تنقید لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تنقید لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 23 اکتوبر، 2017

آنگن کے نسوانی کردار۔ ایک تنقیدی مطالعہ

7 تبصرے

     اگر داستانوی ادب کا چھوڑ دیا جائے تو اردو فکشن کی دنیا میں عورت کی تصویر میں یکسانیت نظر آتی ہے ۔ عورت مظلوم ہے یہ بات ہمارے اکثر فکشن نگاروں نے نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اپنے قلم کے ذریعہ ثابت بھی کیا ہے ۔ ناول افسانے سے لے کر قصے کہانیوں تک ہر جگہ عورت کی یہی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے ۔ لیکن کیا یہی عورت کا حقیقی چہرہ ہے ؟ نہیں۔ عورت کا ایک چہر ہ اور بھی ہے جو اس روایتی چہرے سے قدرے مختلف ہے ۔ یہ چہرہ ہمیں حقیقی زندگی میں دیکھنے کو مل جاتا ہے مگر جدیدفکشن کی دنیا میں خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ عورت کے اس چہرہ کو جن فکشن نگاروں نے پیش کیاہے ان میں خدیجہ مستور سرفہرست ہیں۔ خدیجہ مستور نے صرف دو ناول لکھے ہیں’’آنگن ‘‘اور ’’زمین‘‘۔ مگر ان کا ناول ’آنگن ‘ہی انہیں اردو فکشن کی دنیا میں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔
                    خدیجہ مستور کے ناول ’’آنگن ‘‘اور ’’زمین ‘‘اردو فکشن میں اس لحاظ سے الگ پہچان رکھتے ہیں کہ اس کے اندر عورت کی مظلومیت کی داستان بیا ن کر نے کے بجائے عورت کو جد وجہد کرتے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوتے دکھایا گیا ہے ۔ مگر ان کرداروں کے حوالے سے خدیجہ مستور نے عورت سماج کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ بد نما ہوتے ہوئے بھی حقیقت سے قریب ہونے کی وجہ سے بھلا معلوم ہوتا ہے ۔ خدیجہ مستور جو کہ خو د ایک خاتون ہیں انہوں نے ان کرداروں کے حوالے سے عورتوں کے غم وغصہ ، نفرت ، عداوت کی ایک حقیقی تصویر سے قاری کو روشناس کر ایا ہے ۔ اور بتایا ہے کہ عورت جب مظلومیت کے بجائے ظلم کرنے پر اتر آتی ہے تو صدیوں کا حساب چند لمحوں میں چکا دیتی ہے ۔
آنگن اور زمین دونوں تقسیم وطن کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔ دونوں ناول باہم مربوط ہیں۔ آنگن میں تقسیم سے پہلے اور زمین میں تقسیم کے بعد کے واقعات ہیں۔آنگن مسلم لیگ اور کانگریس کے خیالات رکھنے والے ایک خاندان کے حوالے سے آزادی کی لڑائی سے لے کر تقسیم تک کی روداد ہے ، باپ کٹر کانگریسی ہے تو بیٹے مسلم لیگ کے لئے جان چھڑکتے ہیں۔ وہیں ایک دو کردار ایسے بھی ہیں جو انگریزوں کو باعث رحمت سمجھتے ہیں۔ گویا کہ اس وقت کے ہندوستان کی ترجمانی کرنے والے سبھی خیالات کے لوگوں کا مجموعہ ہے یہ خاندان۔
 عالیہ اور اس کی بہن فہمیدہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں،پورا ناول عالیہ کی زبانی واحد متکلم کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے ۔ آزادی کی تحریک زوروں پر ہے۔ زمین داری اگر چہ باقی ہے مگر بھائیوں میں بٹوارہ ہونے کی وجہ سے جائداد بٹ گئی۔ پہلے جیسے ٹھاٹ باٹ اگر چہ نہ رہے مگر پھر بھی گھر کا نظام کسی طرح چل رہا ہے۔ ابو کے اچانک انتقال پر ان سب کو چچا جان کے گھر جانا پڑا۔ اس کے بعد آزادی اور تقسیم ملک کے بعد تک کی ساری روداد اس ناول میں بیان کی گئی ہے ۔ یہ ناول حقیقی معنوں میں تقسیم ملک کے موضوع پر لکھے گئے ناولوں میں ایک اہم مقام رکھتا ہے ۔
                    آنگن کے نسوانی کرداروں میں عالیہ ، تہمینہ ، کریمن بوا چھمی ، اور نجمہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ عالیہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے پوری کہانی اسی کے ارد گرد گردش کرتی نظر آتی ہے ۔ خدیجہ مستور نے اس ناول میں بیانیہ تکنیک کا استعمال کیا ہے ۔ ان کرداروں میں صرف تہمینہ ہی واحد کردار ہے جو روایتی لباس میں نظر آتی ہے صفدر سے محبت کرنے کے باوجود وہ گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہے مگر اظہارمحبت نہ کر سکی ۔ اس کے علاوہ سبھی کردار صدیوں سے مردوں کی ناانصافی کا حساب مانگتے نظر آتے ہیں ۔
                    عالیہ کی والدہ کا کردار ایک روایتی ماں کا کردار ہے انہوں نے اپنی مر حومہ نند کی ناجائز اولاد صفدر کی زندگی اجیرن کر دی اور مجبور ہوکر انہیں گھر چھوڑ نا پڑا ۔عالیہ کے والد ان کو بیٹے کی طرح مانتے تھے اس کے باوجود وہ چاہ کر بھی تہمینہ کی شادی صفدر سے نہیں کراسکے ۔ عالیہ کی امی کی بد سلوکی کی وجہ سے وہ علی گڑھ تعلیم کے لئے جانے کے بعد پھر لوٹ کر نہ آئے ۔ والد گھر کے مالک ہونے کے باوجود عالیہ کی والد ہ سے ڈرتے تھے زمینداری ختم ہونے کے بعد جائیداد کا جو حصہ ملا تھا اس کو بھی محترمہ نے اپنے بھائی کے یہاں بھیج دیا ۔ اتنی سخت تھیں کی شوہر کو گھر میں رکنے نہ دیتی تھیں۔ گھر میں گھستے ہی طنز کے تیر چلانا شروع کردیتیں لہذا گھر کے باہر کی مصروفیات ہی ان کے ذمہ رہ گیا تھا ۔ انہیں اپنے شوہر کا سیاست میں حصہ لینا اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنا بالکل پسند نہ تھا۔ وہ انگریزوں کو باعث رحمت سمجھتیں اور ہمیشہ ان کی تعریف کے گن گاتی تھیں۔ انہیں اپنے بھائی پر فخر تھا جن کی بیوی ایک انگریز تھیں۔ ہمیشہ ان کا نام لے کر اپنے شوہر کو تنگ کیا کرتی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے بھائی کو ان کی فکر کم ہی ہوتی تھی۔ عالیہ کی ماں کا کردار ایک مطلب پرست اور جھگڑالو عورت کا ہے ۔ جب ان کے شوہر ایک انگریز کو زخمی کردینے کے جرم میں گرفتار ہوئے تواپنے شوہر ہی کو مورد الزام ٹھہرایا۔
                    شوہر کے انتقال کے بعد عالیہ اپنی والد ہ کے ساتھ اپنے چچا کے یہاں چلی آئی ۔ یہاں پر بھی ماحول گھر ہی جیسا ہے۔ عالیہ کے چچا کی ایک دوکان ہے جس سے تھوڑی بہت آمدنی ہوجایا کرتی ہے۔ مگر اس کی آمدنی کا اکثر حصہ کانگریس کے ان مہمانوں کی نوازش پر خرچ ہوجاتا ہے جو چچا سے ملنے آتے ہیں۔ اسی بات کو لے کرچچی اورچچا میں ہمیشہ تکرار ہوتی۔ جب عالیہ پڑھائی مکمل کر لیتی ہے تو رزلٹ آنے سے پہلے عالیہ کی والدہ چچی جان کو کھرا کھوٹا سناتی ہیں۔
’’بس اب تم جلدی سے ملازمت کے لئے درخواستیں دینے لگو، میں بھر پائی ان مصیبتوں سے ، اس اجڑے گھر میں جانے کس طرح دن گذارے ہیں، کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں ملا۔‘‘
اماں نے بڑی بے باکی سے کہا، اس وقت وہ بڑی مغرور نظر آرہی تھیں۔
’ارے چھوٹی دلہن ، میں نے تو اپنی جان سے زیادہ تمہارا خیال کیا ہے اور۔۔۔‘
بڑی چچی سے کچھ کہتے نہ بن پڑ رہی تھی۔
’بس جناب آپ کے خیال کا شکریہ، اب آپ لوگ میری جان بخش دیں اور احسان نہ جتائیں، مجھے پتا تھا کہ ایک دن یہی سننا ہوگا۔‘
’اماں!‘عالیہ نے حیران ہوکر اماں کو پکارا اور بڑی چچی کی طرف دیکھ کر سر جھکالیا ابھی تو امتحان کا نتیجہ بھی نہیں نکلا، کیا یہی سب کچھ سننے کے لئے اس نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہا تھا، اس کا جی چاہا کہ اپنے فیل ہونے کی دعائیں مانگنے لگے ۔‘‘ ( آنگن ،ص۲۵۹)
                    گویا کہ والدہ کی شکل میں جو کردار پیش کیا گیا ہے وہ بے درد اور مطلب پرستی کی انتہا تک پہنچا ہوا ہے ۔ جس شخص نے ان کو اور بیٹی کو مصیبت کے موقع پر سہارا دیا، خوشحالی نہیں بلکہ اچھے دن کی امید پیدا ہوتے ہی انہیں کھری کھوٹی سنانے لگیں، ان کے تمام احسانات کو یکسر نظر انداز کردیا۔
                    عالیہ کی دادی بھی کچھ کم شدت پسند نہ تھی ۔ نوکروں پر ناراض ہوتیں تو رسیوں سے ان کی کھال اندھیڑ لیتی تھی ۔ در اصل یہ دو کردار ان گھر انوں کی تصویر پیش کر رہے ہیں جہاں وزارت داخلہ عورتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور کسی طرح یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ خارجی امور بھی ان ہی کے ماتحت رہیں۔
                    چھمی عالیہ کے ماموں کی لڑکی ہے ۔ اسکی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے سوتیلی ماں اپنے پاس رکھنے کو روادار نہیں اس وجہ سے وہ اپنے چچا کے ساتھ رہ رہی ہے ۔ وہ اپنے چچا کے لڑکے جمیل سے پیار کر تی ہے مگر ایک طرفہ محبت ثابت ہوتی ہے ، جمیل کی طرف سے بے تعلقی کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ باغی فطرت کی ہوجاتی ہے ۔ گھر میں بغیر کسی وجہ سے ہنگامہ کھڑا کرتی ہے ۔ اور بغیر کسی وجہ کے اپنے چچا کو لڑائی کر کے تنگ کرتی ہے ۔ حالت یہاں تک کہ خراب ہوجاتی ہے کہ چچا جان جو کہ کٹر کانگریسی ہیں جیسے ہی گھر میں گھستے ہیں چھمی ان کے سامنے مسلم لیگ زندہ باد کا نعرہ لگانے لگتی ہے مجبوراً یہ بیچارے گھر سے باہر چلے جاتے ہیں ۔ چھمی کی چچی کا رویہ چچا جان کے لیے کیا کم تھا کہ چھمی نے اپنے رویے سے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ ان سب سے مجبور ہوکر بیچارے اب گھر کے اندر کم ہی آتے تھے اور اگر کبھی آنا بھی ہوتا تو فوراً واپس جانا پڑتا۔ تنگ آکر اس کی شادی ایک گوالے سے کردیتے ہیں ۔ وہ ناپسند کرتے ہوئے بھی خاموشی سے اس رشتے کو قبول کرلیتی ہے ۔ وہاں اس کے لڑکے بھی ہوتے ہیں۔ مگر اس کے شوہر کے اچانک انتقال کے بعد واپس گھر آجاتی ہے ۔ بالکل شانت، خاموش، ملک کی آزادی کے بعدجمیل بالآخر اس سے شادی کرنے پر راضی ہوجاتا ہے ۔ اس طرح وہ اپنا پیار حاصل کرلیتی ہے ۔
                    نجمہ پھوپھی نے انگریزی میں ایم ۔ اے کیا کر لیا کہ اب پوری دنیا کو جاہل سمجھتی ہیں ۔ گھر میں کسی سے بات نہیں کر تی کہ’’ جاہلوں کے منہ کون لگے ‘‘ وہ انگریزی کے علاوہ کسی تعلیم کو تعلیم کے زمرے میں رکھتی ہی نہیں ہیں۔ چھمی کو کبھی کبھی اپنے ذاتی کام کے لئے بلاتی تھیں مگر جب سے اس نے کسی کام کے لئے منع کیا اسی دن سے وہ بھی جاہلوں کے زمرے میں آگئی۔ آخر میں نجمہ کی زندگی عبرت کا نشان بن جاتی ہے ۔ کسی بچولئے نے ان کی شادی یہ کہہ کر ایک شخص سے کرادی کہ یہ انگلش سے ایم اے ہے ، مگر وہ معمولی انٹر پاس تھا۔ نجمہ کا کردار ہمیں بتاتا ہے کہ جولوگ تھوڑا پڑھ لکھ لینے کی وجہ سے اپنے آپ کو خود اپنی سوسائٹی اور گھر والوں سے اعلی و ارفع سمجھ لیتے ہیں وہ خود دوسروں کے لئے ایک مضحکہ خیز کردار بن جاتے ہیں۔ اس سے ان کا تو کوئی بھلا نہیں ہوتا الٹے اپنی زندگی مصیبت میں ڈال لیتے ہیں۔
                    کریمن بوا ایک نوکرانی ہیں ایک نوکرانی ہونے کی وجہ سے ان کا کسی پر زور نہیں لیکن اسرار میاں کوحالات نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ وہ اس گھر کے غلام بن کر رہ گئے تھے ۔ در اصل اسرار میاں اسی گھر کی اولاد تو تھے مگر ایک رکھیل کی بطن سے پیدا ہوئے تھے اس میں ان بیچارے کی کیا خطا تھی مگر دادی جان نے جب رکھیلوں کو گھر سے چھٹی دی تو ان کے لڑکوں کو یہ کہہ کر جانے سے روک دیا تھا کہ یہ ہمارا خون ہیں۔ اس لئے ہمارے ساتھ رہیں گے ۔ باقی لڑکے تو دادی کی سختی کی وجہ سے کہیں بھاگ گئے مگر اسرار میاں اب تک حق نمک ادا کررہے ہیں۔ان کی دن رات کی محنت کے باوجود دادی جان نے کبھی گھر کے ایک فرد کی طرح انہیں قبول کیا۔ کریمن بوا کا گھر میں کسی پر زور چلتا تھا تو بس وہ اسرار میں تھے ۔ کریمن بواان کو ہی اپنی ستم کا نشانہ بناتی تھیں ۔ گھر والوں کے لئے انتہائی شفیق نظر آنے والی کریمی بوا کا چنگیزی چہرہ اسرار میاں کے لئے سامنے آتا ۔ اگر کریمن بوا کا چلتا تو وہ گھر کا بچا ہوا باسی کھا نا بھی نہ دیتیں ۔ اسرار میاں کوئی کریمن بوا پر عاشق نہ تھے وہ صرف دو وقت کی روٹی چاہتے تھے مگر یہ دو وقت کی روٹیاں گالیوں کے ساتھ ملتی تھیں ۔
                    عالیہ اس ناول کا مر کز ی کردار ہے ۔ خدیجہ مستور نے اس ناول کو عالیہ کی زبانی ہی بیان کیا ہے پورا ناول واحد متکلم کے صیغہ میں ہے ۔ عالیہ کا دل کچھ نرم ہے وہ ان سبھوں کو دیکھ کر دل ہی میں کڑھتی ہے ۔ مگر دوسری طرف جمیل کی محبت کو جس سنگ دلی سے ٹھکراتی ہے وہ عالیہ کو بھی لے جاکر انہی عورتوں کے زمرے میں کھڑا کر دیتا ہے ۔ دراصل عالیہ کے یہاں محبت کا تصور کچھ عجیب ہے وہ سمجھتی ہے کہ مرد عورت سے محبت کرکے اس کو محکوم بنانا چاہتا ہے ۔ یہاں خدیجہ مستور نے عورت اور مرد کے رشتہ کے بارے میں عالیہ کے ذریعہ اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ خدیجہ مستور کے یہاں عورت کی آزادی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ جہاں انہیں آزادی پر حرف آنے کا اندیشہ ہوتاہے وہاں وہ دوسرے تمام فوائد کو بالائے طاق رکھ دیتی ہیں۔آزادی کے بعد عالیہ اپنی امی کے ساتھ پاکستان ہجرت کرجاتی ہے ۔ اسکے ماموں جو انگریزوں کے ہمنوا تھے اس سے پہلے پاکستان جاکر اپنے حصے کی ملائی پر ہاتھ صاف کرچکے ہوتے ہیں۔ ایک موقع پر عالیہ کی ملاقات صفدر سے ہوتی ہے ۔ وہ اسے اپنے گھر لاتی ہے ۔ امی اس کی شکل دیکھنے کو روادار نہیں۔ اس کے باوجود اب بیٹی کے آگے وہ بے بس ہوجاتی ہیں۔ ان کے سامنے عالیہ صفدر سے شادی کرنے کی بات کرتی ہے ۔ مگر آخر میں خود ہی شادی کرنے سے منع کردیتی ہے ۔ اس لئے کہ صفدر کے اندر وہ جس نوجوان کی شبیہ دیکھنا چاہ رہی تھی وہ نہیں تھی۔ وہ روز روز کی بھاگ دوڑ کی زندگی سے تنگ آگیا تھا۔ وہ شادی کے بعد اطمینان کی زندگی گذارنا چاہتا تھا۔ یہ بات عالیہ کی نظر میں صفدر کی وقعت کا محل مسمار کرنے کے لئے کافی تھی۔ عالیہ کا کردار نہایت پیچیدہ ہے۔
آنگن کا ایک اور کردار ہے جو اگر چہ ضمنی کردار ہے۔ چند لمحوں کے لئے سامنے آتا ہے مگر اس کے ذریعہ خدیجہ مستور نے برائی کے بارے میں عورتوں اور مردوں کے لئے دوہرے معیارپر زبردست وار کیا ہے۔ کسم دیدی ایک بیوہ عورت ہیں۔ ہندوسماج میں بیوہ کی دوسری شادی ممکن نہیں اس وجہ سے ایک دن کسم دیدی کسی مرد کے ساتھ فرار ہوجاتی ہیں۔ وہ آدمی کسم دیدی کے ساتھ دھوکہ کے دیتا ہے۔ اب یہاں پر ہر کوئی کسم ہی کو مورد الزام ٹھہراتا ہے کہ وہ ایک غیر مرد کے ساتھ فرار ہوگئی۔کسم یہ بے عزتی برداشت نہیں کرپاتی ہے اور ایک تالاب میں ڈوب کر خود کشی کرلیتی ہے۔ خدیجہ مستور عالیہ کی زبانی آواز بلند کرتی ہیں کہ کوئی اس آدمی کو برا کیوں نہیں کہتا جس نے کسم کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ وہی کام ایک مرد کرے تو کوئی کچھ نہ کہے اور عورت کرے تو ہر کوئی ملامت کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھے۔
دراصل خدیجہ مستور عورتوں کو حکم سنانے والی اور فیصلہ لینے والی کے کردار میں دیکھنا چاہتی ہیں ۔ اس وجہ سے انہوں نے یہ کردار تخلیق کئے ۔ یہ خدیجہ مستور کی حقیقت نگاری ہے کہ انہوں نے یہ بھی دکھا دیا کہ عورت فیصلہ لینے کے مقام پر پہنچ کر کیاکرسکتی ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے عالیہ کی امی ، چچی، اور دادی کے اندر یہ سختی کن حالات کی پیداوار ہے؟
جہاں تک عالیہ کے اندر مردوں کے تعلق سے بدگمانی کی بات ہے تو اس کی وجہ تہمینہ اور کسم دیدی کے واقعات ہیں ان دونوں واقعات نے عالیہ کو پوری مرد برادری سے بدظن کردیا۔ گھر کی دوسری عورتوں کے بارے میں یہ بات نہیں ہے۔ ان کے اندر مردوں کے خلاف نفرت کی وجہ دوسری ہے۔ دراصل ہمارے بہت سے رہنماسماج سیوا میں اپنے گھربار اور ان کی ضروریات کو بھول جاتے ہیں۔ ہر ایک کا حق ہے۔ سماج اور ملک کے ساتھ گھر اور خاندان بھی اہم ہے۔ اس ناول میں چاہے عالیہ کے ابو ہوں یا چچا دونوں گھر کے بجائے باہر کی مصروفیات میں مگن رہا کرتے ہیں اس طرح سے گھر کی عورتوں میں ان کے خلاف ہی نفرت کا مادہ پنپنے لگتا ہے۔ اور دھیرے دھیرے یہ نفرت سختی میں بدل جاتی ہے۔ جس کا شکار صرف ان کے شوہر ہی نہیں بلکہ ان کے تحت آنے والے گھر کے دوسرے افراد بھی ہوتے ہیں۔


٭٭٭٭

جمعرات، 15 دسمبر، 2011

صلاح الدین مقبول احمد کی اردو شاعری مسدس شاہراہ دعوت کے حوالے سے

0 تبصرے


انسان اپنی محنت اور لگن کی بدولت انجینئر ڈاکٹر اور سائنسداں ہوسکتا ہے، مگر شاعر بننے کے لئے محنت اور لگن ہی کافی نہیں ہے، اس کے لئے وہبی صلاحیت درکار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انسان اپنے تجربات مشاہدات اورکثرت مطالعہ کی بدولت اپنی فکر کو وسیع اور بلند کرکے اپنی شاعری میں چار چاند لگا دے مگر بنیادی طور پر شاعری ایک وہبی چیز ہے جو قدرت کچھ ہی لوگوں کو دیتی ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو یہ صلاحیت دے اور وہ بجائے اس کے اظہار کرنے کے چھپانے کی کوشش کرے۔ مولانا صلاح الدین مقبول مقبول احمد کا معاملہ دوسرے شاعروں سے کئی معنوں میں الگ ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے شاعر ہونے کو پوشیدہ رکھے رہے بلکہ مدینہ منورہ میں تعلیم کے حصول کے لئے جاتے ہوئے انہوں نے ترک شاعری کے لئے دعابھی کی تھی ۔جس پر مولانا اسحاق بھٹی کا بہت ہی برمحل تبصرہ ہے کہ’’ اگر اس کا نام دعا ہے تو فرمائیے کہ بددعا کسے کہتے ہیں؟ یہ بددعاتھی جو عین نشانے پر لگی۔‘‘
مولانا صلاح الدین مقبول احمد ایک معروف عالم دین ہیں۔ ہم انہیں بچپن سے دیکھتے آئے ہیں۔ مگر وہ شاعر بھی ہیں اسکا ہمیں اندازہ نہ تھا ۔ چند دنوں قبل مولانا کے بھائی محترم مولانا عزیز الدین سنابلی سے ملاقات ہوئی دوران گفتگوانہوں نے بتایا کہ مولانا صلاح الدین صاحب کا کوئی شعری مجموعہ اردو میں شائع ہورہا ہے، تو مجھے یاد آیا کہ خلیجی جنگ کے دوران مولانا نے’’ کویت پر عراق کے مظالم ‘‘کے نام سے ایک کتاب اردو میں لکھی تھی اس کے مقدمہ میں جس طرح برمحل اشعار نقل کئے تھے وہ کوئی عمدہ شاعری کا ذوق رکھنے والا شخص ہی کرسکتا ہے۔ اس کتاب سے مجھے مولانا کے شاعرانہ مذاق کا علم ہوا۔ بہرحال مولانا صلاح الدین مقبول احمد کا شعری مجموعہ’’مسدس شاہراہ دعوت‘‘ سامنے آتے ہیں بڑی بے صبری سے میں نے پہلی ہی فرصت میں تقریبا پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ مجھے سب سے زیادہ جس چیز نے متأثر کیا وہ ہے حسن ترتیب اور بے ساختگی۔ 
مولانا نے اپنی زندگی کے ایام تصنیف و تالیف میں گذارے جس کی جھلک ہمیں اس کتاب میں دکھتی ہے۔ اب تک شاعری کی کوئی ایسی کتاب میری نظروں کے سامنے سے نہیں گذری جس میں اسلام کے تمام بنیادی اصولوں اور تعلیمات کا اتنی خوب صورتی کے ساتھ شاعری کے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہو۔ ہمارے وہ ناقدین ضرور اس پر چراغ پاہوں گے جن کی نظر میں شاعری صرف دل بہلانے کی چیز ہے دعوت وتبلیغ کی چیز نہیں۔ ایسا وہی شخص کرسکتا ہے جس کے سامنے کوئی خاص مقصد نہ ہو مولانا کا ایک خاص مشن ہے، ان کا چلنا پھرنا سب اسی مقصد پر قربان ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شاعری بھی اپنی شرطوں پر کی ہے۔ مولانا اپنے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
’’میں نے اپنے اس مسدس میں ’’خدا ‘‘،’’عشق ‘‘،’’بادہ و ساغر ‘‘اور ’’میخانہ‘‘ جیسے غیر شرعی کلمات کے استعمال اور غیر ضروری تشبیب سے پرہیز کا ہے ، جس بندہ عاجز نے عقائد وعبادات اور تفسیر و حدیث دفاع کتاب وسنت اور اسلامی ثقافت جیسے موضوعات پر ہزاروں صفحات پر مشتمل تقریبا ۳۰ کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا ہے ، اب اسے کے ذہن و قلم کے زیبا نہیں کہ وہ جام مے ، باددہ وساغر، اور حسیناؤں کے قدود و خدود کی تشبیب و تغزل سے ذہنی وفکری عیاشی میں مبتلا ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے ’’ من ترک شیئاً للہ عوضہ اللہ خیراً منہ‘‘ کا مصداق بنائے۔ آمین‘‘
مولانا اسی کو شاعری کی زبان میں کچھ اس طرح کہتے ہیں:
یہ علامہ ہیں، مولانا ہیں، مفتی اور قاری ہیں
مفسر میں محدث ہیں فقیہ آہ وزاری ہیں
یہ ہیں قرآن وسنت دین ودنیا کے نمائندہ 
ہے ان کے دست میں ملت کا ماضی اور آئندہ
فرشتے ان کی راہوں میں ہمیشہ پر بچھاتے ہیں
پرندے ماہئی و حشرات ان کا گیت گاتے ہیں
جو یہ حضرات تشبیب و تغزل پہ اتر آئیں
تو پھر فرہاد و مجنوں ان سے بھی کمتر نظر آئیں
پہنچ جاتے ہیں وہ اک ہی جست میں مسجد سے میخانہ
چھلکتے ہیں پھر ان کے سامنے بھی جام و پیمانہ
انہیں اقرار ہے ان سارے ناکردہ گناہوں کا 
حسینہ کی نگاہوں اس کی راہوں اور باہوں کا
تباہی پیش خیمہ ہے اس عشق مجازی کا
کرشمہ ہے ہوائے نفس کی ذرہ نوازی کا
مولانا صلاح الدین مصلح نے ان اشعار میں واضح کردیا کہ وہ بھی اردو شاعری کے ان لوازمات سے واقف ہیں جن کے بغیر اردو شاعری کو نامکمل سمجھا جاتا رہاہے،وہ انہیں شاعری میں برتنا بھی جانتے ہیں مگر ان سے دامن بچاکر بھی اچھی اور عمدہ شاعری کی جاسکتی ہے۔ ان کا مسدس اس کا عملی نمونہ ہے۔
مولانا قوم کے نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں:
توقع ملت بیضا کے میروں اور جیالوں سے
بہی خواہوں، سپوتوں ، نوجوانوں ، نونہالوں سے
کہ پاکیزہ ادب شعروسخن کو عام فرمائیں 
بہت سوئے ذرا بیدار ہوں کچھ کام فرمائیں
زمانہ منتظر ہے آپ کی دینی سیادت کا
شریعت فکر وفن ہر باب میں ملی قیادت کا
ان اشعار میں جہاں ایک طرف جذبہ کی صداقت مقصد سے والہانہ لگاؤ اور تڑپ نظر آتی ہے وہیں ان اشعار میں دریا کی سی روانی بھی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے بغیر شور وشرابے کے ایک دریا خاموشی سے بہا چلاجارہا۔ آمد ہی آمد ہے کہیں بھی آورد کا گمان نہیں ہوتا ہے۔
اس مسدس کی وجہ تالیف مولانا فرماتے ہیں:
وجہ تالیف ہے حالی کے مسدس کا کمال
راس ہے شعر کو شکوہ کی زمین اقبال
جہد ناقص میں یہ مصلح کو رہا پوار خیال 
دین خالص کی وہ سرمدی دعوت ہو بحال
رب کی توفیق سے دعوت میں توانائی ہے
شاعری کی یہ نہیں روح کی رعنائی ہے
مسدس حالی سے فکری ہم آہنگی اور اقبال کی مشہور نظم شکوہ جواب شکوہ کی زمین پر مسدس کی بنیاد رکھتے ہوئے یہ مولانا کی انکساری ہے کہ انہوں نے شاعری سے زیادہ معانی و مطالب پر توجہ دینے کی بات کہی ہے۔ 
علامہ اقبال نے بھی ایک جگہ کہا ہے کہ اللہ اس کو کبھی معاف نہ کرے جو مجھے شاعر سمجھے۔ گویا کہ اقبال بھی اپنی شاعری کے فنی محاسن سے زیا دہ اپنی شاعری کے افکار پر توجہ دینے کے قائل تھے ۔ اقبال شاعری کو بذات خود مقصد نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس کے اندر موجود پیغام کو اہمت دیتے تھے ۔ یہی بات مولانا صلاح الدین مصلح بھی کہہ رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک ایسا عالم دین جس نے اپنی پوری زندگی اسلام کی تعبیر و تشریح میں لگا دی ہو وہ جب شاعری کرے گا تو اس کے اندر بھی وہی سب کچھ ہوگا جو پڑھتا لکھتا آیا ہے۔ ایک اور چیز جو ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ خطیبانہ لہجہ اور کڑک ہے ایسا موضوع کی وجہ سے ہے۔ قرآن کلام الٰہی ہے اس پر وہ کہتے ہیں:
حکم رب حق ، کوئی اقرار یا انکار کرے 
اپنی تحقیق کو رسوا سربازار کرے 
رب کے قرآن مقدس پہ کوئی وار کرے
ایک کیا دس نہیں ، کوئی اسے سو بار کرے
حق تو تائید کا محتاج نہیں ہوتا ہے
کفر کے سامنے تاراج نہیں ہوتا ہے
مولانا کا طرز استدلال عمدہ اور جچا ہوا ہوتا ہے، وہ شاعری میں اپنے مخالفین کامسکت جواب دیتے ہیں۔ جواب دیتے ہوئے مولانا کا انداز سوال وجواب کا ہوجاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دو لوگوں کے بیچ مناظرہ ہورہا ہو۔ 
مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی وجود میں آگیا ہے جو صرف قرآن کو حجت مانتا ہے، رسول اکرم کے فرامین جو احادیث کی شکل میں ہیں ان کودلیل نہیں مانتا ۔ اس فرقہ کی تردید کرتے ہوئے مولانا کہتے ہیں:
کتنا کس جنس میں واجب ہے زکاتوں کا نصاب 
کیسے معلوم ہوئے صوم کے، حج کے آداب
ان نمازوں کا طریقہ ذرا بتلائیں جناب
پیش خدمت ہے یہ لو مصحف رب الارباب
نطق سامی ہے یہ، قرآن کی تفسیر ہے یہ 
وحی معصوم کی تشریح ہے،تعبیر ہے یہ
صحیح بات یہ ہے کہ احادیث نبوی کے بغیر ان امور کی نشاندہی ناممکن ہے۔ 
مولانا کے اندر ایک شاعر ہے جسے کبھی کھل کر سامنے آنے کا موقع نہیں ملا، اگر مولانا نے اس جانب تھوڑی بھی توجہ دی ہوتی تو عالم اسلام کے نامور شاعروں میں ہوتے۔ کیا یہ کسی کرامت سے کم ہے کہ شاعری ترک کرنے کے تیس سالوں بعد کوئی آمادۂ شعر ہو اور محض دس دنوں میں اکیاسی مسدس کہہ کر کتاب کی تکمیل کردے؟ اس کتاب کولکھتے وقت مولانا کا شاعرانہ مزاج ہر جگہ انہیں شاعری کی زبان ہی میں بات کرنے پر بر انگیختہ کرتا ہے۔ مقدمہ جو عام طور پر شاعر نثر کی زبان میں لکھتے ہیں اس کے اندر بھی مولانا نے جابجا اشعار کے موتی پروئے ہیں۔ مولانا کی شاعری میں بعض جگہوں پر عربی الفاظ کے استعمال کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ قاری کو سمجھنے میں کچھ دقت محسوس ہو، مگر ایسی تمام جگہوں پر مولانا نے حاشیہ میں اس کی تشریح کردی ہے۔ دراصل اردو کا دامن دوسری زبان کے الفاظ کو لینے اور قبول کرنے میں ہمیشہ سے کسادہ رہا ہے۔ایک زمانہ تھا جب فارسی الفاظ وتراکیب کا استعمال بکثرت ہوا کرتا تھا۔ مولانا آزاد نے عربی الفاظ تراکیب سے اردو کے دامن کو وسعت دی مگر کئی وجوہات سے یہ روایت بعد کے ادوار میں نہ قائم نہ رہ سکی ۔ اور اب اردو اور فارسی کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے۔ بہرحال مولانا کو بھی اس کا احساس تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حاشیہ میں اس کی تشریح بھی کردی ہے۔ 
یہ کتاب صرف اسلام کی تعبیر و تشریح ہی کے لئے معاون نہیں ہے بلکہ مستقبل میں مولانا پر تحقیق کرنے والوں کے لئے ان کی زندگی اور ان کی ذہنی اپج کو سمجھنے کا بھی کام دے گی۔انشاء اللہ

جمعرات، 1 ستمبر، 2011

عزیز سلفی کی شاعری

2 تبصرے

عزیز سلفی کی شاعری 
’پرواز‘کی اشاعت سے پہلے کم ہی لوگ مولانا عزیز الرحمان عزیز سلفی کو ایک شاعر کی حیثیت سے جانتے ہوں گے ۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے سینئر استاد اور کئی عربی اردو دینی کتابوں کے مصنف کی حیثیت سے دنیا ان کو جانتی ہے۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں یہ ہمارے لئے ایک خبر تھی ، ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے لئے جو عزیز سلفی کو ان کی کتابوں کے حوالے سے جانتے ہوں گے۔ 
 عزیرالرحمان عزیز سلفی نے عام شاعروں کی طرح اپنی شاعری کی ابتدا ء غزلوں سے کی عزیز سلفی کی پہلی غزل کا مطلع ہے
میں ہوکے در پہ ترے اشکبار آیا ہوں 
نگاہ لطف اٹھا سوگوار آیا ہوں
گویا کہ عزیز سلفی نے شاعری کی وادی میں قدم رکھتے ہی اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ ہم بھی ایک عاشق کا دل رکھتے ہیں، جس کے اندر کوئی محبوب بستا ہے اس کے التفات سے شہنائیاں بجتی ہیں اور منہ پھیرلینے پر زندگی خفاخفا سی لگنے لگتی ہے۔
اسی غزل کے چند اشعار اور ملاحظہ ہوں:
یہ پھول ہوکے دریدہ قبا ہیں کیوں خنداں
چمن میں، میں بھی اگر تار تار آیا ہوں
نسیم لا !ذرا تو ان کی زلف کی خوشبو
تڑپتا لوٹتا دیوانہ وار آیا ہوں
یہ میری کوشش اول ہے دیکھ اے ناصح 
کہ فکر نو کو لئے بے قرار آیا ہوں
علامہ اقبال کی اپنی شاعری کے ابتدائی ایام میں ایک مشاعرے ایک غزل پڑھی تھی جس میں ایک شعر تھا:
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے 
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
اس شعر پر انہیں زبردست داد ملی جس کی وجہ سے انہیں شعر گوئی کی طرف توجہ دینے کا حوصلہ ملا۔ معمولی فروگذاشتوں کو اگر نظر انداز کردیا جائے تو مولانا کی یہ پہلی غزل ایک عظیم شاعر کے آمد کی نوید تھی۔ مگر یہ اردو ادب کی بدقسمتی تھی اس آواز کو علامہ اقبال کی طرح کو ئی عزیز سلفی کو بتانے والا نہ تھا۔ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مولانا کو ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے جانتے۔
عزیز سلفی کی غزلوں میں ہمیں اردو کی روایتی شاعری کے سبھی موضوعات مل جاتے ہیں۔ حسن وعشق کی سرمستیاں، محبوب سے رازونیاز، محبوب سے دور ہونے پر رنج وغم کا اظہار وغیرہ
عزیز سلفی سراپانگاری میں کمال کا ملکہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب کا سراپا کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
آنکھیں ہوں جیسے کوئی مے کا چھلکتا ساغر
بھول سے اوڑھنی کاندھے پہ سرک آئی ہو
زلف کی کالی گٹا تابش روئے انور 
جیسے کہ چاندنی بدلی میں نکل آئی ہو
اس کے ہر عضو سے پھوٹتا اس طرح شباب
اس کا ہر انگ ہی لیتا ہوا انگڑائی ہو
اس کے رخسار پہ پھیلی ہو حیا کی سرخی
کچھ مجھے دیکھ کے وہ اس طرح گھبرائی ہو
بڑھ کے میں چوم لوں اس کے حسیں یاقوت سے لب
اور باہوں میں مری وہ بھی سمٹ آئی ہو
کہتے ہیں کہ کسی کو اتنا نہ چاہو کہ وہ تمہاری محبتوں کا سوداگر بن جائے اور اپنی محبت کا تاوان وصولنے لگے۔عزیز سلفی نے کسی کو دل سے چاہا جس کی فرقت میں وہ آہ بھرتے رہے۔ ان کا محبوب ان پر جفائیں کرتا جاتا ہے اور عزیز سلفی اس کے لئے خیر کی دعائیں کرتے جاتے ہیں:
تم حسیں جتنے ہو اتنے ہی ستمگر ظالم
جو جفا کیش نہ ہو وہ کوئی گلفام نہیں
زخم ہر روز نیا دل پہ مرے لگتا ہے
آنکھ روئے نہ لہو ایسی کوئی شام نہیں
عزیز سلفی کومحبوب کی فرقت کا غم اس قدر ہے کہ باد صبا ان کے لئے راحت کا سامان نہیں بلکہ ان کے زخموں پرنمک پاشی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے، چاندنی کی ٹھنڈی روشنی سے لو لگتی ہے:
یہ چاندنی کی دھوپ بھی برسارہی ہے لو
ڈستی ہے ناگ بن کے یہ خلوت ترے بغیر
موج صبا نے کی ہیں نمک پاشیاں بہت
آآ کے دل جلاتی ہے نکہت ترے بغیر
ہے خشک ہوا گھنگور گھٹا بادل کی گرج بجلی کی چمک
راتوں کو فراق یار مجھے بسمل کی طرح تڑپاتا ہے
دنیائے محبت کی ہر بات نرالی ہے
جو ظلم کا خوگر ہے وہ آکھ کا تارا ہے
اس میں عزیز سلفی کو اس بات کا احساس ہے کہ محبوب اگر بے التفاتی کرتا ہے تو اس کے یہاں بھی کچھ مجبوریاں ہوں گی۔ وہ اپنی بے وفائی پر نادم بھی ہے
ہیں جھکی جھکی نگاہیں کوئی سوگوار کیوں ہے
مرا دل مسل کے آخر کوئی شرمسار کیوں ہے
پس قتل یہ ہوئی کیوں انہیں قتل پہ ندامت
مری قبر کے سرہانے کوئی اشکبار کیوں ہے
عاشق اپنی معشوقہ سے ملنے کے لئے کیسی کیسی بچکانہ باتیں سوچتاہے ، کبھی سوچتا ہے کاش ایسا ہوجائے ویسا ہوجائے وغیرہ وغیرہ عزیزسلفی کیا سوچتے ہیں:
مجھ کو صحرائے محبت میں پھراتا ہے جنوں
اٹھتا جس سمت قدم ہو ترا گھر ہوجائے
واہ ، دعا بھی عاشقوں والی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عزیزسلفی کا محبوب کون ہے؟ ویسے ایک بات ہے کسی انسان کو عالم ڈاکٹر،انجینئر بنانے میں کسی عورت کا ہاتھ ہو یا نہ ہو مگر شاعر بنانے میں عورت کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے وہی اسے عشق کے اسرار ورموز سے واقف کراتی ہے۔ اس لئے میرا ماننا ہے کہ ایک اچھے شاعر کے لئے عاشق ہونا ضروری ہے۔عزیز سلفی نے یہ کہہ کر معاملہ صاف کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ان کی شریک حیات ہیں۔ عزیز سلفی ایک بڑے عالم دین ہیں اس وجہ سے ان سے یہی امید بھی کی جاتی ہے۔ مگر ان کی شاعری کچھ الگ ہی کہانی بیان کرتی نظر آتی ہے۔ اگر محبوب ان کی بیوی ہے تو اس کے یہ عشوہ ناز و ادا، اس کی جدائی میں آنسو بہانا اور کبھی ملے بھی تو اس کی جفائیں اس لئے یا تو مولانا حقیقت بتاتے ہوئے شرمارہے ہیںیا ان کی شاعری کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے۔ ویسے بھی عشق ایک حقیقی اور فطری جذبہ ہے کسی کو بھی ہوسکتاہے اس میں نہ تو کچھ چھپانے کی ضرورت ہے نہ شرمانے کی کوئی حاجت ہے۔ 

عزیز سلفی کی شاعری ہمیں اپنی طرف ایک اور وجہ سے اپنی طرف کھینچتی ہے وہ ہے ان کے موضوعات کا تنوع ۔مولانا نے جہاں اسلامی تہواروں پر نظمیں کہی ہیں وہیں ہندؤں کے تہواروں پر بھی نظمیں کہی ہیں ۔ عزیز سلفی نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ بنارس میں گذاراہے سچ پوچھئے تو جوانی سے لے کر عمر کے اس مقام تک جہاں سے عہد جونی کو پیچھے مڑ کر دیکھنا پڑتا ہے عزیزسلفی نے بنارس میں گذارے۔ وہاں کا تہذیب اور کلچر ان کی رگوں میں بسا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں صبح بنارس کی جھلک نظر آتی ہے۔ عزیز سلفی نے ہندوں کے تہواروں پر جو نظمیں کہی ہیں ان کے اندر ان تہواروں کی اچھائیوں کا تذکرہ تو ہے ہی ساتھ ہی مذہب کے نام پر امن وامان کو غارت کرنے والوں کے عمل سے ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔

آئی دیوالی گھر گھر چراغاں ہوا بام ودر دیکھو گلشن بداماں ہوا 
ہر محل میں ہے خوشیوں کا ساماں ہوا خوب اظہار شوق فراواں ہوا
جگمگا اٹھا ہے نور سے ہر محل
کتنی پریاں ہیں مصروف رقص وغزل
ہجر کے مارے کتنے گلے سے ملے وصل کی شب دیئے دیکھو کتنے جلے
مدتوں بعد ہیں آج دل سے ملے آج ساقی ملا دور مے بھی بھی چلے
آج خوشیوں کے ساون کی برسات ہے
جس کے تھے منتظر آج وہ رات ہے
عزیز سلفی ایک دردمند دل رکھتے ہیں دیوالی کی چکاچوند روشنی انہیں ایک بیوہ کے آنسو اور اس کے غم کو اوجھل نہ کرسکی۔ اس لئے ’تصویر کا دوسرا رخ‘ بھی دکھا یا ہے۔
کوئی بیوہ دل اپنا دبائے ہوئے اپنے پلکوں پہ آنسو سجائے ہوئے
بچھڑے پیتم کو دل میں بسائے ہوئے میلے آنچل میں چہرہ چھپائے ہوئے
رات بھر کروٹیں وہ بدلتی رہی
اور دیوالی ہنستی ہنساتی رہی
کچھ اسی طرح عزیز سلفی نے دیوالی پر بھی ایک نظم لکھی ہے جس میں دیوالی سے متعلق چھوٹی سی چھوٹی باتوں کا خوب صورت انداز میں ذکر کیا ہے۔لیکن ہولی کے نام پر بے ہودگی انہیں پسند نہیں اس لئے وہ کہتے ہیں:
سرتاپا ہیں رنگ میں ڈوبے مے میں دھت ہیں سارے
بیٹھے گھر میں منہ کو چھپائے دکھیارے بیچارے
اس کی دیکھو ناک ہے زخمی اس کا سر ہے پھوٹا
بدن ہے سارا خون میں ڈوبا پہر بھی شاید ٹوٹا
رنگ کی ہولی کے بدلے میں کھیلی خون کی ہولی 
کسی نے اس کا کرتا پھاڑا، اس نے پھاڑ دی چولی
’پرواز ‘کی اشاعت میں ایک بات کا خیا ل رکھا گیا ہے کہ ہر غزل یا نظم کب کہی گئی اس کی تاریخ بھی درج کردی گئی ہے، اس کے مطالعہ سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ جوانی کی عمر کی شاعری میں جو جوش ، ولولہ اور روانی تھی وہ دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی، یہی نہیں بلکہ فکر کی وسعت بھی پھیلنے کے بجائے سمٹتی گئی، اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ درس وتدریس کی وجہ انہیں اس کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہ ملی ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے شاعری ایک قسم کی آوارہ مزاجی چاہتی ہے جس کو عزیز سلفی بعد میں نبھا نہ سکے۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ان پر سنجیدگی آتی گئی اور عمدہ قسم کی شاعری اسی سنجیدگی میں دفن ہوتی گئی۔
عزیز سلفی کے اندر ایک عظیم شاعر تھا جس کو کبھی کھل کر سامنے آنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ عزیز نے جو کچھ بھی شاعری کے نام پر کہا ہے وہ اگرچہ مقدار میں کم ہے مگر کسی بھی فنکار کی عظمت اس کلام کی تعداد سے نہیں بلکہ معیار سے جانچی جاتی ہے۔ اس معاملے میں عزیز سلفی کا کافی خوش قسمت ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پرواز کو وقتی اشعار جو کسی کی شادی یا اعزہ و اقربا کے موت کے وقت کہے گئے اس مجموعے میں شامل نہ کئے جاتے۔ 

عزیر اسرائیل
شعبہ اردو ،دہلی یونی ورسٹی


منگل، 9 جون، 2009

فضا ابن فیضی_مثبت فكر كا شاعر

4 تبصرے
سستی شہرت اور ادبی گروہ بندیوں سے الگ رہ کر خالص اردو ادب کی خدمت انجام دینے والوں کی فہرست اردو ادب کی دنیا میں بہت طویل نہیں ہے۔ اس کی وجہ اردو والوں کی ذہنیت اور ایک خاص قسم کا ماحول ہے ،کسی مخصوص ادبی تحریک سے وابستہ نہ ہونے کا مطلب تمام کاوشوں کے باوجود گمنانی کے غار میں اپنے آپ کو ڈالنے کے مترادف ہے، ان خدشات کے باوجود جن لوگوں نے اپنا مطمح نظر صرف اردو ادب کی خدمت رکھا ان میں سے ایک معروف نام فضا ابن فیضی مرحوم کا ہے۔ افسوس کہ قحط الرجال کے اس دور میں فضا صاحب بھی 17جنوری 2009ءکو انتقال كرگئے۔
فضا صاحب کا نام تو فیض الحسن تھا مگر اپنے قلمی نام فضا ابن فیضی سے مشہور ہوئے یہاں تک کہ لوگ ان کا اصلی نام بھول گئے۔ یکم جولائی 1923ءکو مئوناتھ بھنجن یوپی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد مئو کے معروف دینی ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ مئو میں درس نظامی میں داخلہ لیا اور 1942ءمیں فراغت حاصل کی۔ آپ کی رسمی تعلیم بس اتنی ہی ہے بعد میں فضا صاحب نے پرائیویٹ طور پر انگریزی سیکھنے کی طرف توجہ کی مگر آبائی تجارت نے ان کو موقع نہ دیا اور تجارت میں لگ گئے کرانہ کی ایک دکان سے ہونے والی آمدنی ذریعہ معاش تھی اس کے علاوہ آمد نی کا ایک ذریعہ پاکستانی رسائل و جرائد تھے جہاں وہ باقاعدگی سے اپنے اشعار اشاعت کے لئے بھیجا کرتے تھے افسوس کہ ہندو پاک کی باہمی چپقلش کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ زندگی بھر کسی کی ملازمت نہ کی ،فرماتے ہیں
تھا شوق بہت شہ کا مصاحب بن جاں
خیر گذری کہ فضا نوکری کرنے سے بچا
فضا ابن فیضی کی شاعری
فضا ابن فیضی کی شاعری مثبت فکر کی ترجمان ہے آپ نے حالات و زمانہ کو جیسا دیکھا اپنے اشعار میں بے تکلف بیان کر دیا، نظم، غزل ،نعت اور حمد ہر صنف شاعری پر آپ نے خامہ فرسائی کی۔ مخمور سعیدی صاحب کہتے ہیں کہ ان کی غزلوں میں نظموں کے مقابلہ میں تنوع زیادہ ہے ان کی نظم گوئی چند ایک موضوعات کے دائرے میں گھومتی ہے۔ غالبا مخمور سعیدی صاحب نے فضا صاحب کے نعتیہ مجموعہ کلام ”سرشاخ طوبی “کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی نظموں میں بھی کی غزلوں کی طرح مضامین کا تنوع موجود ہے ان کا مجموعہ کلام ”شعلہ نیم سوز “جو کہ نظموں کا مجموعہ ہے اس پر شاہد ہے۔
فضا صاحب مشاعرے میں بلائے جاتے تھے اور اشعار بھی پڑھتے تھے مگر سب سے بڑی مجبوری فضا صاحب کے ساتھ یہ تھی کہ وہ مشاعروں کی سطح تک گر کر اشعار پڑھنے کے قائل نہ تھے۔فضا صاحب ہمیشہ معیاری شاعری کرتے تھے خواہ اس پر انہیں داد ملے یا نہ ملے۔
فضا صاحب چونکہ عربی و فارسی زبان کے ماہر تھے اس وجہ سے ان کی شاعری میں عربی و فارسی تراکیب کی کثرت ہے یہی وجہ ہے کہ فضا صاحب کی شاعری سمجھنے کے لئے عربی اور فارسی زبان کی واقفیت بھی ضروری ہے۔ فارسی اور عربی نہ جاننے والوں کے لئے ان کی شاعری سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔ مگر عجیب بات یہ کہ فضا کے ترانے اس سے مختلف ہیں۔ فضا صاحب نے جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ سنابل اور کئی دیگر اداروں کا ترانہ لکھا ہے اس کے اندر الفاظ انتہائی سہل تراکیب آسان اور فکر کی بلندی اپنے عروج پر ہے۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے ترانہ کے چند بند ملاحظہ فرمائیں:
سحر کا پیرہن ہیں ہم، بہار کی ردا ہیں ہم
بدن پہ زندگی کے رنگ و نور کی قبا ہیں ہم
چراغ کی طرح سرِدریچہ وفا ہیں ہم
مغنیِ حرم ہیں، بربط لبِ حرا ہیں ہم
کہ گلشن رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
خدا کرے فضا یوں ہی خواب جاگتے رہیں
یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں
ہنرورانِ سنت و کتاب جاگتے رہیں
چمن چمن بشارتِ نسیم جاں فزا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
مذکورہ دو بندوں میں ردا, قبا اور مغنی عربی الفاظ ہیں مگر ان کو فضا صاحب کے نہایت خوبصورتی سے باندھا ہے بلکہ ان عربی الفاظ کی اضافت فارسی کی طرف کرکے ایک خوش کن نغمگی پیدا کردی ہے’ مغنی حرم‘ اور’ طیور خوش نوا‘ جیسی تراکیب فضا کی شعری مہارت کو واضح کرتی ہیں۔
فضا صاحب کا رشتہ ایک طرف قدیم کلاسیکی شاعری سے ملتا ہے تو دوسری طرف جدید لب و لہجہ کی شاعری سے بھی انہوں نے اپنا تعلق جوڑے رکھا، بجا طور پر فضا کی شاعری قدیم وجدید کا
فضاابن فیضی ایک نظر میں:
نام: فیض الحسن بن مولانا منظور حسن۔
تاریخ ولادت: یکم جولائی1923ء
تعلیم: عالمیت اورفضیلت جامع عالیہ عربیہ مئو سے (1942)
الہٰ آباد بورڈ سے منشی ،کامل مولوی عالم اور فاضل کے امتحان۔
ذریعہ معاش: تجارت
مجموعہ کلام :
سفینہء زرگل (غزلیات ورباعیات) فیضی پبلیکیشنز مئو
سبزہء معنی بیگانہ (غزلیات)اسلامک سائنٹفک ریسرچ اکیڈمی،نئی دہلی۔25
شعلہء نیم سوز (غزلیات) فیضی پبلیکیشنز، مئو
دریچہء سیم سمن (غزلیات)
پس دیوار حرف (غزلیات)
سرِشاخ طوبی (حمد ،نعت ومنظومات) جامعہ سلفیہ بنارس
غزال مشک گزیدہ (رباعیات)
لوح آشوب آگہی (منظومات)
آئینہ نقش صدا(غزلیات)
سخنہائے گفتی (خطبہء استقبالیہ) دانش کدہ مئو
خود نوشت حالات زندگی اور شاعری دانش کدہ مئو
سنگم ہے۔ فضا نے اپنا رشتہ میرو داغ سے بنائے رکھا اور اسی معیار کی شاعری پوری زندگی کرتے رہے۔ نمو نے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
غیر مشروط مسائل لب و لہجہ مشروط
چلو اچھا ہے کہ وہ ہم سے مخاطب ہی نہ تھا
چلتے پھرتے پاں میں لفظوں نے بیڑی ڈال دی
اب کہاں دہلیزِ معنی چھوڑ کر جاں گا میں
مجھے پکار رہی ہے زمیں کی پہنائی
یہ در تو کھول کہ میں آسمان سے نکلوں
بہت قریب رہا مجھ سے وہ مگر پھر بھی
یہ فاصلہ سا مرے آس پاس کیسا ہے
چاند کا درد سمجھ دن میں چمکنے والے
تو تو اک پل کو کبھی منظر شب میں نہ کھلا
اس کی قربت کا نشہ کیا چیز ہے
ہاتھ پھر جلتے توے پر رکھ دیا
خاکسترِحیات ہوں دامن میں باندھ لے
پیارے تو مجھ کو شعلہ سمجھ کر ہوا نہ دے
فضا نقادوں کی نظر میں:
فضاکی زندگی ہی میں ماہرین فن نے ان کی شاعری کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ پروفیسر عبد المغنی صاحب کہتے ہیں:”آج کے طوفان مغرب میں فضا کی مشرقیت اپنی جگہ ایک مضبوط ستون ہے اور یہ ایقان شاعر کے فکری رسوخ اور ذہنی بلوغ کی علامت ہے پروفیسر مسعود حسین کہتے ہیں:”وہ صوت و لفظ کے نازک رشتے کے محرم ِراز ہیں۔“
فضا پرلکھے گئے ڈاکٹریٹ کے مقالے:
(1) ”فضا ابن فیضی فکر و فن اور شخصیت“ ڈاکٹر محمد شفیع بنارس ہندو یونیورسٹی ۔
(2) ”فضا ابن فیضی کی شاعری اور شخصیت “مقالہ نگار ڈاکٹر ممتاز،پٹنہ یونیورسٹی ۔
(3) ”فضا ابن فیضی “ڈاکٹر حدیث انصاری ، اسلامیہ کریمیہ کالج، اندور۔
(4فضا ابن فیضی پرتحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹر تبسم بانو نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
(5) فی الحال پاکستان میں ايك صاحب فضا ابن فیضی اور انکی کتابوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔
پروفیسر ابو الکلام قاسمی صاحب کہتے ہیں :”فضا ابن فیضی ان معدودے چند ممتاز شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی مشاقی اور قدرت ِاظہار کلاسیکی روایت سے ان کی دلچسپی اور وابستگی کا پتہ دیتی ہے اور نئے شعری رجحانات کی ان کی شاعری کو نئے اسالیب اظہار اور نئے طرز احساس سے ہم رشتہ کرتی ہے“۔
اعتراف ہنر:
فضا کی ادبی خدمات پر مختلف ادبی تنظیموں نے انہیں ایوارڈ سے نوازا۔ ’سفینہ زرگل ‘کی اشاعت پر اردو اکادمی لکھنو اور مجموعی ادبی خدمات پر غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی 2000ءمیں انہیںایوارڈ سے نوازا گیا۔ ادبی ایوارڈ فہرست یہاں گنانا ممکن نہیں ہاں یہ بتانا مناسب ہے کہ ۱۹۹۱ءمیں سہ ماہی توازن مالیگاں نے ایک خصوصی نمبر نکالا تھا جس کی ضخامت296 صفحات ہے اس میں ملک کے معروف ناقدین نے فضا کی شاعری کا مختلف جہات سے جائز لیا ہے۔ فضا کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی کے مقالے ان کی زندگی ہی میں لکھے گئے۔ ڈاکٹر شفیع صاحب بنارس یونیورسٹی سے اور اندور سے ڈاکٹر حدیث انصاری نے آپ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ اول الذکر مقالہ 2001ءمیں شائع بھی ہو چکا ہے۔
خلاصہ کلام:
فضا صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی غزلوں میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں ایک خامی یہ ہے کہ عربی و فارسی اور مشکل الفاظ کی بھر مار نے ان کی شاعری کو عوام سے دور کر دیا۔ انہی مشکل الفاظ کی وجہ سے ان کی شاعری میں نغمگی کی کمی پائی جاتی ہے جہاں فضا نے اس حصار کو توڑا ہے وہاں ان کا اصلی جوہر کھل کر سامنے آیا ہے ،خاص طور پر نظموں میں ۔فضا کی مشکل پسند ہی ہے کہ ان کے سبھی مجموعہ کلام کے نام سہ حرفی ہیں۔ ’سفینہ گل‘،’ سبزہ معنی بیگانہ‘، ’دریچہ سیم سمن ‘اور ’پس دیوار حرف ‘وغیرہ۔ فضا کے کل آٹھ مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں ان میں سے بعض مجموعے کئی یونیورسٹیز میں داخل نصاب ہیں۔فضا کے یہاں تصوف کے مضامین نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اہلحدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے یہ بات مشہور و معروف ہے کہ اہل حدیث اور تصوف میں بعد المشرقین کا فرق ہے،ہاں ،دینی مضامین کی کثرت ہے بلکہ ایک مجموعہ کلام ’سر شاخ طوبی ‘عشق نبی میںڈوب کر لکھا گیا نعتیہ مجموعہ کلام ہے۔
اس مقاله كا خاتمه فضا هى کے ايك شعر سے كرتا هوں
مجھ سے ملنا ہو تو پھر میری کتابیں دیکھنا
ہرورق پر عکس اپنا چھوڑ کر جاں گا میں
٭٭٭٭
٭٭٭