بدھ، 23 اکتوبر، 2013

ٹکٹوں کی کالابازاری، دلال مالامال، مسافر پریشان

0 تبصرے
مئی جون میں اسکولوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان دو مہینوں میں لوگ اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں گذارنے اپنے گاؤں یا شہر کا رخ کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے گرمیوں میں ٹرینوں میں بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔ ایک دو اضافی ٹرینوں سے بھی یہ بھیڑ مسئلہ کا حل نہیں ہوپاتا ہے۔ گرمی کی چھٹیوں کے لیے ریزرویشن ٹکٹ پانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔ ریلوے کے نئے قانون کے مطابق نوے دن پہلے ریزرویشن ٹکٹ لیا جاسکتا ہے۔ آج کل حالت یہ ہے کہ ٹکٹ کاونٹر کھلنے کے ایک دو گھنٹہ کے اندر ہی ساری سیٹیں ختم ہوجاتی ہیں۔پہلے ایسا تتکال ٹکٹوں کے لئے ہوتا تھا اب عام ریزرویشن ٹکٹوں کا بھی یہی حال ہوگیا ہے ، یہ حالت خاص طور پر شمالی ہند کی طرف جانے والی ٹرینوں میں ہے۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ سارے ٹکٹ جاتے ہیں۔ آسان سا جواب ہے کہ یہ سب دلالوں کی جھولی میں جاتا ہے۔
                    دراصل گرمی کی چھٹیوں میں ٹکٹ کے لئے مارا ماری کو دیکھتے ہوئے دلال پہلے ہی سارے ٹکٹ بک کرلیتے ہیں ۔ عام آدمی کو چھٹی سے ایک مہینہ ٹکٹ کا خیال آتا ہے ، اس وقت تک سارے ٹکٹ ختم ہوچکے ہوتے ہیں ، اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ دلالوں کے پاس جائے اور کئی گنا زیادہ قیمت پر ان ٹکٹوں کو خریدے۔ تعجب یہ ہے کہ یہ سارا کام انتظامیہ کے ناک کے نیچے ریلوے اسٹیشنوں کے ارد گرد بیٹھے ٹریول ایجنٹ ڈھڑلے سے کر رہے ہیں ۔ ریلوے انتظامیہ کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے اس کے باوجود سب کچھ برداشت ہی نہیں بلکہ کچھ کرپٹ ملازمین اس میں برابر کا حصہ وصول کرتے ہیں۔
اگر آپ کو آج ہی سفر کرنا ہے اور آپ کے پاس ٹکٹ نہیں ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، نئی دہلی اور پرانی دہلی جیسے اسٹیشنوں پر ’آج کاریزویشن ٹکٹ ، آج کا ریزویشن ٹکٹ‘ کی آواز لگانے والے دلال مل جائیں گے، ان سے رابطہ کرنے پر وہ آپ کو پاس ہی کسی ٹریول ایجنسی پر لے جائیں گے، ٹریول ایجنٹ آج ہی کے ٹکٹوں کی ایک موٹی گڈی لے کر بیٹھا ہوگا، ٹکٹ کی قیمت ضرورت مند کی ضرورت کے حساب سے طے ہوتی ہے جو کسی بھی صورت میں دوگنی سے کم نہیں ہوتی۔ جو ٹکٹ بچ جاتے ہیں ان کو واپس بھی نہیں کیا جاتا اس کے لیے یہ ایجنٹ ٹرین میں چلنے والے ٹی ٹی سے بات کرلیتے ہیں وہ ان سیٹوں کو منہ مانگی قیمت پر بیچ لیتے ہیں ۔ اس طرح دلالوں اور ریلوے کے کچھ کرپٹ ملازمین کی ملی بھگت سے عام مسافروں کے لئے ٹکٹ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں رہ گیا ہے۔
                    ریلوے  اگر واقعی چاہتی کہ دلالوں کی اس ہیرا پھیری سے مسافروں کو نجات دلائیں تو اس کے لیے انہیں سخت قدم اٹھانے ہوں گے۔ اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے تمام ریزرویشن ٹکٹوں کے لئے شناختی کارڈ کو لازمی کردیا جائے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے تتکال ٹکٹوں کے لئے شناختی کارڈ کو ضروری قرار دیا گیا تھا یہ ایک اچھا قدم ہے اس سے فرضی ناموں پر ٹکٹوں کی خرید اور فروخت پر لگام لگے گی۔ آج کے زمانے میں کم ہی لوگ ہوں گے جن کے پاس کسی بھی قسم کا شناختی کارڈ نہ ہو۔


                    دوسرا کام یہ کیا جاسکتا ہے کہ ریزرویشن کی مدت تین مہینہ سے کم کرکے دو مہینہ کردیا جائے۔میری اپیل ہے کہ جلد ہی مذکورہ تدابیر یا اس کے علاوہ جو بھی ماہرین کامشورہ ہو اپناکر مسافروں کو دلالوں سے نجات دلائیں۔ امید کہ محترمہ ممتا بینرجی جلد اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں گی۔ 

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔