مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھوتی ,بھوجپوری فلم صنعت
آپ مانیں یا نہ مانیں آج بھوجپوری سنیما ہندی سنیما کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھررہا ہے۔ یہ معاملہ صرف یوپی بہار کا نہیں ہے بلکہ دہلی اور ممبئی جیسے شہروں میں بھی جہاں اترپردیس اور بہار کے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں ہندی نغموں کے ساتھ بھوجپوری موسیقی بھی اپنی موجودگی درج کرارہی ہے۔
بچے ہوں یا جوان یا پھر بوڑھے ہر طبقہ بھوجپوری موسیقی کا دلدادہ ہے۔ایسا ممکن نہیں کہ یہ تبدیلی یکبارگی آگئی ہو اور پوروانچل (مشرقی یوپی کا وہ علاقہ جہاں بھوجپوری بولی اور سمجھی جاتی ہے) یکبارگی ہندی سنیما کو چھوڑ کر بھوجپوری کا دامن تھام لیا ہو، ضروری سی بات ہے کہ اس تبدیلی میں کچھ عرصہ لگا ہوگامگر جس سرعت کے ساتھ یہ سب ہو اوہ چونکانے والا ضرور ہے ۔
اس تبدیلی کے پیچھے سب سے بڑا محرک علاقائیت کا بڑھتا رجحان ہے،علاقائیت اگر مثبت فکر لئے ہوئے ہو تو اس کو معیوب نہیں کہا جاسکتاہے ۔اس رجحان کو اپنے تہذیب اور کلچر سے پیار کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہئے ۔یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی اجازت دستور ہند ہمیں فراہم کرتا ہے ۔
ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کی فلموں نے عرصہ سے اپنی پہچان بنالی ہے خاص طور پر کنڑاور بنگلہ فلمیں اپنے معیار کے اعتبار سے کافی ترقی کرچکی ہیں ، وہاں کی حکومتوں کا تعاون بھی انہیں حاصل رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں کی فلم انڈسٹری کے لئے یہ ممکن ہوسکا کہ وہ ہندی سنیما کا مقابلہ کرسکیں۔اس کے بالمقابل بھوجپوری کا معاملہ ذرا مختلف ہے ، ابھی تک بھوجپوری کو ایک مستقل زبان کادرجہ نہیں مل سکا ہے ، یہ زبان اب بھی جاہلوں کی زبان سمجھی جاتی ہے ، بھوجپوری بولنے والے جہاں کہیں بھی جاتے ہیں وہ اپنی زبان میں بات کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں،انہیں یہ خوف ہوتاہے کہ لوگ انہیں جاہل ان پڑھ اور گنوار نہ جانے کن کن القاب سے یاد کریں گے۔ اس سے خوف پیدا ہوگیا تھا کہ بھوجپوری زبان اور اس کے ذخیرۂ الفاظ کہیں ختم نہ ہوجائیں۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ بھوجپوری والے بھی اپنی زبان کے لئے بیدار ہورہے ہیں۔ اس کی ایک واضح ثبوت بھوجپوری سنیما کی مقبولیت ہے۔ ایک زمانہ تک بھوجپوری میں اچھے فلم ایکٹروں کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو اس سے مایوسی ہوتی تھی مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔دنیش کماریادو عرف نرہوا،روی کشن جیسے اداکاروں نے جیسے بھوجپوری سنیما میں جان ڈال دی ہے۔پہلے جہاں بڑی کمپنیاں اپنا سرمایہ لگانے سے کتراتی تھیں وہیں اب بڑی بڑی کمپنیاں اپنا سرمایہ لگارہی ہیں۔اس سے یہ امید بنی ہے کہ ایک دن بنگلہ ،پنجابی اور کنڑ فلموں کی طرح یہ بھی اپنا مقام بنالے گی۔
بھوجپوری سنیما کے ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندی سنیما گاؤں دیہات میں رہنے والوں کی آرزؤں اور امنگوں کی ترجمانی نہیں کرپارہا ہے۔’روٹی کپڑا اور مکان‘، ’مدرانڈیا ‘ اور اس زمانہ کی دیگر فلموں کو چھوڑ کر ہندی سنیما گاؤں کی زندگی سے دور ہوتاگیا،اب نہ اس کے اندر گاؤں ہے نہ گاؤں والے ہیں اور نہ ان کے مسائل۔ گاؤں والوں کے لئے اس کی کہانی اوراس کے کردار اجنبی ہوتے ہیں۔ ان کے لئے بھوجپوری فلمیں ایک بہتر متبادل کے طور پر سامنے آئیں۔اس میں گاؤں کی مٹی کی خوشبواور کھیت کھلیان اور ان کی دل چسپی اورمتوجہ کرنے والی سبھی چیزیں ہیں ۔اس میں محبت کرنے والے کارپوریٹ گھرانے کے نازونعم میں پلے بڑھے جوڑے نہیں ہیں۔بلکہ انہی جیسے بھولے بھالے انسان ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ بھوجپوری سنیما کے مخاطب صرف گاؤں دیہات کے لوگ ہیں ،بھوجپوری بولنے والے شہروں میں بھی یہ اسی طرح مقبول ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھوجپوری سنیما اپنے ابتدائی دور سے گذر رہا ہے اس کے اندر ابھی کمیاں ہوں گی اور ہیں بھی۔ سب سے بڑی خرابی بھوجپوری میںیہ ہے کہ سہل پسندی اور عامیانہ پن کی وجہ سے اس میں ہنسی مذاق عام طور پر پھوہڑ پن کے دائرہ میں آجاتے ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ بھوجپوری کلاکار اشارہ کنایہ میں بات کرنا جانتے ہی نہیں، بعض دفعہ اتنے پھوہڑ قسم کے ڈائلاگ بول جاتے ہیں کہ ان کو سن کرشرمندگی کا احساس ہوتاہے۔
ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اب تک بھوجپوری فلم کے عاشق کو عشق کرنا نہیں آیا ہے۔ اس کی ہیروئن تو عموماً پہل کرتی نظر آتی ہے جو بھوجپوری تہذیب اور معاشرہ کی ترجمانی نہیں کرتا،اس کے علاوہ یہ فطرت کے بھی خلاف ہے ۔ لڑکی کی شرم وحیا ہمیشہ یہ کام مرد ہی کے لئے چھوڑ دیتی ہے۔بھوجپوری سنیما کی ہیروئن کی پہل بھی کچھ اس انداز کی ہوتی ہے کہ اسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جائے۔شاید ہی کوئی بھوجپوری فلم ہو جس میں لڑکی کو چھیڑکر اس کے ساتھ گانا نہ فلمایا گیا ہو، دراصل بھوجپوری فلمکاروں کی ساری توجہ زیادہ سے زیادہ گانوں کو فلم میں سمونے کی ہوتی ہے اس کے لئے بے وجہ کسی نہ کسی بہانہ سے گانا اور ناچ کو جگہ دے دی جاتی ہے۔ اس کوشش میں ان کو یہ مہلت ہی نہیں ملتی کی وہ ہیرو اور ہیروئن کو اپنے عشق کو فطری انداز میں انجام تک پہنچانے کا موقع دیں۔ گویا کہ اگر ڈرامے کی زبان میں بات کریں تو بھوجپوری سنیما پر ’اندرپرست ‘ کی روایت حاوی ہے۔ جہاں تک بھوجپوری فلموں میں لباس کی بات ہے تو یہ بالی وڈسے زیادہ ہالی وڈ کی نقل کرتاہوا نظر آتا ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ آپ کو کم ہی بھوجپوری فلمیں ملیں گی جن کو اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں۔یقینی طور پر کہاجاسکتا ہے کہ بھوجپوری سنیما میں گاؤں کھلیان اور کھیت تو اپنے ہیں مگر ان میں اگنے والی فصل اپنی نہیں ہے۔
اگرچہ آج کل بھوجپوری علاقوں میں ہندی گانوں کے مقابلہ میں بھوجپوری کا چلن بڑھا ہے لیکن اگر گانوں کا یہی معیار رہا تو کچھ ہی دنوں میں اس سے لوگ اوب جائیں گے، بھوجپوری گانے عموماً ضرورت سے زیادہ طویل ہوتے ہیں، یہ طوالت اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ گانے کے بول زیادہ ہوتے ہیں اس کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی مصرعہ کو گلوکار بار بار دہراتا ہے، اس طرح جو گانا چار منٹ میں گایا جاسکتا ہے اس کے لیے سات سے آٹھ منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندی گانوں کی بھونڈی نقالی بھی طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔ابھی بھوجپوری موسیقی کو ہندی یا پنجابی موسیقی تک پہنچنے کے لیے ایک لمبا سفر طے کرنا ہے اس کے لیے بھوجپوری موسیقاروں کو ہندی گانوں کی نقالی چھوڑکر تخلیقی قوت کو بروئے کار لانا ہوگا ورنہ نقل سے کبھی پہچان نہیں بنتی۔
اس وقت عوام میں بھوجپوری فلموں کی بڑھتی مقبولیت بھوجپوری سنیما کے لیے ایک خوش آئند بات ہے ، اس دلچسپی کو برقرار رکھنے میں اگر بھوجپوری سنیما کامیاب رہا تو ٹھیک ورنہ پھر شاید یہ موقع پھر نہ مل سکے۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔