یادرفتگاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
یادرفتگاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 7 اکتوبر، 2014

والد محترم جناب مولانا محمد اسرائیل رحمانی

0 تبصرے
مولانا اسرائیل کے بڑے بھائی 
جناب کتاب اللہ صاحب
جن کی وفات یکم جنوری ۱۹۸۴
کو ہوئی۔
مولانا اسرائیل
سے ۹ دن پہلے۔
والد محترم مولانا محمد اسرائیل رحمانی رحمہ اللہ ایک معتبر عالم دین تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے لیے وقف کردیا تھا۔ پوری زندگی سادگی کے ساتھ گزار دی۔ زندگی نے ان ساتھ وفا نہیں کیا۔تقریباً چالیس سال ہی کی عمر میں انہوں نے سفر آخرت اختیار کیا۔ اس کے باوجود انہوں نے گاؤں اور علاقہ میں انمٹ نقوش چھوڑے جس کو اب بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔
مولانا محمد اسرائیل صاحب کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ نورالہدی میں ہوئی۔ اس کے بعد جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر، ندوۃ العلماء لکھنؤ اور جامعہ رحمانیہ بنارس میں تعلیم پائی۔ کہاں پر کتنی تعلیم پائی اس کا علم نہیں ہے البتہ ایک کتاب اصول الشاسی میں انہوں نے ایک اپنے ہاتھ سے ایک تحریر لکھی ہے کہ یہ کتاب ۱۹۶۱ء میں مولانا عبدالسلام رحمانی سے پڑھی ہے۔ چونکہ یہ کتاب عموماً عربی چہارم میں پڑھائی جاتی ہے اس وجہ سے یہ بات
کہی جاسکتی ہے کہ آپ نے چوتھی جماعت جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں پڑھی ہے۔ جامعہ رحمانیہ بنارس سے فراغت کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ رحمانی لکھا کرتے تھے۔ جامعہ رحمانیہ سے فراغت کے بعد مولانا عبدالجلیل سامرودی کی خدمت میں حدیث کا درس لینے کے لیے گئے جہاں پر آپ نے دو سال تک حدیث کا درس لیا۔ ابھی ایک مہینہ پہلے سامرود کے ہی ایک صاحب جو والد محترم کے بارے میں کافی دنوں سے معلوم کررہے تھے، انٹرنیٹ سے انہوں نے بات کی۔ ان کے بیان کے مطابق مولانا اسرائیل صاحب کو وہاں لوگ ابو خلیل کے نام سے جانتے ہیں۔ ہمارے بھائیوں میں کسی کا نام بھی خلیل نہیں ہے۔ معلوم نہیں کیوں انہوں نے یہ کنیت اختیار کی۔ ہمارے دادا یعنی مولانا محمد اسرائیل رحمانی کے والد جناب نامدار صاحب موجودہ ضلع سدھارت نگر میں اٹوا بازار کے قریب دیوریا نام کے ایک گاؤں سے  اورہواں آئے تھے۔ ہمارے دادا محترم جناب نامدار کو اورہواں میں نانیہال کی طرف سے جائداد ملی تھی۔ نامدار صاحب اورہواں آتے وقت وہاں سے دو لوگوں و جن کے پاس وہاں کوئی زمین جائداد نہیں تھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ جعفر اور اسلام کا خاندان اور دوسرے برکت صاحب۔ دونوں کو انہوں نے بائیس بائیس بیگہہ زمین دیا تھا جس سے وہ دونوں خاندان اب تک گزر بسر کررہے ہیں۔
نامدار صاحب کے دو لڑکے تھے، کتاب اللہ اور محمد اسرائیل۔ دونوں کی پیدائش ان کے آبائی گاؤں دیوریا میں ہوئی تھی۔ بڑے والد جناب کتاب اللہ صاحب کی تعلیم واجبی سی تھی۔ غالبا آٹھویں جماعت تک انہوں نے تعلیم پائی تھی۔ دونوں کی عمر میں تقریباً دس سال کا فرق تھا۔ والد محترم کا سلسلۂ نسب یہ ہے: محمد اسرائیل بن نامدار بن رسال بن علی جان۔ آپ کی والدہ کا نام بصیرہ تھا۔
دونوں بھائیوں نے گھریلو ذمہ داریوں کو آپس میں تقسیم کرلیا تھا۔ کتاب اللہ صاحب نے کھیتی باڑی کی ذمہ داری سنبھال لی تھی اور والد محترم نے درس وتدریس ذریعۂ معاش کے طور پر اپنایا۔ علاقہ کے مختلف مدارس میں انہوں نے درس تدریس کا کام کیا۔ کوئیلا باس، لدھوری کا ذکر اکثر گھر میں اس حوالے سے آتا رہتا ہے کہ والد محترم نے وہاں کئی سالوں تک پڑھایا تھا۔ اس کے بعد وہ رچھا بریلی کے مشہور سلفی ادارے سے وابستہ ہوگئے۔ رچھا بریلی میں والد محترم مولانا اسرائیل صاحب ہماری والدہ کو بھی لے گئے تھے۔ لیکن والدہ چونکہ گاؤں کی زندگی کی عادی تھیں، شہر کی زندگی سے اجنبیت کی وجہ سے وہاں زیادہ دن نہ رہ سکیں۔ والدہ محترمہ کی یاداشت کے مطابق آپ تقریباً چھہ سال تک وہاں رہے۔ اس کے بعد ایک سال آپ نے دارالعلوم شکراوہ، میوات میں تعلیم دی۔ آپ جس سال یہاں پڑھانے کے لیے آئے اسی سال مولانا بدرالزماں نیپالی بھی آئے ہوئے تھے۔ لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آنے کی وجہ سے مجبوراً وہ جگہ چھوڑنی پڑی۔ اس کے بعد تقریباً دو سالوں تک جامعہ ریاض العلوم دہلی سے وابستہ رہے۔ ۱۹۸۰ میں جب مولانا عبدالحمید رحمانی صاحب نے دہلی میں معہد التعلیم الاسلامی کے قیام کا ارادہ کیا تو آپ کی نظر انتخاب جن لوگوں پر پڑی ان میں مولانا محمد اسرائیل رحمانی بھی ہیں۔ آپ یہاں پر انتظامی امور سے متعلق تھے۔ لیکن مولانا بدرالزماں نیپالی صاحب کے مطابق انہوں نے یہاں پر ایک سال تک ہی کام کیا اس کے بعد وہ یہاں سے بھی الگ ہوگیے۔ یہاں سے الگ ہونے کے بعد وہ ۱۹۸۱ سے سال وفات ۱۹۸۴ تک گھر پر ہی رہے۔ اس درمیان وہ گھریلو الجھنوں اور مالی پریشانیوں کا شکار رہے۔ اسی زمانے کا ایک خط جو انہوں نے مولانا بدالزماں صاحب کے نام لکھا تھا لیکن پوسٹ نہیں کرسکے تھے، پڑھ کر اس زمانے کی الجھنوں اور پریشانیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ مولانا محمد اسرائیل صاحب چونکہ ایک خودار اور غیرت مند انسان تھے، حق بات ہمیشہ منہ پر بول دیا کرتے تھے اس وجہ سے نظمائے مدارس کے ساتھ عموماً نباہ نہیں کرپاتے تھے۔ والدہ محترمہ بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ مولانا عبدالحمید رحمانی صاحبکے ساتھ وہ کہیں سفر پر تھے۔ رحمانی صاحب نے انہیں اپنا کپڑا پریس کرانے کے لیے دیا۔ انہیں یہ بات بہت ناگوار گزری اور یہ کہہ کر منع کردیا کہ میری ذمہ داریوں میں یہ شامل نہیں ہے کہ آپ کے کپڑے پریس کراؤں۔ مولانا بدرالزماں صاحب نے لکھا ہے کہ والد محترم نے لکڑی کا کاروبار بھی کیا جو  کہ صحیح نہیں ہے۔ معہد (دہلی) سے واپسی کے بعد آپ نے ارادہ کیا تھا کہ میری والدہ کے چھوٹے بھائی عزیزالرحمن کے ساتھ لکڑی کا کاروبار کریں۔ لیکن کاروبار شروع نہیں کیا تھا کہ آپ کا وقت موعود آپہنچا۔ اتفاق یہ کہ آپ کے کچھ ہی دنوں کے بعد عزیز الرحمن ماموں کا بھی انتقال ہوگیا۔ آپ بہت سادگی پسند انسان تھے۔ کھیتی کے کاموں میں بڑے بھائی کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ آپ طب کی معلومات رکھتے تھے۔ ہلکی پھلکی بیماری کا علاج وہ خود کرلیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کھیت سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک زہریلے سانپ نے آپ کے پاؤں میں کاٹ لیا۔ آپ نے بلا تردد اس جگہ چاقو سے کاٹ کر اس کے اوپر مضبوطی سے رسی باندھ دیا۔ اس وقت وہ اکیلے تھے۔ بہادری کے ساتھ اسی حالت میں گھر تک آئے اور زخم کی جگہ پر لال مرچ پسوا کر رکھ دیا۔ آپ کے بر وقت اقدام کی وجہ سے آپ کی جان بچ گئی۔ آپ کو وکیلوں پر بھروسہ نہیں تھا۔ سول اور فوجداری کے کئی مقدمات انہوں نے لڑے لیکن اہم بات یہ کہ کبھی وکیل کی خدمات نہیں لی۔ ہمیشہ اپنا کیس خود لڑا۔ ان کی حاضر جوابی اور قانونی معاملات پر گرفت سے مد مقابل کا وکیل بھی گھبراتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ پر گئو کشی کا جھوٹا الزام بھی لگا۔ ہوا یہ کہ بڑے والد جناب کتاب اللہ صاحب کھیت میں کام کررہے تھے کہ ایک گائے کھیت میں آگئی، آپ نے اسے ہاتھ سے دھکا دیا تو وہ گرگئی معلوم نہیں کیا ہوا کہ وہ وہیں مرگئی۔ وہ بہت گھبرائے، کھیت چونکہ ایک ہندو گاؤں رموا پور سے قریب تھا اور وہاں کوئی پاس میں نہیں تھا اس لیے گھبراہٹ میں اس کو وہیں چھوڑ کر گاؤں چلے آئے۔ ادھررموا پور والوں نے ہمارے والد اور بڑے والد دونوں کو جھوٹے مقدمہ میں پھنسانے کے لیے گائے کا سر کاٹ دیا اور شور مچا دیا کہ مولانا اسرائیل اور کتاب اللہ نے رموا پور والوں کی گائے ذبح کردی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے یہ نہیں سوچا کہ مسلمان جانور کا سر دھڑ سے الگ نہیں کرتے۔ والد محترم کی دلیلوں کے آگے سازش رچنے والوں کی ایک بھی نہ چلی اور دونوں بھائی باعزت بری ہوگیے۔ انتقال سے کچھ پہلے ایک اہم زمین کا فیصلہ آنا تھا جو کہ سرکار نے ضبط کرلیا تھا۔ پوری امید تھی کہ اس کا فیصلہ آپ کے حق میں آئے گا۔ ارادہ یہ تھا کہ وہ زمین ہاتھ میں آتے ہی اسے بیچ کر ٹریکٹر خریدیں گے۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بعد میں کوئی بچا ہی نہیں کہ ان مقدمات کی پیروی کرے۔ اس وجہ سے یہ زمین بھی جاتی رہی۔ آپ ایک اچھے مقرر تھے۔ جہاں بھی جاتے لوگ ان کی تقریر سننے کو مشتاق رہتے۔ ہلکے پھلکے انداز میں دین کی باتیں لوگوں کو بہت پسند آتی تھیں۔ تحریری صا حیت بھی اچھی تھی لیکن انہوں نے اس جانب توجہ کم دی۔ آپ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک تحریر نظر سے گزری۔ میں نے اس کو اس غرض سے سنبھال کر رکھا تھا کہ اسے شائع کراؤں گا مگر وہ ضائع ہوگئی۔
کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ بہت ساری کتابوں کے قلمی نسخے بھی آپ نے اپنی لائبریری میں جمع کررکھا تھا۔ آپ کی کتابوں کا پیش بہا ذخیرہ آج تک ہمارے گھر کی زینت تھا۔ ابھی چند مہینے پہلے والدہ محترمہ نے ہماری لاعلمی میں ان کتابوں کو مدرسہ نورالہدی اورہواں میں دے دیا۔ میں ان کتابوں کو والد کی نشانی سمجھ کر بہت احترام کے ساتھ رکھتا تھا۔ ان کتابوں کو نہ پاکر میں نے والدہ محترمہ سے معلوم کیا۔ کتابوں کو وقف کرنے کی بات سن کر بہت افسوس ہوا۔ لیکن والدہ کے فیصلہ کا احترام کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ دہلی واپسی کے بعد میں نے خواب دیکھا کہ لوگ ہم سے کہہ رہے کہ تمہارے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں لوگ یہی سناتے ہیں۔ میں ان کو بتاتا ہوں کہ ان کو انتقال کو ایک عرصہ ہوگیا۔ اس خواب کے بعد میں بہت پریشان رہا۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ کتابیں جو والد محترم کو جان سے بھی زیادہ عزیز تھیں، والد کی غیر موجودگی میں بھی والد کی نشانی کے طور پر موجود تھیں۔ جس دن وہ کتابیں ہمارے گھر سے گئیں، حقیقی معنوں میں وہی ان کی وفات کا دن تھا۔ آپ خود بھی دعوت وتبلیغ سے وابستہ تھے اور اس سلسلے میں علماء سے برابر رابطے میں رہتے تھے۔ اس حوالے سے علمائے کرام کے خطوط بڑی تعداد میں آپ کے پاس آتے تھے۔ ان خطوط کو آپ سنبھال کر رکھتے تھے۔ ان خطوط سے۱۹۶۰ اور ۱۹۸۴ کے درمیان وقفہ کی دعوتی سرگرمیوں پر روشنی پڑتی ہے۔ والد محترم مولانا محمد اسرائیل رحمہ اللہ کے بارے میری معلومات بہت محدود ہے۔ ایک دھندلی سی تصویر ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ مٹنے کے بجائے مزید پختہ ہوتی جارہی ہے۔ جس سال والد محترم کا انتقال ہوا اسی سال میرا نام گاؤں کے مدرسہ نور الہدی میں لکھوایا گیا تھا۔ اس وقت تک میرا شعور بیدار نہیں ہوا تھا۔ لیکن اتنا یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ میں مدرسہ پڑھنے نہیں گیا، مدرسہ کا وقت ہوگیا تھا، گھر میں کسی نے والد محترم سے کہا کہ اگر اسی طرح یہ لاپرواہ رہے گا تو نہیں پڑھ پائے گا۔ آپ سختی کیوں نہیں کرتے؟ والد محترم ہمارے ساتھ بہت شفقت کا معاملہ کرتے تھے، مارپیٹ کا معاملہ تو دور وہ کبھی ہیں ڈانٹتے بھی نہیں تھے۔ اس وقت ان کی طبیعت بھی خراب تھی، لیکن دوسروں کے کہنے پر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک ہاتھ میں ہلکی سی کوئی لکڑی لی اور کہا کہ چلو دیکھتا ہوں، پڑھنے کیوں نہیں جائے گا۔ وہ ہمیں اسی حالت میں لے کر مدرسہ کی طرف نکلے۔ مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے وہ خاموشی کے ساتھ مجھے اسکول تک چھوڑنے آئے تھے۔ اس کے  علاوہ ایک اور بات مجھے یاد ہے میں ٹرین سے والد کے ساتھ ننیہال سے گھر آرہا تھا۔ میں ٹرین کی کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کررہا تھا۔ پنجوں کے بل ہونے کے باوجود میں بمشکل کھڑکی تک پہنچ رہا تھا۔ والد محترم مجھے باہر دیکھے سے منع کیا کہ آنکھ میں کچھ پڑ جائے گا۔ اور مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا۔آپ کی شادی رسول پور میں مولانا زین العابدین صاحب کی بہن سے ہوئی تھی۔ ان سے ہمارے بڑے بھائی مولانا عرفان اللہ کی پیدائش ہوئی۔ لیکن عارضہ قلب کی وجہ سے عرفان اللہ جب چار سال کے تھے تبھی ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ان کی دوسری شادی مولانا فرید احمد رحمانی رحمہ اللہ کی صاحب زادی ام حببیبہ سے ہوئی۔ جن سے تین لڑکے زبیر احمد، عزیز احمد (راقم الحروف) ارشاد احمد اور ایک لڑکی زرینہ پیدا ہوئی۔ زرینہ کا انتقال ۲۰۰۵ میں دل کے عارضہ میں دہلی میں ہوا۔ باقی سب بقید حیات ہیں۔ مولانا محمد اسرائیل صاحب اپنے بھائی جناب کتاب اللہ صاحب بہت محبت کرتے تھے۔ بھائیوں میں ایسی محبت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔اس کی مثال اب بھی لوگ دیتے ہیں۔ یکم جنوری ۱۹۸۴ کو کتاب اللہ صاحب کی وفات کا صدمہ انہیں اتنا سخت لگا کہ وہ برداشت نہ کرسکے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے کلیجہ متاثر ہوگیا تھا۔ اس کے ایک ہفتہ بعد ہی دس جنوری ۱۹۸۴ کو ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ یکے بعد دیگرے دو نوں بھائیوں کے وفات سے ہمارا گھر ہی نہیں بلکہ پورا گاؤں سکتے میں آگیا۔ ہم لوگ بے سہارا ہوگئے۔ پورے گھر میں سب بڑے بھائی رضوان اللہ تھے، جو ۲۰۰۰ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس وقت وہ معہد التعلیم الاسلامی (دہلی) میں چوتھی جماعت میں پڑھ رہے تھے۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ اتنا یاد پڑتا ہے کہ کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہارے ابو تمہارے لیے مٹھائی لینے گیے ہیں۔ اس کے بعد کی کہانی بہت دکھ بھری ہے۔ بس اللہ ہمارے نانا محترم مولانا فرید رحمانی رحمہ اللہ کو جزائے خیر دے انہوں نے ہم بھائیوں کے تعلیم کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی۔ آج ہمارے سارے بھائی جو تھوڑا بہت پڑھ لکھ لیے ہیں وہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
مولانا بدرالزماں نیپالی صاحب کے ساتھ مولانا کی کئی سالوں تک رفاقت رہی ہے۔ انہوں نے آپ کے بارے میں اپنی رائے دی ہے:''آٹھ سالہ تعلقات اور تقریباً تین سالہ مصاحبت کا تاثر یہ ہے وہ نہایت خلیق، ملنسار اور درد مند انسان تھے۔ تبلیغ دین کا کافی جذبہ تھا، وعظ وتقریر میں اچھی دسترس تھی علمی صلاحیت بھی متوسط اور لائق اعتماد تھی۔ آپ ذہین اور دور اندیش تھے۔ معاملات کی تہہ تک پہنوچنے کی کوشش کرتے تھے۔ غصہ کچھ زیادہ آتا تھا مگر جلد ہی فرو بھی ہوجاتا تھا۔ میں نے اس طویل مصاحبت میں کینہ اور بغض وحسد جیسے امراض خبیثہ سے آپ کے دل کو پاک وصاف پایا۔ میں آپ سے چھوٹا تھا مگر پھر بھی آپ نے شاید ہی کبھی میری بات ٹالی ہو۔ حق بات خواہ ان کے مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ضرور منوالیتا تھا۔''
(علمائے اہلحدیث بستی وگونڈہ از بدرالزماں نیپالی، ص ۱۳۵)

والد محترم کے انتقال کے وقت میری عمر بہت کم تھی اس وجہ سے ان کے اخلاق وعادات کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ البتہ ان کے بارے میں لوگوں کی عام رائے یہ ہے کہ وہ بہت ہمدرد اور ملنسار قسم کے انسان تھے۔ محتاجوں کی امداد میں پیش پیش رہا کرتے تھے۔ رشتہ داری کا پاس ولحاظ رکھتے تھے۔ دور دراز کے رشتہ داروں کے پاس وہ برابر جایا کرتے تھے۔مہمان نواز تھے۔ والدہ محترمہ بتاتی ہیں کہ روزانہ کوئی نہ کوئی مہمان گھر پر ہوتے تھے۔ والد محترم اور چچا جان کے انتقال کے بعد گھر کی رونق ختم ہوگئی۔ گھر میں یا تو ہم چھوٹے چھوٹے بچے رہ گئے یا ہماری والدہ اور بڑی امی رہ گئیں۔ اللہ تعالی والد محترم کی نیکیوں کو قبول فرمائے، گناہوں سے درگزر کرے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین 



پیر، 25 اگست، 2014

مولانا بدرالزماں نیپالی کی ایک نایاب کتاب علماء اہلحدیث بستی وگونڈہ

1 تبصرے
علماء  اہلحدیث بستی گونڈہ مولانا بدرالزماں کی ایک اہم کتاب ہے۔ جس میں انہوں نے بستی اور گونڈہ (سدھارت نگر، بلرام پور اور سراوستی) کے علماء کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ صرف ان علماء کی تاریخ نہیں ہے بلکہ اس علاقے کی بھی تاریخ ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے ہی گاؤں کے ان علماء کے بارے میں نہیں جانتے جو آج سے بیس سال پہلے گزرگئے۔  مجھے یہ کتاب جامعہ اسلامیہ سنابل کی لائبریری میں ملی ۔ میں اپنے والد محترم مولانا محمد اسرائیل کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ اس کتاب میں میرے والد مولانا محمد اسرائیل کے علاوہ میرے نانا مولانا فرید رحمانی رحمہما اللہ کا بھی ذکر ہے۔ کتاب چونکہ نایاب ہے اس وجہ سے افادۂ عام کے لئے میں اس کو انٹرنیٹ پر شائع کررہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ مولانا بدرالرزماں اس سے ناراض نہیں ہونگے۔ مولانا بدرالرزماں نیپالی صاحب میرے والد کے دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کو پاکستان سے چھپوا کر مفت تقسیم کیا تھا۔ چونکہ کتاب ہی مفت تقسیم کے لئے تھی۔ اس سے ان کا مقصد روپیہ پیسہ کمانا نہیں تھا اس لئے ان سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ایک اور معذرت کہ کتاب کے صفحات الٹ گئے ہیں۔ اس کو صحیح کرنے کی زحمت اس وجہ سے نہیں اٹھائی گئی کہ اس کو آخر سے بھی آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے۔
عزیر اسرائیل


کتاب ڈاؤن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔



مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت پر اسحاق بھٹی کی ایک عمدہ تحریر

0 تبصرے
مولانا ابوالکلام آزاد برصغیر کی ایسی ہستی ہے جس کے ذکر کے بغیر کوئی بھی تاریخی، علمی اور ادبی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ مولانا اسحاق بھٹی دور حاضر کے ایک عظیم مورخ ہیں۔ ان کے قلم کی سلاست قاری کو آخر تک اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی ہے۔ مولانا آزاد پر ان کی یہ تحریر میں نے بزم ارجمنداں سے لی ہے۔ یہ ایک طویل مضمون ہے اس وجہ سے اس کا پی ڈی ایف لنک یہاں دیا جارہا ہے۔
اس کو یہاں سے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے

بدھ، 24 جون، 2009

جامعہ سلفیہ کے استاد مولانا رئیس احمد ندوی رحمہ اﷲ

0 تبصرے

جامعہ سلفیہ بنارس کے سینئر استاداور مفتی، تقریبا دو درجن کتابوں کے مصنف و مولف، مولانا رئیسالاحرار ندوی بن سخاوت علی کا ۹مئی2009، بروز سنیچر رات ساڑھے دس بجے بنارس کے ایک اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
موصوف طلبہ میں اپنے بلند اخلاق، بہترین عادات اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے بہت مقبول تھے۔ آپ ایک بے باک قلم کار اور مصنف تھے۔ مسلک سلف کے دفاع میں آپ کا قلم بہت تیز تھا۔ آپ نے ایک درجن سے زائد کتابیں لکھیں مگر آپ کو جس کتاب سے شہرت ملی وہ ”اللمحات

Êلی مافی انوار الباری من الظلمات“ ہے۔ یہ کتاب مولانا انور شاہ کشمیری کے داماد اور شاگرد سید احمد رضا بجنوری کی بخاری کی شرح انوار الباری کے جواب میں ہے۔
موصوف اپنے آبائی گاؤں بھٹیا میں ۲جولائی ۷۳۹۱ءکو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں ہوئی۔ جونیئر ہائی اسکول مروٹھیا سے پاس کیا اور ہائی اسکول مدرسہ بدریہ پکابازار بستی میں پڑھائی کے دوران پاس کیا۔ ۷۵۹۱ءمیں ندوة العلماءلکھنو¿ میں داخلہ لیا،جہاں ان کے اساتذہ میں علی میاں ندوی، عبد اﷲ عباس ، مولانا عبد الغفور رحمہم اﷲ جیسے لوگ تھے۔
مولانا رئیس الاحرار صاحب نے اگرچہ ندوہ میں تعلیم پائی مگر مسلک اہل سنت والجماعت سے لگاو¶ میں کمی نہ آئی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں وہ سلفی فکر کے خلاف اٹھنے والی ہر تلوارکے خلاف ایک ڈھال بن گئے۔
ندوہ سے فراغت کے بعد مدرسہ بدریہ، جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر، دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ بہار اور ندوة العلماءمیں ۱۶۹۱ءسے ۵۶۹۱ءکے درمیانی سالوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۶۶۹۱ءمیں جامعہ سلفیہ بنارس کے استاد مقرر ہوئے تو زندگی کے آخری لمحات تک اس سے الگ نہ ہوئے۔ آپ مرکزی دار العلوم کے شیخ الحدیث اور مفتی تھے۔
مولانا رئیس صاحب کے تلامذہ کی ایک طویل فہرست ہے ان میں سے چند نام یہ ہیں:
شیخ صلاح الدین مقبول مدنی، شیخ وصی اﷲ عباس، عبد الباری فتح اﷲ، ڈاکٹر عبد الجبار پریوائی، ڈاکٹر رضاءاﷲ مبارکپوری وغیرہم۔
مولانا رئیس الاحرار صاحب کی مشہور کتابوں میں چند یہ ہیں:
۱-اللمحات الی ما فی انوار الباری من الظلمات ۵ جلدوں میں۔
۲-سیرت حضرت خدیجہ، دو جلدوں میں
۳- رسول اکرم کا صحیح طریقہ

¿ نماز
۴-سیرت ابن حزم
۵-تنویر الآفاق فی مسئلة الطلاق
۶- دیوبندی تحفظ سنت کانفرنس کا سلفی تحقیقی جائزہ
مولانا کافی دنوں سے بیما رچل رہے تھے۔ دل کے مرض کے علاوہ ذیابیطس (شوگر)، بلڈ پریشر، خون کا پیلا ہونا جیسی بیماریاں آپ کو لاحق تھیں۔ چونکہ آپ چل نہیں پاتے تھے اس وجہ سے طلبہ آپ کے کمرے میں جاکر آپ سے پڑھا کرتے تھے۔
آپ کے لکھنے کا انداز نرالا تھا۔ کہنیوں کے بل لیٹ کر یاچت لیٹ کرکاغذ کو پیٹ پر رکھ کر لیٹ کر لکھا کرتے تھے۔ ایک صفحہ ختم ہونے کے بعد دوسرے صفحہ کے لئے گوند سے اس صفحہ کو جوڑ لیا کرتے تھے، اس طرح مضمون ایک لمبی ریل کی مانند ہوجاتا تھا۔ آپ ایک زودنویس مصنف تھے۔ مضمون لکھنے کے بعد اس پر دوبارہ نظر نہیں ڈالتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں تکرار ہے۔ خط اس قسم کا تھا کہ اس کو پڑھنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ آپ جب بھی کسی کا جواب لکھتے تو جواب بہت مسکت ہوتا۔ دلائل اتنے مضبوط ہوتے کہ مخالف کو خاموشی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
آپ نے دو شادیاں کی تھیں پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ دوسری بیوی بہار کی ہیں جو آخری عمر تک آپ کے ساتھ رہیں۔
اﷲ نے آپ کو دو لڑکے اور چھ لڑکیوں سے نوازا تھا۔ ان میں سے ایک لڑکے کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا جبکہ دوسرے لڑکے عبدالحق سلفی زندہ ہیں۔ لڑکیوں میں ایک غیر شادی شدہ اور دو مطلقہ ہیں ایک لڑکی کے علاوہ سبھی دوسری بیوی سے ہیں۔
مولانا رئیس الاحرار ندوی رحمہ اﷲ کی میت کو ان کے آبائی گا

¶ں بھٹیا لایا گیا جہاں مولانا مستقیم احمد سلفی استاد جامعہ سلفیہ، بنارس نے صلاة جنازہ پڑھائی۔ صلاة جنازہ میں مدارس کے طلبہ کے علاوہ قرب و جوار کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اﷲ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے اور انہیں اعلی مقام دے۔ ادارہ غم کے اس موقع پر ان کے پسماندگان کے ساتھ ہے۔
حاجی مشتاق احمد انصاری کا انتقال:
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ حاجی مشتاق احمد انصاری کا ۰۲ مئی کو بترا ہاسپٹل دہلی میں انتقال ہوگیا۔ موصوف بھدوہی میں قالین کی تجارت کرتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے آپ کے اندر خیر کا جذبہ کافی مقدار میں رکھا تھا۔
مہمان نوازی اور غریب پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔ کڈنی میں پریشانی کی وجہ سے اکثر دہلی ڈائلیسس کے لئے آنا ہوتا تھا۔ ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر کے صدرِمحترم مولانا عبد الحمید رحمانی حفظہ اﷲ وتولاہ سے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے مرکز کو اپنی زیارت سے شرفیاب کیا کرتے تھے۔
عمر کے تقاضہ کی وجہ سے شکر اور ہارنیا کی شکایت بھی ہوگئی تھی۔ آخری مرتبہ ہارنیا کے آپریشن کے لئے دہلی آئے ہوئے تھے مگر آپریشن کامیاب نہ ہوسکا۔ موصوف کی میت کو ان کے آبائی شہر بھدوہی لے جایا گیاجہاں دوسرے دن ۱۲ مئی کو صلاة مغرب کے بعد ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ صلاةجنازہ جامعہ سلفیہ، بنارس کے استاد مولانا مستقیم احمد سلفی نے پڑھائی۔ پسماندگان میں دو بیٹے محمد واصف اور محمد شارق نیز تین بیٹیاں ہیں۔ سبھی شادی شدہ ہیں۔ ادارہ التبیان ان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ دعا ہے اﷲ تعالیٰ موصوف کی خطا¶ں سے در گزر کرے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔

بدھ، 10 جون، 2009

مولانا فرید احمد رحمانی رحمه الله

0 تبصرے
ضلع بستی و گونڈہ کے لئے اور خصوصاََ اہلحدیثوں کے یہاں مولانا فرید احمد بن برکت اللہ رحمانی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ،آپ 1922ءیا 1923 ءمیں ضلع بستی کے ایک مشہور گاوںپیکولیا مسلم میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گاو ں میں ہوئی۔ 1933ءمیں اردو سے اور 1934ءمیں ہند ی سے مڈل پاس کیا ۔ پھر آپ کا رجحان دینی تعلیم کی طرف ہوا لہذا آپ 1934ءمیں شکراوہ کے ایک مدرسہ دارالعلوم میںداخل ہوئے۔ مدرسہ ابھی نیا نیا قائم ہوا تھا بڑی مشکل سے آپ وہاں ایک سال رہ سکے پہلی جماعت کی تعلیم کے بعد1938ءمیں فیض عام مئو میںداخلہ لیا اور دوسال تک یہاں رہے۔ 1939میں جامعہ رحمانیہ کا ارادہ کیا اور وہاں پر جماعت ثانیہ میں داخلہ ہوا ،1943ءمیں جامعہ رحمانیہ چھوڑ کر غزنویہ امر تسر چلے گئے وہاں کے جن علماءسے استفادہ کیا ان میں ایک خاص نام محمد حسین صاحب کاہے۔ اس کے بعد آپ مزید تعلیم کے لئے مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے قائم کردہ مدرسہ میں داخل ہوئے یہاں آپ نے ترمذی ابوداو د اور مسلم محمد گونڈوی رحمہ اللہ سے پڑهی سند فراغت سے ایک سال پہلے گھر آگئے اس وجہ سے سند نہ حاصل کرسکے۔
آپ بچپن ہی سے ذہین تھے ،شکراوہ میں آپ کو پہلی پوزیشن لانے پر بلوغ المرام انعام میں دیا گیا۔ فیض عام میں آپ صرف دوسال رہے ،پہلے سال قافیہ میں پورے نمبر لانے پر تحفة الاحوذی اور دوسرے سال بلوغ المرام مکمل حفظ کرنے پر صحیح بخاری انعام میں ملا۔
گھر آکر آپ نے ضلع بستی کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا ۔ گاو ں پر ایک مدرسہ کھولا جس میں آپ منتظم بھی تھے مدرس بھی بعد میں آپ نے تدریس چھوڑدی اور تجارت میں لگ گئے مگرعمر کے آخری ایام سے کچھ پہلے تک مدرسہ کی نظامت کرتے رہے۔ مدرسہ سے آپ کو کتنی محبت تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ اپ کا اکثر وقت مدرسہ میں ہی گزرتا تھا۔ شروع میں مدرسہ گاو

ں میں مسجد سے ملحق تھا مگر آپ نے کوشش کرکے اس کے لئے گاو ں سے باہر22 بیگھ زمین خرید کر اسے وہاں منتقل کردیا۔ آپ اسے ایک بڑا اقامتی ادارہ بنانا چاہتے تھے اس کے لئے آپ نے ماہر اساتذہ کی ایک تیم اکٹھا کرلی تھی۔ طلبہ کی بھلائی کی خاطر آپ نے مدرسہ کا الحاق جامعہ اسلامیہ سنابل سے کرانا چاہا اس پر گاو ں کے کچھ لوگوں سے اختلاف ہوا آپ اس وقت تک کمزور بھی ہوچکے تھے روزانہ مدرسہ پر جانے میں پریشانی بھی ہوتی تھی اس لئے آپ نے نظامت سے استعفیٰ دے دیا۔
مولانا کی زندگی ایک فعال زندگی تھی ،مدرسہ کی نظامت کی ذمہ داری سے استعفی دینے کے بعد گھر میں بیٹھنا آپ کو قطعی گوارہ تھا ،گور بازار میں مسجد سے ملحق ایک زمین تھی جو نانی جان کی ملکیت تھی ،آپ نے اس زمین پر صدر مرکز سے مشوری کرکے ابوالکلام آزاد محمدیہ بوائز پبلک اسکول کی بنیاد رکھ دی ۔آج کل یہ مرکز کے اداروں میں ایک ممتاز حیثیت کا ادارہ مانا جاتا ہے۔بغیر کسی تاخیر کے آپ نے اسی سال تعلیم کا سلسلہ شروع کرادیا اس سے پہلے اس مسجد میں مرکز کی ایک شاخ مدرسہ محمدیہ قائم تھی ،آپ نے اس مدرسہ کے نام "محمدیہ "کو پبلک اسکول کا ایک جزءبنادیا ،اسکول قائم ہونے کے بعد یہ اسکول آپ کی توجہات کا مرکز بن گیا ،صبح کو بچوں کے ساتھ اسکول بس میں بیٹھ کر آنا اور شام کو انہی بچوں کے ساتھ گھر واپس جانا آپ کا معمول بن گیا ۔اسکول میں کاموں کی نگرانی جس محنت ولگن سے کرتے تھے وہ آپ کا ہی حصہ تھا ۔آپ کی محنتوں کا ثمرہ ہی تھا کہ ایک معمولی سی مدت میں گور علاقہ کا سب سے بڑا اور معتبر ادارہ بن گیا ،آپ کے زمانہ میں حالت یہ ہوگئی تھی کہ غیر مسلم بھی اپنے بچوں کو ابوالکالام آزاد محدیہ پبلک اسکول میں پڑھاناباعث فخرسمجھتے تھے ۔اسی وقت آپ نے پرنسپل کو تاکید کردی تھی کہ 40فیصد زیادہ ہندو بچوں کو نہ داخل کیا جائے تاکہ ادارے کا اقلیتی کردار متاثر نہ ہو ۔
عادات و اطوار:
اللہ رب العزت نے آپ کو حق گوئی ، امانت و دیانت ، خلوص ، توکل اور استغناءجیسی صفات سے نوازا تھا۔ ہمیشہ حق بات کہتے تھے خواہ کوئی ناراض کیوں نہ ہو جائے۔ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کبھی مصلحتا ََ بھی جھوٹ بولا ہو ۔ زندگی بھر تجارت کرتے رہے لاکھوں روپیہ لوگوں نے آپ کا ہڑپ کر لیا مگر صبر کا دامن آپ نے نہیں چھوڑا ۔ کوئی محتاج آپ کے دروازے پر آجائے اور اپنی پریشانی بیان کردے تو چاہے ادھارلیکر اس کی ضرورت پوری کرتے مگر اس کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے ، کتنے لوگوں کو میں نے خود دیکھا کہ اپنی ضرورت بتاکر ادھار رقم لی کرگئے اور پھر منہ نہ دکھایا۔ مہمان نوازی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ہمیشہ ایک دو مہمان آپ کے یہاں رہا کرتے تھے ۔ مولانا فرید صاحب کی شخصیت دوسروں کے لیے جو بھی ہو وہ ہمارے نانا ہی نہیں بلکہ والد محترم جناب مولانا اسرائیل صاحب کی ناگہانی موت کے بعد استاد ،مربی اور والد سب کچھ تھے ،اس وقت ہم سبھی بھائی چھوٹے چھوٹے تھے ،میںمدرسہ جانا ابھی شروع ہی کیا تھا یہ حادثہ پیش آیا،نانا محترم کو اس سے کافی صدمہ ہوا،مجھے اور میرے بڑے بھائی قاری زبیر صاحب کو اپنے ساتھ لے گئے اور درج پنجم تک کی تعلیم اپنی نگرانی میں رکھ کر دلوائی ،اس موقع پر اللہ تعالی نے اگر نانا کے دل میں یہ بات نہ ڈالی ہوتی تو شاید ہم بھائی بھی ان بچوں کی طرح گلیوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے۔ نانی جان سے آپ کی لڑائی صرف دوباتوں کی وجہ سے ہوتی تھی پہلی شکایت نانی کو یہ تھی کہ آپ پورادن مدرسہ میں لگاتے ہیں اور گھر پر بھی ہمیشہ مدرسہ کا کام کرتے ہیں دوسرا یہ کہ ہمیشہ مہمانوںکی وجہ سے ہماری نجی زندگی متاثر ہوتی ہے ،نانا جان ان کو بہت سمجھاتے مگر بعض دفعہ نانی پھٹ پڑتی تھیں اور کھری کھوٹی سنا دیا کرتی تھیں۔
وقت کے بڑے پابندتھے، جس کام کے لئے جو وقت ہوتا وہ اس سے آگے پیچھے نہیں ہوتا ۔ روز صبح اٹھتے صلاة فجرکے بعد تلاوت اور پھر ناشتہ کرتے اور مدرسہ کے ضروری کاموں میں لگ جاتے ۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں گھر کے گراو نڈ فلور پر بر آمدہ سے متصل کمرے میں رہتے ہوئے پایا۔ آخری عمر میں جب کمزوری بڑھ گئی تو آپ دوسری منزل پر جہاں گھر کے دوسرے افراد رہتے تھے وہاں منتقل ہوگئے تھے۔ تھے تو پتلے دبلے مگر رعب ایسا تھا کہ گاو ں میں کسی اور شخص کو میں نے ایسا نہیں بارعب نہیں پایا۔ بوڑھے جوان بچے سبھی آپ کااحترام کرتے تھے۔ اگر کبھی کسی ضرورت سے چائے خانے کے سامنے سے آپ کا گزر ہوتا تو لوگ چھپ جاتے یاشرم سے چہر ہ دوسری طرف کر لیتے ۔ کیا مجال تھی کہ صلاة کے وقت گاو ں کا کوئی شخص مسجد کے علاوہ دوسری سمت ان کے سامنے سے گزر جائے ، صلاة کے معاملہ میں وہ کسی کو نہیں بخشتے تھے ایک مرتبہ تو انہوںنے فجر کی صلاة کے لئے اپنی کسی قریبی مہمان کی پٹائی بھی کردی۔ صلاة کے معاملہ میں گھر کا ماحول بالکل کسی مدرسہ کی طرح تھا ،اذان ہوتے ہی گھر سے نکلنا ضروری ہوجاتا تھا۔ سنت کے بڑے پابند تھے سادہ کھاتے سادہ پہنتے ،تہجد کی صلاة کبھی نہیں چھوڑتے تھے ،آخری عمر میں جب کے اعضاءکمزور ہوگئے اور دہلی میں ایک حادثہ میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور مصنوعی ہڈی لگانی پڑی تب بھی آپ مسجد جایا کرتے تھے اور باجماعت صلاة پڑھتے تھے۔
مطالعہ کا شوق آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا جو کتاب بھی آپ کو پسند آتی خرید لیا کرتے تھے اس طرح آپ کے پاس کتابوں کاایک ذخیرہ تیار ہوگیا تھا آپ نے اپنی لائبریری 1978ءمیں جامعہ اصلاح المسلمین کے نام وقف کر دیا تھا۔ جامعہ اصلاح المسلمین کے ایک جلسہ میںصدر مرکز حفظہ اللہ نے اس لائبریری کا معائنہ کیا تھا اور مزید کتابوں کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا ،بعد میں نانا محترم کی علیحدگی کے بعد یہ لائبریری بڑھنے کے بجائے سمٹتی گئی اور اب یہ حالت ہے کہ لائبریری میں کتابوں کے نام پر چند پھٹی پرانی کتابیں بچی ہیں۔
آپ نے جامعہ اصلاح المسلمین میں شعبہ نشر و اشاعت بھی قائم کیا تھا۔ جس کے تحت مولانا ثناءاللہ امرتسری کی کتاب" اہلحدیث اور مسلمان "اور مولانا عبد الرحمان دیوبندی کی کتاب "میںاہلحدیث کیوں ہوا؟ "چھپوا کر پورے ہندستان میں مفت تقسیم کرایا۔
مسلک اہلحدیث سے آپ کو جو لگاو تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ہم لوگوں کو جمعہ کے دن گور کی مسجد میں صلاة ادا کرنے لئے بھیجتے تھے اور ساتھ میں یہ تاکید ضرورکرتے تھے کہ آمین زور سے کہنا۔ در اصل گورمیںنانا محترم نے مسجد بنوائی تھی پہلی بات تو یہ کہ گور میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے دوسرے جو لوگ ہیں ان میں بھی اپنے خاندان کے علاوہ کوئی اہلحدیث نہیں۔ مولانا اس کے باوجود احسن طریقے پر مسلک اہلحدیث کی تبلیغ کرتے رہے اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ جولوگ لفظ اہلحدیث کو گالی سمجھتے تھے وہ اب اہلحدیث امام کے پیچھے صلاة ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے ،پیکولیا کو مسلم پیکولیا بنانے کا سہرا آپ ہی کے سر جاتا ہے ۔آپ کی کوششوں سے پیکولیا مسلم کے اطراف میں املیا اور مجھوا کے لوگ بھی اہلحدیث ہوگئے، ایک مرتبہ میں نے نانا محترم کو بتایا کہ گورکے تھوڑے سے فاصلہ پر "حلوا" نامی گاو ں ہے جس کو بستی کے راجہ نے اپنے باغ کی حفاظت کے لئے بسایا تھا اس میں چند گھر مسلمان بھی تھے وہ مسلک اہلحدیث کی طرف راغب تو ہوئے مگر گاو

ں میںکوئی مدرسہ نہیں تھا اور نہ ہی مسجد قاعدے کی تھی ، ایک چھپر ڈال کر مسجد بنائی گئی تھی۔ عالم ہونے کا جھوٹا رعب جماکر ایک بریلوی ان کو گمراہ کررہا تھا۔ میں نے یہ سب باتیں بتائیں تو مولانا اپنے خرچ پر ہم لوگوں کوہر جمعہ کو وہاں بھیجنا شروع کردیا اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ وہ بریلوی شخص وہاں سے بھاگ گیا۔ مولانا نے وہاں کی مسجد بنوانے اور وہاں ایک مستقل عالم دین رکھنے کی کوشش بھی کی مگر کامیاب نہ ہوسکے اس وجہ سے کہ گاو ں والے خود وہاں ایک عالم اور مدرسہ کے حق میں نہیں تھے۔
مولانا کے گھریلو حالات:
مولانا کے چار لڑکے تھے جن میں سے ایک کی وفات تقریباً 51 سال کی عمر میں ہو گیا تھا جب ہوایک دوسرے لڑکے عزیز الرحمن کا انتقال جوانی میں ہوا،انتقال سے کچھ پہلے ہی ان کی شادی ہوئی تھی۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں مقصد حیات ہیں۔ بڑے
صاحب زادے کا نام مسعود احمد اور چھوٹے کانام عبید الرحمن ہے۔ لڑکیوں کے نام جو یرہ اور ام حبیبہ ہیں۔ ثانی الذکر ہماری والدہ ہیں۔
جب سے ناناجان نے ڈومریا گنج اور گور میں دوکان کھول کر دونوں لڑکوں کو الگ الگ دوکان سونپی تھی اس وقت سے مسعود ماموں ڈومریا گنج چلے گئے اور عبید الرحمن ماموں گھر پر رہتے اور دوکان پر وہیں سے آتے جاتے تھے ۔ بعد میں انہوںنے بھی اپنی فیملی کو گھر سے گور بلا لیا۔ نانا اور نانی کو گاو

ں سے محبت تھی اس وجہ سے وہ گاو ں چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے ہماری والدہ نے ہماری چھوٹی بہن کو ان کی خدمت کے لئے رکھ دیا آپ اپنے انتقال سے کچھ دنوں پہلے گورمنتقل ہوگئے تھے۔ آپ کے بڑے صاحب زادے کو یہ شکایت تھی کہ والد محترم (مولانافرید صاحب) عبید الرحمن پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ آپ نے پوری کوشش کی کہ اپنی زندگی ان دونوں بھائیوں میں بٹوارہ کردیں مگر کامیاب نہ ہوسکے ۔ مسعود ماموں کبھی راضی نہ ہوئے کہ ڈومریا گنج کی جائداد میں سے کوئی حصہ عبید الرحمن ماموں کو دیں۔
نانا محترم کو لڑکیوں کے حق وراثت کی اہمیت کا علم تھا مگر وہ مجبور تھے ان کا کہنا تھا کہ جب ایک بھائی دوسرے بھائی کو حق دینے پر راضی نہیں ہے تو بہن کو کیسے حصہ دیگا ، بالآخر آپ نے اپنے انتقال سے کچھ پہلے جو وصیت لکھی تھی اس میں اس بات کی تاکید کردی کہ لڑکیوں کو بھی جائداد میں سے حق دیا جائے۔ اب موجودہ حالت یہ ہے کہ پیکولیا مسلم کا گھر اور کھیت اور گور کی دوکان عبید الرحمن ماموں کے قبضے میں ہے اس کے علاوہ نانی جان کو اپنے میکہ سے وراثت میں ممبئی میںدو کانوں کی شکل میں جو حصہ ملا تھا وہ بھی انہیں کے قبضے میں ہے۔ اور ڈومریا گنج کی زمین مسعود ماموں کے قبضے میں ہے۔ اس طرح کل ملا کر بغیر بٹوارہ کے دونوں بھائی اپنی اپنی جگہ پر رہ رہے ہیں۔
جب تک تجارت کرتے رہے اس وقت تک آپ کے پاس پیسوں کی کمی نہ تھی مگر جب آپ نے تجارت چھوڑ دی تو آپ نے اپنے دونوں لڑکوں سے ہر مہینہ ایک معمولی رقم طے کردی کہ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے دے دیا کریں گے۔ مگر سچ یہ ہے کہ رقم بھی کبھی ملتی کبھی نہیں ملتی تھی آپ نے ایک مرتبہ دلبرداشتہ ہو کر ایک چھوٹی سی جائداد بیچ دی۔ ایک مرتبہ آ پ نے اپنے قرضوں کی ادائیگی کے ایک پرانا گھر جو کبھی بھینسوں کے باندھنے کے لئے استعمال ہونا تھا وہ بھی بیچ دیا۔ دونوں دفعہ کافی لے دے ہوئی۔ نانا نے اس موقع پر کہا کہ اگر آپ لوگ خرچ نہیں دیں گے تو اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اس میں سے ایک زمین تو ان لوگوں نے روئیے دے کر واپس اپنے قبضے میں لے لیا مگر گھر ابھی تک نہ لے سکے اور نہ یہ اب ممکن ہے۔ مدرسہ سے ایک پیسہ نہ لیتے تھے مگر جب لڑکوں کی طرف سے خرچ ملنا بند ہوگیا اور آمدنی کا کوئی ذریعہ بھی نہ رہ گیا تو آپ نے منتظمین کے کہنے پر ایک معمولی رقم اپنے گذارہ کے لیے لینے لگے۔نانا اور نانی اپنے بچوں سے الگ پیکولیا مسلم ہی میں رہا کرتے تھے ،ضروری سی بات ہے کہ آپ کو اپنی ضرورت کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑتی رہی ہوگی ۔
مولانا کی آخری آرزو:
انتقال سے کچھ دن پہلے ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں شریک ہونے کے لئے آئے ہوئے تھے۔آپ نے اس موقع پر مجھ سے کہا تھا کہ میری آخر خواہش ہے کہ گھر کی مسجد سے ملحق ایک حفظ کا مدرسہ قائم کردوں۔ اس کے لئے انہوںنے صدر مرکز کو خط بھی لکھا تھا۔ مگر آپ کی زندگی نے آپ کا ساتھ نہ دیا اور آپ کا انتقال ہو گیا۔
ابوالکلام آزاد اویکننگ سینٹر سے آپ کے تعلقات:
آپ تاعمر مرکز کے مجسل عامہ کے ایک سرگرم رکن رہے۔ خواہ کتنے ہی بیمار کیوں نہ ہوں مرکز کی میٹنگوں میں شرکت کے لئے ضرور حاضر ہوا کرتے تھے ۔ آخری دفعہ جب حاضر ہوتے تھے تو ان کی حالت یہ تھی کہ لاٹھی کے سہارے بمشکل قدم اٹھاپاتے تھے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ کندھے کے سہارے لے جانا پڑتا تھا، مگر آپ کا جذبہ تھا کہ آپ نہ صرف یہ کہ میٹنگ میں شریک ہوئے بلکہ اپنے بھانجے سے ملنے آگرہ بھی گئے اور ان کے حفظ کے مدرسہ کے لئے تعاون کی درخواست کی۔ آدھے جسم پر فالج کا حملہ ہوچکا تھا،جس کی وجہ سے زبان لڑکھڑارہی تھی،قلم پکڑنے میں دشواری ہورہی تھی،سکریٹری صاحب نے ایک کاغذ پر دستخط کرنے کے لئے آپ کو دیا تو اس موقع پرکسی نے کہا کہ اب آپ کمزور ہوگئے ہیں اسلئے ان ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوجائیں ،سکریٹری صاحب نے کہا کہ مولانا کا دل ابھی جوان ہے اس پر آپ صرف مسکراکر رہ گئے گویا کہ اب کتنے سال زندہ ہی رہنا ہے۔آپ کا یہ دہلی کا یہ آخری سفر ثابت ہوا ۔
انتقال:
آپ کے مزاج میں سختی تھی جس کی وجہ سے عام طور پر لوگ آپ کا سامنا کرنے سے ڈرتے تھے ،کئی دفعہ خیال ہوا کہ آپ سے زندگی کے بارے میں اہم معلومات پوچھ کر لکھ لوں مگر ہمت نہیں ہوسکی،اسکا نقصان یہ ہوا کہ آپ کی زندگی کے بہت سارے گوشوں کے بارے میں معلومات نہ ہوسکی ۔ مزاج کی سختی کے باوجود عجیب بات میں نے یہ محسوس کیا کہ آخری عمر بہت نرمی آگئی تھی۔کوئی بات بھی کرتے تو ہنس کر مسکراکر کیا کرتے تھے۔ انتقال سے پہلے والی رات آپ نے سینے میں معمولی سے درد شکایت کی۔ تیل سے مالش کردی گئی اورآپ سوگئے۔ کسے معلوم تھا کہ اس سونے کے بعد اب جاگنا نہیں ہوگا۔ صبح جب فجر کے وقت آپ بیدار نہیں ہوئے تو کمرے میں جاکر دیکھا گیا ، معلوم ہو اکہ رات ہی میں کسی وقت آپ کا انتقال ہوگیا۔ تھوڑے ہی وقت میں آپ کے انتقال کی خبر اطراف وجوانب میں پھیل گئی ۔ آپ کی لاش کو آبائی قبرستان میں دفن کر نے کے لئے پیکو لیا لے جایا گیا جہاں انہیں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں دفن کردیا گیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔

منگل، 9 جون، 2009

فضا ابن فیضی_مثبت فكر كا شاعر

4 تبصرے
سستی شہرت اور ادبی گروہ بندیوں سے الگ رہ کر خالص اردو ادب کی خدمت انجام دینے والوں کی فہرست اردو ادب کی دنیا میں بہت طویل نہیں ہے۔ اس کی وجہ اردو والوں کی ذہنیت اور ایک خاص قسم کا ماحول ہے ،کسی مخصوص ادبی تحریک سے وابستہ نہ ہونے کا مطلب تمام کاوشوں کے باوجود گمنانی کے غار میں اپنے آپ کو ڈالنے کے مترادف ہے، ان خدشات کے باوجود جن لوگوں نے اپنا مطمح نظر صرف اردو ادب کی خدمت رکھا ان میں سے ایک معروف نام فضا ابن فیضی مرحوم کا ہے۔ افسوس کہ قحط الرجال کے اس دور میں فضا صاحب بھی 17جنوری 2009ءکو انتقال كرگئے۔
فضا صاحب کا نام تو فیض الحسن تھا مگر اپنے قلمی نام فضا ابن فیضی سے مشہور ہوئے یہاں تک کہ لوگ ان کا اصلی نام بھول گئے۔ یکم جولائی 1923ءکو مئوناتھ بھنجن یوپی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد مئو کے معروف دینی ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ مئو میں درس نظامی میں داخلہ لیا اور 1942ءمیں فراغت حاصل کی۔ آپ کی رسمی تعلیم بس اتنی ہی ہے بعد میں فضا صاحب نے پرائیویٹ طور پر انگریزی سیکھنے کی طرف توجہ کی مگر آبائی تجارت نے ان کو موقع نہ دیا اور تجارت میں لگ گئے کرانہ کی ایک دکان سے ہونے والی آمدنی ذریعہ معاش تھی اس کے علاوہ آمد نی کا ایک ذریعہ پاکستانی رسائل و جرائد تھے جہاں وہ باقاعدگی سے اپنے اشعار اشاعت کے لئے بھیجا کرتے تھے افسوس کہ ہندو پاک کی باہمی چپقلش کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ زندگی بھر کسی کی ملازمت نہ کی ،فرماتے ہیں
تھا شوق بہت شہ کا مصاحب بن جاں
خیر گذری کہ فضا نوکری کرنے سے بچا
فضا ابن فیضی کی شاعری
فضا ابن فیضی کی شاعری مثبت فکر کی ترجمان ہے آپ نے حالات و زمانہ کو جیسا دیکھا اپنے اشعار میں بے تکلف بیان کر دیا، نظم، غزل ،نعت اور حمد ہر صنف شاعری پر آپ نے خامہ فرسائی کی۔ مخمور سعیدی صاحب کہتے ہیں کہ ان کی غزلوں میں نظموں کے مقابلہ میں تنوع زیادہ ہے ان کی نظم گوئی چند ایک موضوعات کے دائرے میں گھومتی ہے۔ غالبا مخمور سعیدی صاحب نے فضا صاحب کے نعتیہ مجموعہ کلام ”سرشاخ طوبی “کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی نظموں میں بھی کی غزلوں کی طرح مضامین کا تنوع موجود ہے ان کا مجموعہ کلام ”شعلہ نیم سوز “جو کہ نظموں کا مجموعہ ہے اس پر شاہد ہے۔
فضا صاحب مشاعرے میں بلائے جاتے تھے اور اشعار بھی پڑھتے تھے مگر سب سے بڑی مجبوری فضا صاحب کے ساتھ یہ تھی کہ وہ مشاعروں کی سطح تک گر کر اشعار پڑھنے کے قائل نہ تھے۔فضا صاحب ہمیشہ معیاری شاعری کرتے تھے خواہ اس پر انہیں داد ملے یا نہ ملے۔
فضا صاحب چونکہ عربی و فارسی زبان کے ماہر تھے اس وجہ سے ان کی شاعری میں عربی و فارسی تراکیب کی کثرت ہے یہی وجہ ہے کہ فضا صاحب کی شاعری سمجھنے کے لئے عربی اور فارسی زبان کی واقفیت بھی ضروری ہے۔ فارسی اور عربی نہ جاننے والوں کے لئے ان کی شاعری سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔ مگر عجیب بات یہ کہ فضا کے ترانے اس سے مختلف ہیں۔ فضا صاحب نے جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ سنابل اور کئی دیگر اداروں کا ترانہ لکھا ہے اس کے اندر الفاظ انتہائی سہل تراکیب آسان اور فکر کی بلندی اپنے عروج پر ہے۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے ترانہ کے چند بند ملاحظہ فرمائیں:
سحر کا پیرہن ہیں ہم، بہار کی ردا ہیں ہم
بدن پہ زندگی کے رنگ و نور کی قبا ہیں ہم
چراغ کی طرح سرِدریچہ وفا ہیں ہم
مغنیِ حرم ہیں، بربط لبِ حرا ہیں ہم
کہ گلشن رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
خدا کرے فضا یوں ہی خواب جاگتے رہیں
یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں
ہنرورانِ سنت و کتاب جاگتے رہیں
چمن چمن بشارتِ نسیم جاں فزا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
مذکورہ دو بندوں میں ردا, قبا اور مغنی عربی الفاظ ہیں مگر ان کو فضا صاحب کے نہایت خوبصورتی سے باندھا ہے بلکہ ان عربی الفاظ کی اضافت فارسی کی طرف کرکے ایک خوش کن نغمگی پیدا کردی ہے’ مغنی حرم‘ اور’ طیور خوش نوا‘ جیسی تراکیب فضا کی شعری مہارت کو واضح کرتی ہیں۔
فضا صاحب کا رشتہ ایک طرف قدیم کلاسیکی شاعری سے ملتا ہے تو دوسری طرف جدید لب و لہجہ کی شاعری سے بھی انہوں نے اپنا تعلق جوڑے رکھا، بجا طور پر فضا کی شاعری قدیم وجدید کا
فضاابن فیضی ایک نظر میں:
نام: فیض الحسن بن مولانا منظور حسن۔
تاریخ ولادت: یکم جولائی1923ء
تعلیم: عالمیت اورفضیلت جامع عالیہ عربیہ مئو سے (1942)
الہٰ آباد بورڈ سے منشی ،کامل مولوی عالم اور فاضل کے امتحان۔
ذریعہ معاش: تجارت
مجموعہ کلام :
سفینہء زرگل (غزلیات ورباعیات) فیضی پبلیکیشنز مئو
سبزہء معنی بیگانہ (غزلیات)اسلامک سائنٹفک ریسرچ اکیڈمی،نئی دہلی۔25
شعلہء نیم سوز (غزلیات) فیضی پبلیکیشنز، مئو
دریچہء سیم سمن (غزلیات)
پس دیوار حرف (غزلیات)
سرِشاخ طوبی (حمد ،نعت ومنظومات) جامعہ سلفیہ بنارس
غزال مشک گزیدہ (رباعیات)
لوح آشوب آگہی (منظومات)
آئینہ نقش صدا(غزلیات)
سخنہائے گفتی (خطبہء استقبالیہ) دانش کدہ مئو
خود نوشت حالات زندگی اور شاعری دانش کدہ مئو
سنگم ہے۔ فضا نے اپنا رشتہ میرو داغ سے بنائے رکھا اور اسی معیار کی شاعری پوری زندگی کرتے رہے۔ نمو نے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
غیر مشروط مسائل لب و لہجہ مشروط
چلو اچھا ہے کہ وہ ہم سے مخاطب ہی نہ تھا
چلتے پھرتے پاں میں لفظوں نے بیڑی ڈال دی
اب کہاں دہلیزِ معنی چھوڑ کر جاں گا میں
مجھے پکار رہی ہے زمیں کی پہنائی
یہ در تو کھول کہ میں آسمان سے نکلوں
بہت قریب رہا مجھ سے وہ مگر پھر بھی
یہ فاصلہ سا مرے آس پاس کیسا ہے
چاند کا درد سمجھ دن میں چمکنے والے
تو تو اک پل کو کبھی منظر شب میں نہ کھلا
اس کی قربت کا نشہ کیا چیز ہے
ہاتھ پھر جلتے توے پر رکھ دیا
خاکسترِحیات ہوں دامن میں باندھ لے
پیارے تو مجھ کو شعلہ سمجھ کر ہوا نہ دے
فضا نقادوں کی نظر میں:
فضاکی زندگی ہی میں ماہرین فن نے ان کی شاعری کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ پروفیسر عبد المغنی صاحب کہتے ہیں:”آج کے طوفان مغرب میں فضا کی مشرقیت اپنی جگہ ایک مضبوط ستون ہے اور یہ ایقان شاعر کے فکری رسوخ اور ذہنی بلوغ کی علامت ہے پروفیسر مسعود حسین کہتے ہیں:”وہ صوت و لفظ کے نازک رشتے کے محرم ِراز ہیں۔“
فضا پرلکھے گئے ڈاکٹریٹ کے مقالے:
(1) ”فضا ابن فیضی فکر و فن اور شخصیت“ ڈاکٹر محمد شفیع بنارس ہندو یونیورسٹی ۔
(2) ”فضا ابن فیضی کی شاعری اور شخصیت “مقالہ نگار ڈاکٹر ممتاز،پٹنہ یونیورسٹی ۔
(3) ”فضا ابن فیضی “ڈاکٹر حدیث انصاری ، اسلامیہ کریمیہ کالج، اندور۔
(4فضا ابن فیضی پرتحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹر تبسم بانو نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
(5) فی الحال پاکستان میں ايك صاحب فضا ابن فیضی اور انکی کتابوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔
پروفیسر ابو الکلام قاسمی صاحب کہتے ہیں :”فضا ابن فیضی ان معدودے چند ممتاز شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی مشاقی اور قدرت ِاظہار کلاسیکی روایت سے ان کی دلچسپی اور وابستگی کا پتہ دیتی ہے اور نئے شعری رجحانات کی ان کی شاعری کو نئے اسالیب اظہار اور نئے طرز احساس سے ہم رشتہ کرتی ہے“۔
اعتراف ہنر:
فضا کی ادبی خدمات پر مختلف ادبی تنظیموں نے انہیں ایوارڈ سے نوازا۔ ’سفینہ زرگل ‘کی اشاعت پر اردو اکادمی لکھنو اور مجموعی ادبی خدمات پر غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی 2000ءمیں انہیںایوارڈ سے نوازا گیا۔ ادبی ایوارڈ فہرست یہاں گنانا ممکن نہیں ہاں یہ بتانا مناسب ہے کہ ۱۹۹۱ءمیں سہ ماہی توازن مالیگاں نے ایک خصوصی نمبر نکالا تھا جس کی ضخامت296 صفحات ہے اس میں ملک کے معروف ناقدین نے فضا کی شاعری کا مختلف جہات سے جائز لیا ہے۔ فضا کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی کے مقالے ان کی زندگی ہی میں لکھے گئے۔ ڈاکٹر شفیع صاحب بنارس یونیورسٹی سے اور اندور سے ڈاکٹر حدیث انصاری نے آپ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ اول الذکر مقالہ 2001ءمیں شائع بھی ہو چکا ہے۔
خلاصہ کلام:
فضا صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی غزلوں میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں ایک خامی یہ ہے کہ عربی و فارسی اور مشکل الفاظ کی بھر مار نے ان کی شاعری کو عوام سے دور کر دیا۔ انہی مشکل الفاظ کی وجہ سے ان کی شاعری میں نغمگی کی کمی پائی جاتی ہے جہاں فضا نے اس حصار کو توڑا ہے وہاں ان کا اصلی جوہر کھل کر سامنے آیا ہے ،خاص طور پر نظموں میں ۔فضا کی مشکل پسند ہی ہے کہ ان کے سبھی مجموعہ کلام کے نام سہ حرفی ہیں۔ ’سفینہ گل‘،’ سبزہ معنی بیگانہ‘، ’دریچہ سیم سمن ‘اور ’پس دیوار حرف ‘وغیرہ۔ فضا کے کل آٹھ مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں ان میں سے بعض مجموعے کئی یونیورسٹیز میں داخل نصاب ہیں۔فضا کے یہاں تصوف کے مضامین نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اہلحدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے یہ بات مشہور و معروف ہے کہ اہل حدیث اور تصوف میں بعد المشرقین کا فرق ہے،ہاں ،دینی مضامین کی کثرت ہے بلکہ ایک مجموعہ کلام ’سر شاخ طوبی ‘عشق نبی میںڈوب کر لکھا گیا نعتیہ مجموعہ کلام ہے۔
اس مقاله كا خاتمه فضا هى کے ايك شعر سے كرتا هوں
مجھ سے ملنا ہو تو پھر میری کتابیں دیکھنا
ہرورق پر عکس اپنا چھوڑ کر جاں گا میں
٭٭٭٭
٭٭٭