جمعرات، 6 اکتوبر، 2011

محکمہ آثارقدیمہ کا مساجد کے ساتھ معاندانہ رویہ

0 تبصرے

مساجد کی سرعام بے حرمتی، نماز پڑھنا غیر قانونی،غیرقانونی مندروں کی سرپرستیتاریخی عمارتوں کی دیکھ بھال کے لئے وزارت برائے ثقافتی امور کے ماتحت محکمہ آثار قدیمہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا مقصد تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں کی دیکھ ریکھ کرنا اور ضرورت کے مطابق ان کی مرمت کرناہے۔ مگر یہ محکمہ اپنے کام میں کس قدر چاک وچوبند ہے اس کا اندازہ اس کی نگرانی والی عمارتوں کو دیکھ کر آسانی سے لگایا جاسکتاہے۔ تاریخی عمارتوں میں گندگی، عمارتوں کی حالت خستہ اور مرمت کے لئے گھٹیا میٹریل کا استعمال اس محکمہ کا طرہ امتیاز ہے۔ شروع سے ہی اس محکمہ کا رویہ مسلم تاریخی عمارتوں کے ساتھ معاندانہ رہا ہے۔ حال ہی میں ایک آر ٹی آئی کے ذریعہ جو حقیقت کھل کر سامنے آئی وہ چوکانے والی ہے۔ راقم الحروف نے ۸ جون کو ایک آر ٹی آئی داخل کرکے دہلی کی سبھی مندروں مسجدوں اور چرچوں کی فہرست مانگی تھی جو محکمہ آثار قدیمہ کے زیر نگرانی ہیں ساتھ ہی ان عبادت گاہوں میں عبادت کی اجازت ہے یا نہیں۔ اس کے جواب میں محکمہ آثار قدیمہ نے ان عمارتوں کا نام اور پتہ کے سوال کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے جواب دیا ہے کہ دہلی سرکل میں ایک بھی مندر اور چرچ آثار قدیمہ کے تحت نہیں ہیں اس وجہ سے ان کے اندر پوجا کی اجازت دینے اور نہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 
پورے دہلی میں آثار قدیمہ کی مساجدمیں سے صرف تین مساجد میں ہی نماز ہورہی ہے باقی نو مساجد میں محکمہ کے جواب کے مطابق غیر قانونی طور پر نماز ہورہی ہے۔ محکمہ ایک طرف یہ مان رہا ہے کہ یہ مساجد ہیں دوسری طرف ان میں نماز کو غیر قانونی قرار دے رہا ہے۔ آخر مسجد میں نماز پڑھنا غیر قانونی ہے تو کیا کرنا قانونی ہے؟ جوتے چپل پہن کر اس کی بے حرمتی کرنا؟ یا نوجوان جوڑوں کا کھلے عام ان مساجد میں بے حیائی کرنا؟
آر ٹی آئی کے جواب میں محکمہ نے ان مساجد میں نماز نہ پڑھنے کی وجہ یہ بیان کی ہے ’’محکمہ کے قانون کے مطابق جو عمارت جس حالت میں لی گئی ہے اس کو اسی حالت میں برقرار رکھا جائے گا، چونکہ دہلی کی تین مساجد کے علاوہ بقیہ میں محکمہ کے ماتحتی میں لیتے وقت نماز نہیں پڑھی جاتی تھی اس وجہ سے ان کے علاوہ مساجدمیں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘
’’محکمہ کی ماتحتی میں لینے سے پہلے کی حالت برقرار رکھنے ‘‘ سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ ان میں نماز نہ پڑھنے دیا جائے، بس یہی بات سامنے آتی ہے کہ اگر کوئی عمارت مسجد ہے تو وہ مسجد ہی رہے گی مندر ، آفس یا گرودوارہ میں تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ جہاں تک نماز نہ پڑھنے کی بات ہے تو ایسی بات نہیں ہے کہ ان مساجد میں کبھی نماز ہی نہیں ہوتی رہی تھی ۔ تقسیم وطن کے موقع پر بہت سارے مسلم گھرانے یا تو جان سے مار دئے گئے تھے یا مجبوراً ہجرت کرگئے ، کچھ ایسے بھی مسلمان تھے جو پاکستان تو نہیں گئے مگر ملک ہی میں کسی اور مسلم بستی میں چلے گئے ایسے میں وہ مسجدیں ویران ہوگئیں۔ مگر یہ حالت زیادہ دنوں تک نہیں رہی بعد میں جب حالات سازگار ہوئے تو روزگار کی تلاش میں مسلمانوں نے ان علاقوں کا بھی سفر کیا، کچھ مسلمان ان علاقوں میں دوبارہ بس گئے اور کچھ صرف روزگار کی خاطر ہی ان علاقوں کی طرف گئے۔ چونکہ محکمہ نے ان مساجد کو اپنی ماتحتی میں لے لیا تھا اس لئے ان مساجد میں نماز پڑھنے سے وہ محروم رہے، ان مسلمانوں کے لئے ان مساجد میں دوبارہ نماز پڑھنے کے لئے انتظامیہ سے لڑنے اور قانونی چارہ جوئی کرنے سے آسان نئی مساجد کی تعمیر کرنا زیادہ آسان لگا۔ لہذا انہوں نے نئی مساجد بنالیں۔ مگر اس کی بھی ایک حد ہے، دہلی جیسے شہر میں مساجد کے لئے جگہ نکالنا کوئی آسان کام نہیں، اس وجہ سے اب یہی ایک راستہ ہے کہ آثار قدیمہ کی مساجد میں نماز پڑھنے کے لئے قانونی چارہ جوئی کی جائے، یا حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ان مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دے۔
آثار قدیمہ کے قانون کے مطابق کسی بھی تاریخی عمارت کے سو میٹر کے دائرے میں کوئی بھی تعمیری کام نہیں ہوسکتا، مگر حالت یہ ہے کہ سو میٹر تو دور ان عمارتوں کے اندر بھی غیر قانونی عمارتیں بن گئی ہیں اور ان پر محکمہ کوئی کاروائی نہیں کررہا ہے۔ تغلق آباد کے قلعہ میں جہاں مسجد میں عبادت کی اجازت نہیں وہیں ایک استھان جس کو غیر قانونی طور پر بنایا گیاہے اس میں برابر پوجا ہورہی ہے۔ تعجب یہ اس کی تعمیر میں مٹی کے اینٹوں کو استعمال میں لایا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ اتنی تعداد میں وہ انٹیں کیسے آئیں؟جب کہ پورے قلعہ میں ایک بھی ایٹ کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ اگر چہ ابھی وہ استھا ن کچی شکل میں ہے مگر کب تک اس قسم کے مندروں کی تاریخ جاننے والے جانتے ہیں کہ کچھ ہی سالوں میں وہاں ایک عالی شان مندر بن جائے گی جس میں پوجاپاٹ کی مکمل اجازت ہوگی۔ آج حالت یہ ہے کہ اکثر تاریخی عمارتوں میں یا اس سے ملحق کسی نہ کسی مندر کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ ان غیر قانونی مندروں میں عبادت ہوتی ہے، مگر قانونی مسجدوں میں نماز پر پابندی ہے۔ 
آرٹی آئی داخل کرتے وقت ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ کچھ مندر بھی ایسے ہونگے جن میں عبادت کی اجازت نہیں ہوگی، لہذا ان کے ساتھ مل کر ہم ایک سیکولر تحریک چلائیں گے کہ مسجد ہویا مندر اس کا اصل استعمال یہ ہے کہ اس میں عبادت کی جائے، وہ کسی بھی دھرم سے متعلق ہو۔ مگر محکمہ کے جواب نے مجھے حیران کردیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پورے دہلی میں ایک بھی مند ر یا چرچ ایسا نہیں ہے جو تاریخی اہمیت کا حامل ہو؟ ایسا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ محکمہ آثار قدیمہ قانون 1958 میں آثار قدیمہ کی تعریف جو کی گئی ہے اس کے مطابق :’’کوئی بھی ڈھانچہ، عمارت ،یادگار ، ٹیلہ، قبرستان گفا(پہاڑ کی کوہ) مجسمہ جو چٹان کو تراش کربنایا گیا ہو، نقش ونگار ، کوئی پتھر جو تاریخی،آثارشناسی سے متعلق یا فن کاری کے لئے اہمیت کا حامل ہوان سب کے ساتھ یہ سبھی چیزیں کم ازکم سو سال پرانی ہوں۔ ‘‘ 
کیا اس شرط پر کوئی چرچ اور مندر پوری ہی نہیں اترتی یامعاملہ کچھ اور ہے؟ دراصل حکومت نے صرف اور صرف مسجدوں کوہی آثار قدیمہ کی نگرانی میں اس وجہ سے دیا تاکہ آسانی سے اس میں عبادت سے روکا جاسکے۔
کسی عمارت کو آثار قدیمہ کے ماتحتی میں لینے کا طریقہ کار کیا ہے ؟اس کے بارے میں آثار قدیمہ کا ایکٹ کہتا ہے کہ ’’ کسی بھی قومی اہمیت کی عمارت کو دو مہینہ کا نوٹس دیا جاتا ہے، اس دوران اگر کچھ اوبجکشن آتے ہیں تو ان کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اس عمارت کو آثار قدیمہ کی نگرانی میں لے لیا جاتا ہے۔
محکمہ کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت پورے ملک میں 3650سے زائدقومی اہمیت کے آثار محکمہ کی زیر نگرانی ہیں۔ محکمہ کی ویب سائٹ کے مطابق اس میں مندر ، مسجداور چرچ سبھی شامل ہیں۔ ابھی یہ جاننا باقی ہے ان مندروں اور چرچوں میں عبادت ہوتی ہے یا نہیں؟
پوری دہلی میں آثار قدیمہ کی مساجد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جہاں ایک طرف مسلمان جمعہ اور عیدین کی نماز وں کے لئے مساجد کی تنگی کی شکایت کررہے ہیں وہیں یہ مساجد محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں خالی پڑی ہیں۔ ایسی ہی ایک عمارت میں کچھ دنوں پہلے راقم الحروف کے جانے کا اتفاق ہوا، وہاں پر موجود گارڈ سے میں نے جاننا چاہا کہ کیا اگر کوئی یہاں نماز پڑھنا چاہے تو اس پر کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟ اس نے بتایاکہ ہمیں محکمہ کی طرف سے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اس میں نماز نہ پڑھنے دیا جائے۔ اس سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا کچھ اس قسم کی ہدایت بھی آپ کو ملی ہے کہ اس مسجد میں جوتے پہن کر کسی کو داخل نہ ہونے دیا جائے تو اس نے کہا کہ نہیں، ہمیں ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ مسجد کا اصل مقصد عبادت کرنا ہے اس کے لئے ملازمین کو خصوصی ہدایت ہے کہ اگر کوئی انفرادی طور پر بھی نمازپڑھنا چاہے تو نہیں پڑھ سکتا، اس لئے آثار قدیمہ کی طرف سے مامور ملازمین کو اس کے لئے خصوصی ہدایت ہے مگر ان کو اس طرح کی ہدایت مساجد کے ادب وحترام کے تعلق سے کیوں نہیں دی گئی؟
دہلی کی قدیم تاریخی مساجد جن کو محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی نگرانی میں لے رکھا ہے ان کی حالت نہایت خستہ ہے، دیواریں گر رہی ہیں، لوگ آکر ان میں اپنی محبت کی نشانیاں چھوڑکر جاتے ہیں۔ کسی بھی قدیم مسجد میں آپ جائیں آپ کو اس کی دیواروں پر لڑکیوں کے نام اور بھدے فقرے کھدے ہوئے ملیں گے۔ بات صرف یہیں تک نہیں ہے، بلکہ جوڑوں کے ملاپ کے لئے یہ مسجدیں سب اچھی اور محفوظ جگہیں تصور کی جاتی ہیں۔ ہماری بات پر کسی کو یقین نہ ہو تو پرانا قلعہ کی عظیم الشان مسجد اور تغلق آباد کی مسجد میں جاکر دیکھ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلے۔ ان مساجد میں کھلے عام وہ سب کچھ ہوتا ہے جو کبھی صرف بیڈروم میں ہوا کرتا تھا۔ 
محکمہ آثار قدیمہ کو اس پر اعتراض نہیں کہ ان مساجد کی بے حرمتی کی جائے؟ اس پر اعتراض نہیں کہ ان میں جوتا چپل پہن کر جایا جائے؟ ہاں، اگر اعتراض ہے تو صرف نماز پڑھنے پر۔ 
اب تک مسلم قوم مساجد پر لاکھوں روپئے خرچ کرتی آرہی ہے، نئی مساجد کی تعمیر پر زمین کی خریداری سے لے کر مسجد کی تعمیر پر دہلی جیسے شہر میں لاکھوں سے آگے بڑھ کر کروڑوں کا خرچ آتا ہے۔ اس کے باوجود قوم اس خرچ کو برداشت کرتی ہے، مگر ان مساجد کی باز آبادکاری کے لئے کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے جن سے ہماری تاریخ وابستہ ہے، ہمارے بزرگوں نے جہاں نمازیں پڑھیں اور حلقۂ تدریس قائم کئے۔ کیا کوئی قوم اپنی تاریخ سے اتنی بے پرواہ ہوسکتی ہے؟ اپنے آبا واجداد کے آثار سے اس قدر لاتعلق ہوسکتی ہے؟ کوئی مردہ قوم ہی ایسا کرسکتی ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کی حالت ایک مردہ قوم ہی کی ہے۔ انہیں اپنے آبا واجداد کی نشانیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ مساجد ویران ہیں مگر ان کو آباد کرنے کے لئے آواز اٹھانے والے نہیں ہیں۔ آخر یہ بے حسی کب تک رہے گی۔ 
یہ ملک ہمارا ہے، ہم اس ملک کے برابر کے شہری ہیں، ہم اپنی آواز بلند کرکے، اپنے اندر اتحاد پیدا کرکے حکومت سے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہم سامنے تو آئیں۔ اگر ہم نے ان مساجد کو آزاد کرانے کے لئے تحریک نہیں چھیڑی تو یاد رکھیں کہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

ؑ عزیر اسرائیل 
شعبہ اردو ، دہلی یونی ورسٹی
دہلی