منگل، 7 اکتوبر، 2014

والد محترم جناب مولانا محمد اسرائیل رحمانی

0 تبصرے
مولانا اسرائیل کے بڑے بھائی 
جناب کتاب اللہ صاحب
جن کی وفات یکم جنوری ۱۹۸۴
کو ہوئی۔
مولانا اسرائیل
سے ۹ دن پہلے۔
والد محترم مولانا محمد اسرائیل رحمانی رحمہ اللہ ایک معتبر عالم دین تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے لیے وقف کردیا تھا۔ پوری زندگی سادگی کے ساتھ گزار دی۔ زندگی نے ان ساتھ وفا نہیں کیا۔تقریباً چالیس سال ہی کی عمر میں انہوں نے سفر آخرت اختیار کیا۔ اس کے باوجود انہوں نے گاؤں اور علاقہ میں انمٹ نقوش چھوڑے جس کو اب بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔
مولانا محمد اسرائیل صاحب کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ نورالہدی میں ہوئی۔ اس کے بعد جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر، ندوۃ العلماء لکھنؤ اور جامعہ رحمانیہ بنارس میں تعلیم پائی۔ کہاں پر کتنی تعلیم پائی اس کا علم نہیں ہے البتہ ایک کتاب اصول الشاسی میں انہوں نے ایک اپنے ہاتھ سے ایک تحریر لکھی ہے کہ یہ کتاب ۱۹۶۱ء میں مولانا عبدالسلام رحمانی سے پڑھی ہے۔ چونکہ یہ کتاب عموماً عربی چہارم میں پڑھائی جاتی ہے اس وجہ سے یہ بات
کہی جاسکتی ہے کہ آپ نے چوتھی جماعت جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں پڑھی ہے۔ جامعہ رحمانیہ بنارس سے فراغت کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ رحمانی لکھا کرتے تھے۔ جامعہ رحمانیہ سے فراغت کے بعد مولانا عبدالجلیل سامرودی کی خدمت میں حدیث کا درس لینے کے لیے گئے جہاں پر آپ نے دو سال تک حدیث کا درس لیا۔ ابھی ایک مہینہ پہلے سامرود کے ہی ایک صاحب جو والد محترم کے بارے میں کافی دنوں سے معلوم کررہے تھے، انٹرنیٹ سے انہوں نے بات کی۔ ان کے بیان کے مطابق مولانا اسرائیل صاحب کو وہاں لوگ ابو خلیل کے نام سے جانتے ہیں۔ ہمارے بھائیوں میں کسی کا نام بھی خلیل نہیں ہے۔ معلوم نہیں کیوں انہوں نے یہ کنیت اختیار کی۔ ہمارے دادا یعنی مولانا محمد اسرائیل رحمانی کے والد جناب نامدار صاحب موجودہ ضلع سدھارت نگر میں اٹوا بازار کے قریب دیوریا نام کے ایک گاؤں سے  اورہواں آئے تھے۔ ہمارے دادا محترم جناب نامدار کو اورہواں میں نانیہال کی طرف سے جائداد ملی تھی۔ نامدار صاحب اورہواں آتے وقت وہاں سے دو لوگوں و جن کے پاس وہاں کوئی زمین جائداد نہیں تھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ جعفر اور اسلام کا خاندان اور دوسرے برکت صاحب۔ دونوں کو انہوں نے بائیس بائیس بیگہہ زمین دیا تھا جس سے وہ دونوں خاندان اب تک گزر بسر کررہے ہیں۔
نامدار صاحب کے دو لڑکے تھے، کتاب اللہ اور محمد اسرائیل۔ دونوں کی پیدائش ان کے آبائی گاؤں دیوریا میں ہوئی تھی۔ بڑے والد جناب کتاب اللہ صاحب کی تعلیم واجبی سی تھی۔ غالبا آٹھویں جماعت تک انہوں نے تعلیم پائی تھی۔ دونوں کی عمر میں تقریباً دس سال کا فرق تھا۔ والد محترم کا سلسلۂ نسب یہ ہے: محمد اسرائیل بن نامدار بن رسال بن علی جان۔ آپ کی والدہ کا نام بصیرہ تھا۔
دونوں بھائیوں نے گھریلو ذمہ داریوں کو آپس میں تقسیم کرلیا تھا۔ کتاب اللہ صاحب نے کھیتی باڑی کی ذمہ داری سنبھال لی تھی اور والد محترم نے درس وتدریس ذریعۂ معاش کے طور پر اپنایا۔ علاقہ کے مختلف مدارس میں انہوں نے درس تدریس کا کام کیا۔ کوئیلا باس، لدھوری کا ذکر اکثر گھر میں اس حوالے سے آتا رہتا ہے کہ والد محترم نے وہاں کئی سالوں تک پڑھایا تھا۔ اس کے بعد وہ رچھا بریلی کے مشہور سلفی ادارے سے وابستہ ہوگئے۔ رچھا بریلی میں والد محترم مولانا اسرائیل صاحب ہماری والدہ کو بھی لے گئے تھے۔ لیکن والدہ چونکہ گاؤں کی زندگی کی عادی تھیں، شہر کی زندگی سے اجنبیت کی وجہ سے وہاں زیادہ دن نہ رہ سکیں۔ والدہ محترمہ کی یاداشت کے مطابق آپ تقریباً چھہ سال تک وہاں رہے۔ اس کے بعد ایک سال آپ نے دارالعلوم شکراوہ، میوات میں تعلیم دی۔ آپ جس سال یہاں پڑھانے کے لیے آئے اسی سال مولانا بدرالزماں نیپالی بھی آئے ہوئے تھے۔ لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آنے کی وجہ سے مجبوراً وہ جگہ چھوڑنی پڑی۔ اس کے بعد تقریباً دو سالوں تک جامعہ ریاض العلوم دہلی سے وابستہ رہے۔ ۱۹۸۰ میں جب مولانا عبدالحمید رحمانی صاحب نے دہلی میں معہد التعلیم الاسلامی کے قیام کا ارادہ کیا تو آپ کی نظر انتخاب جن لوگوں پر پڑی ان میں مولانا محمد اسرائیل رحمانی بھی ہیں۔ آپ یہاں پر انتظامی امور سے متعلق تھے۔ لیکن مولانا بدرالزماں نیپالی صاحب کے مطابق انہوں نے یہاں پر ایک سال تک ہی کام کیا اس کے بعد وہ یہاں سے بھی الگ ہوگیے۔ یہاں سے الگ ہونے کے بعد وہ ۱۹۸۱ سے سال وفات ۱۹۸۴ تک گھر پر ہی رہے۔ اس درمیان وہ گھریلو الجھنوں اور مالی پریشانیوں کا شکار رہے۔ اسی زمانے کا ایک خط جو انہوں نے مولانا بدالزماں صاحب کے نام لکھا تھا لیکن پوسٹ نہیں کرسکے تھے، پڑھ کر اس زمانے کی الجھنوں اور پریشانیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ مولانا محمد اسرائیل صاحب چونکہ ایک خودار اور غیرت مند انسان تھے، حق بات ہمیشہ منہ پر بول دیا کرتے تھے اس وجہ سے نظمائے مدارس کے ساتھ عموماً نباہ نہیں کرپاتے تھے۔ والدہ محترمہ بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ مولانا عبدالحمید رحمانی صاحبکے ساتھ وہ کہیں سفر پر تھے۔ رحمانی صاحب نے انہیں اپنا کپڑا پریس کرانے کے لیے دیا۔ انہیں یہ بات بہت ناگوار گزری اور یہ کہہ کر منع کردیا کہ میری ذمہ داریوں میں یہ شامل نہیں ہے کہ آپ کے کپڑے پریس کراؤں۔ مولانا بدرالزماں صاحب نے لکھا ہے کہ والد محترم نے لکڑی کا کاروبار بھی کیا جو  کہ صحیح نہیں ہے۔ معہد (دہلی) سے واپسی کے بعد آپ نے ارادہ کیا تھا کہ میری والدہ کے چھوٹے بھائی عزیزالرحمن کے ساتھ لکڑی کا کاروبار کریں۔ لیکن کاروبار شروع نہیں کیا تھا کہ آپ کا وقت موعود آپہنچا۔ اتفاق یہ کہ آپ کے کچھ ہی دنوں کے بعد عزیز الرحمن ماموں کا بھی انتقال ہوگیا۔ آپ بہت سادگی پسند انسان تھے۔ کھیتی کے کاموں میں بڑے بھائی کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ آپ طب کی معلومات رکھتے تھے۔ ہلکی پھلکی بیماری کا علاج وہ خود کرلیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کھیت سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک زہریلے سانپ نے آپ کے پاؤں میں کاٹ لیا۔ آپ نے بلا تردد اس جگہ چاقو سے کاٹ کر اس کے اوپر مضبوطی سے رسی باندھ دیا۔ اس وقت وہ اکیلے تھے۔ بہادری کے ساتھ اسی حالت میں گھر تک آئے اور زخم کی جگہ پر لال مرچ پسوا کر رکھ دیا۔ آپ کے بر وقت اقدام کی وجہ سے آپ کی جان بچ گئی۔ آپ کو وکیلوں پر بھروسہ نہیں تھا۔ سول اور فوجداری کے کئی مقدمات انہوں نے لڑے لیکن اہم بات یہ کہ کبھی وکیل کی خدمات نہیں لی۔ ہمیشہ اپنا کیس خود لڑا۔ ان کی حاضر جوابی اور قانونی معاملات پر گرفت سے مد مقابل کا وکیل بھی گھبراتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ پر گئو کشی کا جھوٹا الزام بھی لگا۔ ہوا یہ کہ بڑے والد جناب کتاب اللہ صاحب کھیت میں کام کررہے تھے کہ ایک گائے کھیت میں آگئی، آپ نے اسے ہاتھ سے دھکا دیا تو وہ گرگئی معلوم نہیں کیا ہوا کہ وہ وہیں مرگئی۔ وہ بہت گھبرائے، کھیت چونکہ ایک ہندو گاؤں رموا پور سے قریب تھا اور وہاں کوئی پاس میں نہیں تھا اس لیے گھبراہٹ میں اس کو وہیں چھوڑ کر گاؤں چلے آئے۔ ادھررموا پور والوں نے ہمارے والد اور بڑے والد دونوں کو جھوٹے مقدمہ میں پھنسانے کے لیے گائے کا سر کاٹ دیا اور شور مچا دیا کہ مولانا اسرائیل اور کتاب اللہ نے رموا پور والوں کی گائے ذبح کردی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے یہ نہیں سوچا کہ مسلمان جانور کا سر دھڑ سے الگ نہیں کرتے۔ والد محترم کی دلیلوں کے آگے سازش رچنے والوں کی ایک بھی نہ چلی اور دونوں بھائی باعزت بری ہوگیے۔ انتقال سے کچھ پہلے ایک اہم زمین کا فیصلہ آنا تھا جو کہ سرکار نے ضبط کرلیا تھا۔ پوری امید تھی کہ اس کا فیصلہ آپ کے حق میں آئے گا۔ ارادہ یہ تھا کہ وہ زمین ہاتھ میں آتے ہی اسے بیچ کر ٹریکٹر خریدیں گے۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بعد میں کوئی بچا ہی نہیں کہ ان مقدمات کی پیروی کرے۔ اس وجہ سے یہ زمین بھی جاتی رہی۔ آپ ایک اچھے مقرر تھے۔ جہاں بھی جاتے لوگ ان کی تقریر سننے کو مشتاق رہتے۔ ہلکے پھلکے انداز میں دین کی باتیں لوگوں کو بہت پسند آتی تھیں۔ تحریری صا حیت بھی اچھی تھی لیکن انہوں نے اس جانب توجہ کم دی۔ آپ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک تحریر نظر سے گزری۔ میں نے اس کو اس غرض سے سنبھال کر رکھا تھا کہ اسے شائع کراؤں گا مگر وہ ضائع ہوگئی۔
کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ بہت ساری کتابوں کے قلمی نسخے بھی آپ نے اپنی لائبریری میں جمع کررکھا تھا۔ آپ کی کتابوں کا پیش بہا ذخیرہ آج تک ہمارے گھر کی زینت تھا۔ ابھی چند مہینے پہلے والدہ محترمہ نے ہماری لاعلمی میں ان کتابوں کو مدرسہ نورالہدی اورہواں میں دے دیا۔ میں ان کتابوں کو والد کی نشانی سمجھ کر بہت احترام کے ساتھ رکھتا تھا۔ ان کتابوں کو نہ پاکر میں نے والدہ محترمہ سے معلوم کیا۔ کتابوں کو وقف کرنے کی بات سن کر بہت افسوس ہوا۔ لیکن والدہ کے فیصلہ کا احترام کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ دہلی واپسی کے بعد میں نے خواب دیکھا کہ لوگ ہم سے کہہ رہے کہ تمہارے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں لوگ یہی سناتے ہیں۔ میں ان کو بتاتا ہوں کہ ان کو انتقال کو ایک عرصہ ہوگیا۔ اس خواب کے بعد میں بہت پریشان رہا۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ کتابیں جو والد محترم کو جان سے بھی زیادہ عزیز تھیں، والد کی غیر موجودگی میں بھی والد کی نشانی کے طور پر موجود تھیں۔ جس دن وہ کتابیں ہمارے گھر سے گئیں، حقیقی معنوں میں وہی ان کی وفات کا دن تھا۔ آپ خود بھی دعوت وتبلیغ سے وابستہ تھے اور اس سلسلے میں علماء سے برابر رابطے میں رہتے تھے۔ اس حوالے سے علمائے کرام کے خطوط بڑی تعداد میں آپ کے پاس آتے تھے۔ ان خطوط کو آپ سنبھال کر رکھتے تھے۔ ان خطوط سے۱۹۶۰ اور ۱۹۸۴ کے درمیان وقفہ کی دعوتی سرگرمیوں پر روشنی پڑتی ہے۔ والد محترم مولانا محمد اسرائیل رحمہ اللہ کے بارے میری معلومات بہت محدود ہے۔ ایک دھندلی سی تصویر ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ مٹنے کے بجائے مزید پختہ ہوتی جارہی ہے۔ جس سال والد محترم کا انتقال ہوا اسی سال میرا نام گاؤں کے مدرسہ نور الہدی میں لکھوایا گیا تھا۔ اس وقت تک میرا شعور بیدار نہیں ہوا تھا۔ لیکن اتنا یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ میں مدرسہ پڑھنے نہیں گیا، مدرسہ کا وقت ہوگیا تھا، گھر میں کسی نے والد محترم سے کہا کہ اگر اسی طرح یہ لاپرواہ رہے گا تو نہیں پڑھ پائے گا۔ آپ سختی کیوں نہیں کرتے؟ والد محترم ہمارے ساتھ بہت شفقت کا معاملہ کرتے تھے، مارپیٹ کا معاملہ تو دور وہ کبھی ہیں ڈانٹتے بھی نہیں تھے۔ اس وقت ان کی طبیعت بھی خراب تھی، لیکن دوسروں کے کہنے پر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک ہاتھ میں ہلکی سی کوئی لکڑی لی اور کہا کہ چلو دیکھتا ہوں، پڑھنے کیوں نہیں جائے گا۔ وہ ہمیں اسی حالت میں لے کر مدرسہ کی طرف نکلے۔ مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے وہ خاموشی کے ساتھ مجھے اسکول تک چھوڑنے آئے تھے۔ اس کے  علاوہ ایک اور بات مجھے یاد ہے میں ٹرین سے والد کے ساتھ ننیہال سے گھر آرہا تھا۔ میں ٹرین کی کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کررہا تھا۔ پنجوں کے بل ہونے کے باوجود میں بمشکل کھڑکی تک پہنچ رہا تھا۔ والد محترم مجھے باہر دیکھے سے منع کیا کہ آنکھ میں کچھ پڑ جائے گا۔ اور مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا۔آپ کی شادی رسول پور میں مولانا زین العابدین صاحب کی بہن سے ہوئی تھی۔ ان سے ہمارے بڑے بھائی مولانا عرفان اللہ کی پیدائش ہوئی۔ لیکن عارضہ قلب کی وجہ سے عرفان اللہ جب چار سال کے تھے تبھی ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ان کی دوسری شادی مولانا فرید احمد رحمانی رحمہ اللہ کی صاحب زادی ام حببیبہ سے ہوئی۔ جن سے تین لڑکے زبیر احمد، عزیز احمد (راقم الحروف) ارشاد احمد اور ایک لڑکی زرینہ پیدا ہوئی۔ زرینہ کا انتقال ۲۰۰۵ میں دل کے عارضہ میں دہلی میں ہوا۔ باقی سب بقید حیات ہیں۔ مولانا محمد اسرائیل صاحب اپنے بھائی جناب کتاب اللہ صاحب بہت محبت کرتے تھے۔ بھائیوں میں ایسی محبت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔اس کی مثال اب بھی لوگ دیتے ہیں۔ یکم جنوری ۱۹۸۴ کو کتاب اللہ صاحب کی وفات کا صدمہ انہیں اتنا سخت لگا کہ وہ برداشت نہ کرسکے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے کلیجہ متاثر ہوگیا تھا۔ اس کے ایک ہفتہ بعد ہی دس جنوری ۱۹۸۴ کو ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ یکے بعد دیگرے دو نوں بھائیوں کے وفات سے ہمارا گھر ہی نہیں بلکہ پورا گاؤں سکتے میں آگیا۔ ہم لوگ بے سہارا ہوگئے۔ پورے گھر میں سب بڑے بھائی رضوان اللہ تھے، جو ۲۰۰۰ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس وقت وہ معہد التعلیم الاسلامی (دہلی) میں چوتھی جماعت میں پڑھ رہے تھے۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ اتنا یاد پڑتا ہے کہ کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہارے ابو تمہارے لیے مٹھائی لینے گیے ہیں۔ اس کے بعد کی کہانی بہت دکھ بھری ہے۔ بس اللہ ہمارے نانا محترم مولانا فرید رحمانی رحمہ اللہ کو جزائے خیر دے انہوں نے ہم بھائیوں کے تعلیم کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی۔ آج ہمارے سارے بھائی جو تھوڑا بہت پڑھ لکھ لیے ہیں وہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
مولانا بدرالزماں نیپالی صاحب کے ساتھ مولانا کی کئی سالوں تک رفاقت رہی ہے۔ انہوں نے آپ کے بارے میں اپنی رائے دی ہے:''آٹھ سالہ تعلقات اور تقریباً تین سالہ مصاحبت کا تاثر یہ ہے وہ نہایت خلیق، ملنسار اور درد مند انسان تھے۔ تبلیغ دین کا کافی جذبہ تھا، وعظ وتقریر میں اچھی دسترس تھی علمی صلاحیت بھی متوسط اور لائق اعتماد تھی۔ آپ ذہین اور دور اندیش تھے۔ معاملات کی تہہ تک پہنوچنے کی کوشش کرتے تھے۔ غصہ کچھ زیادہ آتا تھا مگر جلد ہی فرو بھی ہوجاتا تھا۔ میں نے اس طویل مصاحبت میں کینہ اور بغض وحسد جیسے امراض خبیثہ سے آپ کے دل کو پاک وصاف پایا۔ میں آپ سے چھوٹا تھا مگر پھر بھی آپ نے شاید ہی کبھی میری بات ٹالی ہو۔ حق بات خواہ ان کے مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ضرور منوالیتا تھا۔''
(علمائے اہلحدیث بستی وگونڈہ از بدرالزماں نیپالی، ص ۱۳۵)

والد محترم کے انتقال کے وقت میری عمر بہت کم تھی اس وجہ سے ان کے اخلاق وعادات کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ البتہ ان کے بارے میں لوگوں کی عام رائے یہ ہے کہ وہ بہت ہمدرد اور ملنسار قسم کے انسان تھے۔ محتاجوں کی امداد میں پیش پیش رہا کرتے تھے۔ رشتہ داری کا پاس ولحاظ رکھتے تھے۔ دور دراز کے رشتہ داروں کے پاس وہ برابر جایا کرتے تھے۔مہمان نواز تھے۔ والدہ محترمہ بتاتی ہیں کہ روزانہ کوئی نہ کوئی مہمان گھر پر ہوتے تھے۔ والد محترم اور چچا جان کے انتقال کے بعد گھر کی رونق ختم ہوگئی۔ گھر میں یا تو ہم چھوٹے چھوٹے بچے رہ گئے یا ہماری والدہ اور بڑی امی رہ گئیں۔ اللہ تعالی والد محترم کی نیکیوں کو قبول فرمائے، گناہوں سے درگزر کرے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین 



جمعرات، 18 ستمبر، 2014

اردو ریسرچ جرنل کا تازہ شمارہ منظر عام پر

0 تبصرے
اردو ریسرچ جرنل کا تازہ شمارہ منظرعام پر آگیا ہے۔ اس شمارہ کو یونی کوڈ میں پیش کیا جارہا ہے۔ جو قارئین اس کو پی ڈی ایف میں پڑھنا یا ڈاؤن لوڈ کرنا چاہیں ان کے لیے ہر مضمون کے آخر میں متعلقہ مضمون اور مکمل شمارہ کا لنک دے دیا گیا ہے۔ اس شمارہ میں قارئین ہر مضمون پر اپنی رائے دے سکیں گے۔ اس شمارے میں شامل مضامین کی فہرست ملاحظہ فرمائیں:
حرف آغاز                                       عزیر اسرائیل(مدیر)       
خراج عقیدت:
محمد کاظم                                          محمد راشد شیخ                  
مولانا اسید الحق محمد عاصم قادریؒ کی مکتوب نگاری نورین علی حق    
تنقید وتحقیق
غالب کا تصورِ شہر اور دلی                                           
     (اردو شاعری کی روشنی میں)                     ڈاکٹر رضوان الحق           
     ڈاکٹر تنویر احمد علوی بہ حیثیت محقق                        ڈاکٹر محمد اکمل    
     اردو تحقیق میں جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال   عزیر اسرائیل     
     امداد امام اثر کی غزل گوئی: ایک مختصر جائزہ             محمد مقیم               
اسلامیہ یونی ورسٹی آف بہاول پور
     (فہرست مقالات ایم ۔فِل شعبہ اُردو و اقبالیات)ادارہ            کسوٹی (تبصرہ)
ابن کنول بحیثیت افسانہ نگار                سلمان فیصل       
     علامہ عبدالحمید رحمانی ایک عہد، ایک تاریخ محمد اشرف یاسین
     اردو میں نثری نظم                                   حسین ایاض       
     پرورش لوح وقلم                         ڈاکٹر محمد عبدالعزیز          
     وہ دن (افسانوی مجموعہ)                محمد علم اﷲ اصلاحی 
اس شمارہ کو   http://www.urdulinks.com/urj پر ملاحظہ فرمائیں۔
--
عزير اسرائیل
Uzair Israeel
+91-9210919540

جمعہ، 29 اگست، 2014

پیر، 25 اگست، 2014

مولانا بدرالزماں نیپالی کی ایک نایاب کتاب علماء اہلحدیث بستی وگونڈہ

1 تبصرے
علماء  اہلحدیث بستی گونڈہ مولانا بدرالزماں کی ایک اہم کتاب ہے۔ جس میں انہوں نے بستی اور گونڈہ (سدھارت نگر، بلرام پور اور سراوستی) کے علماء کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ صرف ان علماء کی تاریخ نہیں ہے بلکہ اس علاقے کی بھی تاریخ ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے ہی گاؤں کے ان علماء کے بارے میں نہیں جانتے جو آج سے بیس سال پہلے گزرگئے۔  مجھے یہ کتاب جامعہ اسلامیہ سنابل کی لائبریری میں ملی ۔ میں اپنے والد محترم مولانا محمد اسرائیل کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ اس کتاب میں میرے والد مولانا محمد اسرائیل کے علاوہ میرے نانا مولانا فرید رحمانی رحمہما اللہ کا بھی ذکر ہے۔ کتاب چونکہ نایاب ہے اس وجہ سے افادۂ عام کے لئے میں اس کو انٹرنیٹ پر شائع کررہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ مولانا بدرالرزماں اس سے ناراض نہیں ہونگے۔ مولانا بدرالرزماں نیپالی صاحب میرے والد کے دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کو پاکستان سے چھپوا کر مفت تقسیم کیا تھا۔ چونکہ کتاب ہی مفت تقسیم کے لئے تھی۔ اس سے ان کا مقصد روپیہ پیسہ کمانا نہیں تھا اس لئے ان سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ایک اور معذرت کہ کتاب کے صفحات الٹ گئے ہیں۔ اس کو صحیح کرنے کی زحمت اس وجہ سے نہیں اٹھائی گئی کہ اس کو آخر سے بھی آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے۔
عزیر اسرائیل


کتاب ڈاؤن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔



مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت پر اسحاق بھٹی کی ایک عمدہ تحریر

0 تبصرے
مولانا ابوالکلام آزاد برصغیر کی ایسی ہستی ہے جس کے ذکر کے بغیر کوئی بھی تاریخی، علمی اور ادبی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ مولانا اسحاق بھٹی دور حاضر کے ایک عظیم مورخ ہیں۔ ان کے قلم کی سلاست قاری کو آخر تک اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی ہے۔ مولانا آزاد پر ان کی یہ تحریر میں نے بزم ارجمنداں سے لی ہے۔ یہ ایک طویل مضمون ہے اس وجہ سے اس کا پی ڈی ایف لنک یہاں دیا جارہا ہے۔
اس کو یہاں سے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے

اتوار، 18 مئی، 2014

اردو ریسرچ جرنل کا دوسرا شمارہ منظرعام پر

0 تبصرے
 'اردو ریسرچ جرنل ' مئی ۔ جولائی 2014
اردو ریسرچ جرنل



'اردو ریسرچ جرنل' (مئی تا جولائی 2014) کے دوسرے  شمارہ  کا اون لائن ورن منظر عام  پر آگیا ہے ۔ یہ اردو کا واحد اون لائن خالص تحقیقی وتنقیدی جرنل ہے جو پہلے شمارے سے ہی آئی ایس ایس این نمبر کے ساتھ  شائع ہورہا ہے۔اس تازہ شمارہ میں  'خراج  عقیدت' کے تحت  پروفیسر محمود الٰہی پر دو مضامین ' پروفیسر محمود الٰہی کے تحقیقی کارنامے'  از ڈاکٹر ایم عظیم اﷲ  اور 'پروفیسر محمود الٰہی: بحیثیت محقق و نقاد  از محمد شمس الدین اور معروف ناول نگار اور صحافی خسونت سنگھ پر راقم کا مضمون ' خشونت سنگھ ایک عظیم قلم کار ۔ ایک عظیم انسان' ملاحظہ فرمائیں۔ 
اس مرتبہ 'تحقیق وتنقید' کے تحت اقبال شناسی پر تین مضامین ٹیگور اور اقبال' از محمد علم اﷲ اصلاحی؛  'اقبال بحیثیت آفاقی شاعر' ازضیاء الحق محمد حسین اور راقم کا مضمون 'اقبال اور تصوف'  اور ڈاکٹر ہاجرہ بانو کا مضمون 'الفاظ و معنی اورزبان کا رشتہ' شامل ہیں۔
اردو ریسرچ جرنل کے اس دوسرے شمارے میں ہم عصر ادبی شخصیات پر ایک گوشہ 'رفتار ادب' کے نام سے شامل کیا گیا ہے۔  اس گوشہ میں شمیم اختر کا اردو کی موجودہ صورتحال  پر  ایک مضمون، اور احمد علی جوہر کا مضمون  'ہم عصر اردو افسانہ میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی' اس کے علاوہ اس گوشہ میں  جن ادبی شخصیات پر مضامین ہیں وہ کچھ اس طرح ہے:  
تصوراور حقیقت کا افسانہ نگار :اصغر کمال از ڈاکٹر محمد ارشد
عزیز نبیل کی شاعری ازحسین عیاض
فریاد آزرؔ:تخلیقی اڑان کے نئے زاویے              از حقانی القاسمی              
ملک زادہ منظوراور' شہرِادب'از شاہنواز فیاض
صادقہ نواب سحر کا مونولاگ ناول'کہانی کوئی سناؤ متاشا'ازسلمان فیصل
 اردو ریسرچ جرنل کے اس دوسرے شمارے سے 'کسوٹی' کے تحت نو وارد اہم ادبی کتابوں پر تبصروں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس  کالم کے تحت  ارشاد نیازی کی کتاب 'تفہیم شبلی' ؛ محمد مقیم کا ترتیب کردہ 'کلیات غزلیات ناسخ'،  محمد زکریا ازہری کی نووارد ڈکشنری القاموس الازہر ایڈوانس (اردو۔ عربی) اور 'ہندوستان کی یونی ورسٹیوں میں اردو تحقیق' کتابوں پر تبصرے شائع کئے گئے ہیں۔ پروفیسر ابن کنول کی سرپرستی  اور عزیر اسرائیل کی ادارت میں شائع ہونے والے اس ریفرڈ جرنل کو اس کی ویب سائٹ (www.urdulinks.com )پر پڑھا جاسکتا ہے۔
عزیر اسرائیل
مدیر اعلی


ISSN 2348-2687


-- 
عزير اسرائیل 
Uzair Israeel

منگل، 5 نومبر، 2013

فرقہ وارانہ فسادات: مسلمان بھی اپنا محاسبہ کریں...

0 تبصرے


مظفر نگر کے حالیہ فسادات نے ایک بار پھر فرقہ وارانہ فسادات کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ فسادات کے اسباب وعلاج پر بحث ہورہی ہے۔ فرقہ وارانہ مخالف بل کو پاس کرنے کے لئے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ عام طور پر فسادات کے اسباب ہندو فرقہ پرستی میں تلاش کیے جاتے ہیں ۔ہندوستان کے تناظر میں یہ بات ایک حد تک صحیح بھی ہے مگر کیا مسلمان اس کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ میری بات بہت سارے لوگوں کو ناگوار لگے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں مسلمانوں کو بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ انہیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ برادران وطن کی ایک بڑی تعداد ان سے نفرت کرتی ہے۔مسلمانوں کے ساتھ لین دین کرنا تو دور کسی مسلم کا نام آتے ہی ان زبان پر گالی آجاتی ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ تالی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔




انٹرنیٹ پر سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹوں پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سیلاب ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جھلک دیکھنی ہو تو کسی ایسی ویب سائٹ پر جائیں جہاں خبروں پر قارئین کو آزادانہ رائے پیش کرنے کی آزادی ہو۔ وہاں پر اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے کوئی بھی خبر کھول کر اس پر قارئین کے تبصرے پڑھیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کوئی بھی مسلمان ان تبصروں کی زبان کو دیکھ کر مشتعل ہوجائے گا۔ یہ کون لوگ ہیں جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کی زبان استعمال کررہے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ملک کا نوجوان سیکولرزم پر یقین رکھتا ہے لیکن انٹرنیٹ پر نفرت آمیز تبصرہ کرنے والا نوجوان طبقہ ہی ہے جس نے تقسیم ہند کا سانحہ نہیں دیکھا۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو بابری مسجد اور سکھ مخالف فسادات کوبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے۔

ایک زندہ قوم کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب اس پر کوئی مشکل گھڑی آتی ہے تو سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرتی ہے۔ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر نظر دوڑاتی ہے پھر باہر کی دنیامیں نظرڈالتی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے مسئلہ میں مسلمانوں کوایک زندہ قوم کو رویہ اختیار کرنا چاہئے۔



غیرمسلموں میں مسلمانوں کے تعلق سے نفرت کی سب سے بڑی وجہ نام نہاد جہادی تنظیمیں ہیں۔ یہ تنظیمیں حالات و ظروف سے بے خبر آج بھی ہزار سال پہلے کی دنیا میں جی رہی ہیں جہاں چند لوگ تلوار اٹھا کر علاقہ کی تقدیر بدل دیا کرتے تھے۔ ان تنظیموں کی بزدلانہ حرکتوں کی وجہ سے پورا عالم اسلام میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کب کہاں اور کس کا قتل ہوجائے، بم پھوٹ جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی سزا مسلم اقلیتوں مل رہی ہے۔ برادران وطن کی نظر میں مسلمان جھگڑالو قوم ہے جہاں بھی مسلمان رہتے ہیں ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔

ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عام طور پر اپنے محدود دائرے میں مگن رہتے ہیں۔ خود ہی غیر مسلموں سے دوری بنا کر رہتے ہیں۔ ایسا غیر مسلموں کے مذہب اور ان کے رسم ورواج کے بارے میں عدم واقفیت کی وجہ سے بھی ہے۔ خود اپنے دین سے عدم واقفیت کی وجہ سے مسلمان یہ سمجھتے ہیں غیر مسلموں سے دوری بناکر رکھنا ہی عین اسلام ہے۔ اس سے برادران وطن اسلام اور مسلمانوں کے بارے جان نہیں پاتے۔ اکثرایسا دیکھا گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ رہنے والے غیر مسلموں میں ان کے خلاف نفرت نہیں ہوتی ہے یا کم ہوتی ہے۔ اس وجہ سے مسلم نوجوانوں کو خاص طور پر غیر مسلموں سے میل جول پیدا کرنا چاہئے۔

ایک عام تاثر مسلموں کے تعلق سے ہم وطنوں میں یہ ہے کہ یہ ایک گندی قوم ہے۔ پہلی فرصت میں مسلمان یہ کہہ کر اپنا دامن صاف کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسلام میں صفائی کو آدھا ایمان کہا گیا ہے۔ مگر زمینی حقیقت کیا ہے؟ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں محسوس کرنی چاہئے کہ آج مسلمان واقعی صفائی پر دھیان نہیں دیتے۔ہمارا اپنا مشاہدہ ہے کہ مسلم علاقے گندگی اور غلاظت سے پہچانے جاتے ہیں۔لوگ شکایت کرتے ہیں کہ حکومت مسلم علاقوں میں صفائی پر توجہ نہیں دیتی۔ یہ بات اگر سچ بھی ہوپھر بھی مسلمانوں کی اپنی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی؟ غیر مسلم روزانہ اپنے گھر میں جھاڑو لگاتا ہے اور اپنے گھر کے سامنے کی سڑک پر بھی جھاڑو لگاتا ہے۔ اپنے گھر کے اندر بھی روشنی رکھتا ہے اور گھر کے باہر بھی راہگیروں کے لئے بلب جلا کر رکھتا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ اپنے گھر کا سارا کچڑا سڑک پر یا کسی خالی پلاٹ میں ڈال کر فرمان بنی پر عمل کرلیتے ہیں۔ کسی بھی مسلم بستی میں گھر کے سامنے بلب لگا ہوا نہیں ملتا۔ ہمارے اس رویے سے کیا برادران وطن ہم سے نفرت نہیں کریں گے؟

مسلمانوں کے اندر خدمت خلق کا رجحان بھی غیر مسلموں کے مقابلے میں کم ہے۔ مسلمانوں میں زکوۃ کا نظام ہے مگر اس کاایسابے ہنگم طریقہ مسلمانوں نے اپنا رکھا ہے کہ یہ مسلمانوں کی نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بن گیا ہے۔ گلی کوچوں میں بھکاریوں کی بھرمار ہے۔ جو نئے نئے انداز میں اداکاری کرکے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ گندگی کے بعد مسلم علاقوں کی دوسری پہچان یہی بھیک منگے ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ زکوۃ کا ایسا مربو ط نظام قائم ہوتا جس سے حقیقی حق داروں تک امداد پہنچ جاتی اور اس روپئے سے اسپتال اور دیگر رفاہی کام انجام دیئے جاتے۔ہندوستان میں اور بھی اقلیتیں رہتی ہیں لیکن تشدد کا نشانہ مسلمان ہی کیوں بنتے ہیں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ دوسری اقوام بوجھ بننے کے بجائے برادران وطن کے لئے سہولت فراہم کرتے ہیں۔ انہی کے اسکولوں میں اکثریتی فرقہ کے بچے پڑھتے ہیں۔ انہی کے اسپتال میں علاج کے لئے جاتے ہیں۔ کوئی بھی پریشانی کا وقت ہو وہ مدد کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اکثریتی فرقہ انہیں کوئی کیوں تنگ کرے گا؟ رہ گئے مسلمان ، تو وہ اپنے علاقوں میں بھی معیاری اسکول اور اسپتال نہیں کھول سکتے ،تو ان سے کیا امید کی جائے کہ دوسرے علاقوں میں بھی اسکول و اسپتال قائم کریں۔ مسلمانوں کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے۔

آج جب فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب تلاش کئے جارہے ہیں تو ہماری گذارش ہے کہ ان نکات پر بھی غور کیا جائے۔ہم دعا کرتے ہیں کہ آنے والا کل ہندوستان کے لئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ہو۔


٭٭٭٭



بدھ، 23 اکتوبر، 2013

پلاننگ کمیشن کا نیا سوشہ: طلاق کے بعد بیوی آدھی جائداد کی حق دار

0 تبصرے
کیا یہ اتفاق ہے کہ میڈیا میں اچانک ایک جیسی خبریں آنے لگتی ہیں، مثلا کچھ دنوں پہلے دہلی میں بلیو لائن بسوں کے بارے میں روزانہ اخبارات اور ٹی وی چینل تفصیلی خبریں دیا کرتے تھے ۔ معمولی سا بھی سڑک حادثہ اگر اس میں کسی بھی طرح بلیولائن کی شمولیت رہی ہو اگر چہ غلطی اس میں کسی اور کی ہو اس کو بلیو لائن کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ میڈیا کے اسی پرپیگنڈے نے بلیولائن کو کلر لائن بنادیا۔ اور بالآخر بلیو لائن کو سڑکوں سے ہٹنا پڑا۔بالکل یہی صورت حال اس وقت عورتوں سے متعلق خبروں کے بارے میں بھی ہے۔ کوئی بھی نیوز چینل کھولو اس میں عورتوں کے ساتھ چھیڑکھانی ، زبردستی اور مارپیٹ جیسے واقعات کی خبریں ملیں گی۔ کیااس سے پہلے یہ سب کچھ نہیں ہوتا رہا ہے۔ بلیولائن بسوں سے حادثے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور اسی قسم کے حادثے اب بھی روزانہ کہیں نہ کہیں ڈی ٹی سی سے بھی ہورہے ہیں۔ مگر نہ پہلے ان کی کوریج ہوتی تھی نہ اب ہوتی ہے۔
دراصل میڈیا میں کچھ لوگ ہیں جو اپنی پسند اور مرضی کے موضوعات کو اچھالتے ہیں۔میڈیا کے بارے میں جانکاری رکھنے والے بتاتے ہیں کہ بلیولائن کو ہٹانے کے لئے دہلی کے وزیر ٹرانسپورٹ نے میڈیا کے پرپیگنڈے کا سہارا لیا تھا۔ پہلے میڈیا میں اس کی تشہیر کرائی اور پھر اسی کو بہانہ بناکر ان کو سڑکوں سے ہٹایا گیا۔ دوسرے میڈیا گروپ مجبوری یا غیر محسوس طریقے سے ان کے پرپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔
آج کل عورتوں سے متعلق اس قسم کی خبروں کی بھر مار دیکھ کرلگتا ہے کہ کچھ خاص قسم کی فضا تیار کی جارہی ہے۔ ہمارا شک اس وقت یقین کی صورت اختیار کرگیا جب پلاننگ کمیشن کا بیان سامنے آیا کہ وہ جلد ہی شوہر کی پراپرٹی میں بیوی کو آدھے کا حق دار بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پلاننگ کمیشن کی سفارشات اگر مان لی گئیں تو ایسی صورت میں طلاق کی صورت میں شوہر کی پوری پراپرٹی دوحصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ اس میں سے آدھی جائداد بیوی کو دے دی جائے گی ۔ باقی میں شوہر اور اس کے رشتہ دار جیسے تیسے گذارہ کریں۔ خاص بات یہ کہ اس میں منقولہ اور غیر منقولہ جائداد میں فرق نہیں کیا گیا ہے۔
                    پلاننگ کمیشن کی مانیں تو ایسا اس لئے کیا جارہا تاکہ طلاق اور علیحدگی کے بعد معاوضے کو لے کر عورتوں کو ہورہی پریشانیوں سے نجات دلایا جائے۔ پلاننگ کمیشن کو سب سے زیادہ فکر مسلم خواتین لے کر ہورہی ہے۔ اس لیے کہ مسلم پرسنل لاء کے مطابق طلاق کے بعد عدت کے خرچ کے علاوہ کسی اور قسم کے خرچ کے لئے بیوی دعوی نہیں کرسکتی۔ قانون بن جانے کی صورت میں مسلم عورتوں کو بھی طلاق کے بعد شوہر کی جائداد کا آدھا حصہ مل جائے گا۔
اگر چہ ابھی یہ ایک سفارش ہے کوئی قانون نہیں ۔ اگر اس قانون کی مخالفت نہ کی گئی اور یہ قانون ایسے ہی پاس ہوگیا تو ہمارا خاندانی نظام اور اس کا پورا سسٹم برباد ہوجائے گا۔
شادی بیاہ صرف جسمانی ملن کا نام نہیں، بلکہ یہ دو روحوں کا ملن ہے۔ اس کو روپئے پیسے اور جائداد سے جوڑ کر دیکھنا اپنے آپ میں ایک غلط عمل ہے۔مستقبل میں ایسے واقعات بھی سامنے آئیں گے کہ لڑکی کی شادی صرف جائداد ہڑپنے کے لئے کی گئی ۔ شادی کے بعد طلاق کی عرضی داخل کی جائے گی اور ایک دو دن ساتھ رہنے کا معاوضہ لڑکی آدھے جائداد کی صورت میں وصول کرے گی۔
ابھی ایک سال پہلے پولیس نے ایک ایسی لڑکی کو گرفتار کیا تھا جو شادی کا ناٹک کرکے کئی ایک نوجوانوں کو کنگال کرچکی تھی۔ دلالوں کے ذریعہ وہ شادی کی بات کرتی اور پھر موقع پاکر گھر کے سبھی زیور اور نقدی اپنے دلالوں کی مدد سے صاف کردیا کرتی تھی۔
وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ لڑکیوں کا ایک گروہ ایسا تیار ہو جو بڑے گھرانے کے لڑکوں کو اپنے جال میں پھانسیں اور پھر ان سے الگ ہوکر ان کی جائداد کے برابر کے حق دار بن جائیں۔
دوسری بات یہ کہ پلاننگ کمیشن کو صرف لڑکی دکھائی دیتی ہے نہ لڑکا دکھتا ہے نہ اس کے ماں باپ اور بھائی بہن۔ لڑکے کو سب کی نگہداشت کرنی ہوتی ہے۔ جب آدھی جائداد لڑکی کو دے دی جائے گی تووہ اپنے ماں باپ کی نگہداشت کیسے کرے گا؟کیا خاندان میں صرف میاں اور بیوی ہی ہوتے ہیں؟ اور کوئی دوسرا رشتہ نہیں ہوتا ہے۔؟
سب سے بڑا مسئلہ لڑکوں کی تعلیم اور تربیت سے متعلق ہوتا ہے۔طلاق کے بعد لڑکے اگر شوہر کے پاس رہے تو کیا تب بھی بیوی آدھی جائداد کی حق دار ہوسکتی ہے؟
اگرچہ یہ کہا گیا ہے کہ شوہر کے ساتھ بیوی کی جائداد بھی تقسیم ہوگی مگر بیوی کی جائداد کیا ہوتی ہے؟ زیورات ، نقدی یا زمین وغیرہ عموماً وہی ہوتا ہے جو شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے۔ اگر معاملہ برابری کا ہے تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر بیوی کمارہی ہے تو طلاق کے بعد اپنے سابقہ شوہر کے اخراجات برداشت کرے۔ اسکے نان ونفقہ کی ذمہ دار ہو۔ اس لئے کہ پلاننگ کمیشن کی نظر میں دونوں برابر ہیں۔
دراصل پلاننگ کمیشن کا یہ فیصلہ خاندانوں کو توڑنے کا کام کرے گا ۔ سماج دشمن عناصر کی ہمت افزائی کا باعث ہوگا۔
صحیح بات تو یہ ہے طلاق کے بعد عورت کا عدت کی مدت کے خرچ کے علاوہ کوئی اور حق بنتا ہی نہیں ہے جیسا کہ اسلام کا فیصلہ ہے۔اس لئے کہ شوہر اپنی بیوی کو خرچ اس وجہ سے دیتا ہے کیوں کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ طلاق کے بعد جب وہ بیوی ہی نہیں رہی تو ایسی صورت میں وہ خرچ کی حق دار کیوں کر ہوسکتی ہے؟اور جہاں تک رہی بات یہ کہ عورت طلاق کے بعد کھائے گی کیا ؟ تو اس کی ذمہ داری ماں باپ پر ہے۔ اسلام نے عورت کو لڑکے کی طرح جائداد کا وارث بنایا ہے۔ بچوں کی پرورش اس کے ذمہ نہیں رکھا گیا ہے اس وجہ سے اس کو صرف اپنے اوپر ہی خرچ کرنا ہے۔ ایسے میں اسلام کو عورت کا مخالف ثابت کرنا بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اپنی ذمہ داری (یعنی لڑکی کو وراثت میں حصہ دینا ) سے بچنا چاہتے ہیں اور ناجائز طور پر وہ سابقہ شوہر سے لینا چاہتے ہیں۔


مذکورہ قانون اپنی تمام قباحتوں کے ساتھ مسلم پرسنل لاء میں صریح مداخلت ہے، جس کی قانون قانون ہند میں ہمیں ضمانت دی گئی ہے۔اس وجہ سے اس قانون کی بڑے پیمانہ پر مخالفت ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ ہم سوئے رہیں اور جب بیدار ہوں تو معلوم ہو کہ اب دیر ہوچکی ہے۔

ٹکٹوں کی کالابازاری، دلال مالامال، مسافر پریشان

0 تبصرے
مئی جون میں اسکولوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان دو مہینوں میں لوگ اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں گذارنے اپنے گاؤں یا شہر کا رخ کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے گرمیوں میں ٹرینوں میں بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔ ایک دو اضافی ٹرینوں سے بھی یہ بھیڑ مسئلہ کا حل نہیں ہوپاتا ہے۔ گرمی کی چھٹیوں کے لیے ریزرویشن ٹکٹ پانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔ ریلوے کے نئے قانون کے مطابق نوے دن پہلے ریزرویشن ٹکٹ لیا جاسکتا ہے۔ آج کل حالت یہ ہے کہ ٹکٹ کاونٹر کھلنے کے ایک دو گھنٹہ کے اندر ہی ساری سیٹیں ختم ہوجاتی ہیں۔پہلے ایسا تتکال ٹکٹوں کے لئے ہوتا تھا اب عام ریزرویشن ٹکٹوں کا بھی یہی حال ہوگیا ہے ، یہ حالت خاص طور پر شمالی ہند کی طرف جانے والی ٹرینوں میں ہے۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ سارے ٹکٹ جاتے ہیں۔ آسان سا جواب ہے کہ یہ سب دلالوں کی جھولی میں جاتا ہے۔
                    دراصل گرمی کی چھٹیوں میں ٹکٹ کے لئے مارا ماری کو دیکھتے ہوئے دلال پہلے ہی سارے ٹکٹ بک کرلیتے ہیں ۔ عام آدمی کو چھٹی سے ایک مہینہ ٹکٹ کا خیال آتا ہے ، اس وقت تک سارے ٹکٹ ختم ہوچکے ہوتے ہیں ، اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ دلالوں کے پاس جائے اور کئی گنا زیادہ قیمت پر ان ٹکٹوں کو خریدے۔ تعجب یہ ہے کہ یہ سارا کام انتظامیہ کے ناک کے نیچے ریلوے اسٹیشنوں کے ارد گرد بیٹھے ٹریول ایجنٹ ڈھڑلے سے کر رہے ہیں ۔ ریلوے انتظامیہ کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے اس کے باوجود سب کچھ برداشت ہی نہیں بلکہ کچھ کرپٹ ملازمین اس میں برابر کا حصہ وصول کرتے ہیں۔
اگر آپ کو آج ہی سفر کرنا ہے اور آپ کے پاس ٹکٹ نہیں ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، نئی دہلی اور پرانی دہلی جیسے اسٹیشنوں پر ’آج کاریزویشن ٹکٹ ، آج کا ریزویشن ٹکٹ‘ کی آواز لگانے والے دلال مل جائیں گے، ان سے رابطہ کرنے پر وہ آپ کو پاس ہی کسی ٹریول ایجنسی پر لے جائیں گے، ٹریول ایجنٹ آج ہی کے ٹکٹوں کی ایک موٹی گڈی لے کر بیٹھا ہوگا، ٹکٹ کی قیمت ضرورت مند کی ضرورت کے حساب سے طے ہوتی ہے جو کسی بھی صورت میں دوگنی سے کم نہیں ہوتی۔ جو ٹکٹ بچ جاتے ہیں ان کو واپس بھی نہیں کیا جاتا اس کے لیے یہ ایجنٹ ٹرین میں چلنے والے ٹی ٹی سے بات کرلیتے ہیں وہ ان سیٹوں کو منہ مانگی قیمت پر بیچ لیتے ہیں ۔ اس طرح دلالوں اور ریلوے کے کچھ کرپٹ ملازمین کی ملی بھگت سے عام مسافروں کے لئے ٹکٹ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں رہ گیا ہے۔
                    ریلوے  اگر واقعی چاہتی کہ دلالوں کی اس ہیرا پھیری سے مسافروں کو نجات دلائیں تو اس کے لیے انہیں سخت قدم اٹھانے ہوں گے۔ اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے تمام ریزرویشن ٹکٹوں کے لئے شناختی کارڈ کو لازمی کردیا جائے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے تتکال ٹکٹوں کے لئے شناختی کارڈ کو ضروری قرار دیا گیا تھا یہ ایک اچھا قدم ہے اس سے فرضی ناموں پر ٹکٹوں کی خرید اور فروخت پر لگام لگے گی۔ آج کے زمانے میں کم ہی لوگ ہوں گے جن کے پاس کسی بھی قسم کا شناختی کارڈ نہ ہو۔


                    دوسرا کام یہ کیا جاسکتا ہے کہ ریزرویشن کی مدت تین مہینہ سے کم کرکے دو مہینہ کردیا جائے۔میری اپیل ہے کہ جلد ہی مذکورہ تدابیر یا اس کے علاوہ جو بھی ماہرین کامشورہ ہو اپناکر مسافروں کو دلالوں سے نجات دلائیں۔ امید کہ محترمہ ممتا بینرجی جلد اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں گی۔