی۔ سب سے بڑی خرابی بھوجپوری میںیہ ہے کہ سہل پسندی اور عامیانہ پن کی وجہ سے اس میں ہنسی مذاق عام طور پر پھوہڑ پن کے دائرہ میں آجاتے ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ بھوجپوری کلاکار اشارہ کنایہ میں بات کرنا جانتے ہی نہیں، بعض دفعہ اتنے پھوہڑ قسم کے ڈائلاگ بول جاتے ہیں کہ ان کو سن کرشرمندگی کا احساس ہوتاہے۔
ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اب تک بھوجپوری فلم کے عاشق کو عشق کرنا نہیں آیا ہے۔ اس کی ہیروئن تو عموماً پہل کرتی نظر آتی ہے جو بھوجپوری تہذیب اور معاشرہ کی ترجمانی نہیں کرتا،اس کے علاوہ یہ فطرت کے بھی خلاف ہے ۔ لڑکی کی شرم وحیا ہمیشہ یہ کام مرد ہی کے لئے چھوڑ دیتی ہے۔بھوجپوری سنیما کی ہیروئن کی پہل بھی کچھ اس انداز کی ہوتی ہے کہ اسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جائے۔شاید ہی کوئی بھوجپوری فلم ہو جس میں لڑکی کو چھیڑکر اس کے ساتھ گانا نہ فلمایا گیا ہو، دراصل بھوجپوری فلمکاروں کی ساری توجہ زیادہ سے زیادہ گانوں کو فلم میں سمونے کی ہوتی ہے اس کے لئے بے وجہ کسی نہ کسی بہانہ سے گانا اور ناچ کو جگہ دے دی جاتی ہے۔ اس کوشش میں ان کو یہ مہلت ہی نہیں ملتی کی وہ ہیرو اور ہیروئن کو اپنے عشق کو فطری انداز میں انجام تک پہنچانے کا موقع دیں۔ گویا کہ اگر ڈرامے کی زبان میں بات کریں تو بھوجپوری سنیما پر ’اندرپرست ‘ کی روایت حاوی ہے۔ جہاں تک بھوجپوری فلموں میں لباس کی بات ہے تو یہ بالی وڈسے زیادہ ہالی وڈ کی نقل کرتاہوا نظر آتا ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ آپ کو کم ہی بھوجپوری فلمیں ملیں گی جن کو اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں۔یقینی طور پر کہاجاسکتا ہے کہ بھوجپوری سنیما میں گاؤں کھلیان اور کھیت تو اپنے ہیں مگر ان میں اگنے والی فصل اپنی نہیں ہے۔
اگرچہ آج کل بھوجپوری علاقوں میں ہندی گانوں کے مقابلہ میں بھوجپوری کا چلن بڑھا ہے لیکن اگر گانوں کا یہی معیار رہا تو کچھ ہی دنوں میں اس سے لوگ اوب جائیں گے، بھوجپوری گانے عموماً ضرورت سے زیادہ طویل ہوتے ہیں، یہ طوالت اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ گانے کے بول زیادہ ہوتے ہیں اس کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی مصرعہ کو گلوکار بار بار دہراتا ہے، اس طرح جو گانا چار منٹ میں گایا جاسکتا ہے اس کے لیے سات سے آٹھ منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندی گانوں کی بھونڈی نقالی بھی طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔ابھی بھوجپوری موسیقی کو ہندی یا پنجابی موسیقی تک پہنچنے کے لیے ایک لمبا سفر طے کرنا ہے اس کے لیے بھوجپوری موسیقاروں کو ہندی گانوں کی نقالی چھوڑکر تخلیقی قوت کو بروئے کار لانا ہوگا ورنہ نقل سے کبھی پہچان نہیں بنتی۔
اس وقت عوام میں بھوجپوری فلموں کی بڑھتی مقبولیت بھوجپوری سنیما کے لیے ایک خوش آئند بات ہے ، اس دلچسپی کو برقرار رکھنے میں اگر بھوجپوری سنیما کامیاب رہا تو ٹھیک ورنہ پھر شاید یہ موقع پھر نہ مل سکے۔