جمعرات، 18 ستمبر، 2014

اردو ریسرچ جرنل کا تازہ شمارہ منظر عام پر

0 تبصرے
اردو ریسرچ جرنل کا تازہ شمارہ منظرعام پر آگیا ہے۔ اس شمارہ کو یونی کوڈ میں پیش کیا جارہا ہے۔ جو قارئین اس کو پی ڈی ایف میں پڑھنا یا ڈاؤن لوڈ کرنا چاہیں ان کے لیے ہر مضمون کے آخر میں متعلقہ مضمون اور مکمل شمارہ کا لنک دے دیا گیا ہے۔ اس شمارہ میں قارئین ہر مضمون پر اپنی رائے دے سکیں گے۔ اس شمارے میں شامل مضامین کی فہرست ملاحظہ فرمائیں:
حرف آغاز                                       عزیر اسرائیل(مدیر)       
خراج عقیدت:
محمد کاظم                                          محمد راشد شیخ                  
مولانا اسید الحق محمد عاصم قادریؒ کی مکتوب نگاری نورین علی حق    
تنقید وتحقیق
غالب کا تصورِ شہر اور دلی                                           
     (اردو شاعری کی روشنی میں)                     ڈاکٹر رضوان الحق           
     ڈاکٹر تنویر احمد علوی بہ حیثیت محقق                        ڈاکٹر محمد اکمل    
     اردو تحقیق میں جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال   عزیر اسرائیل     
     امداد امام اثر کی غزل گوئی: ایک مختصر جائزہ             محمد مقیم               
اسلامیہ یونی ورسٹی آف بہاول پور
     (فہرست مقالات ایم ۔فِل شعبہ اُردو و اقبالیات)ادارہ            کسوٹی (تبصرہ)
ابن کنول بحیثیت افسانہ نگار                سلمان فیصل       
     علامہ عبدالحمید رحمانی ایک عہد، ایک تاریخ محمد اشرف یاسین
     اردو میں نثری نظم                                   حسین ایاض       
     پرورش لوح وقلم                         ڈاکٹر محمد عبدالعزیز          
     وہ دن (افسانوی مجموعہ)                محمد علم اﷲ اصلاحی 
اس شمارہ کو   http://www.urdulinks.com/urj پر ملاحظہ فرمائیں۔
--
عزير اسرائیل
Uzair Israeel
+91-9210919540

جمعہ، 29 اگست، 2014

پیر، 25 اگست، 2014

مولانا بدرالزماں نیپالی کی ایک نایاب کتاب علماء اہلحدیث بستی وگونڈہ

1 تبصرے
علماء  اہلحدیث بستی گونڈہ مولانا بدرالزماں کی ایک اہم کتاب ہے۔ جس میں انہوں نے بستی اور گونڈہ (سدھارت نگر، بلرام پور اور سراوستی) کے علماء کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ صرف ان علماء کی تاریخ نہیں ہے بلکہ اس علاقے کی بھی تاریخ ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے ہی گاؤں کے ان علماء کے بارے میں نہیں جانتے جو آج سے بیس سال پہلے گزرگئے۔  مجھے یہ کتاب جامعہ اسلامیہ سنابل کی لائبریری میں ملی ۔ میں اپنے والد محترم مولانا محمد اسرائیل کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ اس کتاب میں میرے والد مولانا محمد اسرائیل کے علاوہ میرے نانا مولانا فرید رحمانی رحمہما اللہ کا بھی ذکر ہے۔ کتاب چونکہ نایاب ہے اس وجہ سے افادۂ عام کے لئے میں اس کو انٹرنیٹ پر شائع کررہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ مولانا بدرالرزماں اس سے ناراض نہیں ہونگے۔ مولانا بدرالرزماں نیپالی صاحب میرے والد کے دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کو پاکستان سے چھپوا کر مفت تقسیم کیا تھا۔ چونکہ کتاب ہی مفت تقسیم کے لئے تھی۔ اس سے ان کا مقصد روپیہ پیسہ کمانا نہیں تھا اس لئے ان سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ایک اور معذرت کہ کتاب کے صفحات الٹ گئے ہیں۔ اس کو صحیح کرنے کی زحمت اس وجہ سے نہیں اٹھائی گئی کہ اس کو آخر سے بھی آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے۔
عزیر اسرائیل


کتاب ڈاؤن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔



مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت پر اسحاق بھٹی کی ایک عمدہ تحریر

0 تبصرے
مولانا ابوالکلام آزاد برصغیر کی ایسی ہستی ہے جس کے ذکر کے بغیر کوئی بھی تاریخی، علمی اور ادبی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ مولانا اسحاق بھٹی دور حاضر کے ایک عظیم مورخ ہیں۔ ان کے قلم کی سلاست قاری کو آخر تک اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی ہے۔ مولانا آزاد پر ان کی یہ تحریر میں نے بزم ارجمنداں سے لی ہے۔ یہ ایک طویل مضمون ہے اس وجہ سے اس کا پی ڈی ایف لنک یہاں دیا جارہا ہے۔
اس کو یہاں سے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے

اتوار، 18 مئی، 2014

اردو ریسرچ جرنل کا دوسرا شمارہ منظرعام پر

0 تبصرے
 'اردو ریسرچ جرنل ' مئی ۔ جولائی 2014
اردو ریسرچ جرنل



'اردو ریسرچ جرنل' (مئی تا جولائی 2014) کے دوسرے  شمارہ  کا اون لائن ورن منظر عام  پر آگیا ہے ۔ یہ اردو کا واحد اون لائن خالص تحقیقی وتنقیدی جرنل ہے جو پہلے شمارے سے ہی آئی ایس ایس این نمبر کے ساتھ  شائع ہورہا ہے۔اس تازہ شمارہ میں  'خراج  عقیدت' کے تحت  پروفیسر محمود الٰہی پر دو مضامین ' پروفیسر محمود الٰہی کے تحقیقی کارنامے'  از ڈاکٹر ایم عظیم اﷲ  اور 'پروفیسر محمود الٰہی: بحیثیت محقق و نقاد  از محمد شمس الدین اور معروف ناول نگار اور صحافی خسونت سنگھ پر راقم کا مضمون ' خشونت سنگھ ایک عظیم قلم کار ۔ ایک عظیم انسان' ملاحظہ فرمائیں۔ 
اس مرتبہ 'تحقیق وتنقید' کے تحت اقبال شناسی پر تین مضامین ٹیگور اور اقبال' از محمد علم اﷲ اصلاحی؛  'اقبال بحیثیت آفاقی شاعر' ازضیاء الحق محمد حسین اور راقم کا مضمون 'اقبال اور تصوف'  اور ڈاکٹر ہاجرہ بانو کا مضمون 'الفاظ و معنی اورزبان کا رشتہ' شامل ہیں۔
اردو ریسرچ جرنل کے اس دوسرے شمارے میں ہم عصر ادبی شخصیات پر ایک گوشہ 'رفتار ادب' کے نام سے شامل کیا گیا ہے۔  اس گوشہ میں شمیم اختر کا اردو کی موجودہ صورتحال  پر  ایک مضمون، اور احمد علی جوہر کا مضمون  'ہم عصر اردو افسانہ میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی' اس کے علاوہ اس گوشہ میں  جن ادبی شخصیات پر مضامین ہیں وہ کچھ اس طرح ہے:  
تصوراور حقیقت کا افسانہ نگار :اصغر کمال از ڈاکٹر محمد ارشد
عزیز نبیل کی شاعری ازحسین عیاض
فریاد آزرؔ:تخلیقی اڑان کے نئے زاویے              از حقانی القاسمی              
ملک زادہ منظوراور' شہرِادب'از شاہنواز فیاض
صادقہ نواب سحر کا مونولاگ ناول'کہانی کوئی سناؤ متاشا'ازسلمان فیصل
 اردو ریسرچ جرنل کے اس دوسرے شمارے سے 'کسوٹی' کے تحت نو وارد اہم ادبی کتابوں پر تبصروں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس  کالم کے تحت  ارشاد نیازی کی کتاب 'تفہیم شبلی' ؛ محمد مقیم کا ترتیب کردہ 'کلیات غزلیات ناسخ'،  محمد زکریا ازہری کی نووارد ڈکشنری القاموس الازہر ایڈوانس (اردو۔ عربی) اور 'ہندوستان کی یونی ورسٹیوں میں اردو تحقیق' کتابوں پر تبصرے شائع کئے گئے ہیں۔ پروفیسر ابن کنول کی سرپرستی  اور عزیر اسرائیل کی ادارت میں شائع ہونے والے اس ریفرڈ جرنل کو اس کی ویب سائٹ (www.urdulinks.com )پر پڑھا جاسکتا ہے۔
عزیر اسرائیل
مدیر اعلی


ISSN 2348-2687


-- 
عزير اسرائیل 
Uzair Israeel

منگل، 5 نومبر، 2013

فرقہ وارانہ فسادات: مسلمان بھی اپنا محاسبہ کریں...

0 تبصرے


مظفر نگر کے حالیہ فسادات نے ایک بار پھر فرقہ وارانہ فسادات کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ فسادات کے اسباب وعلاج پر بحث ہورہی ہے۔ فرقہ وارانہ مخالف بل کو پاس کرنے کے لئے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ عام طور پر فسادات کے اسباب ہندو فرقہ پرستی میں تلاش کیے جاتے ہیں ۔ہندوستان کے تناظر میں یہ بات ایک حد تک صحیح بھی ہے مگر کیا مسلمان اس کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ میری بات بہت سارے لوگوں کو ناگوار لگے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں مسلمانوں کو بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ انہیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ برادران وطن کی ایک بڑی تعداد ان سے نفرت کرتی ہے۔مسلمانوں کے ساتھ لین دین کرنا تو دور کسی مسلم کا نام آتے ہی ان زبان پر گالی آجاتی ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ تالی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔




انٹرنیٹ پر سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹوں پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سیلاب ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جھلک دیکھنی ہو تو کسی ایسی ویب سائٹ پر جائیں جہاں خبروں پر قارئین کو آزادانہ رائے پیش کرنے کی آزادی ہو۔ وہاں پر اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے کوئی بھی خبر کھول کر اس پر قارئین کے تبصرے پڑھیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کوئی بھی مسلمان ان تبصروں کی زبان کو دیکھ کر مشتعل ہوجائے گا۔ یہ کون لوگ ہیں جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کی زبان استعمال کررہے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ملک کا نوجوان سیکولرزم پر یقین رکھتا ہے لیکن انٹرنیٹ پر نفرت آمیز تبصرہ کرنے والا نوجوان طبقہ ہی ہے جس نے تقسیم ہند کا سانحہ نہیں دیکھا۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو بابری مسجد اور سکھ مخالف فسادات کوبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے۔

ایک زندہ قوم کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب اس پر کوئی مشکل گھڑی آتی ہے تو سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرتی ہے۔ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر نظر دوڑاتی ہے پھر باہر کی دنیامیں نظرڈالتی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے مسئلہ میں مسلمانوں کوایک زندہ قوم کو رویہ اختیار کرنا چاہئے۔



غیرمسلموں میں مسلمانوں کے تعلق سے نفرت کی سب سے بڑی وجہ نام نہاد جہادی تنظیمیں ہیں۔ یہ تنظیمیں حالات و ظروف سے بے خبر آج بھی ہزار سال پہلے کی دنیا میں جی رہی ہیں جہاں چند لوگ تلوار اٹھا کر علاقہ کی تقدیر بدل دیا کرتے تھے۔ ان تنظیموں کی بزدلانہ حرکتوں کی وجہ سے پورا عالم اسلام میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کب کہاں اور کس کا قتل ہوجائے، بم پھوٹ جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی سزا مسلم اقلیتوں مل رہی ہے۔ برادران وطن کی نظر میں مسلمان جھگڑالو قوم ہے جہاں بھی مسلمان رہتے ہیں ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔

ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عام طور پر اپنے محدود دائرے میں مگن رہتے ہیں۔ خود ہی غیر مسلموں سے دوری بنا کر رہتے ہیں۔ ایسا غیر مسلموں کے مذہب اور ان کے رسم ورواج کے بارے میں عدم واقفیت کی وجہ سے بھی ہے۔ خود اپنے دین سے عدم واقفیت کی وجہ سے مسلمان یہ سمجھتے ہیں غیر مسلموں سے دوری بناکر رکھنا ہی عین اسلام ہے۔ اس سے برادران وطن اسلام اور مسلمانوں کے بارے جان نہیں پاتے۔ اکثرایسا دیکھا گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ رہنے والے غیر مسلموں میں ان کے خلاف نفرت نہیں ہوتی ہے یا کم ہوتی ہے۔ اس وجہ سے مسلم نوجوانوں کو خاص طور پر غیر مسلموں سے میل جول پیدا کرنا چاہئے۔

ایک عام تاثر مسلموں کے تعلق سے ہم وطنوں میں یہ ہے کہ یہ ایک گندی قوم ہے۔ پہلی فرصت میں مسلمان یہ کہہ کر اپنا دامن صاف کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسلام میں صفائی کو آدھا ایمان کہا گیا ہے۔ مگر زمینی حقیقت کیا ہے؟ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں محسوس کرنی چاہئے کہ آج مسلمان واقعی صفائی پر دھیان نہیں دیتے۔ہمارا اپنا مشاہدہ ہے کہ مسلم علاقے گندگی اور غلاظت سے پہچانے جاتے ہیں۔لوگ شکایت کرتے ہیں کہ حکومت مسلم علاقوں میں صفائی پر توجہ نہیں دیتی۔ یہ بات اگر سچ بھی ہوپھر بھی مسلمانوں کی اپنی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی؟ غیر مسلم روزانہ اپنے گھر میں جھاڑو لگاتا ہے اور اپنے گھر کے سامنے کی سڑک پر بھی جھاڑو لگاتا ہے۔ اپنے گھر کے اندر بھی روشنی رکھتا ہے اور گھر کے باہر بھی راہگیروں کے لئے بلب جلا کر رکھتا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ اپنے گھر کا سارا کچڑا سڑک پر یا کسی خالی پلاٹ میں ڈال کر فرمان بنی پر عمل کرلیتے ہیں۔ کسی بھی مسلم بستی میں گھر کے سامنے بلب لگا ہوا نہیں ملتا۔ ہمارے اس رویے سے کیا برادران وطن ہم سے نفرت نہیں کریں گے؟

مسلمانوں کے اندر خدمت خلق کا رجحان بھی غیر مسلموں کے مقابلے میں کم ہے۔ مسلمانوں میں زکوۃ کا نظام ہے مگر اس کاایسابے ہنگم طریقہ مسلمانوں نے اپنا رکھا ہے کہ یہ مسلمانوں کی نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بن گیا ہے۔ گلی کوچوں میں بھکاریوں کی بھرمار ہے۔ جو نئے نئے انداز میں اداکاری کرکے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ گندگی کے بعد مسلم علاقوں کی دوسری پہچان یہی بھیک منگے ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ زکوۃ کا ایسا مربو ط نظام قائم ہوتا جس سے حقیقی حق داروں تک امداد پہنچ جاتی اور اس روپئے سے اسپتال اور دیگر رفاہی کام انجام دیئے جاتے۔ہندوستان میں اور بھی اقلیتیں رہتی ہیں لیکن تشدد کا نشانہ مسلمان ہی کیوں بنتے ہیں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ دوسری اقوام بوجھ بننے کے بجائے برادران وطن کے لئے سہولت فراہم کرتے ہیں۔ انہی کے اسکولوں میں اکثریتی فرقہ کے بچے پڑھتے ہیں۔ انہی کے اسپتال میں علاج کے لئے جاتے ہیں۔ کوئی بھی پریشانی کا وقت ہو وہ مدد کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اکثریتی فرقہ انہیں کوئی کیوں تنگ کرے گا؟ رہ گئے مسلمان ، تو وہ اپنے علاقوں میں بھی معیاری اسکول اور اسپتال نہیں کھول سکتے ،تو ان سے کیا امید کی جائے کہ دوسرے علاقوں میں بھی اسکول و اسپتال قائم کریں۔ مسلمانوں کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے۔

آج جب فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب تلاش کئے جارہے ہیں تو ہماری گذارش ہے کہ ان نکات پر بھی غور کیا جائے۔ہم دعا کرتے ہیں کہ آنے والا کل ہندوستان کے لئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ہو۔


٭٭٭٭



بدھ، 23 اکتوبر، 2013

پلاننگ کمیشن کا نیا سوشہ: طلاق کے بعد بیوی آدھی جائداد کی حق دار

0 تبصرے
کیا یہ اتفاق ہے کہ میڈیا میں اچانک ایک جیسی خبریں آنے لگتی ہیں، مثلا کچھ دنوں پہلے دہلی میں بلیو لائن بسوں کے بارے میں روزانہ اخبارات اور ٹی وی چینل تفصیلی خبریں دیا کرتے تھے ۔ معمولی سا بھی سڑک حادثہ اگر اس میں کسی بھی طرح بلیولائن کی شمولیت رہی ہو اگر چہ غلطی اس میں کسی اور کی ہو اس کو بلیو لائن کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ میڈیا کے اسی پرپیگنڈے نے بلیولائن کو کلر لائن بنادیا۔ اور بالآخر بلیو لائن کو سڑکوں سے ہٹنا پڑا۔بالکل یہی صورت حال اس وقت عورتوں سے متعلق خبروں کے بارے میں بھی ہے۔ کوئی بھی نیوز چینل کھولو اس میں عورتوں کے ساتھ چھیڑکھانی ، زبردستی اور مارپیٹ جیسے واقعات کی خبریں ملیں گی۔ کیااس سے پہلے یہ سب کچھ نہیں ہوتا رہا ہے۔ بلیولائن بسوں سے حادثے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور اسی قسم کے حادثے اب بھی روزانہ کہیں نہ کہیں ڈی ٹی سی سے بھی ہورہے ہیں۔ مگر نہ پہلے ان کی کوریج ہوتی تھی نہ اب ہوتی ہے۔
دراصل میڈیا میں کچھ لوگ ہیں جو اپنی پسند اور مرضی کے موضوعات کو اچھالتے ہیں۔میڈیا کے بارے میں جانکاری رکھنے والے بتاتے ہیں کہ بلیولائن کو ہٹانے کے لئے دہلی کے وزیر ٹرانسپورٹ نے میڈیا کے پرپیگنڈے کا سہارا لیا تھا۔ پہلے میڈیا میں اس کی تشہیر کرائی اور پھر اسی کو بہانہ بناکر ان کو سڑکوں سے ہٹایا گیا۔ دوسرے میڈیا گروپ مجبوری یا غیر محسوس طریقے سے ان کے پرپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔
آج کل عورتوں سے متعلق اس قسم کی خبروں کی بھر مار دیکھ کرلگتا ہے کہ کچھ خاص قسم کی فضا تیار کی جارہی ہے۔ ہمارا شک اس وقت یقین کی صورت اختیار کرگیا جب پلاننگ کمیشن کا بیان سامنے آیا کہ وہ جلد ہی شوہر کی پراپرٹی میں بیوی کو آدھے کا حق دار بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پلاننگ کمیشن کی سفارشات اگر مان لی گئیں تو ایسی صورت میں طلاق کی صورت میں شوہر کی پوری پراپرٹی دوحصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ اس میں سے آدھی جائداد بیوی کو دے دی جائے گی ۔ باقی میں شوہر اور اس کے رشتہ دار جیسے تیسے گذارہ کریں۔ خاص بات یہ کہ اس میں منقولہ اور غیر منقولہ جائداد میں فرق نہیں کیا گیا ہے۔
                    پلاننگ کمیشن کی مانیں تو ایسا اس لئے کیا جارہا تاکہ طلاق اور علیحدگی کے بعد معاوضے کو لے کر عورتوں کو ہورہی پریشانیوں سے نجات دلایا جائے۔ پلاننگ کمیشن کو سب سے زیادہ فکر مسلم خواتین لے کر ہورہی ہے۔ اس لیے کہ مسلم پرسنل لاء کے مطابق طلاق کے بعد عدت کے خرچ کے علاوہ کسی اور قسم کے خرچ کے لئے بیوی دعوی نہیں کرسکتی۔ قانون بن جانے کی صورت میں مسلم عورتوں کو بھی طلاق کے بعد شوہر کی جائداد کا آدھا حصہ مل جائے گا۔
اگر چہ ابھی یہ ایک سفارش ہے کوئی قانون نہیں ۔ اگر اس قانون کی مخالفت نہ کی گئی اور یہ قانون ایسے ہی پاس ہوگیا تو ہمارا خاندانی نظام اور اس کا پورا سسٹم برباد ہوجائے گا۔
شادی بیاہ صرف جسمانی ملن کا نام نہیں، بلکہ یہ دو روحوں کا ملن ہے۔ اس کو روپئے پیسے اور جائداد سے جوڑ کر دیکھنا اپنے آپ میں ایک غلط عمل ہے۔مستقبل میں ایسے واقعات بھی سامنے آئیں گے کہ لڑکی کی شادی صرف جائداد ہڑپنے کے لئے کی گئی ۔ شادی کے بعد طلاق کی عرضی داخل کی جائے گی اور ایک دو دن ساتھ رہنے کا معاوضہ لڑکی آدھے جائداد کی صورت میں وصول کرے گی۔
ابھی ایک سال پہلے پولیس نے ایک ایسی لڑکی کو گرفتار کیا تھا جو شادی کا ناٹک کرکے کئی ایک نوجوانوں کو کنگال کرچکی تھی۔ دلالوں کے ذریعہ وہ شادی کی بات کرتی اور پھر موقع پاکر گھر کے سبھی زیور اور نقدی اپنے دلالوں کی مدد سے صاف کردیا کرتی تھی۔
وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ لڑکیوں کا ایک گروہ ایسا تیار ہو جو بڑے گھرانے کے لڑکوں کو اپنے جال میں پھانسیں اور پھر ان سے الگ ہوکر ان کی جائداد کے برابر کے حق دار بن جائیں۔
دوسری بات یہ کہ پلاننگ کمیشن کو صرف لڑکی دکھائی دیتی ہے نہ لڑکا دکھتا ہے نہ اس کے ماں باپ اور بھائی بہن۔ لڑکے کو سب کی نگہداشت کرنی ہوتی ہے۔ جب آدھی جائداد لڑکی کو دے دی جائے گی تووہ اپنے ماں باپ کی نگہداشت کیسے کرے گا؟کیا خاندان میں صرف میاں اور بیوی ہی ہوتے ہیں؟ اور کوئی دوسرا رشتہ نہیں ہوتا ہے۔؟
سب سے بڑا مسئلہ لڑکوں کی تعلیم اور تربیت سے متعلق ہوتا ہے۔طلاق کے بعد لڑکے اگر شوہر کے پاس رہے تو کیا تب بھی بیوی آدھی جائداد کی حق دار ہوسکتی ہے؟
اگرچہ یہ کہا گیا ہے کہ شوہر کے ساتھ بیوی کی جائداد بھی تقسیم ہوگی مگر بیوی کی جائداد کیا ہوتی ہے؟ زیورات ، نقدی یا زمین وغیرہ عموماً وہی ہوتا ہے جو شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے۔ اگر معاملہ برابری کا ہے تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر بیوی کمارہی ہے تو طلاق کے بعد اپنے سابقہ شوہر کے اخراجات برداشت کرے۔ اسکے نان ونفقہ کی ذمہ دار ہو۔ اس لئے کہ پلاننگ کمیشن کی نظر میں دونوں برابر ہیں۔
دراصل پلاننگ کمیشن کا یہ فیصلہ خاندانوں کو توڑنے کا کام کرے گا ۔ سماج دشمن عناصر کی ہمت افزائی کا باعث ہوگا۔
صحیح بات تو یہ ہے طلاق کے بعد عورت کا عدت کی مدت کے خرچ کے علاوہ کوئی اور حق بنتا ہی نہیں ہے جیسا کہ اسلام کا فیصلہ ہے۔اس لئے کہ شوہر اپنی بیوی کو خرچ اس وجہ سے دیتا ہے کیوں کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ طلاق کے بعد جب وہ بیوی ہی نہیں رہی تو ایسی صورت میں وہ خرچ کی حق دار کیوں کر ہوسکتی ہے؟اور جہاں تک رہی بات یہ کہ عورت طلاق کے بعد کھائے گی کیا ؟ تو اس کی ذمہ داری ماں باپ پر ہے۔ اسلام نے عورت کو لڑکے کی طرح جائداد کا وارث بنایا ہے۔ بچوں کی پرورش اس کے ذمہ نہیں رکھا گیا ہے اس وجہ سے اس کو صرف اپنے اوپر ہی خرچ کرنا ہے۔ ایسے میں اسلام کو عورت کا مخالف ثابت کرنا بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اپنی ذمہ داری (یعنی لڑکی کو وراثت میں حصہ دینا ) سے بچنا چاہتے ہیں اور ناجائز طور پر وہ سابقہ شوہر سے لینا چاہتے ہیں۔


مذکورہ قانون اپنی تمام قباحتوں کے ساتھ مسلم پرسنل لاء میں صریح مداخلت ہے، جس کی قانون قانون ہند میں ہمیں ضمانت دی گئی ہے۔اس وجہ سے اس قانون کی بڑے پیمانہ پر مخالفت ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ ہم سوئے رہیں اور جب بیدار ہوں تو معلوم ہو کہ اب دیر ہوچکی ہے۔

ٹکٹوں کی کالابازاری، دلال مالامال، مسافر پریشان

0 تبصرے
مئی جون میں اسکولوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان دو مہینوں میں لوگ اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں گذارنے اپنے گاؤں یا شہر کا رخ کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے گرمیوں میں ٹرینوں میں بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔ ایک دو اضافی ٹرینوں سے بھی یہ بھیڑ مسئلہ کا حل نہیں ہوپاتا ہے۔ گرمی کی چھٹیوں کے لیے ریزرویشن ٹکٹ پانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔ ریلوے کے نئے قانون کے مطابق نوے دن پہلے ریزرویشن ٹکٹ لیا جاسکتا ہے۔ آج کل حالت یہ ہے کہ ٹکٹ کاونٹر کھلنے کے ایک دو گھنٹہ کے اندر ہی ساری سیٹیں ختم ہوجاتی ہیں۔پہلے ایسا تتکال ٹکٹوں کے لئے ہوتا تھا اب عام ریزرویشن ٹکٹوں کا بھی یہی حال ہوگیا ہے ، یہ حالت خاص طور پر شمالی ہند کی طرف جانے والی ٹرینوں میں ہے۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ سارے ٹکٹ جاتے ہیں۔ آسان سا جواب ہے کہ یہ سب دلالوں کی جھولی میں جاتا ہے۔
                    دراصل گرمی کی چھٹیوں میں ٹکٹ کے لئے مارا ماری کو دیکھتے ہوئے دلال پہلے ہی سارے ٹکٹ بک کرلیتے ہیں ۔ عام آدمی کو چھٹی سے ایک مہینہ ٹکٹ کا خیال آتا ہے ، اس وقت تک سارے ٹکٹ ختم ہوچکے ہوتے ہیں ، اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ دلالوں کے پاس جائے اور کئی گنا زیادہ قیمت پر ان ٹکٹوں کو خریدے۔ تعجب یہ ہے کہ یہ سارا کام انتظامیہ کے ناک کے نیچے ریلوے اسٹیشنوں کے ارد گرد بیٹھے ٹریول ایجنٹ ڈھڑلے سے کر رہے ہیں ۔ ریلوے انتظامیہ کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے اس کے باوجود سب کچھ برداشت ہی نہیں بلکہ کچھ کرپٹ ملازمین اس میں برابر کا حصہ وصول کرتے ہیں۔
اگر آپ کو آج ہی سفر کرنا ہے اور آپ کے پاس ٹکٹ نہیں ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، نئی دہلی اور پرانی دہلی جیسے اسٹیشنوں پر ’آج کاریزویشن ٹکٹ ، آج کا ریزویشن ٹکٹ‘ کی آواز لگانے والے دلال مل جائیں گے، ان سے رابطہ کرنے پر وہ آپ کو پاس ہی کسی ٹریول ایجنسی پر لے جائیں گے، ٹریول ایجنٹ آج ہی کے ٹکٹوں کی ایک موٹی گڈی لے کر بیٹھا ہوگا، ٹکٹ کی قیمت ضرورت مند کی ضرورت کے حساب سے طے ہوتی ہے جو کسی بھی صورت میں دوگنی سے کم نہیں ہوتی۔ جو ٹکٹ بچ جاتے ہیں ان کو واپس بھی نہیں کیا جاتا اس کے لیے یہ ایجنٹ ٹرین میں چلنے والے ٹی ٹی سے بات کرلیتے ہیں وہ ان سیٹوں کو منہ مانگی قیمت پر بیچ لیتے ہیں ۔ اس طرح دلالوں اور ریلوے کے کچھ کرپٹ ملازمین کی ملی بھگت سے عام مسافروں کے لئے ٹکٹ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں رہ گیا ہے۔
                    ریلوے  اگر واقعی چاہتی کہ دلالوں کی اس ہیرا پھیری سے مسافروں کو نجات دلائیں تو اس کے لیے انہیں سخت قدم اٹھانے ہوں گے۔ اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے تمام ریزرویشن ٹکٹوں کے لئے شناختی کارڈ کو لازمی کردیا جائے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے تتکال ٹکٹوں کے لئے شناختی کارڈ کو ضروری قرار دیا گیا تھا یہ ایک اچھا قدم ہے اس سے فرضی ناموں پر ٹکٹوں کی خرید اور فروخت پر لگام لگے گی۔ آج کے زمانے میں کم ہی لوگ ہوں گے جن کے پاس کسی بھی قسم کا شناختی کارڈ نہ ہو۔


                    دوسرا کام یہ کیا جاسکتا ہے کہ ریزرویشن کی مدت تین مہینہ سے کم کرکے دو مہینہ کردیا جائے۔میری اپیل ہے کہ جلد ہی مذکورہ تدابیر یا اس کے علاوہ جو بھی ماہرین کامشورہ ہو اپناکر مسافروں کو دلالوں سے نجات دلائیں۔ امید کہ محترمہ ممتا بینرجی جلد اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں گی۔ 

جمعرات، 15 دسمبر، 2011

صلاح الدین مقبول احمد کی اردو شاعری مسدس شاہراہ دعوت کے حوالے سے

0 تبصرے


انسان اپنی محنت اور لگن کی بدولت انجینئر ڈاکٹر اور سائنسداں ہوسکتا ہے، مگر شاعر بننے کے لئے محنت اور لگن ہی کافی نہیں ہے، اس کے لئے وہبی صلاحیت درکار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انسان اپنے تجربات مشاہدات اورکثرت مطالعہ کی بدولت اپنی فکر کو وسیع اور بلند کرکے اپنی شاعری میں چار چاند لگا دے مگر بنیادی طور پر شاعری ایک وہبی چیز ہے جو قدرت کچھ ہی لوگوں کو دیتی ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو یہ صلاحیت دے اور وہ بجائے اس کے اظہار کرنے کے چھپانے کی کوشش کرے۔ مولانا صلاح الدین مقبول مقبول احمد کا معاملہ دوسرے شاعروں سے کئی معنوں میں الگ ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے شاعر ہونے کو پوشیدہ رکھے رہے بلکہ مدینہ منورہ میں تعلیم کے حصول کے لئے جاتے ہوئے انہوں نے ترک شاعری کے لئے دعابھی کی تھی ۔جس پر مولانا اسحاق بھٹی کا بہت ہی برمحل تبصرہ ہے کہ’’ اگر اس کا نام دعا ہے تو فرمائیے کہ بددعا کسے کہتے ہیں؟ یہ بددعاتھی جو عین نشانے پر لگی۔‘‘
مولانا صلاح الدین مقبول احمد ایک معروف عالم دین ہیں۔ ہم انہیں بچپن سے دیکھتے آئے ہیں۔ مگر وہ شاعر بھی ہیں اسکا ہمیں اندازہ نہ تھا ۔ چند دنوں قبل مولانا کے بھائی محترم مولانا عزیز الدین سنابلی سے ملاقات ہوئی دوران گفتگوانہوں نے بتایا کہ مولانا صلاح الدین صاحب کا کوئی شعری مجموعہ اردو میں شائع ہورہا ہے، تو مجھے یاد آیا کہ خلیجی جنگ کے دوران مولانا نے’’ کویت پر عراق کے مظالم ‘‘کے نام سے ایک کتاب اردو میں لکھی تھی اس کے مقدمہ میں جس طرح برمحل اشعار نقل کئے تھے وہ کوئی عمدہ شاعری کا ذوق رکھنے والا شخص ہی کرسکتا ہے۔ اس کتاب سے مجھے مولانا کے شاعرانہ مذاق کا علم ہوا۔ بہرحال مولانا صلاح الدین مقبول احمد کا شعری مجموعہ’’مسدس شاہراہ دعوت‘‘ سامنے آتے ہیں بڑی بے صبری سے میں نے پہلی ہی فرصت میں تقریبا پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ مجھے سب سے زیادہ جس چیز نے متأثر کیا وہ ہے حسن ترتیب اور بے ساختگی۔ 
مولانا نے اپنی زندگی کے ایام تصنیف و تالیف میں گذارے جس کی جھلک ہمیں اس کتاب میں دکھتی ہے۔ اب تک شاعری کی کوئی ایسی کتاب میری نظروں کے سامنے سے نہیں گذری جس میں اسلام کے تمام بنیادی اصولوں اور تعلیمات کا اتنی خوب صورتی کے ساتھ شاعری کے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہو۔ ہمارے وہ ناقدین ضرور اس پر چراغ پاہوں گے جن کی نظر میں شاعری صرف دل بہلانے کی چیز ہے دعوت وتبلیغ کی چیز نہیں۔ ایسا وہی شخص کرسکتا ہے جس کے سامنے کوئی خاص مقصد نہ ہو مولانا کا ایک خاص مشن ہے، ان کا چلنا پھرنا سب اسی مقصد پر قربان ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شاعری بھی اپنی شرطوں پر کی ہے۔ مولانا اپنے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
’’میں نے اپنے اس مسدس میں ’’خدا ‘‘،’’عشق ‘‘،’’بادہ و ساغر ‘‘اور ’’میخانہ‘‘ جیسے غیر شرعی کلمات کے استعمال اور غیر ضروری تشبیب سے پرہیز کا ہے ، جس بندہ عاجز نے عقائد وعبادات اور تفسیر و حدیث دفاع کتاب وسنت اور اسلامی ثقافت جیسے موضوعات پر ہزاروں صفحات پر مشتمل تقریبا ۳۰ کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا ہے ، اب اسے کے ذہن و قلم کے زیبا نہیں کہ وہ جام مے ، باددہ وساغر، اور حسیناؤں کے قدود و خدود کی تشبیب و تغزل سے ذہنی وفکری عیاشی میں مبتلا ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے ’’ من ترک شیئاً للہ عوضہ اللہ خیراً منہ‘‘ کا مصداق بنائے۔ آمین‘‘
مولانا اسی کو شاعری کی زبان میں کچھ اس طرح کہتے ہیں:
یہ علامہ ہیں، مولانا ہیں، مفتی اور قاری ہیں
مفسر میں محدث ہیں فقیہ آہ وزاری ہیں
یہ ہیں قرآن وسنت دین ودنیا کے نمائندہ 
ہے ان کے دست میں ملت کا ماضی اور آئندہ
فرشتے ان کی راہوں میں ہمیشہ پر بچھاتے ہیں
پرندے ماہئی و حشرات ان کا گیت گاتے ہیں
جو یہ حضرات تشبیب و تغزل پہ اتر آئیں
تو پھر فرہاد و مجنوں ان سے بھی کمتر نظر آئیں
پہنچ جاتے ہیں وہ اک ہی جست میں مسجد سے میخانہ
چھلکتے ہیں پھر ان کے سامنے بھی جام و پیمانہ
انہیں اقرار ہے ان سارے ناکردہ گناہوں کا 
حسینہ کی نگاہوں اس کی راہوں اور باہوں کا
تباہی پیش خیمہ ہے اس عشق مجازی کا
کرشمہ ہے ہوائے نفس کی ذرہ نوازی کا
مولانا صلاح الدین مصلح نے ان اشعار میں واضح کردیا کہ وہ بھی اردو شاعری کے ان لوازمات سے واقف ہیں جن کے بغیر اردو شاعری کو نامکمل سمجھا جاتا رہاہے،وہ انہیں شاعری میں برتنا بھی جانتے ہیں مگر ان سے دامن بچاکر بھی اچھی اور عمدہ شاعری کی جاسکتی ہے۔ ان کا مسدس اس کا عملی نمونہ ہے۔
مولانا قوم کے نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں:
توقع ملت بیضا کے میروں اور جیالوں سے
بہی خواہوں، سپوتوں ، نوجوانوں ، نونہالوں سے
کہ پاکیزہ ادب شعروسخن کو عام فرمائیں 
بہت سوئے ذرا بیدار ہوں کچھ کام فرمائیں
زمانہ منتظر ہے آپ کی دینی سیادت کا
شریعت فکر وفن ہر باب میں ملی قیادت کا
ان اشعار میں جہاں ایک طرف جذبہ کی صداقت مقصد سے والہانہ لگاؤ اور تڑپ نظر آتی ہے وہیں ان اشعار میں دریا کی سی روانی بھی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے بغیر شور وشرابے کے ایک دریا خاموشی سے بہا چلاجارہا۔ آمد ہی آمد ہے کہیں بھی آورد کا گمان نہیں ہوتا ہے۔
اس مسدس کی وجہ تالیف مولانا فرماتے ہیں:
وجہ تالیف ہے حالی کے مسدس کا کمال
راس ہے شعر کو شکوہ کی زمین اقبال
جہد ناقص میں یہ مصلح کو رہا پوار خیال 
دین خالص کی وہ سرمدی دعوت ہو بحال
رب کی توفیق سے دعوت میں توانائی ہے
شاعری کی یہ نہیں روح کی رعنائی ہے
مسدس حالی سے فکری ہم آہنگی اور اقبال کی مشہور نظم شکوہ جواب شکوہ کی زمین پر مسدس کی بنیاد رکھتے ہوئے یہ مولانا کی انکساری ہے کہ انہوں نے شاعری سے زیادہ معانی و مطالب پر توجہ دینے کی بات کہی ہے۔ 
علامہ اقبال نے بھی ایک جگہ کہا ہے کہ اللہ اس کو کبھی معاف نہ کرے جو مجھے شاعر سمجھے۔ گویا کہ اقبال بھی اپنی شاعری کے فنی محاسن سے زیا دہ اپنی شاعری کے افکار پر توجہ دینے کے قائل تھے ۔ اقبال شاعری کو بذات خود مقصد نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس کے اندر موجود پیغام کو اہمت دیتے تھے ۔ یہی بات مولانا صلاح الدین مصلح بھی کہہ رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک ایسا عالم دین جس نے اپنی پوری زندگی اسلام کی تعبیر و تشریح میں لگا دی ہو وہ جب شاعری کرے گا تو اس کے اندر بھی وہی سب کچھ ہوگا جو پڑھتا لکھتا آیا ہے۔ ایک اور چیز جو ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ خطیبانہ لہجہ اور کڑک ہے ایسا موضوع کی وجہ سے ہے۔ قرآن کلام الٰہی ہے اس پر وہ کہتے ہیں:
حکم رب حق ، کوئی اقرار یا انکار کرے 
اپنی تحقیق کو رسوا سربازار کرے 
رب کے قرآن مقدس پہ کوئی وار کرے
ایک کیا دس نہیں ، کوئی اسے سو بار کرے
حق تو تائید کا محتاج نہیں ہوتا ہے
کفر کے سامنے تاراج نہیں ہوتا ہے
مولانا کا طرز استدلال عمدہ اور جچا ہوا ہوتا ہے، وہ شاعری میں اپنے مخالفین کامسکت جواب دیتے ہیں۔ جواب دیتے ہوئے مولانا کا انداز سوال وجواب کا ہوجاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دو لوگوں کے بیچ مناظرہ ہورہا ہو۔ 
مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی وجود میں آگیا ہے جو صرف قرآن کو حجت مانتا ہے، رسول اکرم کے فرامین جو احادیث کی شکل میں ہیں ان کودلیل نہیں مانتا ۔ اس فرقہ کی تردید کرتے ہوئے مولانا کہتے ہیں:
کتنا کس جنس میں واجب ہے زکاتوں کا نصاب 
کیسے معلوم ہوئے صوم کے، حج کے آداب
ان نمازوں کا طریقہ ذرا بتلائیں جناب
پیش خدمت ہے یہ لو مصحف رب الارباب
نطق سامی ہے یہ، قرآن کی تفسیر ہے یہ 
وحی معصوم کی تشریح ہے،تعبیر ہے یہ
صحیح بات یہ ہے کہ احادیث نبوی کے بغیر ان امور کی نشاندہی ناممکن ہے۔ 
مولانا کے اندر ایک شاعر ہے جسے کبھی کھل کر سامنے آنے کا موقع نہیں ملا، اگر مولانا نے اس جانب تھوڑی بھی توجہ دی ہوتی تو عالم اسلام کے نامور شاعروں میں ہوتے۔ کیا یہ کسی کرامت سے کم ہے کہ شاعری ترک کرنے کے تیس سالوں بعد کوئی آمادۂ شعر ہو اور محض دس دنوں میں اکیاسی مسدس کہہ کر کتاب کی تکمیل کردے؟ اس کتاب کولکھتے وقت مولانا کا شاعرانہ مزاج ہر جگہ انہیں شاعری کی زبان ہی میں بات کرنے پر بر انگیختہ کرتا ہے۔ مقدمہ جو عام طور پر شاعر نثر کی زبان میں لکھتے ہیں اس کے اندر بھی مولانا نے جابجا اشعار کے موتی پروئے ہیں۔ مولانا کی شاعری میں بعض جگہوں پر عربی الفاظ کے استعمال کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ قاری کو سمجھنے میں کچھ دقت محسوس ہو، مگر ایسی تمام جگہوں پر مولانا نے حاشیہ میں اس کی تشریح کردی ہے۔ دراصل اردو کا دامن دوسری زبان کے الفاظ کو لینے اور قبول کرنے میں ہمیشہ سے کسادہ رہا ہے۔ایک زمانہ تھا جب فارسی الفاظ وتراکیب کا استعمال بکثرت ہوا کرتا تھا۔ مولانا آزاد نے عربی الفاظ تراکیب سے اردو کے دامن کو وسعت دی مگر کئی وجوہات سے یہ روایت بعد کے ادوار میں نہ قائم نہ رہ سکی ۔ اور اب اردو اور فارسی کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے۔ بہرحال مولانا کو بھی اس کا احساس تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حاشیہ میں اس کی تشریح بھی کردی ہے۔ 
یہ کتاب صرف اسلام کی تعبیر و تشریح ہی کے لئے معاون نہیں ہے بلکہ مستقبل میں مولانا پر تحقیق کرنے والوں کے لئے ان کی زندگی اور ان کی ذہنی اپج کو سمجھنے کا بھی کام دے گی۔انشاء اللہ