بدھ، 24 جون، 2009

جامعہ سلفیہ کے استاد مولانا رئیس احمد ندوی رحمہ اﷲ

0 تبصرے

جامعہ سلفیہ بنارس کے سینئر استاداور مفتی، تقریبا دو درجن کتابوں کے مصنف و مولف، مولانا رئیسالاحرار ندوی بن سخاوت علی کا ۹مئی2009، بروز سنیچر رات ساڑھے دس بجے بنارس کے ایک اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
موصوف طلبہ میں اپنے بلند اخلاق، بہترین عادات اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے بہت مقبول تھے۔ آپ ایک بے باک قلم کار اور مصنف تھے۔ مسلک سلف کے دفاع میں آپ کا قلم بہت تیز تھا۔ آپ نے ایک درجن سے زائد کتابیں لکھیں مگر آپ کو جس کتاب سے شہرت ملی وہ ”اللمحات

Êلی مافی انوار الباری من الظلمات“ ہے۔ یہ کتاب مولانا انور شاہ کشمیری کے داماد اور شاگرد سید احمد رضا بجنوری کی بخاری کی شرح انوار الباری کے جواب میں ہے۔
موصوف اپنے آبائی گاؤں بھٹیا میں ۲جولائی ۷۳۹۱ءکو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں ہوئی۔ جونیئر ہائی اسکول مروٹھیا سے پاس کیا اور ہائی اسکول مدرسہ بدریہ پکابازار بستی میں پڑھائی کے دوران پاس کیا۔ ۷۵۹۱ءمیں ندوة العلماءلکھنو¿ میں داخلہ لیا،جہاں ان کے اساتذہ میں علی میاں ندوی، عبد اﷲ عباس ، مولانا عبد الغفور رحمہم اﷲ جیسے لوگ تھے۔
مولانا رئیس الاحرار صاحب نے اگرچہ ندوہ میں تعلیم پائی مگر مسلک اہل سنت والجماعت سے لگاو¶ میں کمی نہ آئی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں وہ سلفی فکر کے خلاف اٹھنے والی ہر تلوارکے خلاف ایک ڈھال بن گئے۔
ندوہ سے فراغت کے بعد مدرسہ بدریہ، جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر، دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ بہار اور ندوة العلماءمیں ۱۶۹۱ءسے ۵۶۹۱ءکے درمیانی سالوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۶۶۹۱ءمیں جامعہ سلفیہ بنارس کے استاد مقرر ہوئے تو زندگی کے آخری لمحات تک اس سے الگ نہ ہوئے۔ آپ مرکزی دار العلوم کے شیخ الحدیث اور مفتی تھے۔
مولانا رئیس صاحب کے تلامذہ کی ایک طویل فہرست ہے ان میں سے چند نام یہ ہیں:
شیخ صلاح الدین مقبول مدنی، شیخ وصی اﷲ عباس، عبد الباری فتح اﷲ، ڈاکٹر عبد الجبار پریوائی، ڈاکٹر رضاءاﷲ مبارکپوری وغیرہم۔
مولانا رئیس الاحرار صاحب کی مشہور کتابوں میں چند یہ ہیں:
۱-اللمحات الی ما فی انوار الباری من الظلمات ۵ جلدوں میں۔
۲-سیرت حضرت خدیجہ، دو جلدوں میں
۳- رسول اکرم کا صحیح طریقہ

¿ نماز
۴-سیرت ابن حزم
۵-تنویر الآفاق فی مسئلة الطلاق
۶- دیوبندی تحفظ سنت کانفرنس کا سلفی تحقیقی جائزہ
مولانا کافی دنوں سے بیما رچل رہے تھے۔ دل کے مرض کے علاوہ ذیابیطس (شوگر)، بلڈ پریشر، خون کا پیلا ہونا جیسی بیماریاں آپ کو لاحق تھیں۔ چونکہ آپ چل نہیں پاتے تھے اس وجہ سے طلبہ آپ کے کمرے میں جاکر آپ سے پڑھا کرتے تھے۔
آپ کے لکھنے کا انداز نرالا تھا۔ کہنیوں کے بل لیٹ کر یاچت لیٹ کرکاغذ کو پیٹ پر رکھ کر لیٹ کر لکھا کرتے تھے۔ ایک صفحہ ختم ہونے کے بعد دوسرے صفحہ کے لئے گوند سے اس صفحہ کو جوڑ لیا کرتے تھے، اس طرح مضمون ایک لمبی ریل کی مانند ہوجاتا تھا۔ آپ ایک زودنویس مصنف تھے۔ مضمون لکھنے کے بعد اس پر دوبارہ نظر نہیں ڈالتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں تکرار ہے۔ خط اس قسم کا تھا کہ اس کو پڑھنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ آپ جب بھی کسی کا جواب لکھتے تو جواب بہت مسکت ہوتا۔ دلائل اتنے مضبوط ہوتے کہ مخالف کو خاموشی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
آپ نے دو شادیاں کی تھیں پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ دوسری بیوی بہار کی ہیں جو آخری عمر تک آپ کے ساتھ رہیں۔
اﷲ نے آپ کو دو لڑکے اور چھ لڑکیوں سے نوازا تھا۔ ان میں سے ایک لڑکے کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا جبکہ دوسرے لڑکے عبدالحق سلفی زندہ ہیں۔ لڑکیوں میں ایک غیر شادی شدہ اور دو مطلقہ ہیں ایک لڑکی کے علاوہ سبھی دوسری بیوی سے ہیں۔
مولانا رئیس الاحرار ندوی رحمہ اﷲ کی میت کو ان کے آبائی گا

¶ں بھٹیا لایا گیا جہاں مولانا مستقیم احمد سلفی استاد جامعہ سلفیہ، بنارس نے صلاة جنازہ پڑھائی۔ صلاة جنازہ میں مدارس کے طلبہ کے علاوہ قرب و جوار کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اﷲ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے اور انہیں اعلی مقام دے۔ ادارہ غم کے اس موقع پر ان کے پسماندگان کے ساتھ ہے۔
حاجی مشتاق احمد انصاری کا انتقال:
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ حاجی مشتاق احمد انصاری کا ۰۲ مئی کو بترا ہاسپٹل دہلی میں انتقال ہوگیا۔ موصوف بھدوہی میں قالین کی تجارت کرتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے آپ کے اندر خیر کا جذبہ کافی مقدار میں رکھا تھا۔
مہمان نوازی اور غریب پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔ کڈنی میں پریشانی کی وجہ سے اکثر دہلی ڈائلیسس کے لئے آنا ہوتا تھا۔ ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر کے صدرِمحترم مولانا عبد الحمید رحمانی حفظہ اﷲ وتولاہ سے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے مرکز کو اپنی زیارت سے شرفیاب کیا کرتے تھے۔
عمر کے تقاضہ کی وجہ سے شکر اور ہارنیا کی شکایت بھی ہوگئی تھی۔ آخری مرتبہ ہارنیا کے آپریشن کے لئے دہلی آئے ہوئے تھے مگر آپریشن کامیاب نہ ہوسکا۔ موصوف کی میت کو ان کے آبائی شہر بھدوہی لے جایا گیاجہاں دوسرے دن ۱۲ مئی کو صلاة مغرب کے بعد ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ صلاةجنازہ جامعہ سلفیہ، بنارس کے استاد مولانا مستقیم احمد سلفی نے پڑھائی۔ پسماندگان میں دو بیٹے محمد واصف اور محمد شارق نیز تین بیٹیاں ہیں۔ سبھی شادی شدہ ہیں۔ ادارہ التبیان ان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ دعا ہے اﷲ تعالیٰ موصوف کی خطا¶ں سے در گزر کرے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔