ہفتہ، 3 ستمبر، 2011

انا ہزارے کی تحریک۔ میڈیا کا پیپلی لائیو شو

0 تبصرے
اگست کےنصف آخر میں دہلی میں صرف ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی، ۔ سڑک مارکیٹ گلی کوچے ہر جگہ بس انا، انا کا  نعرہ تھا۔ ہرجگہ سے تھک ہار کر گھر پہنچ کر جب ٹی وی آن کرکے کچھ سکون حاصل کرنا چاہتا تو وہاں بھی وہی شوروشرابا۔ اللہ بھلاکرے ان ٹی وی والوں کوکہ انہوں نے تو گویا اپنے سبھی رپورٹروں کو اسی کام پر لگادیا تھا کہ صرف اناکی خبر ارسال کرو، کسی گلی میں دو چار لوگوں نے جمع ہوکر نعرہ لگایا کہ ٹی وی پر اس محلہ اور علاقہ کا نام انا جی کے سپورٹروں میں آگیا۔ 
اگر ہم اس تحریک کی کامیابی کا نوے فیصد کریڈٹ ٹی وی اور اخبارات کو دیں تو بے جانہ ہوگا۔ جہاں تک ٹی کی رسائی تھی وہیں تک انا کی آندھی تھی، اس کے باہر سب کچھ سونا سا تھا۔ میں نے جب اپنے گاوں بلرام پور ضلع میں اس تحریک کے بارے میں جاننا چاہا تویہ جان کر تعجب ہوا کہ یہاں اکثر لوگوں نے انا کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ میڈیا نےاس تحریک کے لئے جو کچھ کیا اس کو دیکھ کر پیپلی لائف یاد آگئی جو عامر خان کی ایک بہت اچھی فلم تھی۔
  کاش میڈیا ان لوگوں پر بھی توجہ دیتا جو گیارہ گیارہ سالوں سے بھوک ہڑتال پر زندگی اور موت کے درمیان جوجھ رہے ہیں۔ وہ کہیں اور نہیں دہلی میں جنتر منتر پر ہی ہیں۔ وہ بھی انسان ہیں، اگر ان کے پاس وسائل نہیں تو یہ کام میڈیا کرسکتا ہے۔
           دوسری بات یہ کہ اس پورے معاملہ میں انا جی صرف ایک مکھوٹا تھے، وہ وہی کرتے تھے جو کیجری وال اور کرن بیدی کہتی تھیں۔ ایسے میں انا جی کو اس تحریک کا قائد کیسے کہا جاسکتا ہے۔؟
            مسلمانوں نے اگرچہ اس تحریک میں اوروں کی طرح حصہ لیا مگر اکثر مسلمان انا کے بارے میں تذبذب کا شکار رہے، اردو اخبارات ہمیشہ شک کا اظہار کرتے رہے۔ ایسا وندے ماترم ، دوسرے نعروں کی وجہ سے بھی ہوا۔ دوسری بات یہ اس تحریک میں بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ پیش پیش تھے مسلمان بے چارہ دودھ کا جلا کیا کرے گا کہنے کی ضرورت نہیں۔
           انا جی پی ایم کو تو لوک بال سے باہر رکھنے پر راضی نہ ہوئے مگر ججوں کے معاملے میں راضی ہوگئے۔ آخر ایسا کیوں؟ سپریم کورٹ نے الہ باد ہائی کورٹ کے بارے میں ابھی جلد ہی کہا ہے اوپر سے نیچے تک سب کچھ سڑ چکا ہے۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ بعض ضلع کے جج تو باقاعدہ ریٹ طے کر رکھے ہیں۔ ایسے میں ان کو الگ کرنے پر انا راضی کیسے ہوگئے؟
          میرے خیال میں صدر،وزیر اعظم چیف اور جسٹس آف انڈیا کے علاوہ ہرایک کو اس کے دائرے میں آنا چاہئے۔ ان تینوں کو اس لئےنہیں کہ یہ بہت ہی باوقار عہدے ہیں۔ انہیں آزادانہ طورپر کام کرنے دینا ملک کے حق میں ہے۔
         
       میں اس تحریک کا حامی تو ضرور تھا مگر اندر سے خائف بھی کہ کہیں یہ آر ایس ایس کا ہی دوسرا روپ نہ ہو، اب جب کہ انا جی کی تقریبا ساری باتیں مان لی گئی ہیں مجھے یہ ڈر ستا رہا ہے کہ کہیں یہ بل ہمارے سیاسی نظام کے ضروری جز چیک اینڈ بیلنس کو بگاڈ نہ دے۔
       ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اس تحریک کی کامیابی سے شعلے اسٹائل کی تحریکوں کا دور نہ شروع ہوجائے۔ یعنی میری باتیں سو فیصدی تسلیم کی جائیں ورنہ میں اپنی جان دے دوں گا۔ جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی بات رکھنے کا حق ہے، مگر یہ اختیار کسی کو نہیں ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کرے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہی صحیح ہے باقی سب غلط ہے۔
اللہ کرے کہ خیر ہو اور ملک ترقی کرے۔


جمعرات، 1 ستمبر، 2011

عزیز سلفی کی شاعری

2 تبصرے

عزیز سلفی کی شاعری 
’پرواز‘کی اشاعت سے پہلے کم ہی لوگ مولانا عزیز الرحمان عزیز سلفی کو ایک شاعر کی حیثیت سے جانتے ہوں گے ۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے سینئر استاد اور کئی عربی اردو دینی کتابوں کے مصنف کی حیثیت سے دنیا ان کو جانتی ہے۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں یہ ہمارے لئے ایک خبر تھی ، ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے لئے جو عزیز سلفی کو ان کی کتابوں کے حوالے سے جانتے ہوں گے۔ 
 عزیرالرحمان عزیز سلفی نے عام شاعروں کی طرح اپنی شاعری کی ابتدا ء غزلوں سے کی عزیز سلفی کی پہلی غزل کا مطلع ہے
میں ہوکے در پہ ترے اشکبار آیا ہوں 
نگاہ لطف اٹھا سوگوار آیا ہوں
گویا کہ عزیز سلفی نے شاعری کی وادی میں قدم رکھتے ہی اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ ہم بھی ایک عاشق کا دل رکھتے ہیں، جس کے اندر کوئی محبوب بستا ہے اس کے التفات سے شہنائیاں بجتی ہیں اور منہ پھیرلینے پر زندگی خفاخفا سی لگنے لگتی ہے۔
اسی غزل کے چند اشعار اور ملاحظہ ہوں:
یہ پھول ہوکے دریدہ قبا ہیں کیوں خنداں
چمن میں، میں بھی اگر تار تار آیا ہوں
نسیم لا !ذرا تو ان کی زلف کی خوشبو
تڑپتا لوٹتا دیوانہ وار آیا ہوں
یہ میری کوشش اول ہے دیکھ اے ناصح 
کہ فکر نو کو لئے بے قرار آیا ہوں
علامہ اقبال کی اپنی شاعری کے ابتدائی ایام میں ایک مشاعرے ایک غزل پڑھی تھی جس میں ایک شعر تھا:
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے 
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
اس شعر پر انہیں زبردست داد ملی جس کی وجہ سے انہیں شعر گوئی کی طرف توجہ دینے کا حوصلہ ملا۔ معمولی فروگذاشتوں کو اگر نظر انداز کردیا جائے تو مولانا کی یہ پہلی غزل ایک عظیم شاعر کے آمد کی نوید تھی۔ مگر یہ اردو ادب کی بدقسمتی تھی اس آواز کو علامہ اقبال کی طرح کو ئی عزیز سلفی کو بتانے والا نہ تھا۔ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مولانا کو ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے جانتے۔
عزیز سلفی کی غزلوں میں ہمیں اردو کی روایتی شاعری کے سبھی موضوعات مل جاتے ہیں۔ حسن وعشق کی سرمستیاں، محبوب سے رازونیاز، محبوب سے دور ہونے پر رنج وغم کا اظہار وغیرہ
عزیز سلفی سراپانگاری میں کمال کا ملکہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب کا سراپا کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
آنکھیں ہوں جیسے کوئی مے کا چھلکتا ساغر
بھول سے اوڑھنی کاندھے پہ سرک آئی ہو
زلف کی کالی گٹا تابش روئے انور 
جیسے کہ چاندنی بدلی میں نکل آئی ہو
اس کے ہر عضو سے پھوٹتا اس طرح شباب
اس کا ہر انگ ہی لیتا ہوا انگڑائی ہو
اس کے رخسار پہ پھیلی ہو حیا کی سرخی
کچھ مجھے دیکھ کے وہ اس طرح گھبرائی ہو
بڑھ کے میں چوم لوں اس کے حسیں یاقوت سے لب
اور باہوں میں مری وہ بھی سمٹ آئی ہو
کہتے ہیں کہ کسی کو اتنا نہ چاہو کہ وہ تمہاری محبتوں کا سوداگر بن جائے اور اپنی محبت کا تاوان وصولنے لگے۔عزیز سلفی نے کسی کو دل سے چاہا جس کی فرقت میں وہ آہ بھرتے رہے۔ ان کا محبوب ان پر جفائیں کرتا جاتا ہے اور عزیز سلفی اس کے لئے خیر کی دعائیں کرتے جاتے ہیں:
تم حسیں جتنے ہو اتنے ہی ستمگر ظالم
جو جفا کیش نہ ہو وہ کوئی گلفام نہیں
زخم ہر روز نیا دل پہ مرے لگتا ہے
آنکھ روئے نہ لہو ایسی کوئی شام نہیں
عزیز سلفی کومحبوب کی فرقت کا غم اس قدر ہے کہ باد صبا ان کے لئے راحت کا سامان نہیں بلکہ ان کے زخموں پرنمک پاشی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے، چاندنی کی ٹھنڈی روشنی سے لو لگتی ہے:
یہ چاندنی کی دھوپ بھی برسارہی ہے لو
ڈستی ہے ناگ بن کے یہ خلوت ترے بغیر
موج صبا نے کی ہیں نمک پاشیاں بہت
آآ کے دل جلاتی ہے نکہت ترے بغیر
ہے خشک ہوا گھنگور گھٹا بادل کی گرج بجلی کی چمک
راتوں کو فراق یار مجھے بسمل کی طرح تڑپاتا ہے
دنیائے محبت کی ہر بات نرالی ہے
جو ظلم کا خوگر ہے وہ آکھ کا تارا ہے
اس میں عزیز سلفی کو اس بات کا احساس ہے کہ محبوب اگر بے التفاتی کرتا ہے تو اس کے یہاں بھی کچھ مجبوریاں ہوں گی۔ وہ اپنی بے وفائی پر نادم بھی ہے
ہیں جھکی جھکی نگاہیں کوئی سوگوار کیوں ہے
مرا دل مسل کے آخر کوئی شرمسار کیوں ہے
پس قتل یہ ہوئی کیوں انہیں قتل پہ ندامت
مری قبر کے سرہانے کوئی اشکبار کیوں ہے
عاشق اپنی معشوقہ سے ملنے کے لئے کیسی کیسی بچکانہ باتیں سوچتاہے ، کبھی سوچتا ہے کاش ایسا ہوجائے ویسا ہوجائے وغیرہ وغیرہ عزیزسلفی کیا سوچتے ہیں:
مجھ کو صحرائے محبت میں پھراتا ہے جنوں
اٹھتا جس سمت قدم ہو ترا گھر ہوجائے
واہ ، دعا بھی عاشقوں والی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عزیزسلفی کا محبوب کون ہے؟ ویسے ایک بات ہے کسی انسان کو عالم ڈاکٹر،انجینئر بنانے میں کسی عورت کا ہاتھ ہو یا نہ ہو مگر شاعر بنانے میں عورت کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے وہی اسے عشق کے اسرار ورموز سے واقف کراتی ہے۔ اس لئے میرا ماننا ہے کہ ایک اچھے شاعر کے لئے عاشق ہونا ضروری ہے۔عزیز سلفی نے یہ کہہ کر معاملہ صاف کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ان کی شریک حیات ہیں۔ عزیز سلفی ایک بڑے عالم دین ہیں اس وجہ سے ان سے یہی امید بھی کی جاتی ہے۔ مگر ان کی شاعری کچھ الگ ہی کہانی بیان کرتی نظر آتی ہے۔ اگر محبوب ان کی بیوی ہے تو اس کے یہ عشوہ ناز و ادا، اس کی جدائی میں آنسو بہانا اور کبھی ملے بھی تو اس کی جفائیں اس لئے یا تو مولانا حقیقت بتاتے ہوئے شرمارہے ہیںیا ان کی شاعری کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے۔ ویسے بھی عشق ایک حقیقی اور فطری جذبہ ہے کسی کو بھی ہوسکتاہے اس میں نہ تو کچھ چھپانے کی ضرورت ہے نہ شرمانے کی کوئی حاجت ہے۔ 

عزیز سلفی کی شاعری ہمیں اپنی طرف ایک اور وجہ سے اپنی طرف کھینچتی ہے وہ ہے ان کے موضوعات کا تنوع ۔مولانا نے جہاں اسلامی تہواروں پر نظمیں کہی ہیں وہیں ہندؤں کے تہواروں پر بھی نظمیں کہی ہیں ۔ عزیز سلفی نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ بنارس میں گذاراہے سچ پوچھئے تو جوانی سے لے کر عمر کے اس مقام تک جہاں سے عہد جونی کو پیچھے مڑ کر دیکھنا پڑتا ہے عزیزسلفی نے بنارس میں گذارے۔ وہاں کا تہذیب اور کلچر ان کی رگوں میں بسا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں صبح بنارس کی جھلک نظر آتی ہے۔ عزیز سلفی نے ہندوں کے تہواروں پر جو نظمیں کہی ہیں ان کے اندر ان تہواروں کی اچھائیوں کا تذکرہ تو ہے ہی ساتھ ہی مذہب کے نام پر امن وامان کو غارت کرنے والوں کے عمل سے ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔

آئی دیوالی گھر گھر چراغاں ہوا بام ودر دیکھو گلشن بداماں ہوا 
ہر محل میں ہے خوشیوں کا ساماں ہوا خوب اظہار شوق فراواں ہوا
جگمگا اٹھا ہے نور سے ہر محل
کتنی پریاں ہیں مصروف رقص وغزل
ہجر کے مارے کتنے گلے سے ملے وصل کی شب دیئے دیکھو کتنے جلے
مدتوں بعد ہیں آج دل سے ملے آج ساقی ملا دور مے بھی بھی چلے
آج خوشیوں کے ساون کی برسات ہے
جس کے تھے منتظر آج وہ رات ہے
عزیز سلفی ایک دردمند دل رکھتے ہیں دیوالی کی چکاچوند روشنی انہیں ایک بیوہ کے آنسو اور اس کے غم کو اوجھل نہ کرسکی۔ اس لئے ’تصویر کا دوسرا رخ‘ بھی دکھا یا ہے۔
کوئی بیوہ دل اپنا دبائے ہوئے اپنے پلکوں پہ آنسو سجائے ہوئے
بچھڑے پیتم کو دل میں بسائے ہوئے میلے آنچل میں چہرہ چھپائے ہوئے
رات بھر کروٹیں وہ بدلتی رہی
اور دیوالی ہنستی ہنساتی رہی
کچھ اسی طرح عزیز سلفی نے دیوالی پر بھی ایک نظم لکھی ہے جس میں دیوالی سے متعلق چھوٹی سی چھوٹی باتوں کا خوب صورت انداز میں ذکر کیا ہے۔لیکن ہولی کے نام پر بے ہودگی انہیں پسند نہیں اس لئے وہ کہتے ہیں:
سرتاپا ہیں رنگ میں ڈوبے مے میں دھت ہیں سارے
بیٹھے گھر میں منہ کو چھپائے دکھیارے بیچارے
اس کی دیکھو ناک ہے زخمی اس کا سر ہے پھوٹا
بدن ہے سارا خون میں ڈوبا پہر بھی شاید ٹوٹا
رنگ کی ہولی کے بدلے میں کھیلی خون کی ہولی 
کسی نے اس کا کرتا پھاڑا، اس نے پھاڑ دی چولی
’پرواز ‘کی اشاعت میں ایک بات کا خیا ل رکھا گیا ہے کہ ہر غزل یا نظم کب کہی گئی اس کی تاریخ بھی درج کردی گئی ہے، اس کے مطالعہ سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ جوانی کی عمر کی شاعری میں جو جوش ، ولولہ اور روانی تھی وہ دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی، یہی نہیں بلکہ فکر کی وسعت بھی پھیلنے کے بجائے سمٹتی گئی، اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ درس وتدریس کی وجہ انہیں اس کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہ ملی ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے شاعری ایک قسم کی آوارہ مزاجی چاہتی ہے جس کو عزیز سلفی بعد میں نبھا نہ سکے۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ان پر سنجیدگی آتی گئی اور عمدہ قسم کی شاعری اسی سنجیدگی میں دفن ہوتی گئی۔
عزیز سلفی کے اندر ایک عظیم شاعر تھا جس کو کبھی کھل کر سامنے آنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ عزیز نے جو کچھ بھی شاعری کے نام پر کہا ہے وہ اگرچہ مقدار میں کم ہے مگر کسی بھی فنکار کی عظمت اس کلام کی تعداد سے نہیں بلکہ معیار سے جانچی جاتی ہے۔ اس معاملے میں عزیز سلفی کا کافی خوش قسمت ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پرواز کو وقتی اشعار جو کسی کی شادی یا اعزہ و اقربا کے موت کے وقت کہے گئے اس مجموعے میں شامل نہ کئے جاتے۔ 

عزیر اسرائیل
شعبہ اردو ،دہلی یونی ورسٹی


مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھوتی بھوجپوری فلم صنعت

0 تبصرے

مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھوتی ,بھوجپوری فلم صنعت
آپ مانیں یا نہ مانیں آج بھوجپوری سنیما ہندی سنیما کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھررہا ہے۔ یہ معاملہ صرف یوپی بہار کا نہیں ہے بلکہ دہلی اور ممبئی جیسے شہروں میں بھی جہاں اترپردیس اور بہار کے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں ہندی نغموں کے ساتھ بھوجپوری موسیقی بھی اپنی موجودگی درج کرارہی ہے۔
بچے ہوں یا جوان یا پھر بوڑھے ہر طبقہ بھوجپوری موسیقی کا دلدادہ ہے۔ایسا ممکن نہیں کہ یہ تبدیلی یکبارگی آگئی ہو اور پوروانچل (مشرقی یوپی کا وہ علاقہ جہاں بھوجپوری بولی اور سمجھی جاتی ہے) یکبارگی ہندی سنیما کو چھوڑ کر بھوجپوری کا دامن تھام لیا ہو، ضروری سی بات ہے کہ اس تبدیلی میں کچھ عرصہ لگا ہوگامگر جس سرعت کے ساتھ یہ سب ہو اوہ چونکانے والا ضرور ہے ۔
اس تبدیلی کے پیچھے سب سے بڑا محرک علاقائیت کا بڑھتا رجحان ہے،علاقائیت اگر مثبت فکر لئے ہوئے ہو تو اس کو معیوب نہیں کہا جاسکتاہے ۔اس رجحان کو اپنے تہذیب اور کلچر سے پیار کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہئے ۔یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی اجازت دستور ہند ہمیں فراہم کرتا ہے ۔
ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کی فلموں نے عرصہ سے اپنی پہچان بنالی ہے خاص طور پر کنڑاور بنگلہ فلمیں اپنے معیار کے اعتبار سے کافی ترقی کرچکی ہیں ، وہاں کی حکومتوں کا تعاون بھی انہیں حاصل رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں کی فلم انڈسٹری کے لئے یہ ممکن ہوسکا کہ وہ ہندی سنیما کا مقابلہ کرسکیں۔اس کے بالمقابل بھوجپوری کا معاملہ ذرا مختلف ہے ، ابھی تک بھوجپوری کو ایک مستقل زبان کادرجہ نہیں مل سکا ہے ، یہ زبان اب بھی جاہلوں کی زبان سمجھی جاتی ہے ، بھوجپوری بولنے والے جہاں کہیں بھی جاتے ہیں وہ اپنی زبان میں بات کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں،انہیں یہ خوف ہوتاہے کہ لوگ انہیں جاہل ان پڑھ اور گنوار نہ جانے کن کن القاب سے یاد کریں گے۔ اس سے خوف پیدا ہوگیا تھا کہ بھوجپوری زبان اور اس کے ذخیرۂ الفاظ کہیں ختم نہ ہوجائیں۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ بھوجپوری والے بھی اپنی زبان کے لئے بیدار ہورہے ہیں۔ اس کی ایک واضح ثبوت بھوجپوری سنیما کی مقبولیت ہے۔ ایک زمانہ تک بھوجپوری میں اچھے فلم ایکٹروں کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو اس سے مایوسی ہوتی تھی مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔دنیش کماریادو عرف نرہوا،روی کشن جیسے اداکاروں نے جیسے بھوجپوری سنیما میں جان ڈال دی ہے۔پہلے جہاں بڑی کمپنیاں اپنا سرمایہ لگانے سے کتراتی تھیں وہیں اب بڑی بڑی کمپنیاں اپنا سرمایہ لگارہی ہیں۔اس سے یہ امید بنی ہے کہ ایک دن بنگلہ ،پنجابی اور کنڑ فلموں کی طرح یہ بھی اپنا مقام بنالے گی۔
بھوجپوری سنیما کے ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندی سنیما گاؤں دیہات میں رہنے والوں کی آرزؤں اور امنگوں کی ترجمانی نہیں کرپارہا ہے۔’روٹی کپڑا اور مکان‘، ’مدرانڈیا ‘ اور اس زمانہ کی دیگر فلموں کو چھوڑ کر ہندی سنیما گاؤں کی زندگی سے دور ہوتاگیا،اب نہ اس کے اندر گاؤں ہے نہ گاؤں والے ہیں اور نہ ان کے مسائل۔ گاؤں والوں کے لئے اس کی کہانی اوراس کے کردار اجنبی ہوتے ہیں۔ ان کے لئے بھوجپوری فلمیں ایک بہتر متبادل کے طور پر سامنے آئیں۔اس میں گاؤں کی مٹی کی خوشبواور کھیت کھلیان اور ان کی دل چسپی اورمتوجہ کرنے والی سبھی چیزیں ہیں ۔اس میں محبت کرنے والے کارپوریٹ گھرانے کے نازونعم میں پلے بڑھے جوڑے نہیں ہیں۔بلکہ انہی جیسے بھولے بھالے انسان ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ بھوجپوری سنیما کے مخاطب صرف گاؤں دیہات کے لوگ ہیں ،بھوجپوری بولنے والے شہروں میں بھی یہ اسی طرح مقبول ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھوجپوری سنیما اپنے ابتدائی دور سے گذر رہا ہے اس کے اندر ابھی کمیاں ہوں گی اور ہیں بھی۔ سب سے بڑی خرابی بھوجپوری میںیہ ہے کہ سہل پسندی اور عامیانہ پن کی وجہ سے اس میں ہنسی مذاق عام طور پر پھوہڑ پن کے دائرہ میں آجاتے ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ بھوجپوری کلاکار اشارہ کنایہ میں بات کرنا جانتے ہی نہیں، بعض دفعہ اتنے پھوہڑ قسم کے ڈائلاگ بول جاتے ہیں کہ ان کو سن کرشرمندگی کا احساس ہوتاہے۔
ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اب تک بھوجپوری فلم کے عاشق کو عشق کرنا نہیں آیا ہے۔ اس کی ہیروئن تو عموماً پہل کرتی نظر آتی ہے جو بھوجپوری تہذیب اور معاشرہ کی ترجمانی نہیں کرتا،اس کے علاوہ یہ فطرت کے بھی خلاف ہے ۔ لڑکی کی شرم وحیا ہمیشہ یہ کام مرد ہی کے لئے چھوڑ دیتی ہے۔بھوجپوری سنیما کی ہیروئن کی پہل بھی کچھ اس انداز کی ہوتی ہے کہ اسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جائے۔شاید ہی کوئی بھوجپوری فلم ہو جس میں لڑکی کو چھیڑکر اس کے ساتھ گانا نہ فلمایا گیا ہو، دراصل بھوجپوری فلمکاروں کی ساری توجہ زیادہ سے زیادہ گانوں کو فلم میں سمونے کی ہوتی ہے اس کے لئے بے وجہ کسی نہ کسی بہانہ سے گانا اور ناچ کو جگہ دے دی جاتی ہے۔ اس کوشش میں ان کو یہ مہلت ہی نہیں ملتی کی وہ ہیرو اور ہیروئن کو اپنے عشق کو فطری انداز میں انجام تک پہنچانے کا موقع دیں۔ گویا کہ اگر ڈرامے کی زبان میں بات کریں تو بھوجپوری سنیما پر ’اندرپرست ‘ کی روایت حاوی ہے۔ جہاں تک بھوجپوری فلموں میں لباس کی بات ہے تو یہ بالی وڈسے زیادہ ہالی وڈ کی نقل کرتاہوا نظر آتا ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ آپ کو کم ہی بھوجپوری فلمیں ملیں گی جن کو اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں۔یقینی طور پر کہاجاسکتا ہے کہ بھوجپوری سنیما میں گاؤں کھلیان اور کھیت تو اپنے ہیں مگر ان میں اگنے والی فصل اپنی نہیں ہے۔
اگرچہ آج کل بھوجپوری علاقوں میں ہندی گانوں کے مقابلہ میں بھوجپوری کا چلن بڑھا ہے لیکن اگر گانوں کا یہی معیار رہا تو کچھ ہی دنوں میں اس سے لوگ اوب جائیں گے، بھوجپوری گانے عموماً ضرورت سے زیادہ طویل ہوتے ہیں، یہ طوالت اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ گانے کے بول زیادہ ہوتے ہیں اس کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی مصرعہ کو گلوکار بار بار دہراتا ہے، اس طرح جو گانا چار منٹ میں گایا جاسکتا ہے اس کے لیے سات سے آٹھ منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندی گانوں کی بھونڈی نقالی بھی طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔ابھی بھوجپوری موسیقی کو ہندی یا پنجابی موسیقی تک پہنچنے کے لیے ایک لمبا سفر طے کرنا ہے اس کے لیے بھوجپوری موسیقاروں کو ہندی گانوں کی نقالی چھوڑکر تخلیقی قوت کو بروئے کار لانا ہوگا ورنہ نقل سے کبھی پہچان نہیں بنتی۔
اس وقت عوام میں بھوجپوری فلموں کی بڑھتی مقبولیت بھوجپوری سنیما کے لیے ایک خوش آئند بات ہے ، اس دلچسپی کو برقرار رکھنے میں اگر بھوجپوری سنیما کامیاب رہا تو ٹھیک ورنہ پھر شاید یہ موقع پھر نہ مل سکے۔ 

اتوار، 17 جولائی، 2011

ممبئی سیریل بم دھماکوں کے بعد گرفتاریاں

0 تبصرے
ہندوستان میں دھماکے کہیں بھی ہوں شک کی سوئی بے چارے مسلمانوں کی طرف جاتی ہے گویا کہ ہماری ایجنسیوں نے ایک بات تسلیم کرلی ہے کہ اس دیش میں بم دھماکے صرف مسلمان ہی کرسکتاہے، ایک طرف سیکورٹی ایجنسیاں کہہ رہی ہیں کہ ان کے ہاتھ ابھی کسی قسم کے ثبوت ہاتھ نہیں لگے دوسری طرف انڈین مجاہدین اور دوسری تنظیموں کا نام لیا جانے لگا، مسلم ناموں کا نام لیا جانے لگا۔ ٹی وی چینل جتنی تیزی کے ساتھ اس کیس کی تحقیقات کررہی ہیں اس کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ حکومت کو یہ ذمہ داری انہیں چینلوں کو سونپ دینا چاہیے۔ اسی درمیان ایک الگ آواز بھی آئی جو دگ وجے سنگھ کی تھی انہوں نے صرف اتنا کہا کہ سنگھ پریوار کے رول سے ہم ان دھماکوں میں انکار نہیں کرسکتے۔ بات واجبی تھی، اس سے پہلے بھی کئی دھماکوں میں ان تنظیموں کے شامل ہونے کے ثبوت ملے ہیں، اس لیے جس طرح دوسری دہشت گرد تنظیموں کے رول کی جارہی ہے ان تنظیموں کے رول کی بھی جانچ ہونی چاہئے۔ ہندو دہشت گرد تنظیموں کے رول کی جانچ کی بات پر بی جے پی کے اندر تہلکہ کیوں مچ گیا ؟ کہیں دادا گیری کے ذریعہ جانچ کو ایک خاص سمت میں لے جانے کی کوشش تو نہیں ہے؟
       سیاسی حلقوں میں یہ آواز اٹھنی شروع ہوگئی تھی جب سے ہندو دہشت گرد چہرے سامنے آئے اسی وقت سے بم دھماکے بند ہوگئے، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دھماکے صرف یہ ثابت کرنے کے لئے ہوں کہ ہندو دہشت گرد ہی تمام دھماکوں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔     
میں دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے جوڑنے کا مخالف رہا ہوں۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ ان دھماکوں کی غیر جانب دارانہ جانچ ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جو پولیس ایک مسلم نوجوان کی اس رپورٹ پر کوئی کاروائی نہیں کرتی کہ اس نے چار لوگوں کو بم پلانٹ کرنے کی بات کرتے سنا، اس کو پولیس اسٹیشن سے واپس بھیج دیا گیا۔ اب وہی پولیس اتنی مستعد ہوگئی ہے کہ ایک شخص کو صرف اس لئے گرفتار کرلیتی ہے کہ مرشدآبار میں اس کے پاس مراٹھی لٹریچر ملا ہے۔ ابھی ڈاکٹر سین کے معاملہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے کہ کسی بھی زبان کا لٹریچر کسی کے خلاف ثبوت نہیں بن سکتا ہے۔ آخر بار بار یہ غلطی کیوں دہرائی جاتی ہے؟
       دوسری بات یہ کہ اس معاملہ میں بھی آنکھ بند کرکے مسلم نوجوان گرفتاریاں ہورہیں ہیں، مجھے پورا یقین ہے کہ کچھ دنوں کے بعد ان کو چھوڑ دیا جائے گا اس لئے کہ ان کو عوام کا غصہ سرد کرنے کے لئے بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کیا جارہاہے۔ لیکن ان نوجوانوں کے کیریر کا کیا ہوگا؟ وہ گرچہ چھوڑ دیے جائیں گے مگر عوام ان کو گنہگار ہی تصور کرے گی۔ ان سے نفرت کرے گی۔ عام جگہوں پر ان کا اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوجائے گا۔ اس لئے خدا کے لیے نوجوانوں کے کیریر کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے اس لئے کہیں کوئی حقیقت میں اس قسم کی بے وقوفی نہ کر بیٹھے۔


پیر، 11 جولائی، 2011

اسکولی بچوں کو تقریر کی مشق کیسے کرائیں؟

0 تبصرے
بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے اور لوگوں کے سامنے اپنی بات کو بہتر ڈھنگ سے پیش کرنے کی مشق کرانے کے لیےتقریر کی مشق کرانی چاہئے۔ تقریر صرف اپنی بات پیش کرنے ہی کا نام نہیں ہے بلکہ دوسروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی ہے۔ جملوں کی ترتیب، الفاظ کا زیروبم، جملوں کے بیچ ٹھہراو یہ سبھی چیزیں تقریر میں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان سب سے زیادہ اہم بات موضوع کا انتخاب اور مواد کی فراہمی ہے۔ موضوع کا انتخاب استاد کے مشورہ سے طالب علم خود اپنے طور پر کرسکتاہے، ابتدائی جماعتوں میں استاد بچوں کےذہن کو مدنظر رکھتے ہوئے موضوع کا انتخاب کردے تو کوئی حرج نہیں ہے مگر اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ بچوں کی تخلیقی اور اختراعی ذہنیت پر اس سے حرف نہ آئے۔ جہاں تک مواد کی فراہمی کی بات ہے تو طلبہ کو ہمیشہ آس پاس کی چیزوں کو خود غور سے دیکھنے اور ان سے سیکھنے کا مشورہ دینا چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر موضوع '' صفائی ستھرائی کے فوائد'' ہو تو بچوں کو کہا جائے کہ وہ گندگی سے پھیلنے والی بیماریوں کے بارے میں جانکاری حاصل کریں، گھر اور محلہ کی صفائی کے سلسلے میں کس قسم کی لاپرواہیاں ہوتی ہیں ان کا جائزہ لیں۔ اس کے بعد طلبہ اپنی سوچ کے مطابق ان سب پریشانیوں کا حل پیش کریں۔ اور اس کے فوائد گنائیں۔ اس طرح ان کو تقریر کا مواد خود ان کے آس پاس سے مل جائے گا۔ اور ان کے اندر غور وفکر کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی۔ تقریر کی مشق ہم دو طرح کرسکتے ہیں:
۱۔ فی البدیہہ
۲۔ غیر فی البدیہہ یا فصیح تقریر
فی البدیہ تقریر کے اندر یہ جانچنا ہوتاہے کہ طالب علم فوری طور پر بغیر کسی پیشگی تیاری کے کس طرح اپنی بات سامعین کے سامنے رکھ پاتا ہے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر یہ بھی مشق وتمرین چاہتاہے۔ طلبہ کو اس کی مشق کرانی چاہئے۔ اس لئے کہ زندگی میں اکثر مواقع ایسے ہی آئیں گے جن میں طلبہ کو بغیر کسی پیشگی تیاری کے ہی بولنا ہوگا۔ ا س لئے انہیں اس کے لئے تیار ہونا چاہئے۔ اس میں چونکہ طلبہ کو تقریر کا موضوع اسٹیج پر ہی دیا جاتا ہے اس وجہ سے مناسب یہ ہے کہ موضوع کا انتخاب کچھ اس طرح کا ہو کہ جس سے طالب علم دلچسپی لے سکے۔ اس کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ طالب علم سے کہا جائے کہ وہ ایک لیڈر کی حیثیت سے تقریر کرے جس میں وہ اپنے پانچ سال کے کارناموں کو گناکر اپنے لئے ووٹ کی اپیل کرے۔ یا اس قسم کا کوئی بھی موضوع دیا جاسکتاہے۔ اس میں گھسے پٹے موضوعات دینے سے احتراز کیا جائے۔
فصیح تقریر کے بارے میں طالب علموں کو کہاجائے کہ وہ اس کے لئے مواد خود تلاش کریں۔ کسی مشہور مقرر کی لکھی ہوئی یا کہی ہوئی تقریر زبانی یاد کرکے سنادینے سے اچھا ہے کہ نامکمل جملوں کے ساتھ طالب علم خود کی تیار کی ہوئی تقریر کہے، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب خود اپنی تقریر تیار کرنے میں ہونے والی غلطیوں پر ان کی سرزنش کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی ہو۔
مباحثہ
سیکھنے سکھانے کے جدید طریقوں میں سے ایک اہم طریقہ ہے بحث و مباحثہ۔مباحثہ دراصل عربی کا لفظ ہے جو مفاعلہ کے وزن سے ہے اس کے اندر دو طرفہ تال میل ہوناضروری ہے۔ مباحثہ استاد اپنی نگرانی میں کرئے تو بہتر ہے اس لئے کہ اسی صورت میں اس کے فوائد سامنے آسکتے ہیں۔ مباحثہ کے لیے تقریر کی طرح پہلے سے موضوع کا انتخاب ہونا چاہیے۔ طلبہ کو دو گروپ میں تقسیم کرنے کسی بھی موضوع کے مثبت یا منفی پہلو کے بارے میں مواد اکٹھا کرنے کو کہا جائے۔ اس کے بعد جب مباحثہ شروع ہو تو استاد دونوں طرف کی گفتگو کو بغور سنے اور بعد میں دونوں طرف کی کمزوریوں کا خلاصہ کرے۔ مباحثہ گروپ کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے اور انفرادی طور پر بھی ہوسکتاہے۔ باری باری دونوں طریقے اپنانا طلبہ کے حق میں بہتر رہے گا۔



منگل، 14 جون، 2011

راقم کی یادگار تصویر خلیل اللہ کے ساتھ

2 تبصرے

Photo

0 تبصرے

My brother Khalillah & me at nirankari park delhi

Uzair photo

0 تبصرے

* Original message *
From:
uzairahmad3@gmail.com
Sent:
06:23:48pm
12-06-2011
To:
[Uzair New] uzairahmad3@gmail.com
Subject:
FW: Nel

اتوار، 13 مارچ، 2011

0 تبصرے