سماجی مسائل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سماجی مسائل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 5 نومبر، 2017

پسماندہ طبقات کے اشرافیہ کو ریزرویشن کیوں؟

0 تبصرے

آئین ہند کے معماروں نے معاشرہ کے تمام طبقات کے ساتھ برابری کا برتاؤ کیا ہے ۔ معاشرہ کے وہ طبقات جو صدیوں سے دبے کچلے چلے آرہے ہیں ان کے لیے ریزرویشن کی رعایت دی ہے ۔ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں ان کے لیے نششتیں محفوظ کی گئیں، فیس اور عمر کی حد میں رعایت دی گئی۔ ان مراعات کی وجہ سے پسماندہ اور دلت سماج کی ایک بڑٰی تعداد نے اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ پاکر اعلی تعلیم حاصل کرلیا اور اس کی بنیاد پراعلی سرکاری عہدوں پر بھی فائزہوگیے ۔ تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں ہی میں پسماندہ طبقات کو رعایت ہی نہیں دی گئی اس کا دائرہ بڑھا دیا گیا اور ترقی میں بھی انہیں ترجیح دی جانے لگی۔ ایک عرصہ تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ غریب اور دبے لوگ آگے آتے گیے لیکن دھیرے دھیرے پسماندہ طبقات میں بھی ایک اشرافیہ طبقہ پیدا ہوگیا۔ یہ وہ طبقہ ہے تھا جس کو سب سے پہلے ریزرویشن کا فائدہ ملا۔ ان لوگوں نے سرکاری رعایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلائی اور اعلی نوکریوں پر انہیں فائز کرادیا۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سرکاری نوکری ایک عام آدمی کے لیے ایک خواب ہے وہاں ان کے گھر اور خاندان کا ہر فرد کسی نہ کسی اعلی عہدہ پر فائزہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ گھر اور خاندان مالی لحاظ سے متمول ہوگیا لیکن پسماندہ طبقہ کا لیبل ہونے کی وجہ سے انہیں اب تک رعایت مل رہی ہے ۔ اس رویہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ جن مقاصد کے لیے ریزرویشن کا نفاذ ہوا تھا دھیرے دھیرے وہی فوت ہوتا جارہا ہے ۔ پسماندہ طبقات کے لیے دی گئی ساری رعایتوں کا سیدھے فائدہ پسماندہ طبقات کے اشرافیہ کو مل رہا ہے ۔ عام پسماندہ طبقہ کے افراد جو دبی کچلی حالت سے نکلنے کے اپنے پر تولتے ہوئے باہر نکلتے ہیں تو ان کا سامنا خود ان کے اپنے طبقہ کے اشرافیہ سے ہوتا ہے ۔ مستحق ہونے کے باوجود انہیں ان کا حق نہیں مل رہا ہے ۔
آئین ہند کے معماروں نے انگریزوں کے ذریعہ نافذ کیے گیے ریزرویشن کو اس لیے باقی رکھا تھا تاکہ سماج کے وہ طبقات جو صدیوں سے دبے کچلے چلے آرہے ہیں وہ بھی سماج کا حصہ بن سکیں۔ سماج میں انہیں بھی اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا موقع ملے ۔ انہوں نے مذہبی بنیاد پر نہ تو ریزرویشن دیا اور نہ مذہب کی بیناد پر کسی کو ریزرویشن سے منع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو بھی شیڈول کاسٹ کا ریزرویشن دیا جاتا رہا۔ بعد میں پنڈٹ نہرو کے دور حکومت میں صرف ہندؤوں کو ہی اس کا فائدہ دینے کا صدارتی ریفرنس آیا جس میں بعد میں بدھسٹوں اور سکھوں کوبھی شامل کرلیا گیا۔ لیکن مسلمانوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔ یہ آئین ہند کے ساتھ سراسر کھلواڑ تھا لیکن مسلمان ایک عرصہ سے اس گھونٹ کو برداشت کرتا رہا ہے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسی پیشہ سے وابستہ افراد کو ساری رعایتیں ملتی ہیں لیکن مسلمانوں کو نہیں؟
ایک عرصہ سے آواز اٹھتی رہی ہے کہ ریزرویشن کی بنیاد کیا ہونی چاہیے ؟ پسماندگی یا ذات برادری؟ اور اگر مذہبی بنیاد پر ریزرویشن دیا جائے تو مسلمانوں کو کیوں نہیں جن کے بارے میں سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ دلتوں سے بھی پچھڑے ہیں۔ اور اگر مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینا غیر آئینی ہے تو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن سے روکنا بھی غیر آئینی ہے ۔ آخر اس کے خلاف آواز کیوں نہیں بلند کی جاتی۔
ہم ایک مرتبہ پھر اپنے موضوع پر آتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے والے پسماندہ طبقات کے اشرافیہ نے ریزرویشن کے فوائد کا دورازہ دوسروں کے لیے بند کردیا ہے ۔ اس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ حقیقی مستحقیق کو ان کا حق نہیں مل رہا ہے ۔ اس وجہ سے اس قانون میں تبدیلی کرکے پسماندہ طبقات میں سے کریمی لیئر کو الگ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں بہار میں نتیش کمار نے ایک اچھی پہل کی ہے انہوں نے پسماندہ طبقات کو دو زمروں میں تقسیم کردیا ہے ۔ ایک پسماندہ دوسرا انتہائی پسماندہ طبقہ۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے بھی ذات برادری کو ہی معیار مانا ہے ۔ کیا ضروری ہے کہ کسی ذات سے تعلق رکھنے والے سبھی لوگ انتہائی پسماندہ ہوں؟ ایسا بھی ہوسکتا ہے اسی ذات کے کچھ لوگ بڑے سرکاری عہدوں پر ہوں، بڑے تاجر ہوں۔ مرکزی یا ریاستی وزیر ہو۔ ایک انتہائی پسماندہ زمرہ سے تعلق رکھنے والے وزیر کے لڑکے کو بھی ریزرویشن کا فائدہ مل جاتا ہے لیکن دوسرا لڑکا جو صرف پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتا ہے اور غریب بھی لیکن اس کو فائدہ نہیں ملتا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پسماندہ طبقات میں کریمی لیئر کا معیار ذات پات کے بجائے مالی حالت کو بنایا جائے ۔ ماں یا باپ کے کسی اعلی عہدے پر فائز ہونے پر اس کے بیٹوں کو وہ رعایت نہ دی جائے جو صرف غریب اور واقعی پسماندہ لوگوں کا حق ہے ۔ اس طرح پسماندہ طبقات کے لیے دی جانے والی رعایتوں کا فائدہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے گا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ریزرویشن کی ایک میعاد ہونی چاہئے ۔ ہر پانچ سال کے وقفہ میں اس کی جانچ ہونی چاہیے کہ اس کا فائدہ واقعی پہنچ رہا ہے یا نہیں۔ اور متعلقہ طبقات کی سماجی اور مالی حالت درست ہوئی یا نہیں جن طبقات کی حالت میں سدھار آجائے اسے ریزرویشن کے زمرہ سے خارج کیا جائے جو واقعی مستحق لوگوں کا حق ہے۔ ورنہ کہاوت ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑی اور گھوم گھوم کر اپنوں کو دے ۔

عزیر اسرائیل
شعبۂ اردو دہلی یونی ورسٹی
9210919540

پس

بدھ، 23 اکتوبر، 2013

پلاننگ کمیشن کا نیا سوشہ: طلاق کے بعد بیوی آدھی جائداد کی حق دار

0 تبصرے
کیا یہ اتفاق ہے کہ میڈیا میں اچانک ایک جیسی خبریں آنے لگتی ہیں، مثلا کچھ دنوں پہلے دہلی میں بلیو لائن بسوں کے بارے میں روزانہ اخبارات اور ٹی وی چینل تفصیلی خبریں دیا کرتے تھے ۔ معمولی سا بھی سڑک حادثہ اگر اس میں کسی بھی طرح بلیولائن کی شمولیت رہی ہو اگر چہ غلطی اس میں کسی اور کی ہو اس کو بلیو لائن کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ میڈیا کے اسی پرپیگنڈے نے بلیولائن کو کلر لائن بنادیا۔ اور بالآخر بلیو لائن کو سڑکوں سے ہٹنا پڑا۔بالکل یہی صورت حال اس وقت عورتوں سے متعلق خبروں کے بارے میں بھی ہے۔ کوئی بھی نیوز چینل کھولو اس میں عورتوں کے ساتھ چھیڑکھانی ، زبردستی اور مارپیٹ جیسے واقعات کی خبریں ملیں گی۔ کیااس سے پہلے یہ سب کچھ نہیں ہوتا رہا ہے۔ بلیولائن بسوں سے حادثے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور اسی قسم کے حادثے اب بھی روزانہ کہیں نہ کہیں ڈی ٹی سی سے بھی ہورہے ہیں۔ مگر نہ پہلے ان کی کوریج ہوتی تھی نہ اب ہوتی ہے۔
دراصل میڈیا میں کچھ لوگ ہیں جو اپنی پسند اور مرضی کے موضوعات کو اچھالتے ہیں۔میڈیا کے بارے میں جانکاری رکھنے والے بتاتے ہیں کہ بلیولائن کو ہٹانے کے لئے دہلی کے وزیر ٹرانسپورٹ نے میڈیا کے پرپیگنڈے کا سہارا لیا تھا۔ پہلے میڈیا میں اس کی تشہیر کرائی اور پھر اسی کو بہانہ بناکر ان کو سڑکوں سے ہٹایا گیا۔ دوسرے میڈیا گروپ مجبوری یا غیر محسوس طریقے سے ان کے پرپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔
آج کل عورتوں سے متعلق اس قسم کی خبروں کی بھر مار دیکھ کرلگتا ہے کہ کچھ خاص قسم کی فضا تیار کی جارہی ہے۔ ہمارا شک اس وقت یقین کی صورت اختیار کرگیا جب پلاننگ کمیشن کا بیان سامنے آیا کہ وہ جلد ہی شوہر کی پراپرٹی میں بیوی کو آدھے کا حق دار بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پلاننگ کمیشن کی سفارشات اگر مان لی گئیں تو ایسی صورت میں طلاق کی صورت میں شوہر کی پوری پراپرٹی دوحصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ اس میں سے آدھی جائداد بیوی کو دے دی جائے گی ۔ باقی میں شوہر اور اس کے رشتہ دار جیسے تیسے گذارہ کریں۔ خاص بات یہ کہ اس میں منقولہ اور غیر منقولہ جائداد میں فرق نہیں کیا گیا ہے۔
                    پلاننگ کمیشن کی مانیں تو ایسا اس لئے کیا جارہا تاکہ طلاق اور علیحدگی کے بعد معاوضے کو لے کر عورتوں کو ہورہی پریشانیوں سے نجات دلایا جائے۔ پلاننگ کمیشن کو سب سے زیادہ فکر مسلم خواتین لے کر ہورہی ہے۔ اس لیے کہ مسلم پرسنل لاء کے مطابق طلاق کے بعد عدت کے خرچ کے علاوہ کسی اور قسم کے خرچ کے لئے بیوی دعوی نہیں کرسکتی۔ قانون بن جانے کی صورت میں مسلم عورتوں کو بھی طلاق کے بعد شوہر کی جائداد کا آدھا حصہ مل جائے گا۔
اگر چہ ابھی یہ ایک سفارش ہے کوئی قانون نہیں ۔ اگر اس قانون کی مخالفت نہ کی گئی اور یہ قانون ایسے ہی پاس ہوگیا تو ہمارا خاندانی نظام اور اس کا پورا سسٹم برباد ہوجائے گا۔
شادی بیاہ صرف جسمانی ملن کا نام نہیں، بلکہ یہ دو روحوں کا ملن ہے۔ اس کو روپئے پیسے اور جائداد سے جوڑ کر دیکھنا اپنے آپ میں ایک غلط عمل ہے۔مستقبل میں ایسے واقعات بھی سامنے آئیں گے کہ لڑکی کی شادی صرف جائداد ہڑپنے کے لئے کی گئی ۔ شادی کے بعد طلاق کی عرضی داخل کی جائے گی اور ایک دو دن ساتھ رہنے کا معاوضہ لڑکی آدھے جائداد کی صورت میں وصول کرے گی۔
ابھی ایک سال پہلے پولیس نے ایک ایسی لڑکی کو گرفتار کیا تھا جو شادی کا ناٹک کرکے کئی ایک نوجوانوں کو کنگال کرچکی تھی۔ دلالوں کے ذریعہ وہ شادی کی بات کرتی اور پھر موقع پاکر گھر کے سبھی زیور اور نقدی اپنے دلالوں کی مدد سے صاف کردیا کرتی تھی۔
وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ لڑکیوں کا ایک گروہ ایسا تیار ہو جو بڑے گھرانے کے لڑکوں کو اپنے جال میں پھانسیں اور پھر ان سے الگ ہوکر ان کی جائداد کے برابر کے حق دار بن جائیں۔
دوسری بات یہ کہ پلاننگ کمیشن کو صرف لڑکی دکھائی دیتی ہے نہ لڑکا دکھتا ہے نہ اس کے ماں باپ اور بھائی بہن۔ لڑکے کو سب کی نگہداشت کرنی ہوتی ہے۔ جب آدھی جائداد لڑکی کو دے دی جائے گی تووہ اپنے ماں باپ کی نگہداشت کیسے کرے گا؟کیا خاندان میں صرف میاں اور بیوی ہی ہوتے ہیں؟ اور کوئی دوسرا رشتہ نہیں ہوتا ہے۔؟
سب سے بڑا مسئلہ لڑکوں کی تعلیم اور تربیت سے متعلق ہوتا ہے۔طلاق کے بعد لڑکے اگر شوہر کے پاس رہے تو کیا تب بھی بیوی آدھی جائداد کی حق دار ہوسکتی ہے؟
اگرچہ یہ کہا گیا ہے کہ شوہر کے ساتھ بیوی کی جائداد بھی تقسیم ہوگی مگر بیوی کی جائداد کیا ہوتی ہے؟ زیورات ، نقدی یا زمین وغیرہ عموماً وہی ہوتا ہے جو شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے۔ اگر معاملہ برابری کا ہے تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر بیوی کمارہی ہے تو طلاق کے بعد اپنے سابقہ شوہر کے اخراجات برداشت کرے۔ اسکے نان ونفقہ کی ذمہ دار ہو۔ اس لئے کہ پلاننگ کمیشن کی نظر میں دونوں برابر ہیں۔
دراصل پلاننگ کمیشن کا یہ فیصلہ خاندانوں کو توڑنے کا کام کرے گا ۔ سماج دشمن عناصر کی ہمت افزائی کا باعث ہوگا۔
صحیح بات تو یہ ہے طلاق کے بعد عورت کا عدت کی مدت کے خرچ کے علاوہ کوئی اور حق بنتا ہی نہیں ہے جیسا کہ اسلام کا فیصلہ ہے۔اس لئے کہ شوہر اپنی بیوی کو خرچ اس وجہ سے دیتا ہے کیوں کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ طلاق کے بعد جب وہ بیوی ہی نہیں رہی تو ایسی صورت میں وہ خرچ کی حق دار کیوں کر ہوسکتی ہے؟اور جہاں تک رہی بات یہ کہ عورت طلاق کے بعد کھائے گی کیا ؟ تو اس کی ذمہ داری ماں باپ پر ہے۔ اسلام نے عورت کو لڑکے کی طرح جائداد کا وارث بنایا ہے۔ بچوں کی پرورش اس کے ذمہ نہیں رکھا گیا ہے اس وجہ سے اس کو صرف اپنے اوپر ہی خرچ کرنا ہے۔ ایسے میں اسلام کو عورت کا مخالف ثابت کرنا بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اپنی ذمہ داری (یعنی لڑکی کو وراثت میں حصہ دینا ) سے بچنا چاہتے ہیں اور ناجائز طور پر وہ سابقہ شوہر سے لینا چاہتے ہیں۔


مذکورہ قانون اپنی تمام قباحتوں کے ساتھ مسلم پرسنل لاء میں صریح مداخلت ہے، جس کی قانون قانون ہند میں ہمیں ضمانت دی گئی ہے۔اس وجہ سے اس قانون کی بڑے پیمانہ پر مخالفت ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ ہم سوئے رہیں اور جب بیدار ہوں تو معلوم ہو کہ اب دیر ہوچکی ہے۔

ٹکٹوں کی کالابازاری، دلال مالامال، مسافر پریشان

0 تبصرے
مئی جون میں اسکولوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان دو مہینوں میں لوگ اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں گذارنے اپنے گاؤں یا شہر کا رخ کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے گرمیوں میں ٹرینوں میں بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔ ایک دو اضافی ٹرینوں سے بھی یہ بھیڑ مسئلہ کا حل نہیں ہوپاتا ہے۔ گرمی کی چھٹیوں کے لیے ریزرویشن ٹکٹ پانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔ ریلوے کے نئے قانون کے مطابق نوے دن پہلے ریزرویشن ٹکٹ لیا جاسکتا ہے۔ آج کل حالت یہ ہے کہ ٹکٹ کاونٹر کھلنے کے ایک دو گھنٹہ کے اندر ہی ساری سیٹیں ختم ہوجاتی ہیں۔پہلے ایسا تتکال ٹکٹوں کے لئے ہوتا تھا اب عام ریزرویشن ٹکٹوں کا بھی یہی حال ہوگیا ہے ، یہ حالت خاص طور پر شمالی ہند کی طرف جانے والی ٹرینوں میں ہے۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ سارے ٹکٹ جاتے ہیں۔ آسان سا جواب ہے کہ یہ سب دلالوں کی جھولی میں جاتا ہے۔
                    دراصل گرمی کی چھٹیوں میں ٹکٹ کے لئے مارا ماری کو دیکھتے ہوئے دلال پہلے ہی سارے ٹکٹ بک کرلیتے ہیں ۔ عام آدمی کو چھٹی سے ایک مہینہ ٹکٹ کا خیال آتا ہے ، اس وقت تک سارے ٹکٹ ختم ہوچکے ہوتے ہیں ، اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ دلالوں کے پاس جائے اور کئی گنا زیادہ قیمت پر ان ٹکٹوں کو خریدے۔ تعجب یہ ہے کہ یہ سارا کام انتظامیہ کے ناک کے نیچے ریلوے اسٹیشنوں کے ارد گرد بیٹھے ٹریول ایجنٹ ڈھڑلے سے کر رہے ہیں ۔ ریلوے انتظامیہ کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے اس کے باوجود سب کچھ برداشت ہی نہیں بلکہ کچھ کرپٹ ملازمین اس میں برابر کا حصہ وصول کرتے ہیں۔
اگر آپ کو آج ہی سفر کرنا ہے اور آپ کے پاس ٹکٹ نہیں ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، نئی دہلی اور پرانی دہلی جیسے اسٹیشنوں پر ’آج کاریزویشن ٹکٹ ، آج کا ریزویشن ٹکٹ‘ کی آواز لگانے والے دلال مل جائیں گے، ان سے رابطہ کرنے پر وہ آپ کو پاس ہی کسی ٹریول ایجنسی پر لے جائیں گے، ٹریول ایجنٹ آج ہی کے ٹکٹوں کی ایک موٹی گڈی لے کر بیٹھا ہوگا، ٹکٹ کی قیمت ضرورت مند کی ضرورت کے حساب سے طے ہوتی ہے جو کسی بھی صورت میں دوگنی سے کم نہیں ہوتی۔ جو ٹکٹ بچ جاتے ہیں ان کو واپس بھی نہیں کیا جاتا اس کے لیے یہ ایجنٹ ٹرین میں چلنے والے ٹی ٹی سے بات کرلیتے ہیں وہ ان سیٹوں کو منہ مانگی قیمت پر بیچ لیتے ہیں ۔ اس طرح دلالوں اور ریلوے کے کچھ کرپٹ ملازمین کی ملی بھگت سے عام مسافروں کے لئے ٹکٹ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں رہ گیا ہے۔
                    ریلوے  اگر واقعی چاہتی کہ دلالوں کی اس ہیرا پھیری سے مسافروں کو نجات دلائیں تو اس کے لیے انہیں سخت قدم اٹھانے ہوں گے۔ اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے تمام ریزرویشن ٹکٹوں کے لئے شناختی کارڈ کو لازمی کردیا جائے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے تتکال ٹکٹوں کے لئے شناختی کارڈ کو ضروری قرار دیا گیا تھا یہ ایک اچھا قدم ہے اس سے فرضی ناموں پر ٹکٹوں کی خرید اور فروخت پر لگام لگے گی۔ آج کے زمانے میں کم ہی لوگ ہوں گے جن کے پاس کسی بھی قسم کا شناختی کارڈ نہ ہو۔


                    دوسرا کام یہ کیا جاسکتا ہے کہ ریزرویشن کی مدت تین مہینہ سے کم کرکے دو مہینہ کردیا جائے۔میری اپیل ہے کہ جلد ہی مذکورہ تدابیر یا اس کے علاوہ جو بھی ماہرین کامشورہ ہو اپناکر مسافروں کو دلالوں سے نجات دلائیں۔ امید کہ محترمہ ممتا بینرجی جلد اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں گی۔ 

ہفتہ، 3 ستمبر، 2011

انا ہزارے کی تحریک۔ میڈیا کا پیپلی لائیو شو

0 تبصرے
اگست کےنصف آخر میں دہلی میں صرف ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی، ۔ سڑک مارکیٹ گلی کوچے ہر جگہ بس انا، انا کا  نعرہ تھا۔ ہرجگہ سے تھک ہار کر گھر پہنچ کر جب ٹی وی آن کرکے کچھ سکون حاصل کرنا چاہتا تو وہاں بھی وہی شوروشرابا۔ اللہ بھلاکرے ان ٹی وی والوں کوکہ انہوں نے تو گویا اپنے سبھی رپورٹروں کو اسی کام پر لگادیا تھا کہ صرف اناکی خبر ارسال کرو، کسی گلی میں دو چار لوگوں نے جمع ہوکر نعرہ لگایا کہ ٹی وی پر اس محلہ اور علاقہ کا نام انا جی کے سپورٹروں میں آگیا۔ 
اگر ہم اس تحریک کی کامیابی کا نوے فیصد کریڈٹ ٹی وی اور اخبارات کو دیں تو بے جانہ ہوگا۔ جہاں تک ٹی کی رسائی تھی وہیں تک انا کی آندھی تھی، اس کے باہر سب کچھ سونا سا تھا۔ میں نے جب اپنے گاوں بلرام پور ضلع میں اس تحریک کے بارے میں جاننا چاہا تویہ جان کر تعجب ہوا کہ یہاں اکثر لوگوں نے انا کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ میڈیا نےاس تحریک کے لئے جو کچھ کیا اس کو دیکھ کر پیپلی لائف یاد آگئی جو عامر خان کی ایک بہت اچھی فلم تھی۔
  کاش میڈیا ان لوگوں پر بھی توجہ دیتا جو گیارہ گیارہ سالوں سے بھوک ہڑتال پر زندگی اور موت کے درمیان جوجھ رہے ہیں۔ وہ کہیں اور نہیں دہلی میں جنتر منتر پر ہی ہیں۔ وہ بھی انسان ہیں، اگر ان کے پاس وسائل نہیں تو یہ کام میڈیا کرسکتا ہے۔
           دوسری بات یہ کہ اس پورے معاملہ میں انا جی صرف ایک مکھوٹا تھے، وہ وہی کرتے تھے جو کیجری وال اور کرن بیدی کہتی تھیں۔ ایسے میں انا جی کو اس تحریک کا قائد کیسے کہا جاسکتا ہے۔؟
            مسلمانوں نے اگرچہ اس تحریک میں اوروں کی طرح حصہ لیا مگر اکثر مسلمان انا کے بارے میں تذبذب کا شکار رہے، اردو اخبارات ہمیشہ شک کا اظہار کرتے رہے۔ ایسا وندے ماترم ، دوسرے نعروں کی وجہ سے بھی ہوا۔ دوسری بات یہ اس تحریک میں بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ پیش پیش تھے مسلمان بے چارہ دودھ کا جلا کیا کرے گا کہنے کی ضرورت نہیں۔
           انا جی پی ایم کو تو لوک بال سے باہر رکھنے پر راضی نہ ہوئے مگر ججوں کے معاملے میں راضی ہوگئے۔ آخر ایسا کیوں؟ سپریم کورٹ نے الہ باد ہائی کورٹ کے بارے میں ابھی جلد ہی کہا ہے اوپر سے نیچے تک سب کچھ سڑ چکا ہے۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ بعض ضلع کے جج تو باقاعدہ ریٹ طے کر رکھے ہیں۔ ایسے میں ان کو الگ کرنے پر انا راضی کیسے ہوگئے؟
          میرے خیال میں صدر،وزیر اعظم چیف اور جسٹس آف انڈیا کے علاوہ ہرایک کو اس کے دائرے میں آنا چاہئے۔ ان تینوں کو اس لئےنہیں کہ یہ بہت ہی باوقار عہدے ہیں۔ انہیں آزادانہ طورپر کام کرنے دینا ملک کے حق میں ہے۔
         
       میں اس تحریک کا حامی تو ضرور تھا مگر اندر سے خائف بھی کہ کہیں یہ آر ایس ایس کا ہی دوسرا روپ نہ ہو، اب جب کہ انا جی کی تقریبا ساری باتیں مان لی گئی ہیں مجھے یہ ڈر ستا رہا ہے کہ کہیں یہ بل ہمارے سیاسی نظام کے ضروری جز چیک اینڈ بیلنس کو بگاڈ نہ دے۔
       ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اس تحریک کی کامیابی سے شعلے اسٹائل کی تحریکوں کا دور نہ شروع ہوجائے۔ یعنی میری باتیں سو فیصدی تسلیم کی جائیں ورنہ میں اپنی جان دے دوں گا۔ جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی بات رکھنے کا حق ہے، مگر یہ اختیار کسی کو نہیں ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کرے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہی صحیح ہے باقی سب غلط ہے۔
اللہ کرے کہ خیر ہو اور ملک ترقی کرے۔


اتوار، 17 جولائی، 2011

ممبئی سیریل بم دھماکوں کے بعد گرفتاریاں

0 تبصرے
ہندوستان میں دھماکے کہیں بھی ہوں شک کی سوئی بے چارے مسلمانوں کی طرف جاتی ہے گویا کہ ہماری ایجنسیوں نے ایک بات تسلیم کرلی ہے کہ اس دیش میں بم دھماکے صرف مسلمان ہی کرسکتاہے، ایک طرف سیکورٹی ایجنسیاں کہہ رہی ہیں کہ ان کے ہاتھ ابھی کسی قسم کے ثبوت ہاتھ نہیں لگے دوسری طرف انڈین مجاہدین اور دوسری تنظیموں کا نام لیا جانے لگا، مسلم ناموں کا نام لیا جانے لگا۔ ٹی وی چینل جتنی تیزی کے ساتھ اس کیس کی تحقیقات کررہی ہیں اس کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ حکومت کو یہ ذمہ داری انہیں چینلوں کو سونپ دینا چاہیے۔ اسی درمیان ایک الگ آواز بھی آئی جو دگ وجے سنگھ کی تھی انہوں نے صرف اتنا کہا کہ سنگھ پریوار کے رول سے ہم ان دھماکوں میں انکار نہیں کرسکتے۔ بات واجبی تھی، اس سے پہلے بھی کئی دھماکوں میں ان تنظیموں کے شامل ہونے کے ثبوت ملے ہیں، اس لیے جس طرح دوسری دہشت گرد تنظیموں کے رول کی جارہی ہے ان تنظیموں کے رول کی بھی جانچ ہونی چاہئے۔ ہندو دہشت گرد تنظیموں کے رول کی جانچ کی بات پر بی جے پی کے اندر تہلکہ کیوں مچ گیا ؟ کہیں دادا گیری کے ذریعہ جانچ کو ایک خاص سمت میں لے جانے کی کوشش تو نہیں ہے؟
       سیاسی حلقوں میں یہ آواز اٹھنی شروع ہوگئی تھی جب سے ہندو دہشت گرد چہرے سامنے آئے اسی وقت سے بم دھماکے بند ہوگئے، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دھماکے صرف یہ ثابت کرنے کے لئے ہوں کہ ہندو دہشت گرد ہی تمام دھماکوں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔     
میں دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے جوڑنے کا مخالف رہا ہوں۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ ان دھماکوں کی غیر جانب دارانہ جانچ ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جو پولیس ایک مسلم نوجوان کی اس رپورٹ پر کوئی کاروائی نہیں کرتی کہ اس نے چار لوگوں کو بم پلانٹ کرنے کی بات کرتے سنا، اس کو پولیس اسٹیشن سے واپس بھیج دیا گیا۔ اب وہی پولیس اتنی مستعد ہوگئی ہے کہ ایک شخص کو صرف اس لئے گرفتار کرلیتی ہے کہ مرشدآبار میں اس کے پاس مراٹھی لٹریچر ملا ہے۔ ابھی ڈاکٹر سین کے معاملہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے کہ کسی بھی زبان کا لٹریچر کسی کے خلاف ثبوت نہیں بن سکتا ہے۔ آخر بار بار یہ غلطی کیوں دہرائی جاتی ہے؟
       دوسری بات یہ کہ اس معاملہ میں بھی آنکھ بند کرکے مسلم نوجوان گرفتاریاں ہورہیں ہیں، مجھے پورا یقین ہے کہ کچھ دنوں کے بعد ان کو چھوڑ دیا جائے گا اس لئے کہ ان کو عوام کا غصہ سرد کرنے کے لئے بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کیا جارہاہے۔ لیکن ان نوجوانوں کے کیریر کا کیا ہوگا؟ وہ گرچہ چھوڑ دیے جائیں گے مگر عوام ان کو گنہگار ہی تصور کرے گی۔ ان سے نفرت کرے گی۔ عام جگہوں پر ان کا اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوجائے گا۔ اس لئے خدا کے لیے نوجوانوں کے کیریر کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے اس لئے کہیں کوئی حقیقت میں اس قسم کی بے وقوفی نہ کر بیٹھے۔


بدھ، 24 جون، 2009

نئی حکومت اور مسلم قیادت

0 تبصرے
پندرہویں لوک سبھا کے نتیجوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ووٹروں نے مذہب اور ذات پات کی سیاست کو نظر انداز کرکے صرف اور صرف ترقی اور امن کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ مذہب کے نام پر قائم سیاسی پارٹیوں کو اس بار منہ کی کھانا پڑی۔ بی جے پی نے اس بار ایڈوانی کو مضبوط نیتا کا نعرہ بلند کرکے پرائم منسٹر کے عہدہ کا امیدوار بنایا تھا۔ وزارتِ عظمیٰ-کا انتظار کرنے والوں کو اب مزید پانچ سال تک اپنی باری آزمانے کے موقع کا انتظار کرنا پڑے گا۔ جس طرح پچھلے الیکشن میں انڈیا شائننگ کا نعرہ فیل ہوا تھا اسی طرح اس دفعہ گڑیا، بڑھیا، کمزور اور نکما کی زبان کو عوام نے مسترد کردیا۔
ہار کے بعد بی جے پی کے لئے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ ہندو احیا پرستی کے ایجنڈے سے دست بردار ہوتی ہے تو اس کو اپنے روایتی ووٹروں سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور جہاں تک نوجوان طبقہ اور ملک کی اکثریت کی بات ہے تو اس کے لئے اب ہندوتو کے ایجنڈے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف ترقی اور امن چاہتے ہیں۔ ہندتوا کے ایجنڈے سے دستبردار ہونے میں ایک پریشانی اور ہے اور وہ یہ کہ بی جے پی سب کچھ ہے مگر آر ایس ایس کے بعد۔ آر ایس ایس کی مرضی کے بغیر بی جے پی کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ اور وہ اس کو ایسا کرنے نہیں دے گی۔
اس الیکشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس مرتبہ کچھ نوخیز مسلم پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ کا سودا کرنے کے لئے میدان میں آئی تھیں۔ ڈاکٹر ایوب صاحب کی ’پیس پارٹی ‘ اور جماعت اسلامی اور جوائنٹ کمیٹی فار ایمپاورمنٹ آف مسلم کی مشترکہ کوشسوں سے وجود میں آئی ”علماءکونسل“ اس بار بڑے زور و شور سے میدان میں اتریں۔ ڈاکٹر ایوب صاحب پیشہ کے ڈاکٹر اور ایک سماجی کارکن ہیں انہوں نے حالات کا جائزہ لئے بغیر ان علاقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کردیئے جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے اکثر جگہوں پر بی جے پی بڑی آسانی سے جیت گئی۔ پیس پارٹی کے تعلق سے بعض مسلم علاقوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ دوسری پارٹی کے امیدواروں کو سننا تو دور انہیں اپنے علاقوں میں داخل بھی نہیں ہونے دیا گیا۔ جب ایک طرف مذہب کے نام پر مسلمان اس شدت سے جمع ہوں تو بی جے پی کو اپنی سیاست کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے لہٰذا اس نے ہندو ووٹ کو اپنی طرف آسانی سے منتقل کرلیا۔ کافی شور و شرابہ کے بعد جب رزلٹ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ پیس پارٹی بھی ڈاکٹر مسعود کی نیشنل لوک ہند پارٹی کی طرح ایک سیٹ بھی اپنے کھاتے میں نہ ڈال سکی، ہاں اس نے کئی بی جے پی امیدواروں کو ضرور کامیابی دلائی، جس کے لئے یقینا بی جے پی ڈاکٹر ایوب کی شکر گزار ہوگی۔
علماءکونسل کا معاملہ بھی تقریبا وہی ہے۔ بٹلہ ہا

س انکا

نٹر کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں یہ تنظیم دہلی، لکھنو

¿ اور اعظم گڑھ میں سرخیوں میں آگئی۔ علماءاکسپریس کے ذریعہ اس تنظیم نے دہلی کا سفر کرکے جنتر منتر پر زبردست مظاہرہ کیا اور اعظم گڑھ کو آتنک گڑھ قرار دینے اور مسلمانوں کو بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کرنے کے خلاف ایک منظم آواز اٹھائی۔ اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا۔ قومی میڈیا نے اس کو خاص طور پر اہمیت دی۔ حکومت کو بھی اس طرف توجہ دینی پڑی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بلاوجہ گرفتاریوں پر قدغن لگی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت کے رویہ میں تبدیلی لانے میں دوسرے عوامل بھی کارفرما تھے مگر علماءکونسل کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں تک تو معاملہ صحیح تھا۔ معلوم نہیں اس تنظیم کے قائدین کو کیا سوجھی کہ وہ انتخابی سیاست میں کود پڑے اور لکھنو

¿، جونپور اور اعظم گڑھ سے اپنے نمائندوں کو کھڑا کردیا۔ اکبر ڈمپی بی ایس پی امیدوار کی حیثیت سے اعظم گڑھ سے امیدوار تھے۔ بٹلہ ہا

س انکا

نٹر اور اس کے بعد کے واقعات کے خلاف وہ پارلیامنٹ کے اندر اور باہر زبردست آواز اٹھانے کی وجہ سے پارٹی کی ناراضگی بھی اٹھا چکے تھے۔ اکبر ڈمپی کے وہاں سے امیدوار ہونے کے باوجود علماءکونسل نے اعظم گڑھ سے اپنا امیدوار کھڑا کیا۔ حالانکہ علماءکونسل اور اکبر ڈمپی کے خیالات باہم ملتے جلتے تھے۔ علماءکونسل کی مسلم نوجوانوں میں زبردست پذیرائی کے باوجود الیکشن سے پہلے یہ بات واضح تھی کہ بی جے پی اس علاقہ سے جیت جائے گی اس کے باوجود علماءکونسل نے اس کے لئے کوئی مناسب قدم نہ اٹھایا۔ پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔مسلمانوں کی حالت وہی ہوئی کہ بارش سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے کھڑے ہوگئے۔ اعظم گڑھ کو آتنک گڑھ قرار دینے والوں ہی کی فتح ہوئی۔

بی جے پی کو مدد پہنچانے والوں میں آسام کے بدر الدین اجمل صاحب بھی ہیں۔ ان کی یوڈی ایف کی وجہ سے سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا خدشہ تھا اور یہ بات یقینی تھی کہ اگر اس کے لئے مناسب قدم نہ اٹھائے گئے تو بی جے پی کی کامیابی یقینی ہے مگر ان کے اڑیل رویے کی وجہ سے آسام جیسے صوبہ سے بی جے پی کی تین سیٹیں نکل آئیں۔ بدر الدین اجمل صاحب اپنی پیٹھ ٹھونک سکتے ہیں کہ دو جگہوں میں سے ایک جگہ سے کامیاب ہوگئے لیکن انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ان کی پارٹی نہ ہوتی تو یقینا بی جے پی کے کھاتہ میں تین سیٹیں کم ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی ڈوبتی نیّا کو سہارا دینے میں ملت کے ان ”بہی خواہوں“ کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے ڈاکٹر مسعود احمد نے ”اپنی قیادت اپنی حکومت“ کا نعرہ بلند کرکے یوپی میں الیکشن لڑا تھا مگر کبھی وہ اپنی سیٹ بھی نہ نکال سکے۔ یہ اور بات ہے کہ آج بھی وہ یوپی اور دہلی میں مسلمانوں کے نام پرووٹ مانگتے نظر آتے ہیں۔ اس تحربہ سے پہلے فریدی صاحب نے تجربہ کیا تھا وہ ایک حد تک کامیاب ضرور رہا مگر وہ اس کامیابی کو برقرار نہ رکھ سکے۔ ان کوششوں کی ناکامی کے بعد مناسب تو یہی تھا کہ ہندوستانی مسلمان مولانا آزاد رحمہ اﷲ کے مشورہ کو مان لیتے اور الگ سے کسی مسلم سیاسی جماعت کے قیام کے بجائے ملک کی سیکولر جماعتوں سے وابستہ ہوجاتے مگر برا ہو نام نہاد مسلم قائدین کا جنہیں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی عادت ہے۔خواہ ان کی ہوس اقتدار سے مسلم قوم کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔
اس الیکشن کی ایک خاص بات مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی کی کشن گنج سے کانگریس امیدوار کی حیثیت سے جیت ہے۔ یہ کامیابی اس معنی میں اہم ہے انہوں نے راجیہ سبھا کے چور دروازے سے پارلیامنٹ میں انٹری کرنے کے بجائے عوام کی عدالت میں سرخروئی حاصل کی۔ ملی کونسل کے پلیٹ فارم سے کام کرتے ہوئے انہیں مسلم مسائل کے بارے میں کافی تجربہ ہے۔ اس سے امید بندھی تھی کہ کانگریس کم از کم اقلیتی امور کی وزارت انہیں سونپے گی۔ مگر اس دفعہ کانگریس نے مسلمانوں کو وزارتوں کے معاملہ میں مایوس کیا، منموہن سنگھ خود اقلیتی فرقہ سکھ قو م سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سے امید کی جاتی تھی کہ وہ اقلیتوں کا درد سمجھتے ہوئے کم از کم انہیں گذشتہ دور حکومت میں جتنی تعداد تھی وہ برقرار رکھیںگے۔ مگر اس مرتبہ ایک وزیر کم کرکے صرف پانچ ہی مسلم وزیروں کو جگہ دی گئی۔ حالانکہ کانگریس سے جیتنے والے امیدواروں کا اوسط دیکھا جائے تو رزلٹ کوئی خراب نہیں ہے۔ کانگریس نے صرف ۸۱ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا ان میں گیارہ میدوار کامیاب ہو

©ئے۔ ان گیارہ میں سے صرف غلام نبی آزاد اور سلمان خورشید کو وزارت دی گئی۔ باقی تین وزیر دوسری حلیف پارٹیوں سے لئے گئے۔

سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق وزارت میں کم از کم گیارہ مسلمانوں کو جگہ ملنی چاہئے اگر اس رپورٹ پر اس کی خالق کانگریس عمل نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟ یوپی اے حکومت نے دلتوں کو اس دفعہ سات کے بجائے دس وزارتیں دی ہےں تو آخر مسلمانوں کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں؟ ایسی بات نہیں کہ اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی ہو۔کابینہ کی پہلی حلف برداری میں جب بیس لوگوں کی کابینہ میں صرف ایک نام غلام نبی آزاد کا آیا تبھی سے مسلم لیڈران اور میڈیا نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ قومی میڈیا نے بھی اس کو محسوس کیا۔ مگر بٹلہ ہا

س فرضی انکا

نٹر کا درد بھلا کر کانگریس کو ووٹ دینے والی مسلم قوم کو اس معاملہ میں کانگریس نے مایوس کیا۔

مسلم سیاست سے ہی لالو، پاسوان، ملائم اور مایاوتی کی خراب کارکردگی کو بھی دیکھا جانا چاہئے۔ یہ لوگ مسلم ووٹ کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ ملائم مسلمانوں کے مسیحا کے طور پر اپنے آپ کو تعارف کراتے نہیں تھکتے مگر ان کی پارٹی کو مسلمانوں کی کتنی فکر ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے قاتل اور بابری مسجد شہید کرنے والے کلیان سنگھ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی ناراضگی کا بھی انہوں نے کوئی خیال نہیں کیا۔ پارٹی کے چوٹی کے لیڈر اعظم خان نے جب اس پر اعتراض کیا تو انہیں حاشیہ پر ڈال دیا۔ پارٹی کو ایک عدد مسلم برانڈ چاہئے تھا جو اسے ابو عاصم اعظمی کی شکل میں مل گیا۔ لہٰذا اعظم خان کی خدمات کو یکسر فراموش کرکے انہیں پارٹی مخالف کارروائیوں کی پاداش میں پارٹی سے باہر کر دیا گیا۔ اگر کلیان سنگھ کی بی جے پی سے اصولوں کی بنیاد پر رنجش ہوتی تو کوئی بڑی بات نہیں تھی انہیں گلے لگایا جاسکتا تھا مگر یہاں تومعاملہ صرف ذاتی دشمنی کاتھا۔ انہیں بی جے پی سے شکایت ہے کہ وہ انہیں نظر انداز کر رہی ہے۔ لہٰذا انہیں سیاسی پناہ ڈھونڈنا تھا جو ملائم سنگھ کی شکل میں مل گیا۔ انہوں نے کرانتی پارٹی کی تشکیل کرکے دیکھ لیا تھا جس کا شو فلاپ رہا تھا۔ اگرچہ کلیان آزاد امیدوار تھے مگر سماج وادی نے ان کی مکمل حمایت کی ۔یہی نہیں سماج وادی نے اس دفعہ راج ناتھ سنگھ کے خلاف کوئی امیدوار نہ اتار کر ان کی جیت کے لئے راہ ہموار کی۔
اعظم خان کی مخالفت اور کلیان دوستی کی وجہ سے الیکشن سے پہلے ہی یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اس دفعہ یوپی کا مسلمان سماجوادی پارٹی سے دور ہوگیا ہے۔ رہی سہی کسر ملائم کے اڑیل رویے سے نکل گئی جو انہوں نے کانگریس سے سیٹوں کے بٹوارے کے وقت دکھائی۔ ملائم کانگریس کو پورے یوپی میں صرف ۵سیٹ دینے پر راضی تھے مجبور ہوکر کانگریس نے یوپی میں اکیلے الیکشن لڑا اور ۱۲سیٹوں پر زبردست کامیابی حاصل کرکے یوپی کی سیاست میں دوبارہ واپسی کی۔ اس کا سہرا جہاں راہل گاندھی کوجاتا ہے کہ انہوں دن رات ایک کرکے پارٹی میں نئی جان ڈال دی وہیں یوپی کے مسلمانوں کو بھی جاتا ہے کہ انہوں نے ملائم اور مایا کے مقابلہ میں کانگریس کو زیادہ پسند کیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس بار سماجوادی سے ایک بھی مسلم ایم پی الیکشن نہیں جیت سکا۔
مایاوتی کی مصیبت یہ ہے کہ وہ جس زبان میں بات کرتی ہیں وہ مہذب سماج کی زبان نہیں۔ یہ سچ ہے کہ برسوں کے استحصال کی وجہ سے ان کے لہجہ میں ترشی آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں مگر ان کی باتوں اور عمل سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس استحصال کا بدلہ بڑی ذات کے لوگوں سے ان کی تذلیل کرکے لینا چاہتی ہیں۔
مسلمانوں نے مایاوتی کو گذشتہ اسمبلی الیکشن میں ایک بہتر متبادل سمجھ کر ووٹ دیا تھا مگر مایا نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ صرف دلت بہبود ہی ان کے پیش نظر ہے اقلیتوں کی انہیں بالکل پرواہ نہیں ہے۔ اس سے مسلمان ووٹر ان سے مایوس ہوگیا۔ خود مایاوتی نے اعتراف کیا ہے کہ مسلمانوں میں اس بھرم کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی ہے کہ وہ این ڈی اے کے ساتھ جاسکتی ہیں۔ اگرگذشتہ تجربات کو دیکھا جائے تو مسلمانوں کا یہ خدشہ کوئی غلط نہیں۔ مایاوتی کو یقینی طور پر این ڈی اے کے ساتھ الیکشن کے بعد نہیں جانا تھا تو انہیں اس افواہ کی تردید کرنی چاہئے تھی مگر انہوں نے اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔
ملائم نے تو کم از کم ۳۲سیٹیں نکال کر اپنی لاج رکھ لی ہے مگر لالو بہار میں صرف چار سیٹوں تک سمٹ گئے وہ خود ایک جگہ سے ہار گئے در اصل بہار میں نتیش کمار نے جو ترقیاتی کام کرائے ہیں اس کو وہاں کے عوام نے ستائش کی نظر سے دیکھا۔ وہ بہار جو لالو راج میں پورے ملک میں سب سے پچھڑا علاقہ بن گیا تھا وہاں اب سڑکیں بن رہی ہیں، تعلیمی ادارے قائم ہورہے ہیں، بے روزگاروں کو نوکریاں مل رہی ہیں، امن عامہ جس کی دہائی دے کر لالو ووٹ مانگا کرتے تھے نتیش کی حکومت میں لالو سے بہتر رہا۔ یہی وجہ ہے کہ لالو کی ٹرین بہار میں نہیں چل سکی۔
سب سے بری حالت پاسوان کی ہے وہ خود الیکشن ہار گئے ان کی پارٹی کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔ یاد رہے کہ لالو، ملائم اور پاسوان الیکشن سے پہلے یوپی اے حکومت کا حصہ تھے مگر ان لوگوں نے ایک ساتھ الیکشن نہ لڑ کر الگ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ لالو- پاسوان بہار میں کانگریس کو صرف ۳ سیٹ دینے پر راضی تھے۔ کانگریس کا پھنڈا یہاں نتیش کی وجہ سے نہیں چل سکا اس وجہ سے اس کو تین سیٹوں پر قناعت کرنا پڑا۔
اب حالت یہ ہے کہ یہ لوگ کانگریس سے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح انہیں بھی حکومت میں شامل کرلیا جائے۔ الیکشن کے بعد ان لوگوں نے اعتراف کیا کہ کانگریس سے الگ ہوکر الیکشن لڑنا ان کی بھول تھی۔ در اصل سیاست میں معمولی غلطیاں بھی سدھارنے کے لئے پانچ سال کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
لالو کی جہاں تک بات ہے تو انہوں نے ہمیشہ یوپی اے کی بھلائی کاکام ہی کیا ہے۔ ریلوے کو انہوں نے منافع بخش وزارت بناکر پوری دنیا میں شہرت دلوائی ہے اسی وجہ سے ان کی بھول کو معاف کیا جاسکتا ہے بلکہ معاف کردیا جانا چاہئے مگر سماجوادی کی موقع پرست سیاست اس قابل ہے کہ ا س سے دوری ہی بنی رہے تو بہتر ہے۔ ملائم اور امر سنگھ کی پریشانی یہ ہے کہ اگر یہ لوگ مرکز اور ریاست سے ایک لمبے عرصہ تک غائب رہے تو دھیرے دھیرے عوام کے ذہنوں سے بھی دور ہوجائیں گے اور پھر ان کی واپسی مشکل ہوجائے گی۔
حالیہ الیکشن میں اگر مسلمانوں کی نمائندگی کی بات کی جائے تو مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے ۴۰۰۲ءکے الیکشن میں ان کی تعداد ۹۳تھی جو گھٹ کر ۰۳رہ گئی مسلم نمائندگی میں ۰۲فیصد کمی ہوئی۔ اس کی خاص وجہ نام نہاد مسلم پارٹیاں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے جذبات کا استحصال کرکے مسلمانوں کے ووٹ کومختلف خانوں میں تقسیم کردیا۔ نہ خود کامیاب ہوسکے اور نہ سیکولر پارٹیوں کے مسلم امیدواروں کو کامیاب ہونے دیا۔ دوسری وجہ خود سیکولر پارٹیوں کی سیاست ہے وہ جان بوجھ کر ایک ہی علاقہ سے کئی امیدوار کھڑا کردیتی ہیں جس کے نتیجہ میں مسلم ووٹ بٹ جاتا ہے اور بی جے پی کا امیدوار نکل جاتا ہے۔
اس الیکشن کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں بڑے بڑے نیتا جو گذشتہ حکومتوں میں وزیر رہ چکے تھے الیکشن ہار گئے۔ ہارنے والوں میں عبدالرحمان انتولے، شکیل احمد، علی اشرف فاطمی، رام ولا س پاسوان، منی شنکر ایر جیسے قدر آوار لیڈران شامل ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس مرتبہ عوام نے بڑے ناموں سے متاثر ہوئے بغیر صرف کام کے بدلہ ووٹ دیا ہے جو نیتا الیکشن کے بعد منہ نہ دکھاتے ہوں انہیں عوام نے پارلیامنٹ سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔
منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے حکومت پر عوام نے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے فتح کے آنکڑے کے قریب پہنچادیا ہے اسے گیارہ ممبران کی ضرورت تھی جو اسے آسانی سے حاصل ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ وزارتوں کے لئے حلیف پارٹیاں دبا

نہیں ڈال سکیں۔ کروناندھی نے ذرا سی اکڑ دکھائی تھی مگر وہ بھی لائن پر آگئے۔

اب منموہن حکومت کے امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اترے۔ یوپی اے اب یہ نہیں کہہ سکتی کہ اسے ترقیاتی کام کرنے کا موقع نہیں ملا اس لئے کہ دس سال کا عرصہ اپنے آپ میں ایک معنی رکھتا ہے۔ مندی کے اس دور میں ملکی معیشت کو سہارا دینا، عالمی سطح پر ملک کی امیج کو زیادہ پراثر بنانا، غریبی اور بے روزگاری کا خاتمہ، تعلیم، صحت او رامن عامہ جیسے مسائل پر اسے توجہ دینی ہوگی۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو کانگریس کی زیر قیادت یوپی اے سرکار سے چند توقعات ہیں۔ سرکار کے لئے یہ بہتر موقع ہے کہ وہ انھیں پورا کرکے مسلمانوں کی توقعات پر پوری اترے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کا نفاذ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اقلیتی کردار کی بحالی ان میں سرفہرست ہے۔ اگر سرکار نے مسلمانوں کی ان خواہشات کا احترام نہیں کیا تو مسلمان ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور ہوںگے کہ کانگریس کو مسلمانوں کی فکر نہیں وہ صرف اسے ووٹ بینک کے طور پر دیکھتی ہے۔