جرائم کی روک تھام کے لئے حکومت خصوصی قوانین بناتی ہے، اس
کا مقصد تو جرم کی دنیا پر ایک کاری ضرب لگانا ہوتا ہے مگر عموما ایسا ہوتا نہیں
ہے۔ ان قوانین میں ایجنسیوں کو کچھ اس قسم کی مراعات دے دی جاتی ہیں جن کی وجہ سے
یہ قوانین خود انسانیت کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ٹاڈا، پوٹا اور اسپشل آرم ایکٹ
اسکی واضح مثالیں ہیں۔ آج یہی صورتحال جہیز مخالف قانون کی ہے۔ غیر سرکاری
تنظیموں، سرکردہ شخصیات سے لے کر سپریم کورٹ تک نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس
قانون کا بے جا استعمال ہورہا ہے ، سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں مرکز سے اس
قانون میں ترمیم کرنے کے لیے کہا ہے۔ ایک لمبے عرصہ سے اس قانون کے خلاف آواز یں
اٹھ رہی ہیں مگر سرکار اس میں ترمیم کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کرتی نظر نہیں
آتی۔
اخبارات میں میں تقریبا ہر روز جہیز
سے متعلق خبردیکھنے کو ملتی ہے۔ ان خبروں پر غور کیا جائے تو حیرت انگیز طور پر ان
میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ مضمون کچھ اس طرح ہوتا ہے۔’’ فلاں لڑکی کی شادی فلاں لڑکے
سے ہوئی تھی ، شادی کے وقت ہی سے لڑکے والے جہیز سے خوش نہیں تھے وہ اور جہیز کا مطالبہ
کر رہے تھے۔ مطالبہ پورا نہ ہونے پر لڑکے کے گھروالے لڑکی کو ذہنی اور جسمانی اذیت
دینے لگے۔ لڑکی نے اس کی شکایت اپنے ماں باپ سے کی انہوں نے لڑکے کے گھر والوں کو سمجھایا۔
اس کے بعد بھی سسرال والے نہیں مانے اور لڑکی کو منہ مانگی جہیز نہ لانے کی پاداش میں
گھر سے نکال دیا۔‘‘
لڑکی کی طرف سے تھانے میں صرف شکایت
کرنے کی دیر ہے، اس کے بعد ہماری پولیس سارا معاملہ آنا فانا اپنے ہاتھ میں لے لیتی
ہے۔ سسرال والوں کو ملک کے کونے کونے سے اکٹھا کرکے جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ اس
میں حاملہ اور بوڑھے معذور لوگوں کی بھی رعایت نہیں کی جاتی۔ اس قانون نے عورت کو اتنی
چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ دو سال کے بچے کو بھی نامزد کرسکتی ہے کہ وہ مجھے پریشان کر
رہا ہے۔
اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے اس
کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ عام طور پر کوئی عورت جب اپنے شوہر اور اس کے رشتہ داروں
کو اس کیس میں ملوث کرتی ہے تو گھریلو تشدد کے قانون کو بھی اس کے ساتھ شامل کردیتی
ہے۔ حالانکہ دونوں کا مقصد الگ اور پس منظر بھی الگ ہے۔
اس قانون کی کا فائدہ حقیقی مستحقین
کو ہوا ہی نہیں سماج دشمن عناصر ہی نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ کئی معاملوں میں لڑکی
کا معاشقہ کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے شوہر کے ساتھ ذہنی
ہم آہنگی نہیں پیدا کرپاتی۔ بجائے اس کے کہ وہ کوئی اور راستہ ڈھونڈے پورے گھر والوں
کو جہیز قانون اور گھریلو تشدد کے جھوٹے کیس میں پھنسا کر پورے خاندان کی زندگی خراب
کردیتی ہے۔
ایک گھر میں رہتے ہوئے معمولی کہا سنی
ایک معمولی بات ہے۔ عام کہاوت ہے کہ جہاں دو برتن ہوں گے وہاں بجیں گے ہی۔ لیکن اس
قانون کے آتے ہی گھروں کی دوستانہ فضا مکدر ہوکر رہ گئی ہے، نند اور ساس سے معمولی
کہا سنی ہوتے ہی لڑکی تھانے میں پہنچ کر گھریلو تشد اور جہیز مانگنے کی رپوٹ لکھانے
پہنچ جاتی ہے۔ پہلے جو بات آپس میں سلجھ جایا کرتے تھے وہ اب کورٹ اور کچہری تک پہنچ
رہے ہیں۔ ان سب کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ خاندان ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہی
وجہ ہے کہ شادیاں ٹوٹنے کا ریشو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ کوئی بھی شوہر کبھی یہ برداشت نہیں
کرے گا کہ وہ اس لڑکی کو دوبارہ اپنے گھر لائے جس نے گھریلو معاملے کو کورٹ میں اچھال
کر ، جھوٹے کیس میں پھنسا کر پورے خاندان کی عزت ، وقت اور پیسے کو برباد کیا۔ بعد
میں یہی لڑکیاں افسوس کرتی ہیں مگر اس وقت سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
کئی دفعہ لڑکی والے عیب چھپاکر شادی
کردیتے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکے والے اگر کچھ کہیں گے تو جہیز مخالف قانون کا سہارا
لے کر اس کو خاموش کردیا جائے گا۔ میرٹھ کے رہنے والے اسرار کی شادی فاطمہ نام کی لڑکی
سے ہوئی۔ شادی کے ایک مہینہ بعد معلوم ہوا کہ لڑکی دل کی مریض ہے۔ اس نے یہ بات لڑکی
کے والدین سے کہا تو انہوں نے کہا کہ اسے یہ بیماری پہلے نہیں تھی تمہارے گھر جاکر
ہوئی۔ حالانکہ لڑکی نے خود اقرار کیا کہ اس کے دل کا وال خراب تھا ڈاکٹر آپریشن کرنے
کو کہہ رہے تھے۔ اب اسرار کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ وہ دل کی مریض فاطمہ کو اپنے رشتے
میں باقی رکھے یا طلاق دے دے۔ بہرحال اس نے طلاق دینے کا فیصلہ کیا ۔ لڑکی والوں نے
اسرار اور اس کے پورے گھر والوں پر جہیز مانگنے کاجھوٹا کیس کردیا۔ پورا گاؤں اس بات
سے واقف ہے کہ طلاق کیوں ہوئی مگر چونکہ مقدمہ کردیا گیا اس وجہ سے پہلے گرفتاری سے
بچنے کے لیے اسرار کو ہائی کورٹ سے اسٹے لینا پڑا اور پھر ضلع کورٹ سے اپنے پورے گھر
والوں کی ضمانت کرانی پڑی ۔ گواہی اور ثبوت تو بہت بعد کی چیز ہے۔ وہاں تک معاملہ پہنچتے
پہنچتے سال دوسال گذر جائیں گے۔
لکھنؤ کے دیپک کا معاملہ بھی کچھ اسی
طرح ہے۔ اس کی شادی لکھنؤ ہی میں ہوئی ، لڑکی ایک کمپنی میں کام کرتی ہے، اور دیپک
خود حیدرآباد میں ایک سرکاری آفس میں ملازم ہے۔ شادی کے بعد لڑکی اس میں کوئی دلچسپی
نہیں لیتی تھی اس کے فون کال نہیں رسیو کرتی تھی، اس کے ماں باپ کو پریشان کرتی تھی،
دیپک کو معلوم ہوا کہ اس کا آفس ہی کے کسی کڑکے کے ساتھ معاشقہ ہے اس نے لڑکی کو سمجھانا
چاہا مگر وہ نہ مانی، بالآخر اس نے طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا۔ لڑکی کے گھر والوں نے
اس پر اور اس کے پورے گھر والوں پر جھوٹا جہیز اور گھریلو تشدد کا مقدمہ کردیا۔ بے
چارے ماں باپ ناحق جیل گئے اور دیپک کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہیں پر معاملہ
ختم ہوجائے تو بھی کوئی بات نہیں اس کو پوری زندگی اس لڑکی کو رہائش اور خرچ بھی دینا
پڑے گا۔
اگر کسی کو شکایت ہے کہ فلاں شخص جہیز
کا مطالبہ کر رہا ہے تو اس سے اپنی لڑکی کی شادی ہی نہ کرے، اور اگر وہ اپنی لڑکی کی
شادی کر رہا ہے تواس کا مطلب یہ کہ وہ خود جہیز کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ لیکن ہوتا یہ
ہے پہلے تو شادی کردی جاتی ہے اس کے بعد جب کسی قسم کا اختلاف ہوتا ہے تو لڑکے اور
اس کے گھر والوں سے بدلہ لینے کے لئے اس کو جھوٹے جہیز کے کیس میں پھنسا دیا جاتا ہے۔
اس طرح یہ قانون لڑکے کے گھر والوں سے بدلہ لینے کا ایک مؤثر ہتھیار بن گیا ہے۔
جہیز
مخالف قانون بنایا گیا تھا لڑکیوں کی حفاظت کے لئے مگر اس کی وجہ سے سب سے زیادہ عورتوں
کو ہی اذیت پہنچائی گئی ہے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ جہیز مانگنے کی شکایت کی گئی ہو اور
لڑکے کی ماں اور بہن کا نام نہ لیا گیا ہو۔ کیا سبھی واقعات میں ماں اور لڑکے کی بہن
ملوث ہوتی ہے؟ ارن اور جے مالا نے کورٹ میرج کی جس کی وجہ سے ارن کو اس کے گھر والوں
نے گھر سے بے دخل کردیا ۔ وہ دونوں ایک کمپنی میں کام کرتے تھے اور اپنے گاوں سے دور
ایک شہر میں رہتے تھے کسی بات پر ان دونوں میں کہا سنی ہوئی تو جے مالا نے لڑکے اور
اس کے ماں باپ کے خلاف پولیس میں جہیز مانگنے اور اس کے لئے ذہنی اور جسمانی تشدد کرنے
کی رپوٹ لکھا دی، ارن لاکھ کہتا رہا کہ وہ گھر سے بے دخل ہے اس کے ماں باپ اس سے ملنے
بھی نہیں آتے مگر پولیس نے ایک بھی نہیں سنی ۔ اس کے ماں باپ اور خود ارن کو پولیس
نے جیل نے اندر ڈال ڈیا۔ یہ ہے جہیز مخالف قانون کا استعمال۔ چونکہ لڑکی والوں کا مقصد
لڑکے والوں کو سبق سکھانا ہوتا ہے اس وجہ سے لڑکے کی والدہ اور اس کی بہنوں کو خاص
طور پر نامزد کیا جاتا ہے۔
وکیلوں کی چونکہ روزی روٹی اسی سے جڑی
ہوتی ہے اس وجہ سے کس طرح کس کو پھنسایا جائے جھوٹا مقدمہ کس طرح بنایا جائے یہ سارے
گُر وہ لڑکی والوں کو بتادیتے ہیں۔
اس قانون کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ
محض لڑکی کی شکایت ہی کو بنیاد بناکر آپ کو مجرم مان لیا جاتا ہے، لڑکی کی یہ ذمہ داری
نہیں ہوتی ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ واقعی اس کو تشدد کا نسانہ بنایا گیا بھی یا نہیں،
یہی نہیں اس قانون کی ایک اور خرابی ہے کہ یہ غیر ضمانتی ہے، یعنی اگر کسی کی بیوی
اگر اس کے خلاف جہیز مخالف قانون کا سہارا لے کر شکایت کردے تو اس کے لئے جیل جانے
سے بچنے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ ہائی کورٹ سے جاکر گرفتاری پر اسٹے آرڈر لے
کر آئے۔
غیر سرکاری تنظیمیں اور خود سپریم کورٹ
اب مان رہا ہے کہ اس قانون کا بے جا استعمال ہورہا ہے، مگر معلوم نہیں کیوں
حکومت اس میں بدلاو ٔ کرنے کو تیار نہیں۔ ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوے
فیصد سے زائد جہیز کے مقدمات فرضی ہیں۔ اگر حکومت اس قانون میں بدلاو ٔ نہیں کرتی تو
اسی طرح خاندان ٹوٹتے رہیں گے۔ بے گناہ نوجوان اپنا قیمتی وقت عدالتوں میں برباد کریں
گے۔ کیا اب بھی حکومت کو کسی چیزکا انتظار ہے؟
گستاخی معاف ۔۔۔ چھری سے سبزی کاٹتے ہیں، دس بارہ لوگوں نے چھری سے گردنیں کاٹ دیں، قصور سارا چھری کا ہے، چھری ہونی ہی نہیں چاہئے۔ ہے نا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح کہہ رہے ہیں