منگل، 16 فروری، 2010

انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کی عدم دستیابی ،ذمہ دار کون؟

2 تبصرے

موجودہ دورمیں انٹرنیٹ کی بڑھتی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ نوبل پرائز کے لئے انٹرنیٹ کو نامزد کیا گیا ہے۔انٹرنیٹ ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے پوری دنیا سمٹ کر ایک چھوٹی اسکرین پر ہماری نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔کہیں بھی اور کسی بھی وقت ہم اس کا استعمال کرسکتے ہیں مگرانٹرنیٹ اپنی تمام وسعتوں کے باوجود اردو دنیا کے لئے آج بھی ایک تنگ وتاریک کوٹھری سے زیادہ نہیں۔انٹرنیٹ پر جہاں دنیا کے تمام علوم سے متعلق مواد ایک بھاری مقدار میں موجود ہیں وہاں اردو زبان و ادب کے حوالے سے سوائے چند ایک ویب سائٹوں کے کچھ نہیں ملتا۔ جو سائٹیں اردو زبان وادب کے حوالے سے ہیں ان کی حالت وہی ہے جو ہندوستان میں ارد وکی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ خراب پوزیشن میں ہے۔اردو ادب کے حوالے سے چند شاعروں اور ادیبو ں کا مختصر تعارف نامکمل حد تک ہے۔

اردو ادب کے علاوہ اگر اسلامی موضوعات پر اردو ویب سائٹوں کی بات کریں تو کسی حد تک اسے قابل اطمینان قرار دیا جاسکتاہے۔کتاب و سنت ڈاٹ کام (kitabosunnah.com)وغیرہ ویب سائٹوں پر نہ صرف کتابوں کو پڑھا جاسکتاہے بلکہ ضرورت کے مطابق انہیں اپنے کمپیوٹر پرمفت میں ڈاؤن لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔اردو اخبارات کی موجودگی بھی کسی حد تک قابل اطمینان ہے،’ہمارا سماج‘سمیت اردو کے کئی اخبارات انٹرنیٹ کے توسط سے عالمی سطح پر اپنی آواز پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

لیکن جب معاملہ اردو ادب اور دوسرے علوم پر مشتمل اردو کتابوں کا آتا ہے اردو قاری کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں آتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میدان میں اردو پوائنٹ،وکی پیڈیا ،اقبال سائبر لائبریری ڈاٹ نیٹ اور اردو دوست ڈاٹ کام کے علاوہ کتاب گھر ڈاٹ کام وغیرہ اپنی خدمات فراہم کررہی ہیں۔ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بے انصافی ہوگی۔ خاص طور پر اقبال سائبر لائبریری شکریہ کیمستحق ہے جس پر علامہ اقبال پر لکھی گئی منتخب کتابوں کے علاوہ چند کلاسیکی ادب کی کتابوں کوبھی آن لائن پڑھا جاسکتا ہے۔ کم از کم ان سائٹوں نے اردو ادب کے حوالے سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو کچھ نہ کچھ مواد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان ویب سائٹوں پر منتخب موضوعات پر موجود کتابوں کو نہ صرف یہ کہ قارئین پڑھ سکتے ہیں بلکہ بوقت ضرورت ان کو ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔کمی صرف اس بات کی ہے کہ کتابوں کی تعداد بہت کم ہے ۔دوسری بات یہ کہ معروف قلم کاروں کی کتابیں ان پر موجود نہیں ہیں۔اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے معروف قلمکاروں کا تعاون ان ویب سائٹوں کو نہیں مل رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غیر معروف قلمکار اپنی کتابوں کی اشاعت کے لئے اس کو ایک بہترین ذریعہ کے طو رپر دیکھتے ہیں اور اپنی کتاب کو اس پر آسانی سے بغیر کسی خرچ کے شائع کردیتے ہیں۔غیر معروف قلمکاروں کی کتاب ہونے کی وجہ سے ان میں سے اکثر کتابیں غیر مستند ہوتی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا ذریعہ جس سے پوری دنیا تک یکساں طو رپر رسائی حاصل کی جاتی ہے۔اس سے اردو دنیا کی محرومیکیا افسوسناک نہیں ہے؟ آخر سوال یہ ہے کہ اس المیہ اور بحران کا ذمہ دار کون ہے؟حکومت یااردو کے نام پر قائم ادارے اوریا اردو تنظیمیں یا اردو عوام۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ یہ کہہ کر اپنا دامن بچا سکتی ہے کہ اس نے اردو کے فروغ کے لئے اردو اکادمی اور اردو کونسل کے نام سے ادارے قائم کردئیے ہیں۔ یہ کام ان اداروں کا ہے۔اگر بات تنظیموں کی ہو تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام ان ادارو ں کا ہے جو اردو کے نام پر قائم ہیں۔اردو کے فروغ کے لئے حکومت انہیں کروڑوں روپے کا بجٹ دیتی ہے مگر یہ پیسے جاتے کہاں ہیں؟کس مقصد کے لئے اس رقم کا استعمال ہوتا ہے، یہ کسی بھی اردو داں طبقہ سے پوشیدہ نہیں۔اردو کے نام پر جلسے اور سیمینار ،مشاعرے منعقد کر کے چند لوگو ں کی جیبیں گرم کردی جاتی ہیں مگر اس سے خود اردو زبان کا فائدہ کہاں تک ہوا ہے اس کی طرف کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔

جب بات اردو زبان وادب کے حوالے سے ہوتی ہے تو ہر ایک کی نظر اردو اکادمی اور اردو کونسل کی طرف اٹھتی ہے اور اٹھنی بھی چاہئے اس لئے کہ حکومت انہیں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے رقم مہیا کراتی ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ان دونوں ادارو ں نے انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے کیا کام کیا ہے۔ جہاں تک اردو اکادمی کی بات ہے تو ہندوستان کے اکثر صوبوں میں اردو اکادمیاں قائم ہیں مگر میری ناقص معلومات کے مطابق دہلی اردو اکادمی کے علاوہ کسی بھی اکادمی کی ویب سائٹس نہیں۔ابھی اسی ہفتہ اردو اکادمی کی ویٹ سائٹ کا افتتاح عمل میں آیا ہے مگر سب سے اہم حصہ اردو لائبریری کو اس میں نہ رکھ کر اردو عوام کو وعدوں پرٹال دیا گیا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اردو اکادمی اپنے رسالوں کو بھی اپنی کتابوں سمیت پراس سائٹ ڈال دیتی۔

اردو کونسل کا اردو کتابوں کی اشاعت میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے ماتحت قائم اس ادارے کو اردو کے نام پر میری ناقص معلومات کے مطابق سب سے زیادہ بجٹ ملتا ہے مگر افسوس کہ اردو کونسل نے انٹر نیٹ پر اردو ادب کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا ۔حالانکہ وہ بڑی آسانی کے ساتھ اردو کلاسیکی ادب اور جدید ادب کو انٹرنیٹ پر پیش کرسکتی تھی اس کے پاس نہ تو افراد کی قلت ہے او رنہ بجٹ کی ۔اردو کونسل نے بہت ساری قدیم وجدید اردو کتابیں شائع کی ہیں اگر اردو کونسل کچھ نہ کرے تو کم ازکم انہیں کتابوں کی PDFفائل انٹرنیٹ پر مہیا کرد ے تاکہ اردو زبان و ادب پر تحقیق کرنے والوں کو آسانی ہو۔اردو کونسل کم از کم یہ کام تو کرسکتی ہے کہ اپنے یہاں سے شائع اردو انسائیکلوپیڈیا کو ایک سافٹ وےئر کی شکل دے دیتی جس کو اردو قاری اپنے کمپیوٹر پر لوڈکرسکے۔

یہاں پر میں اس خیال کی تردید کردینا مناسب سمجھتا ہو ں کہ انٹرنیٹ پر کتابوں کی اشاعت سے کتابوں کی فروخت پر اثرپڑتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو کتابوں کے ناشرین لائبریریوں میں اپنی کتابوں کو رکھنے کی اجازت نہیں دیتے،اس لئے کہ وہا ں بھی ایک ہی کتاب سے ہزارو ں لوگ استفادہ کرتے ہیں۔دراصل کتابوں کا ڈیجیٹل ایڈیشن کبھی بھی روایتی کتابوں کی جگہ نہیں لے سکتا۔ڈیجیٹل کتابوں کو ضرورت کے وقت صرف خاص مقامات کو دیکھنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا۔ مکمل کتاب کا مطالعہ کمپیوٹر پر پڑھنا ممکن نہیں ہے۔یہی وجہ یہ کہ انگریزی کتابوں کے ڈیجیٹل ایڈیشن ہونے کے باوجود ان کی اشاعت کروڑوں میں ہوتی ہے۔

اس تعلق سے ایک اہم کام مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کرسکتی ہے۔ اس یونیورسٹی کا قیام ہی اردو زبان کے فروغ کے لئے ہوا ہے۔اس نے اپنے طلبہ کی ضرورت کے لئے مختلف علوم پر مشتمل درسی کتابوں کا اردومیں ترجمہ کرایا یہ کتابیں انتہائی اور اہم ہیں جو شاید ہی اردو یونیورسٹی کے علاوہ کسی اور جگہ مل سکیں ۔لہذا اردو زبان کی خدمت کے لئے یہ یونیورسٹی اپنی ان درسی کتابوں کو آن لائن مطالعہ کے لئے پیش کرسکتی ہے۔ اس سے مختلف علوم میں انٹرنیٹ پر اردو کتابوں کی کمی ایک حد تک پوری ہو جائے گی۔بہت سارے ایسے علوم ہیں جن پر اردو یونیورسٹی کے علاوہ کہیں دوسری جگہ اردو میں مواد ملنا کافی مشکل ہے۔لہذا یونیورسٹی کو اردو کے فروغ کے لئے یہ کام ضرور کرنا چاہئے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بعض دفعہ طلبہ کو کتابیں ڈاک سے نہیں موصول ہوپاتی ہیں۔ ایسی صورت میں ان کتابوں کو آن لائن پڑھ کر امتحان کی تیاری کرسکتے ہیں۔

اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں انسائیکلوپیڈیا اور زبان و ادب سے متعلق کمپیوٹرپروگرام اور سافٹ وےئر موجود ہیں۔خاص طور پر انگریزی میں انسائیکلوپیڈیا آ ف برٹانیکا اور عربی میں المکتبۃ الشاملۃ خاص طور پرقابل ذکر ہیں۔ افسوس کہ اردو میں کوئی ایسی کوشش سامنے نہیں آئی۔ یہ کام اردو اکادمیوں ، قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کا ہے اوراردو کے نام پر قائم دیگر ادارو ں کا ہے ۔اردو عوام اس تعلق سے ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔وہ گوگل،یاہو اور ایم ایس این وغیرہ جیسی ویب سائٹوں کو خطوط لکھ کر انہیں مجبور کرسکتے ہیں کہ ہندوستان،پاکستان اور پوری دنیا میں موجود اردو برادری کا خیال رکھتے ہوئے اردو سروس بھی شروع کریں۔اس طرح حکومتی،تنظیمی اور عوامی سطح پر جب کوشش ہوگی تو امید ہے کہ جلد ہی اردو زبان و ادب انٹرنیٹ پر اپنی موجودگی درج کرالے گا اور اردو والوں کو انٹرنیٹ پر بیٹھ کر اس مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے گا جو آج کرنا پڑرہا ہے۔


اتوار، 18 اکتوبر، 2009

نیا تعلیمی نظام کہیں معیار تعلیم کے ساتھ کھلواڑ تو نہیں

0 تبصرے


منموہن حکومت کی کابینہ میں جب سے  سبل صاحب نے وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کا قلمدان سنبھالا ہے تب سے ان کے بلند بانگ دعوے ہر روز اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔ اگر ان دعوؤں پر یقین کیا جائے تو بھارت کے تعلیمی نظام میں آنے والے چند سالو ںمیں انقلاب برپا ہونے والا ہے۔
آئےے ہم دیکھتے ہیں کہ موصوف کے منصوبے کیا ہیں ؟اور اس سے کس قسم کے انقلاب کی توقع کی جاسکتی ہے؟
کپل سبل صاحب کے اعلان کے مطابق اس سال سے سی بی ایس ای (CBSE)اسکولوں میں دسویں کلاس کے لئے گریڈنگ سسٹم کا نفاذ اور اگلے سال سے دسویں کا بورڈ امتحان ختم کر دیا جائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس سے بچوں پر ذہنی دباؤ کم ہوگا اور نمبر گیم کے چکر میں بچوں کی معصومیت کا خون نہیں ہوگا۔
سب سے پہلے ہم گریڈنگ سسٹم کی بات کرتے ہیں۔ اس سسٹم میں اب بچوں کو فیصد میں نمبرات ملنے کی بجائے A،A+، BاورB+میں نمبرات دیئے جائیں گے۔ لہٰذا اب اگر کسی طالب علم کا مجموعی فیصد ٩١ بنتا ہے اور دوسرے کا ٪٩٨ ،تودونوں کو ایک ہی گریڈ ملے گا۔ اس سسٹم کی وجہ سے بچے تعلیم سے لاپرواہ نہ ہوجائیں اس سے بچنے کے لئے (CCE) Continual Comprehensive Evaluation کا نظام نافذ ہوگا جس میں پورے سال لگاتار اسسمنٹ کیا جائے گا۔ اس میں کتابی علم کے علاوہ کھیل کود، نظم و نسق، اخلاق اور بچے کی قائدانہ صلاحیتوں کو جانچا پرکھا جائے گا اور اس پر طلبہ کو نمبرات دئے جائیں گے۔
اس نظام کو نافذ کرنے کا بنیادی مقصد جیسا کہ بتایا جارہا ہے بچوں کے دلوں سے امتحان کا خوف ختم کرنا ہے اور تعلیم کو لے کر ان کے ذہنوں پر بے جا دباؤ کوکم کرنا ہے لیکن اگر غورکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ دباؤ اب بھی لگاتار اسسمنٹ کی وجہ سے برقرار ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ دباؤ ان معصوموں پر پڑے گا۔
اسسمنٹ نظام کی سب سے بڑی برائی جو سامنے آئے گی وہ یہ کہ اب طلبہ اساتذہ کو خوش کرنے پر زیادہ توجہ دیںگے۔ اساتذہ اپنے چہیتے بچوں کو من مانی نمبر دیںگے۔ اس سے مستحق طلبہ کی حق تلفی کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اس سسٹم کے لئے خاکہ بناتے وقت انسانی نفسیات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ جب تک انسان پر کوئی داخلی یا خارجی دباؤ نہ ہو آدمی صحیح طور پر کام نہیں کرتا ہے۔ ایک معمولی سی مثال لیں کہ آپ کو صبح چار بچے کی ٹرین پکڑ کر کہیں جانا ہوگا تو ضروری سی بات ہے کہ اس کےلئے ہر حال میں وقت سے پہلے بیدار ہو کر اسٹیشن پہنچ جائیں گے تاکہ ٹرین نہ چھوٹے۔ اور اگر معاملہ یہ ہو کہ آپ کو خود کی سواری سے کہیں جانا ہو اور وقت کی کوئی تعین نہ ہو تو گھر سے نکلتے نکلتے ١٢ بجے جائیں گے۔ یہ عام مشاہدہ کی بات ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔
موجودہ نظام سے کم از کم طلبہ امتحان کے خوف سے پڑھائی پر توجہ دیا کرتے تھے وہ اب فیل ہونے کا خوف نکل جانے کی وجہ سے سال بھر پڑھائی سے زیادہ کھیل کود اور دوسری غیر تعلیمی مصروفیات میں اپنا وقت ضائع کریں گے۔ یہ بچے نہ خود پڑھیں گے اور نہ دوسروں کو پڑھنے دیں گے اس طرح اسکول کا ماحول خراب ہوکر رہ جائے گا۔
گریڈنگ سسٹم کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ CBSEکے علاوہ دوسرے بورڈ اس کو نافذ نہیں کر رہے ہیں۔ اس سے پہلی بات تو یہ کہ ملک کے دوسرے بورڈوں سے CBSEکی دوریاں اور بڑھیںگی اوردوسری بات یہ کہ ملک کی بہت ساری یونیورسٹیاں اپنے یہاں داخلہ میرٹ کی بنیاد پر دیتی ہےں۔ ایسے میں ان طلبہ کے سامنے داخلہ کا بھی مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
کل ملا کر گریڈنگ سسٹم سے کسی مثبت تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
کپل سبل صاحب نے دوسرا بڑا اعلان یہ کیا ہے کہ اگلے سال سے دسویں کا امتحان اختیاری ہوجائے گا۔ وزیر موصوف کی نظر میں دسویں کا بورڈ امتحان کا رِعبث ہے۔
دراصل دسویں تک ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں سبھی طالب علموں کو ایک ہی جیسے مضامین پڑھنے ہوتے ہیں۔ دسویں کے بعد مضمون کے اختیار کرنے کا مسئلہ ہوتا ہے یہیں سے یہ طے ہوتا ہے کہ طالب علم آرٹس، سائنس یا کامرس میں سے کس طرف جانا چاہتا ہے۔ لہٰذا دسویں پاس کرنے کا مطلب ہوا کہ بچے نے ایک مرحلہ مکمل کرلیا ہے اب اس کو دوسرے مرحلہ میں قدم رکھنا ہے۔ اس وجہ سے بورڈ کا امتحان لیا جاتا ہے تاکہ سبھی بچوں کو ایک ہی معیار پر نمبرات ملیں۔ ورنہ ہر اسکول اپنے حساب سے نمبر دے گا جس سے اس کا اعتبار مجروح ہوگا۔
بورڈ امتحان کے خوف سے طلبہ پڑھائی میں دلچسپی لیتے ہیںبورڈکا خوف ختم ہونے کی وجہ سے پڑھائی سے بے پروا ہی بڑھے گی اور اس کا برا نتیجہ بار ہویں کے امتحان میں سامنے آ سکتاہے۔ جس انداز سے وزیر محترم طلبہ کی سہولت پر خصوصی دھیان دے رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ کچھ سالوں میں وہ بارہویں کے بورڈ امتحان کو بھی اختیاری کر سکتے ہیں۔ اس سے تعلیم کا کیا ہوگا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
بورڈ متحان صرف اسکولوں کے لیے نہیں بلکہ کچھ ایسا نظام بنایا جائے کہ مدارس کا بھی کم از کم آخری سال کا امتحان بورڈ کے ذریعہ ہو۔اس لیے کہ مختلف مدارس میں نمبرنگ کے مختلف پیمانے ہونے کی وجہ سے اس کا معیار مجروح ہوتا ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے مدرسہ بورڈ کا سوسہ چھوڑ کر سابق ایچ آر ڈی (HRD)منسٹر ارجن سنگھ نے پورے مدارس برادری کو دو خانوں میں تقسیم کردیا تھا،میری رائے یہ ہے کہ (CBSE)کے پیٹرن پر حکومت کسی ایسے بورڈ کی تشکیل کرے جو فضیلت کے بعد پورے ملک میں امتحان کراکر انہیں بارہویں کے مساوی سرٹیفکٹ دے تاکہ یہ طلبہ عام طالب علموں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چل سکیں۔ اگر چہ مدارس کے نصاب میں یکسانیت نہیں ہے مگر جس طرح CBSEکوآرٹس ،کامرس اور سائنس کے بارہوں کے امتحانات کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی اس طرح مختلف نصاب والے مدارس کے سلسلے میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
اب تک مدرسہ بورڈ کے نام پر جو ادارے ملک کے مختلف صوبوں میں رائج ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ اس کے فارغین کی اخلاقی حالت پر شک ہونے لگتا ہے کیونکہ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے امتحانات میںجبہ ودستار والے 'دینی رہنما' اپنی ماتحتی نقل کراتے ہیں۔
وزیر موصوف کو چاہئے کہ تعلیم کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دیں۔تعلیمی اداروں میں صرف اسکول ہی نہیں آتے بلکہ مدارس اسلامیہ بھی ملک کے تعلیمی نظام کا حصہ ہیں لہذا انہیں ساتھ لیکر چلیں۔ ملک کے سرکاری اسکولوں کی حالت دن بدن خستہ ہوتی جارہی ہے۔ سرکاری پرائمری اسکولوںکی ایک بڑی تعداد صرف ایک ٹیچر کے سہارے چل رہی ہے۔ اسکولوں کی عمارتیںاس قدر خستہ ہےں کہ آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں دہلی کے ایک سرکاری اسکول میں بھگڈر مچنے کی وجہ سے سات اسکولی طالبات اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اس کے لئے جہاں اسکول انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے وہیں اسکول کی بوسیدہ عمارت کو بھی اس بھگدڑ کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
کپل سبل صاحب کو سوچنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں ٹیچر بننے کے لئے تو لوگ لاکھوں روپئے رشوت دینے کو تیار رہتے ہیں مگر متوسطہ طبقہ بھی اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیجنا گوارا نہیں کرتا۔
اسکولوں میں معمولی بنیادی سہولتوں کے فقدان کے باوجود محض دعوؤں کی بنیاد پر پورے تعلیمی سیکڑ میں انقلاب برپاکرنے کی بات کرنا محض کام خیالی ہوگی۔    ٭٭٭



ہفتہ، 8 اگست، 2009

خواتین ریزرویشن بل

0 تبصرے


یوپی اے حکومت نے خواتین ریزرویشن بل کو ایک مرتبہ پھر پارلیامنٹ میں بھیج کر اس مسئلہ کو ملکی پیمانہ پر بحث کا موضوع بنا دیا ہے۔ اس کی مخالفت اور حمایت کرنے والی پارٹیاں آمنے سامنے آگئی ہیں۔ شرد یادو نے یہ کہہ کر کہ اگر بل پاس ہو گیا تو میں زہر کھالوںگا اس بحث کو مزید تیز کر دیا ہے۔ اس کی مخالفت اور حمایت کے بیچ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا خواتین کو پارلیامنٹ میں ریزرویشن دینا ملک و قوم کے لئے فائدہ مند ہو گا اور عام خواتین کو اس کا فائدہ ملے گا؟
اس پورے مسئلہ پر گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ خواتین ریزرویشن بل کا خیال ہمارے نیتاؤں کو کس طرح آیا؟ دراصل اندرا گاندھی کی موت کے بعد تمام تخمینوں کو درکنار کرتے ہوئے ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو زبردست کامیابی ملی۔ بعد میں جب اس کا میابی کے محرکات کا پتہ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ عورتوں نے اندراگاندھی کی حادثاتی موت سے متاثرہو کر تمام حد بندیوں سے پرے ہٹ کر کانگریس کو ووٹ دیا۔ اس سے پہلی دفعہ ہمارے سیاست دانوں کو عورتوں کے ووٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ پھر اس ووٹ کو کاسٹ کرنے کیلئے خواتین ریزرویشن بل پیش کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بل کا محرک عورتوں کی فلاح و بہبود کے بجائے ان کے ووٹ کا حصول ہے۔ یہ بل گذشتہ ١٣سالوں سے زیر غور ہے۔ گذشتہ یوپی اے اور این ڈی اے دونوں حکومتیں اس کو پیش کر چکی ہیں۔ مگر ان دونوں نے اسے حکومت کی مدت ختم ہونے سے کچھ دنوں پہلے پیش کیا اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ بل بھی پیش ہوجائے اور پاس بھی نہ ہو سکے۔
اس مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ کانگریس اس بل کو پاس کرانے کے لئے دل سے کوشاں ہے۔ اس وجہ سے اس نے اس کو حکومت بنتے ہی پیش کر دیا ہے۔
ملک میں پنچایت کے الیکشن میں پہلے سے کچھ جگہوں پر ٥٠ فیصدر یزرویشن ہے مگر اس کی مخالفت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ پردھان اگرچہ کاغذی طور پر عورتیں ہوتی ہےں مگر ساری کارروائی ان کے شوہر چلایا کرتے ہیں۔ مگر یہاں پارلیامنٹ میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
خواتین ریزرویشن بل کی حمایت کرنے والے خواہ کچھ بھی کہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس بل کے ذریعہ وہ لوگ بڑی ذات کی حصہ داری بڑھانا چاہتے ہیں۔ منڈل کمیشن کی وجہ سے کچھ سیٹیں جو کمزور طبقات کے لئے خاص ہوگئی ہیں اس کمی کو عورتوں کے ذریعہ پوری کرنا چاہتے ہیں۔ ضروری سی بات ہے کہ عام عورتیں سیاست میں نہیں آئیںگی۔ سیاست میں وہی عورتیں آئیںگی جو سیاسی بیک گراؤنڈ سے ہوںگی۔ یہی وجہ ہے کہ ملائم سنگھ، لالو پرساد اور ملک کا ایک بڑا طبقہ یہ آواز بلند کررہا ہے کہ خواتین ریزرویشن میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور مسلم خواتین کا کوٹہ مقرر ہوتا کہ بڑی ذات کی عورتیں ہی اس بل کا فائدہ نہ اٹھائیں۔ ان لوگوں کا خدشہ صحیح بھی ہے۔ موجودہ الیکشن کے نتائج پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس مرتبہ ٥٨ عورتیں لوک سبھا کا الیکشن جیت کر آئی ہیں ان میں سے ٣٦ عورتیں نیتاؤں کی بہو بیٹیاں ہیں۔ اگر اترپردیش کی بات کریں جہاں سے سب سے زیادہ ١٢ عورتیں جیت کرآئی ہیں تو معلوم ہوگا کہ ٣ کو چھوڑ کر سبھی سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں، جو تین باقی بچی ہیں ان میں جیابچن کو فلمی ہستی ہونے کا فائدہ ملا تو بقیہ دو بڑے گھرانوں سے تعلق کی وجہ سے کامیاب ہو سکی ہیں۔
ایسے میں اگر اس بل میں ترمیم کرکے پسماندہ طبقات کے لئے سیٹ مختص نہیںجائے گی تو ضروری سی بات ہے کہ سیاست میں ایک مرتبہ پھر بڑی ذات کے لوگوں کا دبدبہ ہوجائے گا۔ بلکہ پارلیامنٹ نیتاؤں کا گھرا ۤنگن ہوجائے گا۔ جس میں ہر بڑا نیتا اپنی بہو سے لے کر پوتی تک کو لانا چاہے گا۔
سچ پوچھئے تو ریزرویشن ملک کو بانٹنے کا کام کر رہا ہے۔ ایک آدمی جو ہر قسم کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے اس کے باوجود آگے نہیں آپاتا ہے اس لئے کہ وہ بڑی ذات کا ہے جب کہ کم جاننے والا صرف چھوٹی ذات والا ہونے کی وجہ سے رکھ لیا جاتا ہے۔ اس سے تمام سیاسی اداروں کی کارکردگی متاثر ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسے میں ملک پر ایک اور ریزرویشن لاگو کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
دلتوں کو سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن دینے کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ چھوت چھات کا سلوک کیاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ آواز اٹھائی کہ ان مسلمانوں کو بھی ایس سی، ایس ٹی کا درجہ دیاجائے جو ان جیسے کام کر رہے ہیں مثلا مسلمان بھنگی وغیرہ تو کہا گیا کہ چونکہ مسلمانوں کے یہاں چھوت چھات نہیں ہے اس وجہ سے اگرچہ وہی کام جس کی بنیاد پر ہندؤوں کو ایس سی، ایس ٹی کا درجہ ملا ہے کوئی مسلمان کرے تواس کو یہ درجہ نہیں مل سکتا۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایس سی، یا ایس ٹی کوٹے پر سرکاری ملازم ہو اور مسلمان ہوجائے تو اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ معلوم نہیں صرف اسلام قبول کرلینے سے اس کی حالت میں کون سا اتنا بڑا انقلاب آگیا کہ جس کی بنیاد پر اب وہ پسماندہ نہیں رہ گیا۔
خیر !بات یہ تھی کہ اگر عورتوں کو اس وجہ سے ریزرویشن دیا جا رہا ہے کہ وہ اچھوت ہیں تو یہ بات بالکل غلط ہے اور اگر مقصد یہ ہے کہ ان کی نمائندگی آبادی کے لحاظ سے بڑھائی جائے تو صرف عورتیں ہی کیوں آزادی سے لے کر اب تک مسلمانوں کی نمائندگی حکومت کے ہر شعبہ میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے ساتھ یہ رعایت کیوں نہیں؟
محترم سلمان خورشید صاحب نے وزارت برائے اقلیتی امور کا عہدہ سنبھالتے ہی بیان دیا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کا علاج ریزرویشن نہیں ہے۔ آخر یہ دوہری پالیسی کیوں؟ تو کیا دلتوں اور عورتوں کی پسماندگی کا علاج ریزرویشن ہے؟
آج حالت یہ ہے کہ بی ایس پی، اے آئی ڈی ایم کے اور ترنمول کانگریس جیسی سیاسی پارٹیاں ہیں جن کی کرتا دھرتا عورتیں ہیں۔ ملک کی برسراقتدار پارٹی کانگریس کی سربراہ عورت ہے۔ اگر کانگریس کی بات چھوڑ دی جائے تو مذکورہ بالا پارٹیوں کو کون روکتا ہے کہ یہ عورتوں کو زیادہ سے زیادہ ٹکٹ دے کر انہیں پارلیامنٹ بھیجیں۔ کیا یہ پارٹیاں چاہتی ہیں کہ انہیں قانون بنا کر مجبور کیا جائے تب ہی وہ ایسا کریںگی۔ خواتین کی ماتحتی والی پارٹیوں کو عورتوں کی نمائندگی کی کتنی فکر ہے اس کا اندازہ خود کو وزیر اعظم کے عہدہ کا مضبوط دعوےدار کہنے والی محترمہ مایاوتی کے اس عمل سے ہوتا ہے کہ انہوں نے اس مرتبہ ٤٥٤ سیٹوں میں سے صرف ٢٣ عورتوں کو ٹکٹ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب سیاست بازی ہے اس سے عورتوں کی نمائندگی بڑھانا اور ان کی فلاح وبہبود نہیں ہے۔ بلکہ پارلیامنٹ کو پکنک پلیس میں تبدیل کرنے کی سازش ہے۔ عورتوں کی نمائندگی بڑھانے کے بہانے سے سیاسی گھرانے زیادہ سے زیادہ اپنے خاندان والوں کو پارلیامنٹ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سارے منظرنامہ میں کہیں نہ کہیں برہمن سیاست نظر آرہی ہے۔ منڈل کمیشن کی وجہ سے جب سرکاری نوکریوں میں دلتوں کی شمولیت کی وجہ سے ان کا اقتدار خطرہ میں پڑنے لگا تو انہوں نے بڑی بڑی سرکاری کمپنیوں کو پرائیویٹ سیکٹر میں دے دیا۔ اس طرح ان کمپنیوں میں برہمنوں اور اونچی ذات والوں کو جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جب سیاست میں بھی انہیں اپنا وجود خطرہ میں نظر آنے لگا تو انہوں نے عورتوں کے بہانے ایک محفوظ راستہ نکال لیا۔
عورتوں کا دعویٰ ہے کہ ہم مردوں سے کم نہیں۔ اگر واقعی ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو پھر بسوں میں الگ سے سیٹ، ٹرینوں میں الگ سے ڈبہ اور پھر پارلیامنٹ اور نوکریوں میں ریزرویشن کا مطالبہ کیوں؟ یا تو اس دعوے سے دستبردار ہوں یا ریزرویشن کے مطالبہ سے پیچھے ہٹیں۔
عورتوں کے لئے ٣٣ فیصد ریزرویشن کے نتائج بڑے پیمانہ پر سامنے آئیںگے۔ اگر بروقت اس کی بڑے پیمانہ پر مخالفت کرکے اسے نہ روکا گیا تو پورے ملک کا منظر نامہ بدل جائے گا۔ ہمارا خاندانی نظام جو مغربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے متزلزل ہو رہا ہے منہدم ہوجائے گا۔ اور اللہ نہ کرے کہ کبھی وہ وقت آجائے کہ سیاست میں ہر جگہ عورتیں ہی نظر آئیں مرد پچھلی پنچوں پر بیٹھ کر تالیاں بجا رہے ہوں۔ حقوق نسواں کی طرح حقوق مرداں کمیشن بنانے کی ضرورت پڑجائے۔ مردوں کے حقوق اور ملک و قوم کی فلاح وبہبود میں مردوں کے کردار پر سمینار ہوں۔ یہ سب کچھ ممکن ہے۔ ملائم سنگھ یادو نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ اگر یہ بل پاس ہو گیا تو مرد پارلیامنٹ کی بنچیں تھپتھپانے کے بجائے گھروں میں بیٹھے نظر آئیںگے۔
یہ بل ملک و قوم کے حق میں نہیں ہے۔ اس وجہ سے حکومت کو چاہئے کہ ملک پر مزید ایک ریزرویشن کا بوجھ نہ لا دے۔ اور اگر یہ بل پاس ہی کرنا ہے تو کمزور طبقات اور اقلیتوں کے لئے اس میں ٣٣فیصد سیٹیں خاص کی جائےں۔ ورنہ یہ بل کمزور طبقات اور اقلیتوں کے لئے پارلیامنٹ کی راہ کو مزید دشوار بنا دے گا۔ ٭٭

پیر، 20 جولائی، 2009

ان پیج اردو جیسے فانٹ میں ورڈ میں لکھیں

0 تبصرے
اگر آپ چاہتے ہیں کہ ان پیج کے بجاءے ورڈ میں اسی جیسا نستعلیق فانٹ میں لکھنا تو مندرجہ ذیل لنک پر جاکر جمیل نوری نستعلیق فانٹ مفت میں لوڈ کریں۔
http://www.4shared.com/get/83290103/6be47baa/Jameel_Noori_Nastaleeq.html;jsessionid=EAD0BF4FB1584DA3AB897297CF0D0415.dc137

مذید مفت اردو فانٹ کے لیے اس لنک پر جاءیں

www.urdujahan.com/font.html


ہفتہ، 4 جولائی، 2009

ان پیج کو الوداع کہیں

0 تبصرے


اب تو in page سے پیچھا چھڑاءیں اردو phonetic key board مندرجہ ذیل ویب لنک سے ڈاوٴن لوڈ کرلیں اور اپنے دوست و احباب کو اردو میں ای میل کریں۔یہ اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح ان پیج کام کرتا ہے۔

http://www.crulp.org/software/localization/keyboards/windowsphonetickb.html

جمعرات، 2 جولائی، 2009

ٹھنڈا گوشت

0 تبصرے


Thanda gosht

by

mantoo


ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کر طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کر دی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔

کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالباّ اپنے پراگندہ خیالات کے الجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا، ہاتھ میں‌ کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔

کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کولہے، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور کچھ زیادہ ہی اوپر کو اٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں، بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔

ایشر سنگھ سر نیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا، سر پر اس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہو رہی تھی، اس کے ہاتھ جو کرپان کو تھامے ہوئے تھے، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے، مگر اس کے قد و قامت اور خد و خال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔

چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی میں گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی۔ لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی ایشر سیاں

ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا، مگر اس کی نگاہوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔

کلونت کور چلائی ایشر سیاں لیکن فوراّ ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ سے اٹھ کر اس کی جانب جاتے ہوئے بولی کہاں رہے تم اتنے دن؟

ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری مجھے معلوم نہیں۔

کلونت کور بھنا گئی یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے۔

ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا یہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھا جو اب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا۔ اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا جانی، کیا ہوا ہے تمہیں؟

ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ کلونت

آواز میں درد تھا، کلونت ساری کی ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آ گئی۔ ہاں جانی۔کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔

ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کو سہارا لینے والے نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے گوشت بھرے کولہے پر زور سے دھپا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا یہ کڑی یا دماغ خراب ہے۔

جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا ایشر سیاں کہاں رہے تم اتنے دن؟

بُرے کی ماں کے گھر۔ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتہّ دونوں ہاتھوں سے اس کے ابھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ قسم واہگورو کی، بڑی جاندار عورت ہو۔

کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دیئے اور پوچھا تمہیں میری قسم، بتاؤ کہاں رہے ------ شہر گئے تھے؟

ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔ نہیں

کلونت کور چڑ گئی، نہیں تم ضرور شہر گئے تھے ------ اور تم نے بہت سا روپیہ لوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو۔

وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔

کلونت کور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی، لیکن فوراّ ہی بھڑک اٹھی۔

لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، اس رات تمہیں ہوا کیا ------ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ سارے گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بھپیاں لے رہے تھے، پر جانے ایک دم تمہیں کیا ہوا، اٹھے کپڑے پہن کر باہر نکل گئے۔

ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا، دیکھا کیسے رنگ نیلا پڑ گیا ------ ایشر سیاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔

تیری جان کی قسم، کچھ بھی نہیں۔

ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا، ایشر سیاں، کیا بات ہے، تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟

ایشر سنگھ ایک دم اٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اس پر حملہ کیو تھا۔ کلونت کور کو اپنے تنومند بازوؤں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے تھا بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ جانی میں وہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ گُھٹ گُھٹ پا جپھیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔۔۔۔۔۔۔

کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی، لیکن وہ شکایت کرتی رہی، تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟

بُرے کی ماں کا وہ ہو گیا تھا۔

بتاؤ گے نہیں؟

کوئی بات ہو تو بتاؤں۔

مجھے اپنے ہاتھوں سے جلاؤ اگر جھوٹ بولو۔

ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیئے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دیئے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آ گئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔

ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوانی نظروں سے دیکھ کر کہا، آ جاؤ ایک بازی تاش کی ہو جائے۔

کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا، چل دفعان ہو۔

ایشر سنگھنے اس کے بھرے ہوئے کولہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ نہ کر ایشر سیاں، میرے درد ہوتا ہے۔

ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا لو پھر ہو جائے ترپ کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔

کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں، اسی طرح اس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے بازو پر چٹکی لیتے ہوئے کہا۔ کلونت، قسم واہگورو کی بڑی کراری عورت ہے تو۔

کلونت کور اپنے بازو پر اُبھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی، بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں۔

ایشر سنگھ اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرایا، ہونے دے آج ظلم۔اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کر کئے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لوؤں کو کاٹا۔ اُبھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا۔ بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے۔ گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے۔چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتیھڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کے طرح اُبلنے لگی۔ لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گُر اور جتنے داؤ اسے یاد تھے سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کر دیئے پر کوئی کارگر نہ ہوا۔ کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خودبخود بج رہے تھے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آ کر کہا، ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا، اب پتا پھینک۔

یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہی ہوتا رہا تھا، لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضا کو سخت ناامیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی۔ اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھلا کر بپھرے ہوئے لہجے میں کہا، ایشر سیاں، وہ کون حرامزادی ہے جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے اور جس نے تجھ کو نچوڑ ڈالا ہے؟

ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

کلونت کور غصے سے اُبلنے لگی، میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ چڈو ------ کون ہے وہ الفتی ------ کون ہے وہ چور پتہ ؟

ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔

کلونت کور نے اپنے بھرے ہئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا ایشر سیاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی ------ واہگور جی کی قسم ------ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟

ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا، مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی، قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں ------ تکا بوٹی کر دوں گی اگر تو نے جھوٹ بولا ------ لے اب کھا واہگورو کی قسم ------ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں ؟

ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ کلونت کور بالکل دیوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کر دیا۔

آن کی آن میں لہو کے فوارے چھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دیئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی جانے دے اب کلونت، جانے دے۔

آواز میں بلا کا درد تھا، کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔

خون ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔

میری جان، تم نے بہت جلدی کی ------ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔

کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا، مگر وہ کون ہے؟ تمہاری ماں۔

لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

اور میں ۔۔۔۔۔۔ اس میں ۔۔۔۔۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس کرپان سے۔۔۔۔۔۔

کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔ میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ حرامزادی؟

ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا، گالی نہ دے اس بھڑوی کو۔

کلونت چلائی، میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟

ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی، بتاتا ہوں۔یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا، انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔

کلونت کور اس کے جواب کی منتظر تھی، ایشر سیاں تو مطلب کی بات کر۔

ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی ------ “ مطلب ہی کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ گلا چِرا ہے ماں یا میرا ۔۔۔۔۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔

اور جب وہ بات بتانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت، میری جان ۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔۔۔۔۔۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی۔

ایشر سنگھ نے گھاؤ میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور بڑی بے رحمی سے پوچھا کون سی بات؟

ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا جس مکان پر ۔۔۔۔۔۔ میں نے دھاوا بولا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس میں سات ۔۔۔۔۔۔اس میں سات آدمی تھے ۔۔۔۔۔۔۔ چھ میں نے قتل کر دیئے ۔۔۔۔۔۔ اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے ۔۔۔۔۔۔ چھوڑ اسے ۔۔۔۔۔۔ سن ۔۔۔۔۔۔ ایک لڑکی تھی بہت سندر ۔۔۔۔۔۔ اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔

کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔ کلونت جانی میں تم سے کیا کہوں کتنی سندر تھی۔۔۔۔۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا، نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔

کلونت کور نے صرف اس قدر کہا ہوں ۔۔۔۔۔۔

اسے میں کندھے پر ڈال کر چل دیا ۔۔۔۔۔۔ راستے میں ۔۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں ۔۔۔۔۔۔ ہاں راستے میں ۔۔۔۔۔۔ نہر کی پٹری کے پاس، تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا ۔۔۔۔۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے ایشر کی زبان سوکھ گئی۔

کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ پھر کیا ہوا؟

ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے، میں نے ۔۔۔۔۔۔ پتا پھینکا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ لیکن

اس کی آواز ڈوب گئی۔

کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا، پھر کیا ہوا؟

ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی وہ مری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔لاش تھی ۔۔۔۔۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت ۔۔۔۔۔۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے ۔۔۔۔۔۔

کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔


۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔

بشكريه:

http://www.adabnama.com